فیصل آباد شہر کی اس مسجد میں دس لوگ معتکف تھے ۔ معمول یہ تھا کہ عشا کے بعد مسجد کے مولوی صاحب ان لوگوں کواپنے فیض سے مالا مال فرماتے یعنی ذکر کرواتے اور مختلف دینی مسائل واضح فرماتے چونکہ شدید گرمی کا زمانہ تھا اس لیے معتکفین یہ چاہتے تھے کہ انہیں مولوی صاحب کی طرف سے نہانے کی اجازت مل جائے چنانچہ ایک رات ، ایسی ہی ایک محفل استفادہ میں ایک صاحب نے پوچھا کہ حضرت، کیا ہم اعتکاف میں گرمی دور کرنے کے لیے نہا سکتے ہیں۔ مولوی صاحب نے فرمایا نہا تو نہیں سکتے البتہ سر دھو سکتے ہیں اور وہ بھی مسجد کے اندر بیٹھ کر۔ دوسرے صاحب نے اس کی وجہ پوچھی تو مولوی صاحب نے فرمایا کہ بس نبی ﷺ کی سنت یہی ہے ۔ تیسرے نے حوالہ پوچھاتومولوی صاحب غصے سے اٹھے اور بخاری شریف لے آئے ۔اور فورا ً کتاب الصوم، باب غسل المعتکف نکالااور یہ حدیث پڑھی‘‘حدثنا محمدبن یوسف حدثنا سفیان عن منصور عن ابراہیم عن الاسود عن عائشہ ؓ قالت کان النبی ﷺ یباشرنی وانا حائض وکان یخرج راسہ من المسجد وھو معتکف فاغلسہ وانا حائض’’(یعنی حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں حائضہ ہوتی پھر بھی رسول اللہﷺ مجھے اپنے بدن سے لگاتے تھے اور آپ معتکف ہوتے اورمیں حائضہ ہوتی اس کے باوجود آپ سرمبارک باہرکردیتے تھے( مسجد سے ) اورمیں اسے دھوتی تھی۔)
اس حدیث کاترجمہ کرتے ہوئے مولوی صاحب نے ‘‘یباشرنی ’’کے لفظ کا ترجمہ یوں کر دیا کہ نبی ﷺ مجھ (حضرت عائشہ ) سے مباشرت کرتے تھے حالانکہ میں حیض سے ہوتی تھی۔معتکفین نے یہ سنا تو وہ فورا ًچونکے، غسل کی بات تو پیچھے رہ گئی اور لوگوں نے بیک زبان پوچھا کہ مولوی صاحب حیض میں تو بیوی سے مباشرت جائز ہی نہیں،یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔مولوی صاحب ایک لمحے کو ٹھٹکے، لیکن پھر فوراً بولے ہاں، ہاں یہ واقعی جائز نہیں لیکن یہ نبی کا معاملہ ہے ان کے لیے بعض احکام الگ ہوتے ہیں۔راقم نے عرض کیا کہ حضرت، اصل میں یہاں لفظ یباشرنی کا مطلب اصطلاحی مباشرت نہیں بلکہ یہ لفظ لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اکثر مترجمین نے یہاں اس کاترجمہ یوں کیا ہے کہ نبی ﷺ مجھے اپنے جسم سے لگاتے تھے ۔رہا حیض میں مباشرت، تو یہ کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہو سکتاکیونکہ قرآن کریم میں اس کی ممانعت موجود ہے ۔مولوی صاحب غیض و غضب سے بولے تم کالجوں سکولوں میں پڑھنے والے ، تمہیں عربی زبان کا کیا پتا۔ یباشرنی کا ترجمہ مباشرت ہی ہے۔ عرض کیا کہ بے شک مباشرت ہی ترجمہ ہے لیکن یہ وہ مباشرت نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ بولے بس بس چپ کرو تم ایک عالم کو چیلنج کر رہے ہواپنے ایمان کی خبر لو۔راقم چپ ہو رہا اورباقی لوگ بھی حیرت سے منہ تکتے رہ گئے اور مولوی صاحب یہ کہتے ہوئے اٹھ گئے کہ تمہیں کیا معلوم نبی کا مقام، بعض حکم نبی کے لیے خاص ہوتے ہیں۔