سیدنا بلالؓ

مصنف : نعیم احمد بلوچ

سلسلہ : سیرت صحابہؓ

شمارہ : اپریل 2007

قسط ۔ ۳

            حضرت بلالؓ باہر کو لپکے اور دیوانہ وار مدینہ کے باہر اس راستے کی طرف دوڑنے لگے جہاں پہلے ہی کچھ لوگ آنے والے کی راہ تک رہے تھے ۔ ترستی آنکھوں نے پھر دور سے لوگوں کی بھیڑ کے بیچوں بیچ دو سواروں کو آتے دیکھا ۔ حضرت بلالؓ کی نظر نے دور ہی سے سواروں کو پہچان لیا ۔ ان میں ایک اللہ کے رسولﷺ اور دوسرے ان کے محسن اور دوست ابوبکرؓ تھے ۔ بلالؓ پکار اٹھے : ‘‘اللہ کی قسم یہ اللہ کے رسولﷺ ہیں۔’’ یہ نعرہ لگا کر وہ تیزی سے ان کی طرف دوڑے ان کے قدموں نے اس وقت تک اپنی رفتار کم نہ کی جب تک ان کی آنکھوں کے سامنے اللہ کے رسولﷺ کا چہرہ نہ آ گیا ۔ وہ منظر جس کی عدم موجودگی میں ان کی زندگی میں ایک خلا آگیا تھا اب انہیں میسر تھا ۔ حضرت بلالؓ کو اب چین آگیا مکہ چھوڑ کر مدینہ آنے کا غم کافور ہو گیا ۔ وطن سے نکالے جانے کا زخم اب بھر گیا تھا ۔ مدینہ کے قریب ایک صحرائی وادی تھی بطحان اس میں پانی کے جوہڑ تھے بعض اوقات ہوا اس وادی سے ہو کر جب مدینہ پہنچتی تو مدینہ میں بخار کی وبا پھیل جاتی اس وبا کا خاص طور پر وہ لوگ نشانہ بنتے جو باہر سے آئے ہوتے یا جواس ہوا کے عادی نہ ہوتے ۔ ہجرت کر کے آنے والے صحابہؓ اس کا بطور خاص نشانہ بنتے۔ خود حضرت ابوبکرؓ شدید بیمار ہو گئے ۔ حضرت بلالؓ کو علم ہوا تو وہ ان کی مزاج پرسی کے لیے گئے ۔ حضرت ابوبکرؓ پہلے ہی دھان پان جسم کے مالک تھے بخار نے انہیں بالکل ہی نحیف و نزار کر دیا ۔ بلالؓ ان کے پاس گئے تو یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے کہ انہیں اس وقت کسی غمگسار کی ضرورت ہے ۔ چنانچہ بلالؓ ان کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگے انہوں نے محسوس کیا کہ اس گفتگو کی وجہ سے ابوبکرؓ بخار کی تکلیف بھول گئے ہیں ۔ بلالؓ نے اس بات چیت کو رات گئے تک جاری رکھا ۔ جب ابوبکرؓ گہری نیند سو گئے تو وہ ان کے پاس سے اٹھ گئے اور انہی کے گھر کے صحن میں جا کر لیٹ گئے ۔

            بلالؓ صبح اٹھے تو انہیں اپنا سارا وجود درد سے ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا نماز یاد آئی تو فوراً کھڑے ہوئے مگر ایسا چکر آیا کہ پوری دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہوئی وہ بری طرح زمین پر گر پڑے اورگرتے ہی بے ہوش ہو گئے ۔ حضرت بلالؓ جو اپنے دوست حضرت ابوبکرؓ کی مزاج پرسی کے لیے گئے تھے اب بیمار ہو کر انہی کے گھر پڑ گئے ۔ کئی دن تک بیمار رہے بیماری کی حالت میں انہیں ایک بار پھرمکہ کی یاد رہ رہ کر آئی۔ کئی دفعہ وہ آسمان کی طرف دیکھتے او رکہتے : ‘‘بلاشبہ مکہ کا آسمان ، اس آسمان سے زیادہ خوب صورت ہے اور مکہ کی ہوا ، اس ہوا سے زیادہ لطیف اور صاف ہے۔’’ انہیں دنوں حضرت عائشہؓ نے بلالؓ کو اپنی خوب صورت آواز میں یہ شعر گنگناتے ہوئے سنا (ترجمہ)

