انگریزی تعلیم اور انگریزی طرز معاشرت کی وجہ سے ہماری قوم میں ایک نیا طبقہ بن گیا ہے جسے ‘‘نقالوں کا طائفہ’’ کہنازیادہ مناسب ہو گا۔ ان میں نقل ہی نقل تھی ۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس عہد کے مسلمانوں میں اصلاح کے جتنے مدعی پیداہوئے انہوں نے یہی کیا۔ مصطفے کمال پاشا اتا ترک نے تو انتہا کر دی۔ مغرب کی تقلید میں رہنا سہنا، کھانا پینا، لباس ، ناچ رنگ ، شراب خوری، اور دوسری خرافات کو اپناشعار بنا لیا۔ یہاں تک کہ مدارس سے مذہبی تعلیم خارج کر دی اوراپنی زبان کا قدیم رسم الخط بھی بدل کر رومن کر دیا۔ ترکی اخبار نویسوں کا جو وفد دلی آیا تھا وہ بار بار بڑے فخر سے اپنے آپ کو یورپین نیشن کہتا تھا۔ دلی کے مسلمانوں کی خواہش تھی کہ جمعہ کے روز جامع مسجد میں تشریف لائیں لیکن انہوں نے یہ درخواست قبول نہ فرمائی۔خاص کوشش سے ان کے پروگرام میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا معائنہ بھی رکھا گیا مگر وہاں تشریف نہیں لے گئے اورہندو یونیورسٹی ،جو ان کے پروگرام میں شامل بھی نہ تھی، کو اپنے قدوم سے مشرف فرمایا۔ امان اللہ کو اصلاح کی سوجھی تو اس نے بھی اصلاح لباس ہی سے شروع کی ۔ لوگوں کو اور خاص کر مولویوں کو جبراً کوٹ پتلون اورہیٹ پہننے کاحکم دیا ۔ حکم کی خلاف ورزی پر سزا دی جاتی تھی۔ رضا شا ہ پہلوی شاہ ایران، ان سے بھی دو قدم آگے بڑھ گئے ۔ انہوں نے لباس کے بارے میں اسی قسم کی سختیاں کیں اور پردے کی مخالفت ہی نہیں کی بلکہ بے پردگی کو جبراً رائج کیا۔ مشہد کے علما نے اس سے اختلاف کیا تو وہاں کے مینارپر مشین گنیں چڑھا دی گئیں اور صرف چند گھنٹوں کی مہلت دی کہ اگر اتنے عرصہ میں حکم کی تعمیل نہ کی تو شہر کو اڑا دیا جائے گا ۔ مجبور ہو کر سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ اس کے بعد گورنر نے ایک بڑا جلسہ کیا اور تمام حکام اور شرفا کوحکم دیا کہ وہ اپنی بیویوں سمیت حاضر ہوں۔ایک صاحب تنہا آئے کیوں کہ ان کی بیوی نے بھرے جلسے میں بے پردہ جانا گوارا نہ کیا۔ انہیں حکم دیا گیا کہ جاؤ بیوی کو ساتھ لے کر آؤ۔وہ گئے اور اس نیک بخت کو ساتھ لے آئے ۔ اس نیک خاتون کی سزا یہ تجویز کی گئی کہ وہ تمام حاضرین جلسہ سے فرداً فرداً ہاتھ ملائے اورتو اور مولانا عبیداللہ سندھی جیسے فاضل علم دین نے مولویوں کو للکارا کہ کوٹ پتلون پہنو اور ڈاڑھیاں منڈاؤ۔مولانا نے ایک ملاقات میں مجھ سے فرمایا کہ تم نے انگریزی اردو لغت لکھ کر بڑا کام کیا لیکن اس کا آدھا فائدہ تم نے غارت کر دیا۔ میں نے پوچھا وہ کیسے ؟ فرمایاکہ اردو ترجمہ عربی فارسی خط میں فضول لکھا رومن حروف میں لکھنا چاہیے تھا تا کہ سارے عالم کو فائدہ پہنچتا۔
(تحریر مولوی عبدالحق ، بحوالہ چند ہم عصرص ۲۷۶ ۔ مرسلہ محمد عثمان بخاری، لاہور)