دنیا میں غریب اور امیر کے درمیان اتنا فرق کیوں ہے، غریب خاندان کو رہنے کو گھر، پیٹ بھر کرروٹی، گوشت، دودھ، پھل ، سبزی کیوں نہیں ملتا، غریب کے بچوں کو تعلیم کی سہولتیں کیوں میسر نہیں،غریبوں پر بیماریوں کے حملے کیوں زیادہ ہوتے ہیں، غریب بیمار ہو جائے تو ہسپتال کا علاج کیوں میسر نہیں آتا؟ غریب کے مقابلے میں امیر کے پاس خوراک کی فراوانی ہوتی ہے، قسم قسم کی خوراک زیادہ سے زیادہ مقدار میں مہیا ہوتی ہیں۔ امیر کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی پانچ پانچ ہزار فیس دے کر پرائیویٹ سکول میں جاتے ہیں، علاج کیلئے امیر لوگوں بآسانی برطانیہ اور امریکہ جا سکتے ہیں ، امیر لوگ بڑی بڑی موٹروں میں ٹھنڈے سفر اورہوائی جہازوں میں آنے جانے کا خرچ برداشت کر سکتے ہیں جبکہ غریب پیدل یا سائیکل پر انحصار کرتے ہیں۔ امیر لوگوں کے گھروں میں چھوٹے سے چھوٹے خاندان کے لیے پانچ سات کمرے ہوتے ہیں جبکہ غریب گھروں میں ایک دو کوٹھوں میں آٹھ دس افراد زندگی گزارتے ہیں۔ جس طرح غریب اور امیر کے درمیان معیار زندگی کا بہت بڑ ا فرق ہے ۔ اسی طرح غریب اور امیر ملکوں کے درمیان بھی معیار زندگی کا انتہا سے زیادہ فرق کیوں ہے؟ دنیا کی غریب اور امیر آبادی کے درمیان فرق محض رہن سہن، کھانے اور پینے اور عیش وآرام میں نہیں ہے بلکہ اس فرق کی نوعیت سیاسی اور ثقافتی بھی ہے۔ حکم امیر کا ہی ہوتا ہے ۔ حکومتیں امیر کی بات ہی سنتی ہیں امیر لوگ ہی الیکشن لڑ سکتے ہیں۔ الیکشن میں جیتنے کے بعد امیر لوگ ہی قوانین بناتے ہیں۔ یہی وزیر بنتے ہیں اور انہی کے عزیزواقارب بڑے افسر ہوتے ہیں ۔ اخبارات میں انہی کی خبروں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ امیر لوگ ہی نئے نئے فیشن ایجاد کرتے ہیں اور طرح طرح کے کپڑے پہنتے ہیں اور غریب،امیر لوگوں کے فیشنوں کی نقل کرتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر امیر لوگوں کے سجے ہوئے کمروں ان کی بڑی بڑی موٹروں اور دیگر قیمتی سامان کودکھایا جاتا ہے اور پیغا م دیا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے عالی قدر پیسہ کمانا ہے۔ جس کے پاس پیسہ نہیں ہے وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ پیسے والا عظیم اور کبیر ہے جبکہ غریب حقیر اور نہ ہونے کے برابر ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غریب اور امیر میں اتنا فرق کیوں ہے، کیا دونوں انسان نہیں ہیں، کیا دونوں کی رگوں میں دوڑتا ہوا خون انسانی خون نہیں ہے، امیر کے گھر اور غریب کے گھر پیدا ہونے والے بچوں میں فرق کیوں ہے، غریب کے بچوں کو خوراک، تعلیم، علاج معالجہ اور رو زگار کیوں نہیں ملتا؟غریب ملک غریب تر اور امیر ملک امیر تر کس طرح ہوئے ہیں؟