کاش میں وادی مکہ میں ایک رات اور رہتا

میرے اردگرد ازخر اور جلیل کی نرم نرم گھاس کا بستر ہوتا

کاش میں مجنہ کے چشمے کا پانی ایک دن مزید پی لیتا

کاش میں شامہ اور طفیل نامی چشموں کو ایک مرتبہ پھر دیکھ لیتا

            یہ غم ناک شعر سن کر حضرت عائشہؓ سوچنے لگیں کہ یہ سب بخار کا اثر ہے یا وطن کی محبت کا نتیجہ۔ پھر انہیں حیرت ہوئی کہ یہ لوگ وہاں کتنے ستائے گئے ، لیکن حیرت ہے پھر بھی انہیں وطن کی یاد ستاتی ہے ۔ رسول کریمﷺ کے پاس آئیں اور سارا حال بیان کیا ۔ رسولﷺ اپنے دیگر صحابہؓ کی اس بیماری سے پریشان تھے ۔ جب ابوبکرؓ اور بلالؓ کی یہ حالت سنی تو اللہ سے یہ دعا کی : ‘‘اے اللہ! ہمارے لیے مدینہ کو مکہ کی طرح ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر محبوب بنا دے ،اے اللہ ہماری معیشت میں برکت ڈال ، مدینہ کو ہمارے لیے صحت افزا بنا دے اس کا بخار حجفہ کی طرف منتقل کر دے ۔ ’’ رسول اللہ ﷺ کی دعا قبول ہوئی اور بلالؓ سمیت تمام صحابہ روبصحت ہوئے ان کی طبیعت مدینہ کی نئی آب و ہوا کے موافق ہو گئی اور مدینہ انہیں مکہ کی طرح لگنے لگا ۔

