امید کی کرن

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : نوائے سروش

شمارہ : جون 2007

            ‘‘وہ قومیں تباہ و برباد ہو جایا کرتی ہیں، جن کے نظام کی بنیاد،آئین کی بالا دستی،قانون کی حکمرانی اور بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کے بجائے آ مرانہ نظام پر رکھی جائے۔کسی بھی مہذب معاشرے میں ،بنیادی انسانی حقوق ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔’’یہ بات چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ،۶۔مئی کو لاہور ہائی کورٹ میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔اپنے اس تاریخی خطاب میں انھوں نے کہا،‘‘بنیادی انسانی حقوق اور آ زادی لازم ملزوم ہیں۔انتظامیہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف قانون سازی نہیں کر سکتی۔وکلا حضرات اور جج صاحبان،ایک گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہیں۔یہ دونوں نہ صرف ایک دوسرے کا لازمی جزو ہیں بلکہ ایک دوسرے پر مکمل انحصار کرتے ہیں۔جج اور بار کے باہمی تعاون کے بغیر انصاف کا حصول ناممکن ہے۔بار اور بنچ کے درمیان ،حالیہ لا زوال تعاون کو انھوں نے خوب سراہا۔’’

            پاکستان کے حالیہ عدالتی بحران کا اونٹ،کس کروٹ بیٹھتا ہے،ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا،لیکن ۹۔مارچ کو باوردی صدر کے سامنے ،جسٹس افتخار محمد چودھری کے مستعفی ہونے سے انکار سے لے کر،۶۔مئی کو لاہور بار سے اس تاریخی خطاب تک، حالات جس رخ پر جا رہے ہیں ،اس نے ہمارے ایسے جمہوری روایات کے احیا کے علمبرداروں کے لیے اُمید کی کرن تو کیا ،اُمید کا سورج روشن کر دیا ہے۔ ملک میں جب بھی غیر جمہوری قوتوں نے عوام کے حق اقتدار پر ڈاکہ دالا ہے ،اُن کو ہمیشہ پاکستانی عدلیہ نے تحفظ فراہم کیاہے اور یہ پہلی دفعہ ہے کہ پاکستانی عدلیہ ،ایک عوامی پلیٹ فارم پر،آئین و قانون سے گہری وابستگی کا اظہار کر رہی ہے اور سرعام جبر کی قوتوں کے خلاف ڈٹ گئی ہے۔

            وطن عزیز کے اُفق پر،۹’مارچ ۲۰۰۷ء،کا سورج جب طلوع ہوا،تو سب کچھ حسب ِ معمول تھا،لیکن ایوان ہائے اقتدار میں کھلبلی مچی تھی۔قوت و اقتدار کاسرچشمہ سمجھی جانے والی شخصیت کے تیور ،آج،کچھ بدلے بدلے سے تھے۔آج وہ ایسی مہم سر کرنے چلے تھے جس میں ناکامی کا تصور بھی محال تھا،لیکن اِس دنیا میں ،سب کچھ،سب کی مرضی کے مطابق کہاں ہوتاہے! ...یونیفارم کا رُعب....قوت و اقتدار کا ماحول....پاک افواج کی سپہ سالاری کا دبدبہ.....اور منصب ِ صدارت کا طنطنہ......،یہ سب کچھ،جہاں ایک بندے کو بے پناہ اعتماد اور پُر غرور اندازِ تکلم بخشتا ہے ،تو وہاں ،مخاطب کو مغلوب کرنے کا اندازِ خسروانہ بھی رکھتا ہے۔......نہ جانے اِس ماحول نے کتنے بڑے بڑوں کا پتہ پانی کیا ہوگا اورنہ جانے کتنی گردنوں کو زمیں بوس کیا ہوگا ،لیکن صد آ فریں ہے،اُس ہستی کے لیے ،جس نے ،زمیں بوسی کے اس ماحول میں بھی.......خود کو سنبھالا ،اورخودی اور عزت و آبرو کا علم بلند رکھا۔

            ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا کہ اقتدار کی بارگاہ میں کسی جج کو،یا کسی ادارے کے سربراہ کو، طلب کیا گیاہواور اُس سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیاہو،لیکن تاریخ یہ منظر بہر حال پہلی بار دیکھ رہی تھی ،کہ کوئی آرمی چیف کی خواہشات کے خلاف بھی اپنے حق کے لیے ڈٹ گیا۔بلا شبہ پاکستانی تاریخ میں یہ ایک انو کھا واقعہ تھا۔یہ ایک ....‘‘نہ’’... جس کی توقع ،نہ آرمی چیف کو تھی اور نہ ہی قوم کو،....ہماری قسمتوں کو بدلنے والی ثابت ہوگی۔انشا ء اللہ!!

            چیف جسٹس کے جرأت مندانہ انکار اور اُس پراندھی قوت کے وار نے قوم کو تڑپا کے رکھ دیا۔ہر وہ بندہ،جو آئین و قانون سے کچھ بھی تعلق رکھتا تھا،تڑپ اُٹھا۔جوں جوں یہ خبر عام ہوتی گئی ،عوام الناس میں بے چینی کی لہر دوڑاتی گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے ،جگہ جگہ ،احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ لوگ، جہاں آرمی چیف کے خلاف غصے میں تھے ، وہاں عدالتی چیف کی جرأت انکار پر شاداں و فرحاں بھی تھے۔سب سے زیادہ احتجاج،وکلا برادری کی طرف سے ہوا۔بنچ کے چیف کی معطلی کو بار نے شدت سے محسوس کیا اور اُس پر شدید ردِ عمل دِکھایا۔وطن عزیز میں ،بار اور بنچ کے درمیان ،اس گہرے تعلق کی بازیافت بھی پہلی بار ہوئی ہے۔

            جدید سیاسی تصورات کے مطابق،عدلیہ۔مقننہ اور انتظامیہ،کسی ریاست کے ستونوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔باقی سب ادارے،بشمول فوج اور دیگر مسلح ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے،سب،نے ان کے تحت کام کرنا ہوتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ وطن عزیز میں ،فوج نے ہمیشہ مقتدر اعلیٰ کا کردار ادا کیا ہے اور باقی سب اداروں نے اس کی لونڈیوں کا ۔فوج عملاً اس ملک کے حاکم اعلیٰ کا درجہ اختیار کر چکی ہے اور کسی ادارے یا کسی فرد کو اسے چیلنج کرنے کی جرأت ہی نہیں ہوتی۔یہ چیز ،ہر ذی شعور کے لیے انتہائی تکلیف دہ اور ہر ذی وقار کے لیے صدمے کا باعث ہوتی ہے۔ہماری حالت یہ ہے کہ ساٹھ سالوں میں ہم ،اس ملک پر سولین رول کو قائم ہی نہیں کر سکے اور دوسری طرف چلے ہیں دنیا کو روشن خیالی کا سبق پڑھانے

            آزاد عدلیہ جمہوری معاشروں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن جہاں عدالتی چیف ہی ظلم کا نشانہ بن جائے وہاں عدالتیں انصاف کیسے فراہم کر سکتی ہیں اور جہاں کی عدالتیں انصاف ہی فراہم نہ کر رہی ہوں اور جہاں عدالتوں ہی کی عزت و حرمت داؤ پر لگا دی جائے، تووہاں سول سوسائٹی کی تباہی اٹل ہے۔ جو معاشرہ آزاد عدلیہ نہیں رکھتا ،وہ جمہوری اور مہذب معاشرہ نہیں کہلا سکتا۔ہمارے ہاں جس خالص جمہوریت کا ڈھنڈورا،پچھلے سات سالوں سے پیٹا جا رہا تھا ،اُس کی ہنڈیا ،بیچ چوراہے،۹۔مارچ کو پھوٹ چکی ہے اور دنیا پر اس کی حقیقت منکشف ہو چکی ہے کہ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جس میں چیف جسٹس کو باوردی صدر کے حضور طلب کیاجاتا ہے اور چند نا معقول الزامات کا ہوا دِکھلا کر مستعفی ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