راقم نے رمضان کے بعد تنہائی میں انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ بات نبی ﷺ پر اتہام ہے آپ کوتوبہ کرنی چاہیے مگر ان کا اصرا ر تھا کہ تم عالم ہو کہ میں ہوں اور میرا اصرار یہ تھا کہ واقعی میں عالم نہیں ہوں لیکن پھر بھی آپ میری بات پر غور کریں یا کسی مستند عالم دین سے پوچھ لیں۔ اس‘ مستند عالم دین’ کے لفظ سے موصوف اور زیادہ جز بز ہوتے تھے کیونکہ موصوف پہلے رکشا ڈرائیور تھے اس کے علاوہ فلموں میں ایکسٹر ا کے طور بھی کام کر چکے تھے لیکن چونکہ کسی زمانے میں کسی مدرسے میں ایک دوسال پڑھا تھا لہذا اس کے بل بوتے پر امام بن بیٹھے اورلوگوں کو بھی اس لیے اعتراض نہ ہوا کہ بظاہر ساری شرطیں پوری تھیں کہ عمامہ بھی باندھتے تھے داڑھی بھی لمبی تھی اور شلوار بھی ٹخنوں سے اوپر اور ہمارے معاشرے میں کسی کے مولوی ہونے کے لیے یہ کوالیفیکیشن کافی ہے۔دو چار سال بعد یہ حضرت اسی مسجد سے رسوا ہو کر نکالے گئے اگرچہ بظاہروجوہات اور تھیں لیکن راقم کو آج بیس برس بعد بھی یقین ہے کہ یہ اصل میں نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات اقدس پر اسی اتہام کا نتیجہ تھا۔
شہر لاہور کی ایک بڑی مسجد میں راقم جمعہ کی نماز کے لیے داخل ہوا تو ایک طلیق اللسان مولوی صاحب پورے خشوع و خضوع سے محبت رسولﷺ پر وعظ فرما رہے تھے اور لوگ بھی وقفے وقفے سے سجان اللہ ، ماشا ء اللہ کہہ کر ان کا ساتھ دے رہے تھے ۔زیر تقریر مسئلہ یہ تھا کہ محبت رسول کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ رسولﷺ کا نام سن کر انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں سے لگایا جائے ۔حضرت فرما رہے تھے کہ لوگ مجھ سے اس کا حوالہ پوچھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا صحابہ بھی یہ عمل کیا کرتے تھے ۔ فرمایا ،لوگو! تم عام صحابہ کا کہتے ہو، ارے یہ تو ابوبکرؓ کا عمل ہے ،ابو بکرؓکا، جو تمام صحابہ میں افضل ہیں۔ اور حوالہ دیکھنا ہوتو حدیث کی مستند کتاب موضوعات کبیر شریف میں دیکھو اس میں لکھا ہے کہ ابوبکرؓ حضورﷺ کا نام نامی اسم گرامی سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں کو لگاتے تھے ۔راقم کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ موضوعات بھی نہیں بلکہ موضوعات کبیر، اور اسے یہ حضرت شریف بھی بنا رہے ہیں اور حدیث بھی قرار دے رہے ہیں اور وہ بھی مستند ۔ اگر ملا علی قاری ؒ کو یہ معلوم ہو جاتا کہ میری کتاب کا یہ حشر ہو گا تو شاید وہ کتاب لکھنے کا اراد ہ ہی ترک کر دیتے ۔اللہ معاف فرمائے راقم نماز میں بھی یہ سوچتا رہا کہ جس مولوی کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ لفظ موضوع یا موضوعات کا مطلب کیا ہے،تو اسے پھر بھی منبر رسول پر بیٹھنے کا حق حاصل ہے؟