            فجر کی نماز ہو چکی تھی بخار کے بعد صحابہؓ اللہ کے رسولﷺ کے اردگرد بیٹھے تھے کہ کچھ اور صحابہؓ آئے۔ انہیں نماز سے دیر ہو گئی تھی ۔ ان میں سے ایک نے گزارش کی : ‘‘اے اللہ کے رسولﷺّ! ہماری فجر کی نماز جماعت سے رہ گئی ہے ۔ کیا ہمیں نماز کے لیے اکٹھا کرنے کا کوئی طریقہ ہے ۔’’ ان کے اس مطالبے کی کئی دوسرے لوگوں نے بھی حمایت کی کہ نماز کے وقت مقررہ کا عام اعلان ہونا چاہیے تاکہ جماعت سے محرومی نہ ہو ۔ ایک صحابیؓ نے رائے دی : ‘‘ہم نماز کے وقت ایک جھنڈا بلند کر لیا کریں ، اس جھنڈے کو دیکھ کر لوگ سمجھ جائیں گے کہ نماز کا وقت ہو گیا۔’’ یہ رائے زیادہ پسند نہ کی گئی تو دوسری رائے سامنے آئی۔ ‘‘نماز کا وقت بتانے کے لیے اگر اونچی جگہ پر آگ روشن کی جائے تو سب لوگ دیکھ کر آجائیں گے ۔’’ ‘‘یہ مجوسیوں کا طریقہ ہے وہ آگ کی پرستش کرتے تھے ۔’’ اللہ کے رسولﷺ نے یہ رائے پسند نہ کی۔ ‘‘پھر شبور کا طریقہ اپنایا جا سکتا ہے ۔’’ ایک اور رائے سامنے آئی۔ ‘‘یہ یہودیوں کا طریقہ ہے ۔’’ پیغمبرﷺ کا ارشاد ہوا ۔ ‘‘تو پھر ناقوس بجانے کو اختیار کرنا چاہیے۔’’ رسول اللہﷺ کو یہ رائے بھی مناسب نہ لگی کیونکہ عیسائی بھی عبادت کے وقت ناقوس ہی بجاتے تھے ۔ جب کوئی بہتر رائے سامنے نہ آئی تو خیال کیا جانے لگا کہ شاید ناقوس والی ہی تجویز پر عمل ہو گا ، مگر اگلے دن عجیب بات ہو گئی ۔ آپﷺ مسجد نبوی ہی میں بیٹھے تھے کہ ایک انصاری صحابی حضرت عبداللہؓ بن زید آئے اور رسول اللہﷺ سے مخاطب ہوئے : ‘‘اے اللہ کے رسولﷺ ! آج رات میں نے خواب میں ایک شخص کو ناقوس پکڑے دیکھا ۔ میں نے اس سے کہا کہ کیا تم مجھے یہ ناقوس بیچو گے؟ اس نے پوچھا ، تم اس کا کیا کرو گے ؟ میں نے کہا کہ ہم اس کے ذریعے سے لوگوں کو نماز کے لیے بلائیں گے ۔ اس نے کہا کہ کیا میں تمہیں اس سے اچھی چیز نہ بتا دوں؟ میں نے کہا وہ کیا ؟ تب اس نے یہ الفاظ بتائے ۔’’ اس کے بعد حضرت عبداللہؓ بن زید نے اذان کے وہ کلمات بتائے جو ہر نماز سے پہلے مسجدوں سے گونجتے ہیں ان الفاظ کو سن کر رسول اللہﷺ بہت خوش ہوئے آپ کا چہرہ انور دمک اٹھا ۔ آپؐ نے اسی وقت حضرت بلالؓ کو حکم دیا : ‘‘اے بلالؓ! کھڑے ہو جاؤ اور اس خواب کو سچا کر دکھاؤ اور عبداللہؓ آپ ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں، یہ کلمات آہستہ آہستہ کہتے جائیں اور یہ انہیں بلند آواز سے دہراتے جائیں گے ۔ انسان کو بلانے کے لیے اس کائنات میں پہلی بار توحید کا یہ شیریں بلاوا حضرت بلالؓ کی بلند اور شیریں آواز سے بلند ہوا تو مدینہ میں ایک سماں بندھ گیا ۔ مدینہ اگرچہ کوئی بڑی بستی نہ تھی مگر بڑی بھی ہوتی تو بلالؓ کی آواز پھر بھی پہنچ جاتی ۔ اب جب ہر شخص نے یہ اذان سنی تو گھر سے باہر نکل کر مسجد نبوی کا رخ کیا۔ حضرت عمرؓ اذان کی اس آواز کو سن کر مسجد میں آئے اور رسول اللہﷺ کو دیکھتے ہی جوشیلے انداز سے پکارے : ‘‘اے اللہ کے حبیبﷺ ! اس ذات کی قسم جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ، میں نے بھی وہی خواب دیکھا ہے جو عبداللہؓ نے دیکھا ہے ۔’’ اس پر آپﷺ نے فرمایا : ‘‘حمد و ثنا اللہ ہی کے لیے ہے !’’

