آخری قسط
آپﷺ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ کعبہ کی چھت پر چڑھو اور اللہ کی توحید کا نغمہ …… یعنی اذان دو…… جب حضرت بلالؓ چھت پڑ چڑھنے لگے تو مکہ کے مفتوح ، مگر نسلی تعصب کے مارے لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں ۔ ایک حبشی غلام ہمارے سامنے کعبہ کی چھت پر چڑھ رہا ہے ! سعید بن العاص(ایک قریشی سردار) کے کچھ رشتے دار کھڑے تھے ، وہ بولے : ‘‘اچھا ہوا کہ سعید یہ منظر دیکھنے سے پہلے ہی مر گیا ورنہ اسے آج ایک کالے کو کعبہ کی چھت پر کھڑے ہونے کا تکلیف دہ منظر دیکھنا پڑتا۔’’ ان لوگوں سے جب یہ برداشت نہ ہوا تو وہ حارث بن ہشام کے پاس گئے اور کہا : ‘‘آپ نے دیکھا نہیں ، یہ غلام کہاں جا چڑھا ہے ۔’’ حارث نے بے بسی سے کہا : ‘‘تم جانے دو ، اگر اللہ نے اس غلام کی حرکت کو ناپسند کیا تو وہ خود ہی اسے سزا دے گا۔’’ اب مشرکین خاموش ہو گئے۔ ان کی ایک ہی امید باقی تھی۔ وہ یہ کہ ان کے دیوتا لات ، عزی، منات وغیرہ بلالؓ پر اپنا قہر نازل کریں گے ۔ وہ اسی امید موہوم کے انتظار میں تھے کہ وادی مکہ میں بلالؓ کی شیریں آواز گونجی …… اللہ اکبر…… اللہ اکبر…… مکہ کی خاموش فضا میں علی الاعلان اللہ کے ایک اور محمد ﷺ کے رسول ہونے کی گواہی دی جا رہی تھی۔ یہ بت پرستی کے خاتمے اور دین توحید کی سربلندی کا اولین اعلان تھا۔ جسے قیامت تک جاری و ساری رہنا تھا۔
فتح مکہ کے بعد مدینہ منورہ میں ایک دن حضرت بلالؓ کے پاس ان کا بھائی آیا ۔ یہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا ۔ حضرت بلالؓ اگرچہ اپنے بھائی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے لیکن یہ بھی اچھی طرح سمجھتے تھے کہ خاندانی رشتوں کی پروا نہ کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے ۔ اس لیے بڑے تپاک سے ملے اور آنے کا مدعا پوچھا ۔ بھائی نے : ‘‘میں یمن سے آرہا ہوں اور وہاں ایک خاتون کے گھر والوں سے شادی کے سلسلے میں بات چل رہی ہے ۔ منگنی ابھی نہیں ہوئی ۔ انہوں نے میرا حسب نسب پوچھا تو میں نے بتا دیا کہ میں حضرت بلالؓ بن رباح کا بھائی ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر بلالؓ تمہارے ساتھ رشتہ مانگنے آئیں تو ہمیں کوئی انکار نہیں ہو گا۔’’ بلالؓ بولے : ‘‘ٹھیک ہے ، میں رسول اللہﷺ سے اجازت لے کر تمہارے ہمراہ یمن چلتا ہوں ۔’’ اجازت مل گئی اور وہ بھائی کے ہمراہ یمن جا پہنچے ۔ متعلقہ خاندان کے گھر پہنچے اور ان الفاظ میں اپنا موقف بیان کیا ۔ ‘‘میں بلالؓ بن رباح ہوں اور یہ میرا بھائی ہے ۔ یہ بد اخلاق بھی ہے اور بددین(غیر مسلم) بھی ، اگر تم اسے رشتہ دینا چاہو تو ضرور دو اور نہیں دینا چاہتے تو بھی مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔’’ ان کی اس صاف گوئی سے بھائی کو رشتہ ملنے سے انکار ہو گیا اور وہ ناراض ہو گیا ، مگر بلالؓ کو بھلا سچ بولنے سے کون منع کر سکتا تھا ۔ یمن ہی میں قیام کے دوران میں ان کے ایک دوست نے مشورہ دیا : ‘‘اے بلالؓ اب آپ کے پاس مناسب روزگار بھی ہے ، شادی کیوں نہیں کر لیتے !’’ کچھ سوچ بچار کے بعد راضی ہو گئے اور مشورہ دینے والے ہی کو کہا کہ کوئی مناسب خاتون تلاش کریں ۔ کچھ دنوں کے بعد انہیں ایک خاتون ہندالخولانیہ کے بارے میں بتایا گیا ۔