قارئین محترم !یہ دو واقعات مشتے نمونہ از خروارے تھے ورنہ تو اتنے واقعات موجود ہیں کہ پوری ایک کتاب ترتیب دی جا سکتی ہے ۔ہمارے ہاں تقریباً نوے فیصد مساجد ایسے ہی مولویوں کے سپرد ہیں اور عوام اسی کو دین سمجھتے ، جانتے اور مانتے ہیں کہ جو یہ لوگ کہتے ہیں۔ یہ نیم ملا عا م طور پر وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے کسی مدرسے میں ایک یا دو سال لگائے ہوتے ہیں ۔کسی نے چند سورتیں یاد کی ہوتی ہیں توکسی نے چند پارے ، کسی نے عربی کی چند گردانیں رٹی ہوتی ہیں تو کسی نے فارسی کا قاعدہ، کسی کے پاس مولوی مشتاق احمد چرتھالوی کی کتابیں ہوتی ہیں تو کسی کے پاس مولوی عبدالستار کی ، کسی کے دین کا ماخذ چند پملفٹ ہوتے ہیں توکسی کی فصیح اللسانی کا منبع بارہ تقریروں کی کتاب ،کسی کے علم کا مرکز قصہ گو واعظ ہوتے ہیں تو کسی کی معلومات کامبدا فرقہ پرست مناظر لیکن اس کے باوجودیہ سب خود کو مولوی ، حضرت ،عالم، علامہ ، مولانا ، الحافظ ، القاری ، خطیب اعظم اور پیر طریقت و رہبر شریعت وغیر ہ کہلاتے بھی ہیں اوراہتمام سے لوگوں سے لکھواتے بھی ہیں البتہ خود اپنے نام کے ساتھ فقیر ، حقیر ، عاجز ، بند ہ عاصی ، خاکسار وغیر ہ لکھتے ہیں لیکن اگر کوئی انہیں عاجز صاحب ، یا فقیر صاحب کہہ کر پکارے تو ناراض ہوجاتے ہیں۔مرحوم ضیا ء الحق نے ایک بار اپنی تقریر میں بڑے تاسف سے کہا تھا کہ ہم نے کچھ مولوی بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا جنہیں کہ یو ۔کے بھیجنا مقصود تھا۔ انہوں نے کہا کہ انٹرویو کے لیے آنے والوں کی اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل تھی کہ جو تیسویں پارے کی آخری دس سورتیں بھی صحیح طرح پڑھنے کی اہلیت نہ رکھتے تھے اور ان سب لوگوں کے پاس کسی نہ کسی دارالعلوم یا جامعہ کی سند موجود تھی گویا یہ سب سند یافتہ مولوی تھے ۔
ایسے ہی سند یافتہ مولوی جب مساجد میں جاتے ہیں تو پھر یقینا خطرہ ایمان ثابت ہوتے ہیں۔ان کے پاس بیچنے کے لیے ایک ہی چیز ہوتی ہے یعنی دین ۔ وہ بھی اصل دین ہوتا تو غنیمت تھی لیکن یہاں وہ بھی دو نمبر ہوتا ہے ۔ قدرتی بات ہے کہ انسان اسی جنس میں ملاوٹ کرے گا جو جنس اس کے پاس موجود ہو گی اور نیم ملا کی جنس دو نمبر دین ہی ہوتا ہے چنانچہ اسی میں وہ ملاوٹ کر کے اس کا حجم بڑھا لیتا ہے تاکہ منافع زیادہ سے زیادہ ہو۔ ڈاکٹر دواؤں میں ملاوٹ کرتے ہیں، دکاندار اجناس میں کرتے ہیں، وکیل قانون میں کرتے ہیں ،تاجر تجارت میں کرتے ہیں، استاد ٹیوشن سے کرتے ہیں، اور نیم ملا بیچارا کس میں کرے ؟آخر ملاوٹ زدہ معاشر ے میں اس کا دل بھی کرتا ہے کہ ملاوٹ کرے ! ظاہر ہے کہ وہ ملاوٹ دین ہی میں کرے گا۔اور اس کا روزگار اصل میں چلتا بھی اسی ملاوٹ سے ہے ۔کیونکہ نیم ملاؤں نے دین کوتھوڑا بہت پڑھا بھی اسی روزگار کے لیے ہوتاہے ۔یہ لوگ جب مساجد میں آتے ہیں تو ان کا حقیقی دنیا سے واسطہ پڑتا ہے ۔ لوگوں کے حقیقی مسائل ہوتے ہیں لوگ ان سے دریافت کرتے ہیں۔ کوئی پوچھتا ہے کہ مولوی صاحب سٹاک ایکسچینج میں انویسٹمنٹ جائز ہے کہ نہیں ، کوئی کہتا ہے کہ انسٹالمنٹ پر چیزیں لینا جائز ہے کہ نہیں کوئی کہتا ہے کہ بنکوں کی کار سکیم یاہاؤس بلڈنگ سکیم جائز ہے کہ نہیں۔اس طرح کے عملی مسائل کاایک ڈھیر ہوتا ہے کوئی میڈیا کے بارے میں پوچھتا ہے تو کوئی سائنس کے بارے میں، کوئی نیٹ کے بارے میں پوچھتا ہے توکوئی جدید فیملی مسائل کے بارے میں۔ لیکن مولوی صاحب کے علم کی رسائی تو نکاح و موت کی چند رسومات تک ہوتی ہے ،وہ بھی سیلف میڈ، یا پھر چند اختلافی فقہی مسائل تک محدود، چنانچہ شعوری یا لا شعوری طور پر یہ نیم ملا کوشش کر تے ہیں کہ جو علم یعنی معلومات ان کے پاس ہیں ان میں لوگوں کو الجھا دیا جائے تا کہ لوگ بھی صرف ایسی ہی باتیں پوچھیں اور باقی مسائل سے ان کی جان چھوٹے ۔ اس طرح مساجد میں وہ نہ صرف اپنا ہم نوا ایک گروپ تیارکرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں بلکہ اس گروپ کی وجہ سے ان کی روٹی کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے ۔ اس کے بعد ان ملاؤں کی کوشش ہو تی ہے کہ اپنی اپنی ‘بھیڑوں ’ کو رنگ لگا کر رکھیں تا کہ یہ کسی اور کے ‘باڑے’ میں نہ جانے پائیں کیونکہ اگر ایک بھیڑ بھی کم ہو گئی تو ‘دودھ ’بھی کم ہوجائے گا۔
یہ لوگ عوام کے ایمان سے کھیلتے ہیں لیکن عوام کو اس کی خبر ہی نہیں ہوتی۔عوام کو خبر کیوں نہیں ہوتی اس لیے کہ عوام خودبھی دین کے بارے میں حساس نہیں اور حساس کیوں نہیں، اس لیے کہ دین ان کا مسئلہ ہی نہیں۔نیم حکیم ان کی صحت سے کھیلے تو وہ فوراً اس کی خبر لیتے ہیں کیونکہ صحت اورجان ان کا مسئلہ ہے لیکن نیم ملا ان کے ایمان سے کھیلے تو بھلے کھیلے ،انہیں چنداں تردد نہیں ہوتا کیونکہ ایمان اور آخرت ان کا مسئلہ ہی نہیں۔جب کوئی چیز کسی کا مسئلہ بن جاتی ہے تو پھر وہ اس کے لیے ہر تگ و دو کرتا اور ہر مشقت برد اشت کرتا ہے ۔انبیا اور رسل کا بہت بڑا احسان یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ انسانوں کا مسئلہ تبدیل کر دیتے ہیں یعنی انسانوں کا مسئلہ مال نہیں اعمال بن جاتے ہیں، مخلوق نہیں خالق بن جاتا ہے اور دنیا نہیں آخرت بن جاتی ہے ۔بچے کو دنیاوی علوم پڑھانے کے لیے لوگ لاکھوں خرچ کرتے ہیں لیکن قرآن پڑھانے کے لیے دوچار سو خرچ کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے ۔بلکہ بعض تو مفت پڑھانے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے ۔ اس لیے کہ قرآن ان کامسئلہ ہی نہیں۔ ایک صاحب کسی کے بچے کو قرآن پڑھانے گئے تو انہوں نے پوچھا کہ مولوی صاحب کیا لیں گے انہوں نے کہاپانچ سو روپے۔کہا، مولوی صاحب یہ تو بہت ہیں ہم تو بس ایک سو دے سکتے ہیں۔پوچھا کہ بیٹا کس سکول میں پڑھتا ہے فرمایا کہ شویفات میں۔ مولوی صاحب اللہ اکبر کہہ کر اٹھ آئے کہ جو شخص دنیا کے لیے شویفات میں لاکھوں فیس دینے کو تیا رہے وہ قرآن کے لیے پانچ سو دینے کو تیار نہیں ایسے میں اس کابچہ کبھی قرآن نہیں پڑھ سکتا۔