اس معاشی کہانی کا اہم کردار سامرا جی نظام کی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں جن کا پوری دنیا کی توانائی کے ذخائریعنی تیل ،گیس اور کوئلہ پر قبضہ ہے۔ جو پوری دنیا کے مالیات کو کنٹرول کرتی ہیں۔ جن کے ہاتھ میں موٹر بنانے، ہوائی جہاز چلانے ، ریڈیو، ٹیلی ویژن، ٹیلی فون، تار اور دوسرے مواصلاتی سیاروں کے نظام ہیں۔ یہ اتنی مضبوط اور طاقتور ہو گئی ہیں کہ ان کے مقابلے میں حکومتیں اپنے آپ کو کمزور پاتی ہیں۔ یہ ایک بے لگام گھوڑا ہے جو سر پٹ دوڑے جار ہا ہے اس پر کسی کا بھی کنٹرو ل نہیں ہے۔ ان کے چیف ایگزیکٹو لاکھوں ڈالر ماہوار تنخواہ لیتے ہیں اور ان کی نوکری کا انحصار نفع کمانے پر ہوتا ہے۔ گزشتہ 20 سال سے نفع کماتے کماتے ان کے پاس اتنا سرمایہ جمع ہو گیا ہے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کا کیا کریں۔ اس کے لیے سرمایہ کاری کی مہمات چلائی ہوئی ہیں اور غریب ملکوں سے کہا جار ہا ہے کہ سرمایہ کاری یعنی ان کے منافع کیلئے فضاپیدا کریں یعنی انہیں رعائتیں دیں۔ امیر ملکوں کی حکومتیں ان کی ایجنٹ بن گئی ہیں۔ غریب ملکوں پر آئی ایم ایف، ورلڈ بنک، ڈبلیو ٹی او اور دوسرے اداروں کی تلواریں لٹکا دی ہیں اورغریب ملکوں کی حکومتوں کا حال ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے مریضوں جیسا کر دیا ہے۔
ملٹی نیشنل کارپوریشنیں کس طریقہ سے غریب کو غریب اور امیر کو امیر تر بناتی ہیں یہ گہری چالوں پر مشتمل کہانی ہے۔ یہ صدیوں کی غلامی اور محکومی کی داستان ہے اس کی جڑیں ان یورپی بحری قزاقوں کی لوٹ کھسوٹ سے ہوتی ہوئی تجارتی کمپنیوں کے نو آبادیاتی نظام اور آج کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے جدید طرز کے نو آبادیاتی نظام تک پھیلی ہوئی ہیں ۔پیسے کے ان پجاریوں کے مذہب میں لالچ، طمع، قتل وغارت، غنڈہ گردی، مذہب گردی، فوج کشی، مکاری، عیاری، ڈھٹائی، اخلاق باختگی، بددیانتی، مفت خوری، دوسروں کے خون پرجونکوں کی طرح پلنا خواہ آزاد معیشت ہو یا نیم منصوبہ بند معیشت سبھی کچھ جائز ہے۔ صرف ہمارے ہاں نہیں ہر جگہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بارے میں دو آراء ہیں ایک یہ کہ یہ خوش حالی کی نوید ہیں ان کے آنے سے سرمایہ کاری ہو گی اور دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی اور دوسری رائے یہ کہ یہ نہ صرف مقامی معیشت بلکہ تھوڑی بہت اقتصادی وسیاسی آزادی کو بھی چٹ کر جائیں گی زیادہ تر ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسے شعبوں میں کام کرتی ہیں جو کہ کثرت سے ٹیکنالوجی کی تبدیلی کرتے ہیں ۔ ان شعبوں میں کمپیوٹر، ادویات اور الیکٹرونکس کی اشیاء کی تیاری شامل ہے۔ ہر شعبے کی کمپنی اپنے آبائی ملک میں ایک بڑی ریسرچ آرگنائزیشن رکھتی ہے ، یہاں کمپنی کئی اشیاء ایجاد کرتی ہے اور اس کی تیاری کا طریقہ بناتی ہے۔ پھر یہ غیر ملکوں میں اپنے پلانٹ لگانے کے بجائے اس کی تیاری کے لیئے دوسری کمپنیوں کو اجازت نامے دیتی ہیں۔ کوئی کمپنی ایک ملک میں کچھ پلانٹ پر اشیاء کی تیاری کر سکتی ہے اور اس کو دوسرے بہت سے ملکوں میں فروخت کر سکتی ہے ۔ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنی کے مختلف ملکوں میں پلانٹ مختلف پارٹس تیار کرتے ہوں۔ اس عمل کو بسا اوقات گلوبل انٹیگریشن (Global Integration) کہا جاتا ہے جو کہ بہت سے ملکوں کو معاشی فائدے دیتا ہے اس سے ملٹی نیشنل کمپنی کو موقع ملتا ہے کہ وہ ایک بڑے خطے سے معاشی فوائد کے حامل علاقے چنے اور وہاں پلانٹ لگائے۔ کسی بھی طرح کے انتشار کو (WTO) ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے تناظر سے دیکھا جائے تو یہ بات کسی حد تک درست ثابت ہوگئی کہ WTO غریب اور پسماندہ ممالک کے لوگوں کے اعصاب پر بھوت پر یت کی طرح سوار ہے۔ WTO غریب ملکوں کے لیے خوشی کی نویدہے یا سرمایہ درانہ نظام کی کوئی نئی شعبدہ بازی؟WTO سرمایہ دار ملکوں کی نمائند ہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے فلسفے اور آزاد معیشت کا علمبردار ایک معاہدہ ہے جو کہ ہر طرح سے ترقی یافتہ ممالک کی تجارت کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور غریب ملکوں سے تمام حقوق چھین لیتا ہے کہ مبادا اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں۔
ہم اکثر سنتے ہیں کہ فلاں ملٹی نیشنل کمپنی ہمارے ملک میں اتنی سرمایہ کار ی کر رہی ہے اور ساتھ ہی دودھ کی نہر یں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ٹھوس اعدادوشمار بڑے واضح طور پر بتاتے ہیں کہ یہ سرمایہ کاری کی عیاری محض غریب ملکوں کو جھانسہ دینے کیلئے ہے اور سرمایہ کاری کا تناسب عالمی سطح پر بڑا ہموار ہے۔ زیادہ تر غیر ملکی سرمایہ کاری FDI (Foreign Direct Investment) ترقی یافتہ ملکوں کے درمیان ہی محدود ہے یا پھر چند تیز ترقی کرتے ہوئے ترقی پذیر ممالک اس نعمت سے بہرہ مند ہیں ‘‘ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا’’ کے مصداق غیر ملکی سرمایہ کاری کا فسوں غریب ملکوں کی حکومتوں کے خوابوں ہی میں ہے۔ آج ہماری دنیا کا سب سے بڑا بحران خوراک کا بحران ہے۔ سائنس کے کارنامے اور کرشمے سن سن کر کان پک جاتے ہیں لیکن انسان ابھی تک اپنا انتہائی بنیادی مسئلہ، یعنی خوراک کا مسئلہ بھی حل نہیں کر سکا سائنس اور ٹیکنالوجی نے جتنی ترقی کر لی ہے اس میں تو حضرت انسان کو اتنا سیر شکم ہو جانا چاہیے کہ وہ اپنے تمام تر تفکر اور تدبیر کا رخ کائنات کی وسعتوں کو کھنگالنے میں صرف کر دے اور اس کی زد میں خلد اور ماورائے خلد ہو لیکن افسوس کی بات نہیں کہ دنیا کی ایک کثیر آبادی اپنی تمام تر صلاحیتوں کو محض اور محض روٹی کے چند نوالوں کے حصول کے لیے ہی صر ف کر ڈالتی ہے دنیا میں 1.6 بلین افراد بھوکے ہیں تو اس میں قصور سائنس کا نہیں بلکہ ان ہاتھوں کا ہے جن کے قبضے میں یہ سائنس اور ٹیکنالوجی ہے۔ دنیا کی خوراک پر چند ملٹی نیشنل کمپنیوں نے قبضہ جمایا ہوا ہے۔
شیل (Shell) (دنیا میں سب سے زیادہ تیل اور گیس پید اکرنے والی کمپنی) دنیا کے 128 ملکوں میں 1500 کے قریب اپنی ذیلی کمپنیوں کے ساتھ کام کررہی ہے۔ امریکہ، نارتھ سی(North Sea) ، نائیجریا سمیت دنیا کے مزید25 ممالک میں مکمل طور پر معاشی بالا دستی کی حامل اس کمپنی نے1994 میں 131 بلین ڈالر کمائے جو کہ 23 ممالک کے علاوہ دنیا کے سبھی ممالک کی قومی پیداوار سے زیادہ ہے۔