بلالؓ خاتون کے گھر چلے گئے اور اپنا مدعا ان الفاظ میں بیان کیا : ‘‘میں بلالؓ بن رباح ہوں۔ رسول اللہﷺ کا صحابی ہوں ۔ حبشی غلام رہا ہوں ۔ گمراہ بھی تھا ۔ اللہ نے ہدایت بخشی ۔ غلامی سے نجات دلائی ۔ اب نکاح کی غرض سے آیا ہوں ۔ مجھے قبول کرو گے تو الحمدللہ اور اگر انکار کرو گے تو اللہ اکبر! خاندان والوں نے جواب دیا : ‘‘ہمیں مہلت دیجیے ، ہم رسول اللہﷺ سے مشورہ کرنا چاہیں گے ۔’’ حضرت بلالؓ کو بھلا کیا اعتراض تھا ! وہ لوگ مدینہ آئے ۔ لڑکی کے بھائی رسول اللہﷺ سے ملے اور بلالؓ کے بارے میں پوچھا : ‘‘کیا یہ ہمارے خاندان کے قابل ہے ۔’’ حضورﷺ نے حیرت سے کہا : ‘‘تمہارا بلالؓ سے کیا مقابلہ؟ تم لوگوں کا ایک جنتی آدمی سے کیا مقابلہ؟’’ یہ جملہ بہت بڑا تھا ۔ لڑکی کے خاندان کی آنکھیں کھل گئیں ۔ فوراً حضرت بلالؓ کو ہاں کر دی اور حضرت بلالؓ گھر والے ہو گئے ۔ دونوں میاں بیوی میں بڑی محبت تھی ۔ ایک دن باتوں باتوں میں حضرت بلالؓ نے رسول اللہﷺ کے بارے میں ایک بات کی ۔ بیوی نے مذاق میں یا سنجیدگی میں اسے نہ مانا۔ حضرت بلالؓ ناراض ہو گئے ۔ غصے سے گھر سے باہر چلے گئے ۔ اسی حالت میں رسول اللہؐ کی محفل میں چلے گئے ۔ آپ ؐ بلالؓ کے مزاج کو اچھی طرح سمجھتے تھے ۔ جان گئے ۔ پوچھا تو بلالؓ نے رنج اور دکھ سے سارا ماجرا کہہ سنایا ۔ رسول اللہﷺ نے حضرت بلالؓ کو وہیں چھوڑا اور ان کے گھر گئے ۔ ان کی بیوی سے پوچھا : ‘‘کیا بلال گھر پر ہیں ؟’’ بولیں ۔ ‘‘نہیں!’’ ‘‘کیا بلالؓ تم سے ناراض ہے ؟’’ ‘‘نہیں …… وہ تو مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں!’’ ‘‘دیکھو، بلالؓ کبھی میرے بارے میں جھوٹ نہیں بولتے ، وہ میرے حوالے سے جو کہیں ، سچ ہو گا اور اسے سچ ہی سمجھا کرو ! اور یاد رکھو ، اگر تم بلالؓ کو ناراض رکھو گی تو تمہارا کوئی عمل قبول نہیں ہو گا!’’ رسول اللہﷺ واپس پلٹے حضرت بلالؓ سمجھ گئے اور گھر آئے تو بیوی کا مزاج بدلا ہوا پایا ۔ اس نے دل کی گہرائیوں اور آنسوؤں کی ندامت سے معافی مانگی ۔ گھر کی رونق ، مسرت پھر لوٹ آئی ۔
یہ معمول تھا کہ فجر کی اذان کے بعد لوگ مسجد میں آجاتے اور تھوڑی دیر بعد اللہ کے رسولؐ بھی حضرت عائشہؓ کے حجرے سے تشریف لے آتے ۔ مگر اس دن حضورؐ معمول کے مطابق تشریف نہ لائے ۔ صحابہؓ کے علم میں یہ بات تھی کہ آپ کے سر میں شدید تکلیف ہے ۔ اس لیے سب کے چہروں پر پریشانی صاف جھلک رہی تھی ۔ اس سے قبل بھی رسول اللہﷺ کی علالت کے باعث حضرت ابوبکرؓ ان کی نیابت کر چکے تھے ۔ مگر ایسا آپؐ کی اجازت سے ہی ہونا تھا ۔ چنانچہ یہ حضرت بلالؓ ہی تھے جو حضرت عائشہؓ کے کمرے کے پاس گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا ، نبی ؐ رحمت کی خادمہ بریرہؓ آئیں تو ان سے کہا حضورؓ سے فرما دیں کہ لوگ نماز کے لیے منتظر ہیں ۔’’ بریرہؓ نے حضورؐ تک پیغام پہنچایا ۔ وہاں حضرت عائشہؓ اور حضرت فاطمہؓ بھی موجود تھیں ۔ حضرت فاطمہ عیادت کرنے اپنے والد ماجد کے گھر قیام فرما تھیں ۔ انہوں نے حضورؐ تک بلالؓ کا پیغام پہنچایا ۔ آپؐ نے پوچھا:‘‘کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے ؟’’ آپؐ کو بتایا گیا کہ انتظار ہو رہا ہے ۔ تب آپ نے وضو کے لیے پانی رکھنے کو کہا ۔ آپؐ وضو کے لیے خود اٹھے مگر طبیعت اتنی ناساز تھی کہ اٹھتے ہی آپؐ پر غشی طاری ہو گئی اور آپﷺ گر پڑے ۔ دونوں خواتین آپؐ کی طرف دوڑیں اور سنبھالا دیا ۔ حضورؐ جلد ہی ہوش میں آگئے اور پھر نماز کے متعلق دریافت فرمایا ۔ حضرت عائشہؓ نے آپؐ کو آرام کا مشورہ دیا اور مسلمانوں کو اپنے طور پر نماز پڑھ لینے کی اجازت دینے کے لیے کہا آپؐ پہلے بھی اپنی اسی علالت کے دوران میں حضرت ابوبکرؓ کو مسلمانوں کی امامت کرنے کا حکم دے چکے تھے ۔ آج بھی آپﷺ نے یہی فرمایا کہ ابوبکرؓ سے کہیں کہ مسلمانوں کو نماز پڑھائیں ۔ بریرہؓ آپؐ کا پیغام لیکر دروازے تک گئیں ۔ حضرت بلالؓ ابھی تک موجود تھے ۔ انہیں آپؐ کا پیغام پہنچا دیا گیا۔ اتنے میں مسجد کے دروازے سے ابوبکرؓ آتے ہوئے دکھائی دیے ۔ حضرت بلالؓ جلدی سے ان کی طرف لپکے اور انہیں نماز پڑھانے کے لیے رسول اللہ کا حکم پہنچایا حکم کی تعمیل کی گئی ۔ نماز جاری تھی کہ رسول اللہﷺ سر پر پٹی باندھے ، مسجد میں تشریف لے آئے ۔ صحابہ کو آپؐ کی موجودگی کا احساس ہو گیا۔ جب آپﷺ حضرت ابوبکرؓ کے قریب آئے تو انہیں بھی آپﷺ کی موجودگی کا احساس ہو گیا تو وہ پیچھے ہٹے تاکہ حضور امامت کروائیں مگر آپؐ نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں نماز جاری رکھنے کا اشارہ کیا ۔ آپؐ حضرت ابوبکرؓ کے دائیں جانب بیٹھ گئے اور بیٹھے بیٹھے ہی نماز مکمل کی ۔
اس واقعے کے چند دن بعد چاشت کے قریب بلالؓ کو ایک ایسی خبر ملی جس کو برداشت کرنا ان کے بس سے باہر ہو رہا تھا ۔ انہوں نے سنا کہ اللہ کے رسولؐ رحلت فرما گئے ، وہ فوراً مسجد نبوی کی طرف لپکے ۔ یہ خبر اگرچہ اتنی غیر متوقع نہیں تھی ، مگر پھر بھی حضرت بلالؓ پر بجلی بن کر گری۔ رسول اللہﷺ نے چند روز پیشتر ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی تھی ، لیکن نماز کے بعد انہوں نے صحابہ کرام کو جو نصیحتیں کی تھیں ان سے جاننے والے جان چکے تھے کہ اللہ کے رسولؐ مسلمانوں کو آخری نصیحتیں کر رہے ہیں۔ ظہر کی اس نماز کے بعد رسول اللہؐ کی طبیعت نہ سنبھل سکی اور وہ بستر پر ہی نماز ادا کرتے رہے ۔ ان حالات میں یہ خبر اچانک نہیں تھی ، لیکن یہ احساس کہ اللہ کے رسول دنیا سے چلے گئے ہیں، مسلمان ان کے سایہ سے محروم ہو گئے ہیں ، ایک بہت بڑا سانحہ تھا یہ ایک ایسا صدمہ تھا جس کو فوری طور پر برداشت کرنے کا کسی میں یارا نہ تھا…… چنانچہ جب حضرت بلالؓ مسجد نبوی میں پہنچے تو وہاں ایک کہرام برپا تھا۔ صحابہ کرامؓ بے قرار ہو کر گریہ و زاری کر رہے تھے ۔ بلالؓ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات جاری تھی۔ وہ اپنے محسن اور پیارے آقا کا آخری دیدار کرنے حجرے میں چلے گئے ۔ رخ انور دیکھا ۔ درود و سلام کا ہدیہ پیش کیا اور خاموشی سے اپنے گھر چلے آئے ۔ غم و اندوہ نے انہیں دنیا و ما فیہا سے بے خبر کر دیا تھا ۔
مدینہ منورہ کی فضا پر غم کے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے اسی کیفیت میں پہلی رات آئی ۔ نبی کریمؐ کا جسد مبارک ابھی دفن نہیں کیا گیا تھا ۔ حضرت بلالؓ یہ رات بھلا کیسے سو سکتے تھے ۔ انہوں نے سونے کی بڑی کوشش کی تھی لیکن سوچوں کے متحرک ہیولے انہیں پریشان کرتے رہے ۔ رسول اللہﷺ کی رفاقت ، ان کی باتیں ، ان کی شفقتیں ، ان کی یادیں رہ رہ کرذہن کے پردے پر نمودار ہو رہی تھیں اور ہر آن ان کے غم کو زیادہ کر رہی تھیں ۔ انہوں نے لمحہ لمحہ جاگ کر ساری رات آنکھوں میں بتا دی ۔ یہ بے قرار اور بے چین رات گزری۔ بلالؓ اٹھے اور مسجد نبوی کی طرف چل دیے ۔ بوجھل قدموں سے مسجد پہنچے۔ نظر بے اختیار مسجد سے ملحقہ اس دروازے پر پڑی جہاں سے حضور مسجد میں داخل ہوتے تھے ۔ مسلمان اس دروازے کو باب الرسولؐ کہتے تھے ۔ ساری رات روتے رہنے سے آنکھوں سے آنسو خشک ہو چکے تھے ۔ لیکن باب الرسولؐ پر پڑا تالا ایک اندوہناک منظر تھا ۔ حضرت بلالؓ کی آنکھیں پھر ڈبڈبا گئیں ۔ سوچنے لگے ، اب کبھی بھی اس دروازے سے نکل کر ، رسو ل اللہﷺ ہمارے پاس نہیں آئیں گے نہ کبھی بلالؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ عرض کر سکے گا کہ حضور ؐ! لوگ امامت کے لیے منتظر ہیں ۔ انہی سوچوں میں الجھے دکھی اور غمگین بلالؓ اذان دینے لگے ۔ اللہ اکبر…… اللہ اکبر……
اشہد ان لا الہ الا اللہ دوبار کہنے کے بعد جب ان کی زبان نے اشہد ان کہا تو شدت کرب سے آگے کے الفاظ نہ نکل سکے ۔ محمد ﷺ کا لفظ زبان پر لانے کی ہمت نہ رہی ۔ بلالؓ رونے لگے ۔ ہچکیاں لینے لگے ۔ صحابہؓ بھی ضبط نہ کر سکے جس جس کے کانوں میں یہ آواز پڑی ، بے اختیار چیخیں نکل پڑیں۔ حضرت بلالؓ نے غم کی رکی ہوئی آندھی کو پھر سے چلا دیا تھا ۔ خاصی دیر رونے کے بعد اذان کے نامکمل رہ جانے کے احساس نے انہیں اپنے آپ پر قابو پانے میں مدد دی اور انہوں نے گلوگیر اور لرزتی آواز میں باقی کے کلمات کہہ کر اذان مکمل کی۔
٭٭٭
حضورﷺ کی وفات کے بعد حضرت بلال کے لیے مدینے رہنا اور حضورﷺ کی جگہ کو خالی دیکھنا دشوار ہو گیا اس لیے وہ دمشق ہجرت کر گئے اوربقیہ زندگی وہیں گزار دی ان کامزار بھی وہیں ہے۔
٭٭٭