‘‘ریڈ سکوائر اور کریملن کے سنگم پریاقوتی رنگ کے قیمتی پتھر سے بنے ہوئے ایک خوبصورت کمرے میں لینن کا جسد خاکی رکھا ہواہے ۔ جدید روس کے بانی کی حنوط شدہ لاش کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ آتے ہیں۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر شخص کواجازت ہے یہاں صرف وہی لوگ آ سکتے ہیں جن کے پاس خصوصی اجازت نامے ہوں ۔ بیرونی ممالک سے آنے والے اعلی حکام اور سفارتی نمائندے پھولوں کی چادریں چڑھانے آتے ہیں۔ کمرے کے اندر سے جانے سے پہلے ہمیں خصوصی آداب بتائے گئے ۔ جن کے سروں پر ٹوپیاں ہیں ، وہ انہیں اتار لیں، کوٹ کی جیبوں سے ہاتھ نکال لیں ، لینن کے تابوت کے سامنے خاموش کھڑے رہیں اور کوئی بھی ایسی حرکت نہ کریں جس سے کامریڈ لینن کا تقدس مجروح ہوتا ہو۔ایک غیر مذہبی ملک میں مجھے یہ پابندیاں عجیب تو لگیں لیکن کوئی صاحب یہ نہ بتا سکے کہ لینن کے عقید ت مند لینن کے تابوت کے سامنے جاتے ہوئے اپنے سیکولر ازم کو کہاں چھوڑ آتے ہیں۔ہر چیز کے تقدس کی نفی کرنے والے لینن کی حنوط شدہ لاش کو آسمانی صحیفے کی طرح مقدس کیوں سمجھتے ہیں۔ کریملن میں زاروں کی عہد کے مزاروں اوریادگاروں کی حالت بہت خستہ ہو چکی ہے لیکن قدیم دور کے جن مشاہیر کواشتراکی پسند کرتے ہیں ان کی یادگاروں اور آثا ر کی خصوصی حفاظت کی جاتی ہے۔زار پیٹر اورملکہ کیتھراین کے دور کے آثار اور ان کے خاندانوں کے افراد قبریں صحیح سالم دکھائی دیتی ہیں۔ان قبروں کی حفاظت کا خصوصی انتظام کیا گیا ہے ۔زائرین اور سیاحوں کوان کے بارے میں تمام تر تفاصیل بتائی جاتی ہیں۔ اور ان کا ذکر نہایت احترام سے کیاجاتا ہے ۔لیکن روس کے پانچ کروڑ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کے ہر نقش اور ہر نشان کو مٹا دیا گیا ہے ۔اولیائے کرام کے مزاروں کا کوئی نشان باقی نہیں رہا۔ مساجد ، امام باڑے اور مزار ہر چیز بڑے اہتمام سے تباہ کر دی گئی ہے۔
(میں نے روس میں کیا دیکھا، انجینئر شاہ محمود خان)