 ٭٭٭

            مسلمان مدینہ ہجرت کر کے آئے تو اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئے تھے ۔ یہاں ان کے پاس نہ رہنے کو جگہ تھی نہ کمانے کو روزگار ۔ اس صورت حال میں وہ عظیم الشان انتظام کیا گیا جس کو ‘‘مواخات’’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس کے تحت نبی اکرمﷺ نے پچاس کے قریب مہاجر صحابہؓ کو مدینہ کے رہائشی مسلمانوں کا بھائی بنا دیا ۔ اسی وجہ سے اہل مدینہ انصار کہلائے یعنی اللہ کے رسولﷺ اور ان کے صحابہؓ کی مدد کرنے والے ۔ حضرت بلالؓ مدینہ پہنچے تو حضرت سعد ؓ بن خشیمہ کے مہمان رہے ۔ پھر آنحضرتﷺ نے ابوردیجہ عبداللہ ابن عبدالرحمان کا بھائی بنا دیا ۔ دوسرے انصار کی طرح ابو دریجہؓ نے بھی اپنا آدھا گھر اور آدھا مال حضرت بلالؓ کے سپرد کر دیا ۔ لیکن حضرت بلالؓ تنہا تھے اور ابھی ان کا شادی کا بھی کوئی ارادہ نہیں تھا اس لیے وہ اپنے انصاری بھائی ہی کے ہاں کھا پی لیتے ۔ دن اسی طرح گزرنے لگے اور دو سال پر لگا کر گزر گئے ۔ سن دو ہجری میں مسلمانوں پر جہاں روزے فرض ہوئے وہاں انہیں ایک اور اجازت دی گئی…… اس اجازت کا مسلمان عرصے سے خواب دیکھ رہے تھے ۔ یہ اجازت تھی جہاد کی اجازت ۔

            مکہ میں اللہ کے حکم کے مطابق مسلمان کفار سے جنگ نہیں کر سکتے تھے ۔ انہیں اپنے اوپر ہر قسم کا جبر اور ظلم خاموشی کے ساتھ برداشت کرنا تھا تاکہ لوگوں تک اللہ کا پیغام ہر حالت میں پہنچ جائے ۔ مدینہ آنے کے بعد یہاں کے مسلم غیر مسلم ، سبھی لوگوں نے حضور اکرمﷺ کا اپنا حکمران تسلیم کر لیا تھا ۔ لیکن مکہ کے قریش لوگوں کو یہ بتاتے پھرتے تھے کہ یہ مٹھی بھر مسلمان ہمارے باغی ہیں اور ہم بہت جلد انہیں واپس مکہ لے آئیں گے ۔ ان مغرور کافروں کا غرور توڑنے اور ان کے سرغنہ اور کرتا دھرتا سرداروں کا خوف دور کرنے کے لیے اللہ نے مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا تھا ۔ اللہ نے جہاد کا راستہ اس طرح سے ہموار کیا میدان بدر میں مسلمانوں اور کفار کے لشکر آمنے سامنے آگئے ۔ مسلمان مدینہ سے تو کفار کے قافلہ تجارت کی غرض سے نکلے تھے ، لیکن جلد ہی اللہ نے وحی کے ذریعے سے اپنے رسولؐ کو خبر دے دی کہ مسلمانوں کا مقابلہ قافلے سے نہیں بلکہ اس لشکر سے ہو گا جو اس قافلے کو بچانے مکہ سے مدینے کی طرف آرہا ہے ۔ اللہ کی جانب سے رسولﷺ کو یہ بھی خبر بھی دی جا چکی تھی کہ یہ معرکہ حق و باطل کے درمیان کسوٹی بن جائے گا اور اس میں قریش کے سبھی سردار تہ تیغ کر دیے جائیں گے ۔

            حضرت بلالؓ بھی ان تین سو تیرہ مجاہدین میں شامل تھے جو کفار پر ٹوٹ پڑے اور ان کو ملیامیٹ کرنے کے لیے بے چین تھے ۔ حضرت بلالؓ دل ہی دل میں سوچ رہے تھے کہ اس معرکے میں اگر ان کا سامنا امیہ بن خلف سے ہو جائے تو کیسار ہے؟ وہی امیہ بن خلف جس نے ایمان قبول کرنے کے جرم میں ان پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی تھی ۔ حضرت بلالؓ کی خواہش جلد ہی پوری ہو گئی۔ بدر کے میدان میں مقابلہ بہت ہی یک طرفہ ثابت ہوا ۔ ایک ہزار کے مقابلے میں تین سو تیرہ کا لشکر اس قدر بھاری ثابت ہوا کہ دشمن کے بڑے بڑے بہادر گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیے گئے ۔ حضرت حمزہؓ ، حضرت علیؓ، حضرت عمرؓ اور دوسرے کئی بہادروں نے دشمن کو پہلے ہی ہلے میں بھاگ جانے پر مجبور کر دیا ۔ کفار کا سپہ سالار ابوجہل تو کم سن بچوں کی تلواروں کا شکار ہو گیا ۔ عتبہ اور شیبہ کا خون حضرت حمزہؓ کی تلوار نے پی لیا ۔