آج پاکستان میں لیور برادرز کے نام سے کون واقف نہیں بہت سال پہلے افریقہ پا م آئل وغیرہ میں خود کفیل تھا اوریہ تیل سٹیرین(Sterin) دیتے تھے۔ جو کہ صابن بنانے کے کام آتا ہے ایسے میں یہ ویلم ایچ لیور کی نظر سے کیسے بچ سکتا تھا ۔لہٰذا صابن سن لائٹSunlight افریقی عوام اور وسائل کے استحصال کے ذریعے بنایا جانے لگا۔ یہ شروعات تھیں لالچ کے پیر آگے بڑھے اور 1911 ء میں لیور صاحب نے 1750,000 ایکڑ زمین بھی حاصل کر لی تاکہ وہاں پر تیل والی اجناس اگائی جا سکیں۔ بزنس شروع ہونے کے 20 سال بعد ہی لیور سوئٹزر لینڈ، بیلجیئم، جرمنی، امریکہ، کینیڈا اور جنوبی افریقہ میں فیکٹریا ں لگا رہا تھا اور صابن کی مانگ بڑھتی جارہی تھی۔ لیور برادر ز یونائیٹڈ افریقی کمپنی UAC اور دوسرے بہت سے کاروبار رکھتے ہیں ہر ملٹی نیشنل کمپنی اور کاروبار کی طرح لیور برادرز کی طاقت کا راز بھی عوام اور مزدوروں کا استحصال تھا۔ یعنی افریقی عوام کو پا م آئل کی تھوڑی سے قیمت دینا اور اسی تیل کو یورپ میں مہنگے داموں فروخت کرنا۔ صابن ہی کے فاضل مادوں کا استعمال کر کے یونی لیور نے اپنی مصنوعات کا دائرہ بڑھا لیا اور شیمپو، ٹوتھ پیسٹ، شیونگ کریم، کاسمیٹیکس، پرفیومز اور گلیسرین جیسی مصنوعات منڈی میں فروخت کرنا شروع کردیں۔ آج یونی لیور خوراک اور گھریلو استعمال کی اشیاء کی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے اور دنیا کے دو تہائی لوگوں میں مقبول عام اشیاء کی فروخت کر رہے ہیں۔ پرسل، جف ، اومو، پیپسوڈنٹ، سگنل، پونڈز، ویسلین، کیلون کلین، برڈز آئی، بیچلرز، والز، آکسو، بروک بانڈ، لیپٹن، بروٹ ، ٹیموٹی، لکس اور بہت سی دوسری مصنوعات ہیں جو کہ پوری منڈی پر اجارہ داری قائم کئے ہوئے ہیں۔ تقریباً ہزار کے قریب برانڈ جو کہ مارکیٹ میں سب سے بڑے برانڈ ہیں یونی لیور ہی کے ہیں۔ یونی لیور ہمیشہ دنیا کی بڑی کمپنیوں میں شامل رہی ہے ۔ 1990 ء میں غیر ملکی اثاثوں کے حوالے سے جب ملٹی نیشنل کمپنیوں کی درجہ بندی کی گئی تو یونی لیور اس حوالے سے گیارہویں نمبر پر تھی۔ یہ یورپ کی چوتھی بڑی ملٹی نیشنل کمپنی ہے۔ نفعوں اور فروخت کے حوالے سے یہ ہمیشہ دنیا کی 20 بڑی کمپنیوں میں شامل رہی ہے۔ اپنی حریف کمپنیوں پراکٹر اینڈ گیمبل (Proctor and Gamble) مارس (Mars) نیسلے (Nestle) سے مقابلے کے لیے یہ کمپنی بڑی سکیمیں نکالتی ہے جو کہ Agressive Marketing یعنی جارحانہ فروخت کے زمرے میں آتی ہیں اور اسی عمل میں تمام چھوٹی کمپنیاں یونی لیور کے ساتھ مقابلے میں فارغ ہوتی چلی جاتی ہیں ۔ اتنی بڑی کمپنی کا نام سن کر آپ کو یہ گمان ہو سکتا ہے کہ شاید تیسری دنیا کے ممالک میں یہ مزدوروں کو تنخواہیں بھی اچھی دیتی ہو گئی ، تو یہ سراسر غلط ہے۔ اس کی ہندوستان کی شاخ ہندوستان لیور، اپنے کارکنوں کو محض 30 سے pence60 فی یوم دیتی ہے۔
