مسلمانوں میں سرایت کرتی ‘‘مغربی سازشیں’’....!

مصنف : مولانا وحید الدین خان

سلسلہ : انتخاب

شمارہ : جون 2007

            مولانا محمد ذکوان ندوی نے بتایا کہ انہو ں نے دس مارچ ۲۰۰۶؁ء کو حیدرآباد کی ایک قدیم جامع مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کی۔ یہ مسجد بہت بڑی تھی۔ مسجد کے اندر جگہ جگہ بڑے بڑے بورڈ لگے ہوئے تھے جس پر لکھا ہوا تھا:‘‘براہِ کرم مسجد میں اپنا موبائل فون بند کر دیں۔’’

            انہوں نے بتایا کہ خطبے سے پہلے کی تقریر میں امام صاحب نے کہا کہ مسجد میں بڑے بڑے بورڈ وں پر لکھ کر یہ لگایا گیا ہے کہ لوگ مسجد میں اپنا موبائل فون بند رکھیں پھر بھی لوگ اس کا خیال نہیں رکھتے۔ یہ دراصل یہودونصاریٰ کی سازش ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان، مسجد میں بھی عبادت اور دعا کے لیے یکسو نہ رہ سکیں۔ اس لیے انہوں نے مسلمانوں کے اندر موبائل فون پھیلا دیے۔

            یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے واعظین کی بے شمار تقریروں کے باوجود کیوں مسلمانوں کی اصلاح نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ یہ لوگ مسلمانوں کی ہر داخلی خرابی میں ایک خارجی دشمن کی سازش کو دریافت کر لیتے ہیں اور اس کے خلاف بولنے لگتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے اندر داخلی احتساب کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ خارجی دشمنو ں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان عام طور پر منفی اندازِ فکر کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔

٭٭٭

            موجودہ حالات میں اصل ضرورت یہ ہے کہ داخلی اعتبار سے مسلمانوں کے اندر بے اصولی اور بد نظمی کا جو مزاج بن گیا ہے اس کی اصلاح کی جائے۔ دوسروں کو ظالم قرار دے کر ان کے خلاف احتجاج کرنا کسی بھی درجے میں مسئلے کا حل نہیں۔

            اس غلط مزاج نے مسلمانوں کے اندر ایک اور شدید تر برائی پیدا کر دی ہے اور وہ ہے دوعملی۔ بارہا ایسا ہورہا ہے کہ مسلمان مغربی ملکوں کے خلاف احتجاجی تحریکیں اٹھاتے ہیں۔ اپنی تقریروں اور تحریروں میں پر جوش طور پر یہ اعلان کرتے ہیں کہ مغربی دنیا اسلام اور مسلمان کی دشمن ہوگئی ہے۔ لیکن وقتی مظاہروں کے بعد ایسا ہوتا ہے کہ یہ تمام مسلمان مغربی ملکوں کے ساتھ عملاً موافقت کر لیتے ہیں اور انھیں ملکوں میں بدستور آرام کے ساتھ رہنے لگتے ہیں۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں کرتا کہ وہ ‘‘اسلام دشمن’’ ملکوں کو چھوڑ کر اپنے وطن واپس آجائے۔ مغربی ملکوں کی مصنوعات سے بائیکاٹ کا شور تو کیا جاتا ہے لیکن کوئی ایسا نہیں کرتا کہ وہ مغربی ملکوں سے بائیکاٹ کا اعلان کر کے وہاں رہنا بسنا چھوڑ دے اور وہ اپنے عزیزوں کو وہاں آباد نہ کرے۔ یہ صورتِ حال بلا شبہ نہایت سنگین ہے، یہاں تک کہ مغربی ملکوں کی مفروضہ سازش سے بھی زیادہ۔

٭٭٭