‘‘جی جی اللہ کا احسان ہے ۔ ہاں جی اللہ کا شکر ہے ۔ جی بس آپ کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ آپ کی شفقت اور مہربانی بھی چاہیے ۔’’ یہ باتیں بنک میں میرے ساتھ بیٹھے ایک صاحب اپنے سیل فون پر کسی جاننے والے سے کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ آنکھوں سے مجھے اس طرح تائیدی اشارے کر رہے تھے جیسے میں انہیں ہمیشہ سے جانتا پہچانتا ہوں ۔
دراصل ہوا یوں کہ ایک دن میں اپنے کسی کام سے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بنک گیا ۔رش کی وجہ سے افسر مجاز کے سامنے بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک اس فون کال نے مجھے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کی جانب متوجہ کر دیا ۔ میں نے اس کی باتیں سننے کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت کا جائزہ لینا بھی شروع کیا۔ وہ مخدوم سے شروع ہونے والے نام کا آدمی تھا ۔ رنگ سرخ و سفید اور قد تقریبا چھ فٹ سے بھی کچھ نکلتا ہوا، ہاتھ میں قیمتی موبائل فون اور کار کی چابیاں تھیں ۔ اس کا رکھ رکھاؤ اور بات کرنے کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ کوئی خاندانی رئیس ہے ۔وہ شخص بنک کے متعلقہ افسر سے کہہ رہا تھا کہ پچھلی بار جب اس نے گاڑی بک کروائی تھی تو اس وقت بھی کافی پریشانی ہوئی تھی اور اس بار بھی کار لیزنگ کے طریقہ کار میں بہت دشوار ی ہو رہی ہے ۔ اس کی باتیں سن کر میں نے اس آدمی کے متعلق سوچنا شروع کر دیا کہ یہ آدمی کتنا خوش قسمت ہے ۔ اللہ تعالی نے نہ صرف اس کو خوش شکل اور وجیہہ بنایاہے بلکہ مالی طور پر بھی بہت آسودہ کیا ہے ۔ اسی اثنا میں اس کے موبائل کی گھنٹی دوبارہ بجی اور وہ کسی کو بتانے لگا کہ وہ آجکل پاکستان آیا ہوا ہے ۔ کچھ دن پہلے ہی فرانس سے لوٹا تھا اور اگلے ہفتے دبئی چلا جائے گا ۔
یہ سن کر میری یہ سوچ کہ اس پر اللہ تعالی کی کتنی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور بھی پختہ ہو گئی۔ یعنی ایک گاڑی پہلے سے پاس ہے اور دوسری کی بکنگ کروا رہا ہے بلکہ اکثر کرواتا رہتا ہے ۔ غیر ممالک میں مسلسل آنا جانا ہے ۔ خوش شکل اور جاذب نظر شخصیت کا مالک ہے۔ قصہ مختصر اللہ تعالی نے اسے نوازنے میں کوئی کمی نہیں کی تھی۔
اس سے پہلے کہ اس کے ساتھ اپنا تقابل کر کے میرے دل میں ناشکری کے جذبات پیدا ہوں ان صاحب کا فون ایک بار پھر بج اٹھا۔ وہ رسمی سلام دعا کے بعد(بقیہ ص ۹۳ پر)
اپنی کاروباری باتیں کرنے لگے ۔ لیکن میں اس وقت چونکا جب وہ کہہ رہا تھے کہ ‘‘ہاں یار آج کل کچھ دنوں کے لیے پاکستان میں قیام ہے ۔ بس آپ سے ملاقات نہیں ہو سکی ۔ دراصل ہوا یوں کہ پاکستان آنے سے پہلے جب میں دبئی میں مقیم تھا تو مجھے ہارٹ اٹیک ہوا ۔ بیس دن مسلسل قومے میں پڑا رہا۔ طبیعت کچھ سنبھلی تو ذاتی مصروفیات میں الجھ گیا وغیرہ وغیرہ۔’’
اس کی یہ بات سن کر میں نے دل ہی دل میں توبہ کی او رساتھ ہی اللہ تعالی کی حکمتوں پر میرایقین اور بھی پختہ ہو گیا۔در اصل اللہ ہی بہتر جانتے ہیں کہ اس کی مخلوق میں سے کس کے لیے کیا بہتر ہے ، کتنا بہتر ہے اور کب بہتر ہے ۔ اسی طرح کسی کے لیے کیابہتر نہیں۔ ہماری کم ظرفی یہ ہے کہ ہم لوگوں کی صرف ظاہری حالت دیکھ کر اللہ تعالی سے شکوے شکایات شروع کر دیتے ہیں ۔ ہمار ی نظر ہمیشہ اس طرف جاتی ہے کہ ہمارے پاس کیا نہیں ہے جبکہ ہمارے پاس کیا کیاہے اس کا حساب کبھی نہیں کرتے ۔ایک صرف صحت کی نعمت ہی ایسی نعمت ہے کہ جس کا شکریہ ادا نہیں کیا جا سکتا اگر کسی کے پاس سب کچھ ہو اور صحت نہ ہو توسب کچھ کس کام کا؟ ظاہر ی خوشیوں کے پیچھے کو ن کون سے غم اور دکھ چھپے ہوتے ہیں انہیں کو ن جان سکتاہے ۔کچھ دیر قبل میں نا شکری کے جذبات کا شکار ہونے والا تھا لیکن جب بنک سے نکلا تو یہ کہہ رہا تھا کہ یا اللہ تیرا شکرہے ۔ تو نے مجھے صحت دی۔ اگرتو مجھے یہ بھی نہ دیتا تو میں کیا کرلیتا؟
محمد اسلم (سینچری پیپر ملز لاہور)