1994 ء میں آئی سی آئی 66,000 افردی قوت، 8000 مختلف مصنوعات اور ان مصنوعات کی تیاری کی 200 جگہیں دنیا کے 30 ممالک میں رکھتی تھی۔ آئی سی آئی برطانوی فلیگ شپ (Flagship) والی کیمیکل کمپنی ہے۔ رنگ (Paints) کے میدان میں آئی سی آئی کی ایک بڑی اجارہ داری ہے اور یہ عمارتی تزئین و آرائش، گاڑیوں اور ڈبوں وغیرہ کے رنگوں کی پیداوار میں اجارہ داری رکھتی ہے۔ کیمیکلز بالخصوص آیکری لکس (Acrylics) ، فلمز’پولی یوروتھین’(Polyeurathanes) وغیرہ میں آئی سی آئی نے اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔دھماکہ خیز مواد بنانے میں بھی آئی سی آئی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے جو کہ کان کنی وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے۔ کیمیائی مادے اور پولیمر ز بنیادی طور پر پیٹر و کیمیکلز کی صنعت سے منسلک ہیں اور آئی سی آئی پیٹرو کیمیکلز بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ ولٹن کے مقام پر، ایک جوائنٹ وینچر میں جو کہ پیٹرو کیمیکلز بناتا ہے۔اس کام کے علاوہ آئی سی آئی زینیکا (Zeneca) کے نام سے فارماسیوٹیکل کا کاروبار بھی کرتی ہے۔ ساری ملٹی نیشنل کمپنیوں کا گہرا تعلق بینکوں سے ہوتا ہے اسی لیے آئی سی آئی کے بھی برطانیہ کے چاربڑے بینکوں سے قریبی کاروباری تعلقات ہیں۔
گلیکسو ویلکم نہ صرف برطانیہ بلکہ دنیا کی سب سے بڑی فارما سیوٹیکل کمپنی ہے۔ اس کمپنی نے 1994 ء میں 60,000 کی افرادی قوت کے ساتھ 8.25 بلین پاؤنڈ منافع کمایا جو کہ اس کے قریبی ترین حریف مرک(Merk) سے 40 فی صد زیادہ ہے۔گلیکسوویلکم ادویات کی دنیا میں سب سے بڑی استحصالی اجارہ دارہے۔ اس کی ادویات وینٹولن(Ventolin)، بیکو نیز(Beconase)،Becotide (بیکوٹائیڈ)Retrovir (ریٹروور۔ ایڈز کی دوا ہے)’ Zofran (ذوفران۔نوزیاNausea کے علاج کے لیے دوا ہے)، migran (امیگران) Lamictal لیمیٹال ہیں۔ اس کے علاوہ بھی یہ کمپنی بہت سی ادویات بناتی ہے۔
ماضی میں جب یورپی سرمایہ داری افریقہ کی اقوام پر حملہ آور ہوئی تو اسے تین قسم کے رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔پہلا رد عمل روایتی قوم پرست اور بنیاد پرست تھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ جدیدیت سے دورر ہو اورا سے یکسر مسترد کر دو۔ یورپیوں کا حملہ انہوں نے اپنے عقائد پر حملہ تصورکیا۔ یہ رد عمل سنٹرل ایشیاء کی ملا بطروش اور ملا کاظم کی تحریکوں اور برصغیر میں سید احمد شہید کی شکل میں نظر آتا ہے، یہ رد عمل ناکام رہا کیونکہ یہ ان قوتوں کی مادی ارتقائی حیثیت کا تعین نہ کر سکا اور وقت کے دھارے کے آگے کھڑا ہوگیا۔ وقت سے آگے سوچنے کی بجائے اس نے چودہ سوسال پیچھے بھاگ کر پناہ حاصل کی۔ یہی رد عمل آج ہمیں طالبان اور ایران کی شکل میں جدید سرمایہ داری کے مقابل نظر آتا ہے یہ یقینا تاریخ کا پہیہ الٹا گھمانے کی کوشش ہے جو ناکام ہو گی۔ دوسرا رد عمل جدیدیت کو قبول کر لینے کا تھا۔ کما ل اتاترک اور رضا شا ہ اس کی مثالیں ہیں۔ ان لوگوں نے سرمایہ داری کی ہر چیز کو دامے درمے سخنے قبول کر لیا اور انگریزوں کی طرح رہنے اور بولنے کو ہی ترقی سمجھ بیٹھے۔ یہ سمجھے کہ شاید نام نہاد شخصی آزادی، جمہوریت اور سیکولر ازم ہی یورپ کی ترقی کی وجوہات ہیں اور یورپی سامراج کی ترقی میں شامل اربوں انسانوں کے استحصال کو نہ دیکھ سکے۔ آج یہ رد عمل ناکام نظر آتا ہے۔ رضا شاہ کے ایران اور اتاترک کے ترکی میں بنیاد پرستی عروج پر ہے۔ یہ لوگ نہ تو قوم کو سیکولر کر سکے اور نہ ہی معاشی بنیاد فراہم کر سکے جو کہ ان قوموں کو دنیا کی قوموں کے سامنے سرخرو کر سکتی تھی ۔ تیسری قسم کا رد عمل ہمیں ماؤازم کی شکل میں نظر آتا ہے ،یہ انقلابی او ر قومی رد عمل ہے۔ اس نے جدیدیت کے اطلاق کے لیے عوامی قوتوں کو پکارا مگر سرمایہ داری کا راستہ بھی چھوڑدیا۔ یہی راستہ بعد میں کوریا اور ویت نام نے بھی اختیار کیا۔آج جب کہ عالمی سامراج ملٹی نیشنل کمپنیوں کی شکل میں اپنی تجارت اور سرمایہ کاری کے ذریعے ایک نئے نو آبادیاتی نظام کے ساتھ حملہ آور ہو رہا ہے تو ہمارے پاس ان تینوں اقسام میں سے کسی ایک رد عمل کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پاکستان پر اثرات بھی اسی طرح ہیں جس طرح ہر تیسری دنیا کے ملک پر ہو رہے ہیں۔ پاکستان ایک سامراج گزیدہ ملک تھا او رتقسیم ہند کے وقت پاکستان کے پاس سامراجی نو آبادیاتی دور کا ریاستی ڈھانچہ تھا ، جاگیر دار تھے اور اکادکا سرمایہ دار تھے جو کہ بنیادی طور پر تاجر تھے۔ ایسے میں اس ملک کو نئے سامراجی آقا کی‘‘ حفظ وامان’’ قبول کرنے میں کچھ بھی مانع نہ تھا۔ انہی حالات میں لیو ربر ادرز (یونی لیور) ، آئی سی آئی ، گلیکسو ویلکم ، سمتھ کلائن بیکام، شیل ، میکڈونلڈ، ڈیوو، سوزوکی، سیمنز، ٹویوٹا، ہنڈا، ڈوپونٹ (Du Pont) ، کارگل ،سٹی بینک، کوکا کولا، پیپسی کولا، سیون اپ، آئی بی ایم، مائیکروسافٹ، فلپس، کیٹر پلر، ریکٹ اینڈ کولمن، فورڈ ، مونسانٹو اور ہو ئیسکسٹ وغیرہ نے اپنے راستہ بنا یا۔ وطن عزیز جب معرض وجود میں آیا تو اس وقت سرمایہ دارانہ اور مزدور طبقہ انتہائی کم تھا۔ بیورو کریٹ کیپیٹل، جاگیردار، کسان اور ترقی پسند ہی وہ طبقات تھے جو کوئی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں تھے۔ ان میں سے بیوروکریٹ کیپیٹل وہ طبقہ تھا جو کہ ریلوے اور نطم و نسق کے لیے انگریز نے پیدا کیا تھا۔ جاگیر دار طبقہ وہ تھا جس نے انگریزوں سے وفاداری کے عوض جاگیریں حاصل کی تھیں۔