            حضرت بلالؓ احد کا نعرہ لگاتے ہوئے دشمنوں کا تعاقب کرنے لگے ۔ ان کی نگاہیں اب بھی امیہ بن خلف کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔ جو ابھی تک انہیں کہیں نظر نہیں آیا تھا ۔ امیہ اس وقت بھاگنے والوں میں شریک تھا اور دیوانہ وار بھاگ رہا تھا ۔ اس کی نظر اپنے پرانے دوست عبدالرحمانؓ بن عوف پر پڑی امیہ نے انہیں آواز دی : ‘‘یا عبدعمرو!’’ عبدالرحمان نے پلٹ کر دیکھا مگر پھر آواز کو نظر اندا ز کر دیا ۔ امیہ کو یاد آیا کہ مکہ میں ایک دفعہ دونوں دوستوں میں تکرار ہوئی تھی کہ عبدالرحمان اس بات پر بضد تھے کہ انہیں قبل اسلام کے نام عبدعمرو کے بجائے اسلامی نام عبدالرحمانؓ سے پکارا جائے یا عبدالالہ بلایا جائے ۔ امیہ نے فوراً دوبارہ آواز دی ……‘‘عبدالالہ!’’ اب انہوں نے پلٹ کر جواب دیا ۔ وہ اس وقت کفار کی گری ہوئی زرہیں اور دوسرا سامان غنیمت اکٹھا کر رہے تھے ۔ امیہ بولا : ‘‘میں تمہارے لیے ان زرہوں سے بہتر ہوں جو تم نے اکٹھی کر لی ہیں ۔’’ حضرت عبدالرحمانؓ اس کی بات سمجھ گئے کہ امیہ اپنے آپ کو ان کی قید میں دے رہا ہے اور وہ ایک قیمتی قیدی ثابت ہو سکتا ہے ۔ یہ سوچ کر وہ امیہ کے پاس آئے اور اس کا اور اس کے بیٹے علی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا: ‘‘ٹھیک ہے تم دونوں میرے قیدی ہو ۔’’ حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ اپنے ان قیدیوں کو لے کر آرہے تھے کہ سامنے حضرت بلالؓ آگئے ، حضرت بلالؓ نے یہ منظر دیکھا تو ان کے سر سے پاؤں تک رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔ وہ فورا چیخے ! ‘‘کفار کا سردار …… امیہ بن خلف! خدا کی قسم اگر یہ بچ گیا تو پھر میری موت ہی ہے !’’ اتنا کہہ کر انہوں نے اپنی تلوار سیدھی کی اور اس کی طرف لپکے ۔ یہ منظر دیکھ کر عبدالرحمانؓ بولے : ‘‘بلالؓ یہ میرے قیدی ہیں ۔ انہیں چھوڑ دیں !’’ حضرت بلالؓ نے سپاٹ لہجے میں کہا ‘‘اگر یہ دونوں ظالم بچ گئے تو پھر میں نہیں بچوں گا۔’’ ‘‘تم ہوش میں ہو بلالؓ؟’’ حضرت بلالؓ نہ جانے کس کیفیت میں تھے پھر بولے :‘‘ اگر یہ دونوں بچ گئے تو پھر میں نہیں بچوں گا۔’’ یہ کہہ کر وہ لپک کر آگے بڑھے اور امیہ پر بھرپور وار کیا ، لیکن عبدالرحمانؓ نے امیہ کو دھکا دیکر ایک طرف کر کے حضرت بلالؓ کا وار خالی کر دیا ۔ حضرت بلالؓ پھر پلٹ کر آئے اور عبدالرحمانؓ کے منع کرنے کے باوجود دوبارہ وار کیا ۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ آج کے دن قریش کے سرداروں کی موت کا دن ہے اور امیہ قریش کے بڑے سرداروں میں سے ہے ۔ اس لیے انہیں حضرت عبدالرحمانؓ کی ناراضی کی کوئی پروا نہ تھی بلکہ حضرت بلالؓ کو یقین تھا کہ امیہ کو جہنم رسید کرنے پر انہیں رسول اللہﷺ سے شاباش ملے گی ۔ اس مرتبہ بھی جب حضرت بلالؓ کا وار خالی گیا تو وہ سمجھ گئے کہ ان کافروں کو حضرت عبدالرحمانؓ کی موجودگی میں قابو نہیں کر سکیں گے ۔ انہوں نے فورا آواز لگائی : ‘‘اے اللہ کے انصار …… امیہ بن خلف ، سردار کفر ادھر ہے ۔ آج یہ بچ نکلا تو میں اللہ کے غضب سے نہ بچ سکوں گا!’’ حضرت بلالؓ کی یہ للکار سن کر کئی

