سیدنا عمرؓ کی کہانی ان کی اپنی زبانی
‘‘میں امیرالمومنین ہوں’ یہ خدا کی دین ہے۔ اور میں رب ذوالجلال کا شکریہ ادا نہیں کرسکتا جس نے مجھ ایسے انسان کو یہ موقع دیا کہ میں ملّت بیضا کی خدمت میں اپنی عمربسر کرسکوں۔ میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیے ’ لیکن اب میں مسلمان ہوں’ نمازیں پڑھتا ہوں اور روزے رکھتا ہوں۔ اِس لیے میرے دل میں قدرتی طور پر یہ اُمید پیدا ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے دامنِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے گا اور میں بھی حضرت خاتم النبیین کا پابوس ہونے کی حیثیت سے معافی کا حقدار ٹھہرایا جاؤں گا۔
لیکن اس کے باوجود مجھے مواخذے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جس طرح ممکن ہوسکے قیامت کے دن مجھ سے میرے اعمال کا حساب نہ لیا جائے اور محض خادمِ دین متین ہونے کی حیثیت سے میرے گناہوں اور میری لغزشوں پر پردہ ڈال دیا جائے۔ اگر مجھ سے میری ابتدائی زندگی کے متعلق مواخذہ ہوا تو میں کیا جواب دوں گا؟ اس خیال کے آتے ہی میرا رواں رواں کانپ اٹھتا ہے کاش میں اس بھیانک ماضی کو بھول سکتا۔
اللہ اکبر! ایک وہ زمانہ تھا کہ میں نمدے کا کُرتہ پہنے ہوئے مکہ معظمہ کے قریب قدید سے دس میل کے فاصلے پر ضجنان کے تپتے ہوئے میدان میں اُونٹ چرایا کرتا تھا اور جب کبھی تھک کر بیٹھ جاتا تھا تو والدمحترم ناراض ہوتے اور میری گوشمالی فرمایا کرتے تھے۔ آج یہ زمانہ ہے کہ خدا کے سوا میرے اُوپر کوئی حاکم نہیں۔ لوگ مجھ جیسے بے خانماں کو امیرالمومنین کہتے ہیں ۔ میرے نام سے عجمیوں کے دل میں ہولیں اُٹھنے لگتی ہیں؟__ وہ کیا جانیں کہ ابن الخطاب’ خلیفۃ المسلمین اور امیرالمومنین کی حقیقت کیا ہے؟ اور اس شخص نے اپنی جان پر کیا کیا ظلم نہیں کیے۔ آج میں تمہیں سناتا ہوں کہ اُونٹ چرانے والے حقیر عرب کے ہاتھوں میں عرب و عجم کی باگ ڈور دینے والا صرف اور صرف اسلام تھاورنہ عمر کو کون جانتا تھا۔
میرے والد عرب میں ایک خاص عزت کے مالک تھے۔ وجہ یہ کہ وہ بڑے پائے کے نساب تھے اس لیے سفارت کا عہدہ ہمارے خاندان میں موروثی تھا۔ میں نے انساب کا فن والد بزرگوار سے سیکھا تھا۔ پہلوانی اور کشتی میں بھی خاص دسترس حاصل کرلی تھی یہاں تک کہ عکاظ کے میلے میں بڑی بڑی معرکے کی کُشتیاں لڑا کرتاتھا۔ اسی زمانے میں مَیں نے لکھنے پڑھنے کا فن بھی سیکھا اور مجھے بجاطور پر ناز ہے کہ اس زمانے میں قریش کے قبیلہ میں کُل سترہ آدمی تھے جو اس فن سے واقفیت رکھتے تھے۔ ان سترہ میں سے ایک مَیں بھی تھا۔ اس زمانے میں اور اب بھی تجارت ہمارا قومی پیشہ ہے۔ مجھے بھی تجارت ہی کے پیشے سے کسب معاش کرنا تھا، لہٰذا اسی میں مشغول ہوا۔ اس پیشے کی بدولت مجھے بڑے دُور دراز کے سفر کرنا پڑے۔ عرب و عجم کے بہت سے سربرآوردہ بادشاہوں سے ملاقات کرنے کا موقع ملا۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کیونکہ اس زمانے کے بہت سے تجربات اس وقت بھی میرے آڑے آتے ہیں اور میں اس فرض کو بحسن و خوبی انجام دینے میں ان تجربات سے بہت کچھ فائدہ اٹھاتا ہوں۔ اس زمانے میں بھی ان دُوردراز سفروں نے مجھے بہت بڑے بڑے فائدے پہنچائے۔ خدا کی عنایت کہ میری قوم نے میری حقیر خوبیوں کی خوب خوب داد دی اور قبائل میں جب کوئی پُرخطر معاملہ پیش آتا تو مجھے ہی سفیر بناکر بھیجا جاتا۔یہ سب باتیں بڑی خوشنما ہیں بلکہ یوں کہیے کہ اگر میں ان سب باتوں پر ناز کرنے لگوں تو یہ ناز بے جا نہ ہوگا لیکن ان دلفریب نقوش کے ساتھ ساتھ ایسی گھناؤنی یادیں بھی موجود ہیں جو میرے ضمیر پر کچوکے لگاتی رہتی ہیں اور جب کبھی وہ یادیں تازہ ہوجاتی ہیں تو میرا رواں رواں خوف کی شدت سے لرزاُٹھتا ہے، میں بیتاب ہوجاتا ہوں، میرا سر سجدے میں جھک جاتا ہے اور میری آنکھیں رونے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ الٰہی قیامت کے دن مواخذہ نہ کیجیو گا ورنہ میں کہیں کا نہ رہوں گا۔
یہ یاد یں اس زمانے کی ہیں جب ہم جہالت کی گھٹاٹوپ تاریکیوں میں گھرے ہوئے تھے۔ ہماری رُوحیں روشنی کے لیے بیتاب تھیں۔ ہم سب بے قرار تھے اس دن کے لیے جب کوئی شمع لے کر آئے اور ہمیں ان تاریکیوں میں سے نکالے لیکن جب اس نور نے ظہور فرمایا تو ہماری آنکھیں چندھیا گئیں۔ ہم گھبرا گھبرا کر اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھیں ڈھانپنے لگے تاکہ اس نور کا اثر قبول نہ کرلیں۔اُفق سے پھوٹتے ہوئے اس نور کو ہماری بے بصر آنکھوں نے طوفانِ آتش سمجھا اور ہم دیوانہ وار اُسے بجھانے کے لیے لپکے۔
ہم نے یہی سمجھا کہ عبدالمطلب کا پوتا، عبداللہ کا بیٹا اور آمنہ کی گود کا لال ایک عرب ہے اور بس__ ایک اَن پڑھ آدمی ہے جو پہاڑیوں کے اس طرف رہنے والے کسی رحمن نامی شخص کا معتقد ہے اور اسی کی باتیں سناسنا کر ہمیں اپنے آباؤاجداد کے خداؤں کے خلاف کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ہماری عقلمندی نے ہمیں یہ بات سکھا رکھی تھی کہ خدا کے حکم سے کوئی انسان انسانوں کو سکھانے اور سیدھی راہ بتانے کے لیے نہیں آسکتا۔ یہ کام تو جنوں اور فرشتوں کا ہے جو خدا کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔ ہماے فلسفے نے ہمیں یہ اچھی طرح سے بتا دیا تھا کہ اعمال کی جزا و سزا بالکل قابل تمسخر ہے۔ موت کے بعد اعمال کی جوابدہی کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟ ہم سب بت پرستی پر قانع تھے اور سمجھتے تھے کہ روحانیت کے تمام فرائض سے سبکدوش ہوگئے ہیں اس لیے جب بنوہاشم کے ایک فرد کی زبان سے ہم نے عجیب و غریب قسم کے پیغامات سنے تو بھنا گئے۔ وہ کہتے تھے: ‘‘موت تمھارے سر پر آرہی ہے اور تم کو خدا کے سامنے حاضر ہوکر اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہونا ہے’’۔ وہ کہتے تھے: ‘‘اللہ ایک ہے دوسرا معبود کوئی نہیں۔ بتوں’ پتھروں اوردرختوں میں تو اتنی ہمت نہیں کہ وہ ایک اِنچ جنبش بھی کرسکیں یا اپنی ناک پر بیٹھی ہوئی مکھی بھی اُڑا سکیں’’وہ کہتے تھے: ‘‘تمہاری بیٹیاں تمہاری آنے والی نسلوں کی مائیں ہیں اور انہیں قتل کردینا اپنی آئندہ نسلوں کا گلا گھونٹ دینا ہے’’۔ وہ فرمایا کرتے تھے: ‘‘لوگو! جسم کو نجاست سے’ کپڑوں کو میل کچیل سے’ زبان کو گندی باتوں سے’ دل کو جھوٹے اعتقادوں سے پاک و صاف کردو۔ وعدہ اور اقرار کی سختی سے پابندی کرو کیونکہ قوم کی عزتِ نفس اسی سے ہے۔ لین دین میں کسی سے دغا نہ کرو۔ خدا کی ذات کو نقص سے’ عیب سے اور ہرآلودگی سے پاک سمجھو اس بات کا پختہ اعتقاد رکھو کہ زمین’ آسمان’ چاند’ سورج’ چھوٹے بڑے سب کے سب خدا کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ سب اسی کے محتاج ہیں۔ دعا کا قبول کرنا،بیمار کو صحت و تندرستی دینا،لات و ہبل کے نہیں بلکہ اس خدا کے قبضے میں ہے جس نے لات و ہبل کی صورت بنانے کے لیے پتھر بنائے۔ فرشتے اور نبی بھی اس کے تابع ہیں۔ وہ بھی اس کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے’’۔
یہ تھے وہ پیغامات جو میدانِ عکاظ میں گونجے۔ جنہوں نے صفا و مرو کی جھلسی ہوئی چٹانوں پر شہد کے قطرے ٹپکائے۔ یہ تھا وہ کلام جس نے مکہ کے رہنے والوں کو سر سے پاؤں تک غصہ اور نفرت میں بدل دیا۔ ہم نے اپنے اردگرد عقل و دانش’ فلسفہ اور منطق اور شعروہجو کی ایک دیوار قائم کرلی اور یہ سوچ کر آپ ہی آپ مسکرانے لگے کہ محمد(ﷺ) کا جادو اس دیوار کو توڑ کر ہمارے کانوں تک نہیں پہنچ سکتا۔
لیکن محمد(ﷺ) کا جادو جادو نہیں تھا’ قدرت کی آواز اور فطرت کی پکار تھی جس نے اپنے سننے والے کان ڈھونڈ لیے اور جو دل میں اُتر گئی۔ ہمارا تمسخر، ہمارے قہقہے، ہمارا فلسفہ، ہماری منطق اور ہماری عقلمندی دھری کی دھری رہ گئی۔ مرد، عورتیں، بوڑھے ، بچے، دانا ، بیوقوف، شاعر اور پہلوان غرض جو کوئی بھی اس آواز کو سن پاتا اس کا والہ و شیدا ہوجاتا۔ محمد(ﷺ) کا جادو چپکے چپکے ہماری فولادی دیوار میں رخنے کرکے ہمارے قلب و جگر پر حملے کررہا تھا۔
ہم یہ سب کچھ برداشت نہ کرسکتے تھے اس لیے ہم نے صدیوں سے جمع کیے ہوئے اعتقادی خزانے کو راکھ بناتی ہوئی بجلی کا مقابلہ ظلم و جور کی ڈھالوں سے کرنے کی ٹھان لی اور یہ ارادہ کرلیا کہ اب جو کوئی بھی اسلام لائے گا، ہم اسے قرار واقعی سزا دیں گے۔ ایسی سزا، کہ وہ گھبرا کر نور کا دامن چھوڑ دے اور تاریکی میں واپس چلا آئے چنانچہ ہم نے اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنایا اور جو مسلمان بھی ہمارے ہتھے چڑھا ہم نے اسے مار مار کر ادھ موا کردیا۔ ایسی ایسی سزائیں دیں جن کو سن کر انسانیت کی پیشانی شرم سے عرق آلود ہوجاتی ہے۔ سر کے بال نوچنا، گردن مروڑنا، گرم پتھروں بلکہ دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹانا، بوریئے میں باندھنا اور نیچے سے دھواں دینا، پاؤں سے رسّی باندھ کر تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹنا، یہ چند طریقے تھے جو قوم کے رہنماؤں نے قوم کی ڈوبتی نیّا کو ڈوب جانے سے بچانے کے لیے اختیار کیے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ بھیانک مظالم لوگوں کو اسلام کے دُوررس پنجوں سے بچائے رکھیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ قدرت نے ہماری ہرکوشش کی تضحیک پر کمرباندھ رکھی تھی اور جس طرح ہمارا تمسخر ناکام رہا تھا۔ اسی طرح ہمارا ظلم و جور بھی ناکام رہا۔خود میں اپنے دل میں قومی درد کی اس تڑپ کو محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا۔ مجھے بھی اپنے خداؤں کو بچانے کا دعویٰ تھا اور میں بھی سمجھتا تھا کہ اس مشکل وقت میں اگر میں نے اپنے معبودوں کی حفاظت نہ کی تو ان بیچاروں کو رہنے کی جگہ نہ ملے گی۔
میری ایک لونڈی جس کا نام لبینہ تھا۔ مسلمان ہوگئی۔ جب مجھے یہ معلوم ہوا تو مجھے سخت غصہ آیا۔ میں نے لبینہ کو غلط راہ سے بچانے کے لیے کوڑاتھامااوراسے اپنے سامنے بلا کر پوچھا۔‘‘لبینہ! کیا ہوگیا ہے تجھے؟’’لبینہ نے سادگی سے میری طرف دیکھا اور بولی:‘‘کچھ بھی تو نہیں حضور!’’ میں نے کوڑا پھٹکار کر کہا:‘‘سچ بول__ ! تو مسلمان ہوگئی ہے؟’’اور معلوم ہے آپ کو !کیا جواب دیا تھا اس نے؟ اُس نے آنکھیں جھکا لیں اور دھیمی آواز میں کہا: ‘‘الحمدللہ!’’ یہ جواب سن کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ مجھے اپنا ہوش نہ رہا اور میں نہیں جانتا کہ میں نے اسے کتنا مارا اور کتنی دیر تک مارتا رہا لیکن وہ مار کھاتی رہی اور ‘‘اللہ اللہ’’ کے نعرے بلند کرتی رہی۔ جب میں تھک گیا تو میں نے ہاتھ روک کر پوچھا‘‘ابھی نشہ اُترا ہے یا نہیں؟’’وہ اس قدر پٹنے کے باوجود مسکرا کر بولی: ‘‘جناب یہ نشہ اترنے والا نہیں’’۔میں نے کہا: ‘‘اچھا تو ذرا دم لے لوں’ ابھی نشہ اُتارتا ہوں تیرا’’۔اب میرا ہر روز کا یہی معمول ہوگیا اور میں سارا سارا دن لبینہ کو پیٹتا رہتا لیکن واقعی وہ نشہ جو اسے چڑھ چکا تھا نہ اُترنا تھا ،نہ اترا__ اللہ اللہ! کیا نشہ تھا؟
لبینہ کی ان باتوں نے مجھے سخت متعجب کیا۔ میں حیران تھا کہ ابن عبداللہ نے ایسا کاری جادو کہاں سے سیکھ لیا ہے کہ جو شخص بھی ایک دفعہ اس کا ہوجاتا ہے پھر اس سے پھرنے کا نام نہیں لیتا۔ اس تعجب نے مجھے سر سے پاؤں تک غصے میں بھر دیا۔ میں نے ارادہ کرلیا کہ جس طرح بھی ہو اس فساد کی جڑ کاٹ دینی چاہیے۔
اس زمانے میں حضور سروردوعالمؐ اپنے بھائیوں کے مظالم سے تنگ آکر ارقم کے مکان میں مقیم ہوگئے تھے اور ان کے ساتھ وہ تیس چالیس مسلمان بھی تھے جنہوں نے کلمۂ حق پر لبیک کہا تھا۔ قریش خود ان کی ذات پر تلوار اٹھانے سے ڈرتے تھے کہ مبادا محمد(ﷺ) کا قبیلہ انتقام لینے کے لیے اُٹھ کھڑا ہو۔ لیکن لبینہ کا اصرار دیکھ کر مجھے اس قدر غصہ آگیا تھا کہ میں نے بنوہاشم کے غیظ و غضب کے خیال کو بھی اپنے ذہن کے قریب نہ آنے دیا۔ سارے قبیلہ کی خشمگیں نگاہوں کا منہ چڑاتا ہوا اُٹھا،تلوار ہاتھ میں لی اور ارقم کے مکان کی طرف چل دیا۔اثنائے راہ میں نعیم مل گئے۔ یہ ہمارے خاندان کے ایک شریف النفس اور باعزت بزرگ تھے اور مجھے ہر طرح ان کی خاطرملحوظ تھی۔ لیکن قیامت یہ تھی کہ نعیم بھی مسلمان ہوچکے تھے اور چونکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے میرے دشمن تھے اس لیے انہیں آتا دیکھ کر میں نے نفرت سے منہ پھیر لیا اور رستہ سے ہٹ گیا۔ نعیم نے مجھے دیکھ لیا تھا اور میرے ہاتھ کی تلوار پر بھی ان کی نظر پڑچکی تھی۔ مجھے رستہ چھوڑتے دیکھ کر وہ میری طرف بڑھے اور خندہ پیشانی سے بولے:‘‘ابن الخطاب! کہاں چلے؟’’میں نے گرج کر کہا:‘‘ارقم کے مکان کی طرف!’’نعیم مسکرا کر بولے:‘‘کس لیے؟’’ ‘‘آج میں قصہ پاک کردوں گا تاکہ یہ آئے دن کے جھگڑے مٹیں۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری__ !’’‘‘افوہ!’’ نعیم بولے۔ ‘‘یہ دعوے ہیں آپ کے؟ لیکن واللہ ابن الخطاب تم ہو غضب کے۔ ارے بھئی پہلے اپنے گھر کی خبر تو لی ہوتی’’۔‘‘کیوں’’کیا ہوا؟’’‘‘خوب! بڑے بھولے ہو’ کچھ جانتے ہی نہیں! ارے بھئی تمہارے بہنوئی سعید ابن زید اور تمہاری بہن فاطمہ حلقہ بگوشِ اسلام ہوچکے ہیں’’۔ ‘‘کیا سچ؟’’__ گو ان کے اسلام لانے کی بھنک میرے کان میں پڑ چکی تھی لیکن ہم قوم کے سامنے ایسا سنگین اعتراف کون سی آسان بات تھی’’۔ ‘‘مجھے جب سے اللہ ایک’ اور محمدؐ اس کا رسول ہے کہنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے جھوٹ کی ماں مرے جو میرے قریب بھی آجائے’’۔ نعیم بولے اور ہنستے ہوئے چل دیئے’’۔نعیم کا یہ طعنہ مجھے کھا گیا۔ میرا سارا غصہ سمٹ سمٹا کر بہن کی طرف ہوگیا اور میں نے ارادہ کرلیا کہ جو ہو،سو ہو سب سے پہلے اپنی بہن اور اس کے شوہر کو اسلام کے اثر سے آزاد کراؤں گا چنانچہ اسی غصے میں پیچ و تاب کھاتا اور بھناتا میں بہن کے مکان کی طرف روانہ ہوگیا۔
رستہ بھر میرے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آتے رہے اور میرا خون کھولاتے رہے یہاں تک کہ جب میں سعید بن زید کے مکان کے سامنے پہنچا تو میں خود محسوس کرتا تھا کہ میرے اعضا غصے کی شدت سے کانپ رہے ہیں اور میرا ہاتھ رہ رہ کر تلوار کے دستے کی طرف کھنچا پڑتا ہے۔دروازے پر پہنچا تو دروازہ بند تھااور میری بہن کی آواز آ رہی تھی جو کوئی کلام پڑھ رہی تھی۔ میں اس وقت تک کلام ربانی سے ناآشنا تھا۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ یہ نعمت عظمیٰ میرے کانوں تک نہیں پہنچ پائی تھی۔ میں نے بسااوقات جناب رسالت مآب کی زبانِ مبارک سے پاک خدا کا پاک کلام سنا تھا لیکن جب کبھی یہ کلام میرے کانوں کے قریب پہنچتا تھاتو میں اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیا کرتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ ان الفاظ میں جادو ہے جوسماعت کے قریب آتے ہی بالواسطہ دل پر حملہ کردیتا ہے۔آج بھی اپنی بہن کی آواز میں یہ زندگی بخش پیغام سنتے ہی میری بدنصیبی نے میری انگلیوں کو پکڑ کر میرے کانوں میں ٹھونس دیا۔میں نے دروازے کو زور سے پیٹا۔میری بہن کی آواز رک گئی اور اس کی جگہ دھیمی اورگھبرائی ہوئی آوازوں نے لے لی۔سعید کہہ رہے تھے: ‘‘ابن الخطاب آگئے ہیں’’۔‘‘پھر آواز آئی: ‘‘پہلے میں جاتی ہوں۔ آپ سے پہلے میں شہید ہوں گی’’۔ پھر آواز سنائی دی: ‘‘نہیں پہلا حق مرد کو پہنچتا ہے’’۔دروازے کی کنڈی آہستہ سے اُتر گئی۔ سعید ابن زید کا مسکراتا ہوا چہرہ نظرپڑا۔ میں نے سعید ابن زید کو دھکیل کر ایک طرف کردیا اور خود گھر میں چلا گیا اور اندر سے دروازے کی کنڈی چڑھا دی۔میری بہن’ میری دنیا کی تنہا رونق’ فرط دہشت سے سمٹی’ دبکی ایک کونے میں کھڑی تھی اور قرآن پاک کے چند اجزا اس کے سینے سے اس طرح لگے ہوئے تھے گویا وہ اپنی زندگی کے حقیقی اور واحد خزانے کو دشمن کی دستبرد سے بچانے کے لیے اپنی جان کو ڈھال بنانے پر تیار ہے اور حقیقت بھی یہی تھی۔مجھے یہ تلخ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ قرآن پاک کو دیکھ کر میرا غصہ طوفان کی شدت سے بڑھا ۔ میں اپنے بہنوئی سے دست و گریباں ہوگیا۔ میں نے ان کی قمیص پکڑلی اور سوچے سمجھے بغیر ان کے منہ پر اپنی پوری قوت سے تھپڑ مارے۔ انہوں نے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی لیکن میں ان سے زیادہ طاقتور تھا اور پہلوانی کو ایک فن کی حیثیت سے سیکھے ہوئے تھا اس لیے وہ میرے صحیح مدمقابل ثابت نہ ہوئے اور آخر چاروں شانے چت زمین پر گر پڑے۔ میں ان کے سینہ پر چڑھ بیٹھا۔میری بہن یہ برداشت نہ کرسکیں۔ اُنہوں نے قرآن پاک کے اجزا بلند جگہ پر رکھ دیئے اور میری طرف لپکیں۔ لیکن اس وقت مجھے کسی کی پروا نہ تھی۔ میرے دماغ میں صرف ایک ہی دُھن سمائی ہوئی تھی اور وہ یہ کہ ان دونوں کو بجبرو اکراہ اسلام سے منحرف کردوں۔ چنانچہ میں نے خود اپنی بہن کو زور سے دھکا دیا۔ وہ لڑھکتی ہوئی دور کونے میں جاگریں اور اس زور سے گریں کہ نیم بیہوش سی ہوگئیں لیکن پھر ہمت کی چیخ کر اُٹھیں اور میر ی طرف بڑھیں۔ ان کی اس ہمت نے مجھے غصہ سے دیوانہ کردیا اور میں تڑپ کر سعید کے سینہ پر سے اُٹھ بیٹھااور فاطمہ کو مارنا شروع کیا۔ جب میں تھک کر دم لینے کے لیے رُکا تو میری نگاہیں معاً اپنی کمزور بہن کی طرف کھنچ گئیں۔ اس کا چہرہ خون آلود ہو چکاتھا ۔ لیکن اس نے اسی حالت میں کہا ،بھائی میں بھی خطاب کی بیٹی ہوں جو کرنا ہے کر لو میں محمد ﷺ کا دامن نہیں چھوٹ سکتی ۔
معلوم نہیں اس نے یہ الفاظ دل کی کس گہرائی سے کہے تھے کہ میں یکد م کانپ کر رہ گیا میرا ہاتھ رک گیا اور میں غور سے فاطمہ کو دیکھنے لگا۔ اس کے خون آلود چہرے پر نو ر ہی نور ، سکون ہی سکون اور ایک بے پناہ عزم تھا جو مجھے شکست دے رہا تھا۔فاطمہ کے اس نور نے مجھے شکست دے دی میں اند رسے ٹوٹ کر رہ گیا ۔ میں نے فاطمہ کے سامنے ہار مان لی اوردھیمی آواز میں کہا ‘‘فاطمہ! جو کچھ تم پڑھ رہی تھیں__ مجھے بھی دکھاؤ’’۔بہن کی بے لوث محبت ملکوتی مسرت بن کر فاطمہ کی آنکھوں سے جھانکنے لگی۔ اس نے چند لمحوں کے لیے میری طرف دیکھا۔ پھر اُس کی آنکھیں جھک کر قرآن کے صفحات پر مرکوز ہوگئیں اور اس نے اپنی اُکھڑی ہوئی آواز میں کہا بھائی تم مشرک ہو ،ناپاک ہو پہلے غسل کرو پھر میں یہ کلام تمہارے ہاتھ میں دوں گی۔ میں نے ایسا ہی کیا اور جب میں نے کلام پاک شروع کیا تو اللہ تعالی کہہ رہے تھے۔
