بھائی قہوہ پیو نا

مصنف : ملک جہانگیر اقبال

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : دسمبر 2016

 

سچی کہانی 
بھائی قہوہ پیو نا۔۔!
ملک جہانگیر اقبال

چند ماہ پہلے کی بات ہے ،رات دو بجے میں اپنے دو دوستوں کے ساتھ ایبٹ آباد میں داخل ہوا۔ابھی ہم پاکستان ملٹری اکیڈمی والی سڑک پر آئے ہی تھے کہ ایک انتہائی خوبصورت اور معصوم سی چھ سات سال کی بچی میرے سامنے آ کھڑی ہوئی ۔یہ سچ ہے کہ اتنی خوبصورت بچی میں نے شاید ہی کبھی دیکھی ہو ۔ رات دو بجے سنسان سڑک پر وہ بچی مجھے کوئی بھوت پریت ہی لگی لیکن جب میرے پاس آ کر اس نے کہا " بھائی قہوہ پیو نا " تو ایسا لگا جیسے ساری انسانیت نے اس کے پاس آکر نوحہ شروع کردیا ہو ۔ اچھا میں قہوہ کیوں پیوں ؟ بچی کا وہ حکم نما سوال مجھے بہت دلچسپ لگا۔ بہرحال اس کے حکم کی تعمیل کی اورہم نے تین قہوہ چائے کی فرمائش کردی ۔ کافی دیر اس کے ساتھ اسی سڑک پر بیٹھے رہے ۔ کیتلی سے شیشے کی چھوٹی سی گلاسیوں میں وہ قہوہ انڈلتی اور ساتھ ہی ساتھ اپنے چہرے پر آجانی والی بالوں کی لٹ کو ہٹاتی جاتی۔ پھر پاس موجود بالٹی سے چھری نکال کر اپنے ننھے ہاتھوں سے اس نے لیموں کاٹالیکن لیموں نچوڑتے ہوئے اسکی ننھی انگلیوں سے پھسل کر دور جا گرا جس پر اس نے چونک کر مجھے دیکھا پر میں نے اس سے پہلے ہی اپنا چہرہ پرے کر لیا تھا ۔ وہ بھاگ کر گئی لیموں اٹھایا اور اپنے میلے کپڑوں سے رگڑ کر اسے صاف کیا اور پھر سے اسے نچوڑنے کی تگ و دو کرنے لگی ۔یہ ماننا پڑے گا کہ اس کا قہوہ بالکل بھی مزے کا نہیں تھا پر اتنا سکون مجھے آج تک نصیب نہیں ہوا جتنا اس قہوے کی پہلی چسکی میں پوشیدہ تھا ۔ بچی سے گپ شپ شروع ہوئی تو معلوم ہوا اس کے والد صاحب بیمار ہیں اور ماں پہلے ہی مر چکی ہے۔ بڑی بہن قہوہ بناتی ہے اور یہ رات کو اسے بیچتی ہے ۔ اس بچی کی باتیں اور اس کے چہرے کی معصومیت دیکھ کر اپنی ذات پر جتنا افسوس ہوا شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ ہم ہر آسائش کے ہوتے ہوئے بھی شکایات کناں رہتے ہیں ۔وہ بچی میری چھوٹی بہن سے بھی دس سال چھوٹی تھی ۔ میں جو اپنی بہن کی ذرا سی تکلیف دیکھ کر پریشان ہوجاتا ہوں، رات کی اس تاریکی میں اس ننھی سی پری کو کتنے بھیڑیوں اوردرندوں کے درمیان یوں تن تنہا چار پیسے کمانے کے لئے کتنی تکلیف میں دیکھ رہا تھا۔ جب لوگ نیند کی وادیوں میں گم ہوتے ہیں تو یہ ننھی سی پری بجلی کے کھمبوں کے ساتھ ٹیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھی رہتی ہے کہ کہیں کوئی مجھ سا مسافر آ جائے تو وہ اس کو قہوہ پیش کرے۔ اسکے چلنے کی آہٹ سے ننھی پری کی آنکھ کھل جاتی ہے تو وہ اپنی قہوہ کی کیتلی اور پانی کی بالٹی اٹھائے دوڑتی ہوئی اسکے پاس جاتی ہے اور کہتی ہے " بھائی قہوہ پیو نا ۔۔۔"