 انصار بہادر وہاں آگئے ۔ انہوں نے آتے ہی انہیں گھیرے میں لے لیا ۔ حضرت عبدالرحمانؓ نے پھر کہا کہ یہ ان کاقیدی ہے مگر انصار کے مجاہدوں نے کہا : ‘‘ہمیں قریش کے سرداروں کو قید کرنے کا نہیں مارنے کا حکم ہے !’’ مگر حضرت عبدالرحمانؓ کو اپنی زبان کا پاس تھا ۔ انہوں نے اپنی قیدیوں کو بیٹھنے کا حکم دیا اور خود ان کے اوپر لیٹ گئے مگر حضرت بلالؓ نے انصاری سے نیزہ لیا اور موقع پا کر اس کا جسم زخمی کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ امیہ کا بیٹا تڑپ کر حضرت عبدالرحمانؓ کی اوٹ سے باہر نکلا تو ایک انصاری نے بجلی کی سی تیزی سے امیہ کے بیٹے پر ایسا وار کیا کہ وہ خون میں لت پت ہو کر زمین پر آرہا ۔ امیہ نے واویلا مچایا ‘‘ہائے میرا بیٹا…… ہائے میرا بیٹا!’’ حضرت عبدالرحمانؓ نے کہا : ‘‘اب تم اپنے آپ کو بچاؤ اللہ کی قسم اب میں تمہارے لیے کچھ نہیں کرسکتا ۔’’ یہ سن کر امیہ فورا ان کی اوٹ سے نکلا اور بھاگ اٹھا ۔ حضرت بلالؓ اس کا تعاقب کیوں نہ کرتے فوراً اس موذی کے پیچھے لپکے ان کے ہاتھ میں نیزہ تھا ۔ اپنے غلام کے ہر ہر عضو پر ملکیت جتانے والا، اسے تکلیف سے تڑپتا دیکھ کر لطف اٹھانے والا ،اس کے جھکے چہرے پر بے رحمی سے تھپڑ مارنے والا خود دار اور مغرور سردار اب آگے بھاگ رہا تھا ۔ اپنی جان بچا رہا تھا اور حضرت بلالؓ ا سکے لیے موت کا پیغام بن کر ہر لمحے اس کے قریب سے قریب تر ہو رہے تھے ۔ جب فاصلہ خاصا کم رہ گیا تو حضرت بلالؓ نے ہاتھ میں پکڑا نیزہ سیدھا کیا اور دشمن دین کی طرف پوری قوت سے پھینکا ۔ نیزہ امیہ کی کمر میں گڑ گیا اور وہ منہ کے بل زمین پر گر پڑا ۔ انصاری مجاہد بھی اس دوران میں حضرت بلالؓ کے پیچھے تھے ۔ وہ بھی آن پہنچے اور امیہ کو جہنم واصل کر دیا ۔ عبدالرحمان ؓ بھی وہاں پہنچ گئے اور بولے : ‘‘اے بلالؓ! تم نے میرے قیدیوں کے معاملے میں میرا دل دکھایا ہے ۔’’ حضرت بلالؓ نے غضب ناک نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا : ‘‘عبدالرحمانؓ ، خدا تمہیں اس کا بہترین اجر دے گا۔’’