‘‘جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے اور جو کچھ اِن کے درمیان ہے سب اللہ کی حمد کرتا ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے۔ آسمانوں اور زمینوں کی بادشاہی اسی کے لیے ہے۔ وہ ہرچیز پر قادر ہے۔ وہی زندہ کرتا اور وہی مارتا ہے۔ وہی اوّل’ وہی آخر’ وہی ظاہر’ وہی باطن’ اور وہی سب کو جاننے والا ہے۔ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور پھر قرار پکڑا۔ وہ عرش پر جانتا ہے جو کچھ کہ زمین میں داخل ہو رہا ہے اور جو کچھ اس سے خارج ہو رہا ہے جو آسمانوں سے نازل ہو رہا ہے اورآسمانوں کی طرف بلند ہو رہا ہے۔ جہاں تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور جو کچھ تم کر رہے ہو وہ دیکھتا ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کے لیے ہے’’۔
اس کا ایک ایک لفظ میرے دل میں اُترتا جا رہا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی بہت دُور سے مجھ کو پکار رہا ہے اور کہتا ہے عمر آؤ ہم تمہیں ایک نیا رستہ بتاتے ہیں۔
اور پھر جب میں نے پڑھا کہ‘‘اور ہر امر اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ وہ جو رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ سینے کے بھیدوں سے واقف ہے۔ ایمان لاؤ اللہ پر اور اللہ کے رسول پر۔ تم کو پہلوں کا جانشین کیا گیا ہے۔ خرچ کرو تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور خرچ کیا ان کے لیے بہت بڑا ثواب ہے’’۔
تو مجھے اپنا ہوش نہ رہا اور دفعتاً پکار اُٹھا: ‘‘مجھے رسول اللہ کے پاس لے چلو’’ میری عزیز بہن فاطمہ دوڑ کر میرے سینے سے لپٹ گئیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور میرا تو یہ حال تھا گویا دفعتاً میرے چہرے پر زمزم کے دو چشمے پھوٹ نکلے ہیں۔ میں نے اپنی بہن کو سینے سے لگا لیا اور دھاڑیں مارمار کر رونے لگا۔ اس جوش گریہ کی کیا ممکن وجہ ہوسکتی ہے__ ؟میں نہیں جانتا اور پھر میری پشت پر کسی بوجھ کا احساس ہوا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ سعید بن زید میری پشت پر ہاتھ رکھے کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے:‘‘کتنا مبارک ہے آپ کا رونا__ ! ان آنسوؤں نے روح کی ساری تاریکیاں دھو ڈالی ہیں’’۔اسی اثنا میں خباّب جواند ر چھپے ہو ئے تھے وہ بھی باہر آ گئے اور انہوں نے کہا، عمر مبار ک ہو آج ہی اللہ کے رسول نے دعا کی تھی کہ یا اللہ ، یا عمر بن ہشام دے دے اور یاعمر بن الخطاب، لگتا ہے کہ ان کی دعا تیرے حق میں قبول ہو گئی ہے ۔آؤ دربار رسالت میں چلتے ہیں۔
لیکن میں تنہا دربارِ رسالت میں حاضر ہوکر اپنے گذشتہ گناہوں کا اعتراف کرکے ان کی معافی مانگنا چاہتا تھا اس لیے میں نے سعید ، فاطمہ اور خباّب کو وہیں چھوڑا اور خود ارقم کے مکان کی طرف چلا۔اس دفعہ میرا سر جھکا ہوا تھا۔ میری آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں اور میرے پاؤں ڈگمگا رہے تھے۔ میرا دل جو تھوڑی دیر پہلے خونیں خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا’ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سینے سے نکال دیا گیا ہے اور اس کی جگہ ایک ایسا دل رکھ دیا گیا ہے جو گوشت اور خون کا لرزتا اور دھڑکتا ہوا ٹکڑا نہیں بلکہ مجسم نور ہے۔