            لیکن ،چیف جسٹس صاحب کی غیر آئینی معطلی پر،ملک میں جس طرح ردِ عمل ہوا ہے اس سے اُمید کی کرن پھوٹی ہے۔عوام الناس نے جس طرح ردِعمل دیا ہے اُس سے وطن عزیز میں جمہوریت کا مستقبل روشن نظر آ تا ہے۔ ۹۔مارچ سے لے کر ،تا دم تحریر،وکلا برادری ،سیاسی کارکنان اور دانشور ،جس طرح متحد ہو کر عدلیہ کے وقار کے تحفظ کی جدو جہد کر رہے ہیں ،اُس نے ہمارا جی باغ باغ کر دیا ہے۔یوں تو اس تحریک کا ہر لمحہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے ،لیکن جو تاریخ ،۵۔مئی کے دِن راولپنڈی سے لاہور کے درمیان ،جی ٹی روڈ پر رقم ہوئی ہے ،ماضی میں دور دور تک ،اُس کی مثال ملنا مشکل ہے۔جرنیلی سڑک کا یہ جلوس،جرنیلوں کی اخلاقی شکست کا مظہر ہے۔لیکن یہاں اخلاقیات کو کون دیکھتا ہے۔کہنے والے کہتے ہیں کہ اس طرح کا جلوس جس میں یوں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہو،کسی مہذب ملک میں نکلتا تو یقیناًحکمرانوں کے استعفیٰ پر منتج ہوتا ۔ لیکن یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔۵۔مئی کی صبح،جب لاہور کے لیے ،چیف جسٹس افتخار محمد چودھری روانہ ہوئے تو یہی اندازہ تھا کہ وہ بہت ہی زیادہ لیٹ بھی ہوئے تو چار بجے سہ پہر تک تو لاہور پہنچ ہی جائیں گے لیکن سب اندازے غلط ہو گئے،سب حساب کتاب فیل ہو گئے۔یہ قافلہ،اگلے دِن ،پورے چوبیس گھنٹے بعد،لاہور کی حدود میں داخل ہو سکا۔چیف جسٹس صاحب کے ساتھ ،اظہار یکجہتی کے لیے ،جی ٹی روڈ پر عوام کا سیلاب پھوٹ پڑا۔سڑکیں انسانوں سے اٹی تھیں۔یہ وہ لوگ تھے جو اپنے وسائل استعمال کر کے خود بخود دوڑے آ ئے تھے۔ جسٹس صاحب سے محبت اور والہانہ پن کے ایسے ایسے مظاہر دیکھنے میں آ ئے جس کی پہلے سے کوئی مثال نہ تھی۔

            ۵ اور ۶ مئی کو ،ملک ہی نہیں پوری دنیا کی نظریں ٹی وی سکرینوں پر تھیں۔پوری دنیا ایک ہی منظر دیکھ رہی تھی اور وہ تھا ،جی ٹی روڈ پر ،لاہور کی طرف بڑھتا ہواکاروان ِ عدل و انصاف کا منظر۔عوام کے اس والہانہ استقبال نے ،پوری دنیا پر یہ واضح کر دیا ہے کہ یہاں کا ہر شہری، آ مریت کے خلاف ہے اوریہاں کا ہر آ دمی ،مستقبل میں ایک جمہوری اور آئینی پاکستان دیکھنا چاہتا ہے۔پاکستان کے ہر شہری کی مچلتی آرزو ،صرف اور صرف ،آ زاد عدلیہ،صاف ستھری جمہوریت اور عدل و انصاف والا پاکستان ہے۔اور ہر باشعور شہری،اپنے چیف جسٹس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ ،‘‘وہ قومیں تباہ و برباد ہو جایا کرتی ہیں، جن کے نظام کی بنیاد،آئین کی بالا دستی،قانون کی حکمرانی اور بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کے بجائے آ مرانہ نظام پر رکھی جائے۔کسی بھی مہذب معاشرے میں ،بنیادی انسانی حقوق ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔’’

٭٭٭