1947 ء میں پاکستان کی معیشت محض بیورو کریٹس یعنی سول وملٹری افسر شاہی اور جاگیر داروں پر مشتمل تھی۔ اس طبقے نے دینا تو سیکھا نہیں تھا محض لینے کا گرجا نتے تھے۔ اسی لیے1947 ء کا بجٹ15کروڑ روپے پر مشتمل تھا جبکہ حکومت کو 8کروڑ روپے حبیب بینک سے تنخواہوں کے لیے قرض لینے پڑے تھے۔ اس دور میں عالمی سامراج کے پیچھے ہٹنے کا فائدہ اٹھا کر متحدہ ہندوستان کی مسلمان تاجر کلاس تیزی سے پاکستان کا رخ کرتی ہے اس وقت پاکستان میں صرف 159کمپنیاں تھیں۔ وسط ہند کی ایک مسلمان تاجر کلاس، جس میں داؤد آدم جی، ہارون ، احمد داؤد، سیگل، حبیب اینڈ سنز وغیرہ شامل تھے پاکستان کی تحریک کی قدرے پشت پناہی کرتے رہے کیونکہ یہ طبقہ بشمول مسلمانوں کا پڑھا لکھا طبقہ جو کہ بیوروکریٹ کیپیٹل کا حصہ تھا۔ سرداؤد آدم جی نے پاکستان مسلم لیگ میں برلا جیسا کردار ادا کیا۔ ہارون ہاؤس سندھ میں تحریک پاکستان کا مرکز تھا ۔ ان لوگوں نے نوزائیدہ پاکستان کا رخ اس طرح کیا جس طرح انگریزوں نے سونے کی دریافت کے بعد امریکہ کا رخ کیا تھا۔ قائد اعظم نے سیگلوں کی ٹیکسٹائل مل جو کہ کلکتہ میں لگنی تھی اسے فیصل آباد میں کوہ نور ٹیکسٹائل کے نام سے شفٹ کروا دیا۔ احمد کریم باوانی نے 1950 ء میں اقوام متحدہ جانے والے پہلے پاکستانی وفد کو مالی مدد فراہم کی تھی۔ یوں یہ چھوٹا سا سرمایہ دار طبقہ پاکستان میں اپنے کاروباری مفادات کے لیے جڑ پکڑ گیا۔ تمام کاروباری ذرائع اور مواقع پر قابو پانا اس طبقے کیلئے چنداں مشکل نہ تھا۔ لہٰذا1959 ء تک سٹیٹ بینک آف پاکستان کی کریڈٹ انکوائری نے بتایا کہ 222 افراد دو تہائی قرض کی سہولتوں کو استعمال کر جاتے ہیں۔ گویا تمام تر ارتکاز زر چند ہاتھوں میں تھا۔ 1959 ء سے1968 ء تک کے دور میں بڑی آسانی سے 22 خاندانوں نے 66 فی صد صنعتی اثاثوں، 70 فی صد انشورنس اور 80 فی صد بینکنگ پر قبضہ کر لیاتھا۔ اب اس دور یعنی 1947 ء سے1971 ء کے دوران میں 22 خاندانوں کی معاشی کلاس بن رہی تھی مگر ساری سیاسی طاقت بیورو کریٹ کیپیٹل(سول وملٹری بیوروکریسی) اور جاگیر داروں کے قبضے میں تھی ۔ محنت کش تحریک تیزی سے پھیل رہی تھی اس تحریک پر پہلا حملہ پنڈی سازش کیس کے نام پر ہوا اور تحریک کی کمر توڑنے کی کوشش کی گئی۔ مگر جیسے جیسے سرمایہ دارطبقہ بڑھتا گیا مزدور طبقہ اور اس کے اقتدار کی داعی پارٹیاں بھی بڑھ گئیں۔ سیاسی صف بندی یوں تھی کہ پاکستان کی کمپراڈور بورژ وازی، جاگیردار، بیوروکریٹ کیپیٹل ایک طرف تھے اور مزدور، کسان اور ترقی پسند دوسری طرف تھا۔ کمپراڈور سرمایہ دار 22 خاندان ، داؤد، سیگل، آدم جی، جلیل، کالونی، فینسی(Fancy) ، ولیکا، باوانی، کریسنٹ، وزیر علی، گندھارا ، اصفانی ، حبیب، خیبر، نشاط، بیکو، گل احمد، ارگ ، حفیظ، کریم، مل والا، داد ا پر مشتمل تھے۔ اس کے علاوہ اسی ترتیب میں حئی سنز، پریمیئر ، حسین ابراہیم، منوں ، مولا بخش، آدم، اے کے خان، غنی ، رنگون والا، ہری جینز، شفیع ، فقیر چند، ہاشم، دادا بھائی، شاہ نواز، فتح، نون، ہوتی، دوست محمد اور فاروق قابل ذکر ہیں۔