میں نے دار ارقم کے دروازے پر دستک دی تواندر سے بہت سے آدمیوں کی کھسرپھسر سنائی دی۔ لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے: ‘‘تلوار’’ اور ‘‘ابن الخطاب’’ کے الفاظ تھے جو میری سماعت سے ٹکرائے۔ پھر ایک بلندآواز سنائی دی۔ یہ آواز سیدالشہدا جنابِ حمزہ کی تھی۔ انھوں نے فرمایا:‘‘آنے دو’ اگر اچھی نیت سے آیا ہے تو خیر’ ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر کاٹ دیا جائے گا’’۔
میں نے یہ سنا اور شرم کی ایک لہر تھی جو میرے سینہ میں تڑپ گئی۔ عین اسی وقت دروازہ کھلا اور میرے قدم خودبخود اُٹھے اور میں آہستہ آہستہ دروازے میں سے ہوتا ہوا اندر چلا گیا__ تلوار ابھی تک میرے ہاتھ میں تھی لیکن مجھے اس کی موجودگی کا احساس تک نہ تھا۔میں نے دیکھا __ صحابی دو رویہ بیٹھے تھے۔ ان کے چہرے پر حیرت نے مہریں ثبت کر رکھی تھیں۔ وہ خاموش تھے گویا سناٹے میں آگئے ہیں اور اس کے بعد میری نظریں آہستہ آہستہ پھرتے پھرتے صدر تک پہنچ گئیں۔یہاں ایک نورمتمکن تھا’ ایک مجسم نور جس کی کشادہ پیشانی اور چمکدار آنکھوں میں نہ معلوم کیا تھا__ کیا قوت تھی__ کیا جلال تھا__ کہ میرا دل قیامت کی تیزی سے دھڑکا اور پھر ایکدم بند ہوگیا__ میں رسالت پناہی کے دربار میں شمشیربکف حاضر ہوا تھا۔
سروردوعالمؐ اپنی جگہ سے اٹھے اور ابر کرم کی طرح میر ی طرف بڑھے۔ ان کے چہرے پر اطمینان تھا__ ان کی آنکھوں میں اطمینان تھا اور ان کے ہونٹوں پر ایک دلفریب مسکراہٹ کھیل رہی تھی__ میں دم بخود ان کی طرف تکتا رہا اور سیلابِ نور میری طرف بڑھتا رہا__ بڑھتا رہا۔ وہ بولے ‘‘ابن الخطاب! کس لیے آئے ہو؟’’اس آواز نے میرے روئیں روئیں میں ایک نئی زندگی بھر دی۔ میرے ہاتھوں نے لپک کر رحمۃ اللعالمینؐ کے ہاتھوں کو پکڑ لیا اور میرے ہونٹ جھک گئے ان ہاتھوں پر جن میں دنیاوی اور روحانی زندگی کی باگ ڈور تھی__ ہاں میں نے ان کو بوسہ دیا اور میرے ہونٹوں نے بے اختیار ہوکر کہہ دیا:‘‘یارسول اللہ!’’میں کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا لیکن میری گھگھی بندھ گئی اور میری آنکھوں سے آنسوؤں کے چشمے اُبل پڑے۔
‘‘اللہ اکبر! رحمتِ دوعالمؐ کی آواز سنائی دی۔ اور ساتھ ہی ایسا محسوس ہونے لگا کہ دنیا کے ہر ذرے نے یک زبان ہوکر ‘‘اللہ اکبر’’ کا نعرہ لگایا ہے۔ ایسا نعرہ جو دیر تک فضا میں گونجتا رہا۔
رسول پاکؐ نے مجھے کندھوں سے پکڑ کر اُٹھایا اور اپنے سینہ سے لگالیا۔ ان کے سینے سے لگنا تھا کہ محسوس ہوا گویا ساری تاریکیاں سمٹ کر کسی نامعلوم جگہ دفن ہوگئی ہوں__اس کے بعد رسول اللہ نے فرمایا، ابن الخطاب! خدا تم پر اپنی رحمتوں کی بارش فرمائے۔ کہو: اشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدؐ رسول اللّٰہ۔ اور میں نے ایک دفعہ نہیں’ کئی دفعہ ان زندگی بخش الفاظ کو دہرایا__ دہراتا رہا__ دہراتا رہا__ اب بھی میرا جی چاہتا ہے کہ ان الفاظ کو دہراتا رہوں__ یہاں تک کہ میری روح ان الفاظ میں تحلیل ہوکر عرش کی طرف پرواز کرجائے’’۔