سپین کے شہر پامپ لونا میں ہر سال ماہ جولائی میں بل رن یابیل دوڑ کا تہوارمنایاجاتا ہے ۔ اس میں شرکت کے لیے دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں۔ روایت کے مطابق تیسر ی صدی میں ایک بشپ کو قتل کر دیا گیا تھاجس کی تلافی کے لیے یہ تہوار منایا جاتا ہے۔یہ تہوار اب روایتی میلے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔ جس میں شامل بیل دوڑ خاصے کی چیز ہے ۔ یہ صبح کے وقت منعقد ہوتی ہے ۔جبکہ دوپہر میں بل فائٹنگ ہوتی ہے۔بیل دوڑ کاآغاز سانتو ڈو منگو اسٹریٹ سے ہوتاہے ۔ مختلف گلیوں سے گزرتی ہوئی یہ دوڑ بل رنگ پر ختم ہوتی ہے ۔ یہیں حصہ لینے والے بیل دوپہر میں بل فائٹنگ میں حصہ لیتے ہیں۔ دوران ریس اطراف کی گلیاں مسدود کر دی جاتی ہیں تا کہ بیل طے شدہ راستے سے ہٹ نہ سکیں۔ اس دوڑ کے دوران میں بیل ۸۲۵ میٹر طویل فاصلہ طے کرتے ہیں۔تہوار کے آغاز میں زبر دست آتش بازی کی جاتی ہے۔شواہدکے مطابق یہ تہوار، ۱۵۹۱ سے منایا جارہاہے لیکن عالمی سطح پر یہ معروف اس وقت ہوا جب امریکا کے نوبل انعام یافتہ ادیب ارنسٹ ہیمنگوئے نے اس میں جا کر حصہ لیا۔ ہیمنگوئے جولائی ۱۹۲۳ء میں اس تہوارکی شرکت کی غرض سے یہاں پہنچا تھا۔اس دوران میں شہر کی گہما گہمی اور بیل دوڑ کے دوران میں لوگوں کے زخمی اور ہلاک ہونے کے واقعات پر مبنی اس نے ایک مشہور ناول لکھا ہے جس کانام ہے ‘‘دی سن آلسو رائزز’’ اس ناول کی اشاعت کے بعد بیل دوڑ ساری دنیا میں مشہور ہو گئی۔ہیمنگوئے اس کے بعد آٹھ مرتبہ اس دوڑ میں شرکت کے لیے آیا۔اس نے یہاں کے کھیل بل فائٹنگ پر بھی ایک ناول لکھا۔یہ ناول‘‘ڈیتھ ان دا آفٹر نون’’ کے نام سے مشہور ہے ۔ہیمنگوئے کی خود کشی کے بعد دنیا کی بہت سی نامورشخصیات نے اس میں حصہ لینا شروع کر دیا۔یہ پوری ریس تین منٹ ۵۵ سیکنڈ میں ختم ہوجاتی ہے۔اس کے آغاز پر ایک پٹاخہ فائر کیا جاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیلوں کے باڑے کا دروازہ کھولا جا چکاہے ۔ پھر دوسرا پٹاخہ چھوڑا جاتا ہے یہ بتاتا ہے کہ اب بیل باہرنکل چکے ہیں تیسرا پٹاخہ اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اب ریس ختم ہو چکی ہے۔ پچھلے سال ۱۴ ، افراد ہلاک اور آٹھ زخمی ہوئے یہ ہلاکتیں عموما بیلوں کے سینگوں کی زد میں آکر اور کبھی شرکا کے پیروں تلے دب کر کچلے جانے سے واقع ہوتی ہیں۔
( تلاش و تحریر ، محمد عبداللہ بخاری)