توبہ اور تکمیل توبہ

مصنف : قاری بختاور سعید

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جولائی 2007

محمد صالح المنجد کی کتاب ‘‘ارید ان اتوب ولکن’’ سے ماخوذ

            بلا شبہ توبہ کا کلمہ ایک عظیم کلمہ ہے۔ قرآن مجید اور احادیث شریفہ میں اکثر مقامات پر توبہ کی ترغیب اور اہمیت بیان ہوئی ہے ۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے ‘‘ و توبوا الی اللہ جمیعا ایہا المومنون لعلکم تفلحون’’ اسی طرح بیان ہوا‘‘ان اللہ یحب التوابین’’ لیکن یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ کیا صرف توبہ ،توبہ کہنے سے توبہ مکمل ہو جاتی ہے یا اس کے کچھ اور تقاضے بھی ہیں۔ اور یہ کہ، کیا توبہ اورمغفرت طلب کرنا(استغفار) ایک ہی چیز ہے یا دونوں میں کچھ فرق بھی ہے ۔ زیر نظر تحریر میں ہم انہی باتوں کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔

             اللہ تعالی کے اس قول پر غور فرمائیے۔‘‘وان استغفروا ربکم ثم توبوا الیہ’’اور یہ کہ اپنے پروردگار سے بخشش طلب کروپھر اس کے حضور توبہ بھی کرو۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ توبہ، استغفار کے علاوہ ایک چیز ہے۔یہ جاننے کے لیے کہ یہ اصل میں ہے کیا ،ہمیں توبہ کے شرائط پر غور کر نا پڑے گا ۔ ان سے واضح ہو جاتا ہے کہ جس ندامت اور استغفار میں یہ شرائط پائی جائیں گی وہ ندامت اوراستغفار اصل میں توبہ کہلانے کی مستحق ہو گی۔ علما نے قرآن و حدیث کی روشنی میں تو بہ کی درج ذیل شرائط کا ذکر کیا ہے۔

توبہ کے بنیادی شرائط

۱۔ جس گناہ سے توبہ کی جا ئے اس گناہ کو فوراً اور مکمل طور پرترک کیا جائے ۔

۲۔ گزشتہ گناہ پر مکمل ندامت ہو۔

۳۔ آئند ہ وہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم ہو۔

۴۔ جن پر ظلم کیا ہے ان کے حقوق واپس کیے جائیں یا ان سے معافی مانگی جائے ۔

تکمیل توبہ کے شرائط

            توبہ کرنے کے بعد انسان اس پر قائم بھی رہ سکے یعنی اس کی توبہ مکمل توبہ بن جائے ، اس کے لیے علما نے بنیاد ی شرائط کے علاوہ چند دیگر امور کا ذکر بھی کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان امور کی بجا آوری سے توبہ واقعتا ایک حقیقی توبہ میں بدل جاتی ہے اور انسان کے لیے اپنی توبہ پر قائم رہنا ممکن ہو جاتا ہے اور وہ عنداللہ بھی قبولیت پاتی ہے۔

تکمیل توبہ کے شرائط درج ذیل ہیں

۱۔ گنا ہ کو صرف اللہ کے لیے ترک کرنا:

            گناہ کو صرف اللہ تعالی کی رضا کے لیے ترک کیا جائے اس کا کوئی اور سبب نہ ہو۔

گناہ ترک کرنے کے دیگر اسبا ب یہ ہو سکتے ہیں۔

الف۔ انسان گناہ والے کام کو دوبارہ کرنے کی قدرت ہی نہ رکھتا ہو ۔

ب۔ گناہ، لوگوں کی باتوں سے ڈرکر ترک کیا ہو۔

ج۔ گناہ کو اس لیے چھوڑا ہوکہ وہ اس کے مرتبہ یا لوگوں کے درمیان اس کی شہرت پر اثرانداز ہوتا ہو۔

د۔ گناہ کو اپنی صحت اور قوت کی حفاظت کے لیے چھوڑ نے پر آمادہ ہوا ہو۔ جیسے کوئی متعدی امراض سے ڈر کر زنا اور فحاشی چھوڑ نے پر آمادہ ہوا ہو۔

ہ۔ گناہ کو اس لیے چھوڑا ہوکہ کوشش کے باوجود گناہ کرنے پر قادر نہ ہوسکا ہو جیسے چوری اس لیے چھوڑی کہ گھر میں داخل ہونے کا راستہ ہی نہ ملا یا وہ خزانہ کو کھولنے پر قادر نہ ہوایا چوکیدار یا سپاہی سے ڈر گیا ۔

و۔ دنیاوی سزا کے خوف سے گناہ ترک کیا ہو جیسے کسی نے رشوت اس لیے نہ لی ہو کہ اسے خطرہ لاحق ہو گیا ہو کہ اسے محکمہ انسداد رشوت ستانی کے حوالہ کر دیا جائے گا۔