نیم ملاؤں کی دکانداری اس لیے چلتی ہے کہ ہم نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ آنکھیں تو انسان اس چیز کے لیے کھلی رکھتاہے جو قیمتی ہو۔ دین کی ہمارے ہاں قیمت ہی کیا ہے ؟ شاید کچھ بھی نہیں۔ یہی تووجہ ہے دین کے نام پرجو بھی کچھ کہہ دے ہم اسے قبول کرلیتے ہیں اور اس کی تحقیق کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے ۔انسان کے ہاں وہی چیز قیمتی بنتی ہے جس پر اس کی جان ، مال یا وقت خرچ ہوتا ہے ۔دین پر ہمارا کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا اس لیے دلوں میں اس کی کوئی قیمت اور اہمیت نہیں بنتی اولاد پہ ، مکان بنانے پہ، جان بھی صرف ہوتی ہے مال بھی خرچ ہوتاہے اور وقت بھی، یہ چیزیں ہرانسان کے ہاں کتنی قیمتی ہوتی ہیں، ہر شخص کو معلو م ہے ۔ان پڑھ سے ان پڑ ھ کا بچہ بھی اگر بیما ر پڑ جائے تو وہ اس کی دوا کے بارے میں دس لوگوں سے پوچھتا ہے اور دس ڈاکٹروں اور حکیموں کا حال معلوم کرتا ہے لیکن دین کے بارے میں اسے جو بھی بتا دیا جائے وہ اسی پر قانع ہوجاتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ اس میں بھی اسی طرح تحقیق کی ضرورت ہے جس طرح بچے کی دوا کے بارے میں تحقیق کی ضرورت تھی۔ جس طرح دس ڈاکٹروں کے بارے میں جان کر اور مختلف آرا کی روشنی میں فیصلہ بہر حال اس کی عقل نے کیا تھا کہ فلاں ڈاکٹر بہتر معلوم ہوتا ہے اس طرح کسی بھی دینی بات یا رائے کے بارے میں دس نہیں تو کم از کم دو چار لوگوں سے تو تحقیق کی جاتی اور پھر اپنی عقل استعمال کی جاتی کہ یہ بات زیادہ قرین قیاس یا دین کے ماخذ قرآن وسنت کے زیادہ نزدیک معلوم ہوتی ہے لیکن ان پڑھ تو کیا پڑھے لکھے بھی ایسا نہیں کرتے ۔
نقلی مال وہیں بکتا ہے جہاں اصل موجود نہ ہو یا لوگوں کو اصل کا علم نہ ہو۔ہمارے ہاں اصل دین بحمداللہ قرآن و سنت کی شکل میں موجود تو ہے لیکن لوگوں کو اس کا علم نہیں ۔ نیم ملانے دین کاماخذ بزرگ لوگوں کو بنا رکھا ہے کیونکہ اصل ماخذ یعنی قرآن وسنت تک اس کی رسائی ہی نہیں۔ہر بات کا ماخذ کوئی نہ کوئی بزرگ ، ہر مسئلے کاحل کوئی نہ کوئی کرامت اور ہر عقید ے کا منبع کوئی نہ کوئی قصہ یا کہانی ہوتی ہے۔ہمیں بھی ماخذ سے کوئی غرض نہیں ہوتی اس لیے کہ اس طرح معاملہ ہمارے لیے بھی آسان رہتا ہے ۔ مسلمان ہونا تو شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ اگر جنت کی ضمانت ایک دیگ ، ایک محفل ، ایک زیارت، ایک عمرے اور چندرسومات سے مل جائے تو پھر محنت کی کیا ضرورت؟ کون شہادت گہ الفت میں قدم رکھے؟
نیم ملا کا کاروبار ہم سے چلتا ہے اور ہمارا ، اس سے ۔ہم سب ہی شریک جرم ہیں۔شریک جرم نہ ہوتے ،تو یقینا مخبری کرتے۔ اس زوال کا ذمہ دار کون ہے ، کون مجرم ہے اور کون معصوم ، مجھے تو پیارے قارئین ،کچھ پتا نہیں چلتا۔آپ ہی کچھ مدد کریں کہ میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