            معرکہ بدر اپنے انجام کو پہنچا اور مسلمانوں کی جرأت بہادری اور طاقت کا چرچا پورے عرب میں پھیل گیا۔ اس غزوہ سے مسلمانوں کو خاطر خواہ مال غنیمت حاصل ہوا اور اس کے بارے میں اللہ کا حکم یہ آیا کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے رشتہ داروں ، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے ۔ مال غنیمت کا پانچواں حصہ نکال کر بقایا مجاہدوں میں بانٹ دیا گیا ۔ پانچویں حصے یعنی خمس کے محافظ حضرت بلالؓ مقرر ہوئے ۔ انہیں آپﷺ نے حکم دیا کہ سارا مال حق داروں میں تقسیم کر دیں ۔ حضرت بلالؓ نے ایسا ہی کیا ۔ ایک دن رسول خداﷺ نے سامان خمس کے متعلق پوچھا تو حضرت بلالؓ نے کہا کہ میں نے ایک بوری کھجوروں کی مہمانوں کے لیے رکھی ہے ۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا : ‘‘بلالؓ جہنم کی آگ سے ڈرو مال خرچ کرتے رہو ۔ عرش والے سے کبھی کمی کااندیشہ نہ رکھا کرو ۔’’ حضرت بلالؓ نے نبیؐ کا یہ فرمان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پلے باندھ لیا ۔

            مدینہ کا ایک یہودی اپنے گھر کی چھت پر کھڑا سورج ڈوبنے کا منظر دیکھ رہا تھا ۔ پرندوں کی قطاریں شام کو اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہی تھیں ان کی چہچہاہٹ اسے بڑی بھلی لگ رہی تھی ۔ دور افق میں سورج کسی سرخ ٹکیا کی مانند غروب ہو رہا تھا آخر سورج غروب ہو گیا ، پرندوں کے نغمے مدھم پڑتے پڑتے آخر معدوم ہو گئے اور فضا میں ایک شیریں اور بارعب آواز بلند ہوئی ۔ ‘‘اللہ اکبر …… اللہ اکبر!’’ یہودی کے کانوں سے یہ آواز سفر کرتی ہوئی اس کے دل تک جا پہنچی اسے یوں لگا جیسے یہ آواز اس کے جسم کے ہر رونگٹے میں پہنچ گئی ہے ۔ اس یہودی کی عجیب کیفیت تھی حضرت بلالؓ کی آواز سے اس کے بدن مین سنسنی دوڑ رہی تھی مگر اس کا مذہبی تعصب اسے یہ آواز نہ سننے کا مشور ہ دے رہا تھا مگر اس نے اپنے آپ کو اس مشورے پر عمل نہ کرنے پر مجبور پایا ۔ لاکھ کوشش اور ارادے کے باوجود بھی وہ حضرت بلالؓ کی آواز سے اپنے کان بند کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا ۔ اس نے پوری اذان سنی ۔ اذان پوری ہوئی تو وہ بڑبڑایا ، اپنے آپ سے جھگڑا: ‘‘مجھے یہ آواز نہیں سننی چاہیے ۔ یہ آواز جادوئی ہے ایک طلسم ہے اس میں یہ مجھے فتنے میں ڈال دیتی ہے ۔’’ مگر وہ پھر اپنے آپٍ سے کہتا کہ وہ ہردفعہ اذان سننے کے بعد یہی کچھ سوچتا اور اپنے آپ سے یہی کچھ کہتا ہے ، مگر آج اس کے اندر کا رد عمل پہلے سے بہت مضبوط تھا وہ ایسے طریقے سوچنے لگا کہ جو اس آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دے ۔ سوچ سوچ کر اس کے شیطانی ذہن میں ایک منصوبہ آہی گیا ۔ اسے یقین تھا کہ وہ اپنے منصوبے میں یقینا کامیاب ہو گا ۔ حالات اس کی کامیابی کے لیے بڑے سازگار تھے۔ ( جاری ہے )