ر۔ مفلسی کی وجہ سے گناہ پر قادر نہ ہوا ہو جیسے شراب پینے کی چاہت تو ہو لیکن چونکہ افلاس کی وجہ سے نہ خرید سکا اس لیے لوگوں سے یہ کہہ دیا کہ میں نے تو شراب سے توبہ کر لی۔

ح۔ کسی خارجی امر کی وجہ سے نافرمانی سے باز آ گیا ہو۔جیسے جھوٹ بولنے والا کہ اس کا کوئی عضو شل ہو جائے او روہ بول ہی نہ سکے ۔ یا ایسا زانی جس کو جماع کرنے کی طاقت ہی نہ رہی ہو۔یا چور جسے کوئی حادثہ پیش آیا ہو جس نے اس کے ارادوں کو ختم کر دیا ہو۔

۲۔ مکمل ندامت کاہونا:

             تکمیل توبہ کے لیے ضروری ہے کہ گزشتہ کاموں پر افسوس بھی ہو۔ایسے شخص کے لیے آپ ﷺ نے فرمایا ہے الندم توبہ ندامت ہی تو، توبہ ہے۔

۳۔ گناہ کی آرزو کامکمل ختم کر دینا:

            تکمیل توبہ کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جس گناہ سے توبہ کی ہے اس کی آرزو بھی ختم کر دی جائے۔ اگر توبہ کے باوجودآرزو دل کے کسی گوشے میں چھپی ہوئی ہے تو پھر توبہ مکمل نہیں ہوتی۔اللہ تعالی نے ایسے شخص کو جو کام کرنے کی آرزو رکھتا ہومگر کر نہ سکتا ہو فاعل کے مقام پر ہی رکھاہے رسول اللہﷺ کے ارشاد کا مفہو م ہے کہ دنیا میں چار قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جسے اللہ نے مال بھی دیا ہواور علم بھی، وہ ان میں اپنے پروردگار سے ڈرتا ہو ، صلہ رحمی کرتا ہو اور اللہ تعالی کا حق جانتا ہویہ آدمی سب سے اعلی مرتبہ پر ہے۔دوسرے و ہ بندہ جسے اللہ نے علم تو دیا ہو لیکن مال نہ دیا ہو اورو ہ نیت کا سچا ہواورکہتا ہو کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلا ں آدمی کی طرح خرچ کرتا، اسے اس کی نیت کی مطابق اجر ملے گا۔پہلا اور یہ دوسرا دونوں اجر میں برابر ہیں۔تیسرا وہ ہے جسے اللہ نے مال تو دیا ہو لیکن علم نہ دیا ہو۔ وہ بغیر علم کے یعنی سوچے سمجھے بغیر اپنے مال میں تصرف کرتا ہو نہ اس میں اللہ سے ڈرتا ہو، نہ صلہ رحمی کرتا ہو اور نہ اس میں اللہ کا حق جانتا ہو یہ شخص برے مرتبہ میں ہے۔ اور چوتھا وہ جسے اللہ نے نہ مال دیا ہو اور نہ علم اوروہ کہتا ہو کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں آدمی جیسے کام کرتا۔ یہ شخص سب سے برے مرتبہ میں ہے کیونکہ یہ شخص نیت کی وجہ سے گناہوں کا بوجھ اٹھا لے گا۔یہ گناہ کے بوجھ میں تیسرے کے برابر ہے۔

۴۔ گزشتہ گناہوں کے ساتھ لذت وابستہ نہ رہے:

             تکمیل توبہ کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ گزشتہ گناہو ں کو یاد کرتے وقت ان کے ساتھ لذت کا امکان باقی نہ رہے بلکہ کراہت آئے اور اسے گناہ کی طرف لوٹنا ایسے ہی محسوس ہو جیسے آگ میں جانا۔

۵۔ گناہ کے نقصانات کا استحضار ہو:

            گناہ کرنے کے جو روحانی نقصانات ہیں توبہ کرنے والاانہیں ہمیشہ مستحضر رکھے ایسا کرنے سے اس کی توبہ مکمل بھی ہو گی اور اسے اس پر استقامت بھی نصیب ہو گی۔

            ابن قیمؒ کی رائے میں گناہ کرنے کے چندنقصانات یہ ہیں۔ علم سے محرومی ،دل میں وحشت، کاموں کا انبار جمع ہو جانا، بدن کا کمزور پڑ جانا،اطاعت سے محروم ہو جانا،برکت کا اٹھ جانا،توفیق میں کمی ،سینہ میں گھٹن، اللہ کے ہاں بھی اور لوگوں کے ہاں بھی عزت گر جانا، دل پر مہر لگ جانا،دعا کا قبول نہ ہونا،غیرت کا ختم ہوجانا، شرم کا اٹھ جانا۔نعمتوں کا زوال، نافرمان کے دل میں رعب کابیٹھ جانا،برا انجام اور آخر ت کا عذاب۔

۶۔ توبہ کرنے میں جلدی:

             توبہ کرنے والا جلد از جلد توبہ کی طرف متوجہ ہو کیونکہ توبہ کرنے میں تاخیر بذات خود ایک گنا ہ ہے جس کے لیے بھی توبہ کی ضرورت ہے ۔توبہ وقت نزع سے پہلے پہلے اور قیامت کبری کی علامات ظاہر ہونے سے پہلے پہلے قبول ہے نزع کے عالم کی توبہ قبول نہیں اسی طرح جب سورج مغرب سے طلوع ہو گا توبھی توبہ قبول نہیں ہو گی۔

۷۔ توبہ میں نقص سے ڈرنا:

            توبہ کرنے والا اپنی توبہ میں نقص سے ڈرتا رہے اور یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ توبہ یقینا قبول ہو جائے گی اور اپنی ذات پر اعتماد کر بیٹھے اور اللہ سے نڈ ر ہو جائے۔

۸۔ حقوق کی ادائیگی:

            اگر ممکن ہو تو جو اللہ کا حق فوت ہو چکا ہو اسے پورا کرے جیسے ماضی میں زکوۃ ادا نہ کی ہو، اس کو ادا کرے اسی طرح نمازوں کی قضا کرے۔حقوق العباد میں کوتاہی کو متعلقہ لوگوں سے معاف کرائے جب تک وہ معاف نہ کریں گے ان کے بارے میں توبہ قبول نہ ہو گی۔

۹۔ نافرمانی والی جگہ سے ہجرت:

            نا فرمانی والی جگہ کو چھوڑ دے۔ یہ اور بھی لازم ہے جب اسے یہ خطر ہ ہو کہ وہاں اس کا موجود رہنا اسے دوبارہ نافرمانی میں مبتلا کر دے گا۔

۱۰۔ بری صحبت تبدیل کرے:

            جو شخص معصیت میں اس کی اعانت کرتا ہے اسے بھی چھوڑ د ے ۔اللہ تعالی فرماتے ہیں الاخلاء یومئذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین ( الزخرف ۶۷)اس دن سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے ماسوائے ان کے جو پر ہیز گار ہیں اور قیامت کے دن برے ہم نشین ایک دوسرے کو لعنت کر یں گے لہذا اگر توبہ کرنے والا ان کو دعوت دینے سے عاجز ہو تو ان سے جداہونے اور بچنے کی از حد کوشش کر ے شیطان بری صحبت کو بے حد مزین کر کے دکھلاتا ہے اورانسان کو یہ سمجھاتا ہے کہ تو کوئی کمزور ہے جو ان کے مقابلے پر ٹھہر نہیں سکتا۔ ایسے واقعات بکثرت پیش آ چکے ہیں کہ ماضی کے دوستوں سے تعلقات کی بنا پر کئی لوگ پھر سے اسی معصیت میں جا پڑے۔

۱۱۔گناہ کے لوازم ضائع کردے

             گناہ کے لواز م موجود ہوں تو انہیں ضائع کر دیا جائے ۔ جیسے نشہ آور اشیا’ فحش فلمیں وغیرہ ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں کہ توبہ کرنے والوں کے پاس حرام اشیا باقی رہ گئیں جو توبہ کو ناکام کردینے اور ہدایت کے بعد گمراہی کا سبب بن گئیں۔

۱۲۔نیک دوستوں کا انتخاب

            ایسے نیک دوستوں کا انتخاب کرے جو توبہ کی استقامت پر اس کے مددگار ثابت ہوں۔ علمی مجالس اور ذکر کے حلقوں میں شامل ہو تا کہ گزشتہ یادیں اس کے ہاں راہ نہ پا سکیں۔

ضمیمہ

            کچھ لو گ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو ایک نافرمانی کا کام چھوڑتے ہیں تو کسی دوسری نافرمانی میں جا پڑتے ہیں ۔اس کے اسباب عام طور پر یہ ہوتے ہیں۔

۱۔ یہ اعتقاد کہ یہ گنا ہ ہلکا ہے۔

۲۔ دوسرے گنا ہ کی طرف نفس کا جھکاؤ زیادہ ہوتا ہے۔

۳۔ ایک خاص گنا ہ کے لیے حالات زیاد ہ ساز گار ہوتے ہیں بخلاف اس گنا ہ کے جس کے لیے کسی سامان اور تیاری کی ضرورت ہو اور ایسے اسباب بقد ر ضرورت موجود نہیں ہوتے ۔

۴۔ دوست اور ساتھی اس معصیت پر قائم ودائم ہوتے ہیں جنہیں چھوڑنا دشوار ہوتا ہے۔

۵۔ کبھی یوں ہوتا ہے کہ ایک خاص معصیت ساتھیوں میں عاصی کا ایک خاص مقام اورمرتبہ بنا دیتی ہے اور مرتبہ کا قائم نہ رہنا اس پر گراں گزرتا ہے ۔ لہذا عاصی معصیت کا کام کیے جاتا ہے ۔ شر و فساد پر مبنی جماعتوں کے رئیسوں کی اکثریہی صورت ہوتی ہے۔