1970 ء کی طبقاتی خلیج اور بے چینی کا انداز ہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ دونوں بڑی پارٹیاں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ نے اپنے منشور میں واضح طور پر کہا کہ وہ نیشنلائزیشن کریں گے کیونکہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ آئی ہے۔یہ وہ دور ہے جس میں سرمایہ کاری کی وجہ سے مزدور تحریک پیدا ہوئی جس کو بنیاد بنا کر بھٹو نے اپنی سیاست چمکائی۔ اس دور میں بڑی صنعت اور بینکوں کو قومیا لیا گیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعدبنگلہ دیش کی حکومت نے غیر بنگالی لوگوں کے 260 صنعتی یونٹوں کو نیشنلائز کیا جن کی مالیت ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ تھی ۔ بھٹو نے پہلے ہلے میں 21 دسمبر1971ء اور یکم جنوری 1972کو نیشنلائزیشن اینڈ اکنامک ریفارمز آرڈر کے ذریعے31 اہم صنعتوں کو نیشنلائز کر لیا۔نیشنلائزیشن کے دوسرے دور یکم جنوری 1974 ء کودرجنوں انشورنس کمپنیوں ، 2 پٹرولیم کمپنیوں اور دس شپنگ کمپنیوں کو نیشنلائز کر لیا گیا ۔ یکم جولائی 1976 ء کو بھٹو نے نیشنلائزیشن کے تیسرے دور میں 2,815 کپاس اور چاول کی فیکٹریوں کو نیشنلائز کر کے عجیب وغریب خوف و ہراس پیدا کر دیا ۔ 1965 کی جنگ ، 1968 ء کی عوامی بغاوت، 1971 ء کی جنگ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی وہ واقعات تھے جنہوں نے پاکستان میں جاگیرداری اور بیوروکریت کیپٹل کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ ایسے میں بھٹو عوامی جمہوری قوتوں اور شکست خوردہ ریاستی ڈھانچے کے درمیان کھڑا ہو گیا۔ بھٹو کے دور میں بیوروکریٹ کیپیٹل ، جاگیرداری اور سرمایہ داری کے اوسان خطاہوئے تو انہوں نے امریکہ کی آشیر باد سے مولویوں کو ساتھ ملایا اور بھٹو( جو کہ اپنی مزدور دشمن پالیسیوں سے ایکسپوز ہو چکا تھا) کا تختہ 1977 ء کو الٹ دیا۔ ضیاء الحق سے لے کر بھٹو کی صاحبزادی تک سبھی نے یہ الزام لگایا کہ نیشنلائزیشن سے نقصان ہوا ہے۔ ہر ایک نے یہی کہا کہ قرضے اتارنے کے لیے نج کاری ضروری ہے۔ بے نظیر نے روتھز چائلڈ اینڈ سنز (Rothschild and Sons) نامی کمپنی کو نج کاری منصوبہ تیار کرنے کی ذمہ داری دی۔ بے نظیر ابھی نج کاری کے لیے پر تول ہی رہی تھی اور محض پی آئے اے کے دس فی صد حصص ہی فروخت کر پائی تھی کہ اس کی حکومت 6 اگست 1990 ء کو ختم کر دی گئی۔ اسی دوران میں آزاد معیشت کا نعرہ بلند ہوتا ہے۔ سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام اور قرضوں کی تلوار ننگی ہو کر لہراتی ہے اور سرمایہ دار کلاس خوش ہو جاتی ہے۔ مزدور، کسان تحریک کی مزاحمت سوویت یونین کے ٹوٹنے سے بالکل دم توڑ جاتی ہے۔ سرد جنگ کی مراعات واپس ہونا شروع ہوتی ہیں۔ ڈائیوو، بجلی کی نجی کمپنیاں ، کاروں کے پلانٹ، میکڈونلڈ اور زراعت کی کمپنیاں آنے کے لیے پر تولتی ہیں توبے نظیر اور نواز شریف انھیں خوش آمدید کہتے ہیں۔اس دور میں ملکی معیشت کا پہیہ الٹا گھمانی کی کوشش کی جاتی ہے یہ دور ملکی اثاثوں کی لوٹ کھسوٹ کے عروج کا دور ہے۔ نواز شریف کے 1990 ء سے 1993 ء کے تین سالہ دور میں 115 یونٹوں کی نج کاری کی کوشش ہوئی جس میں سے صر ف68 صنعتی یونٹ، دو بینک ، سوئی نادرن گیس کے دس فی صد حصص پرائیویٹا ئیز ہو سکے۔ منشاء اور اس کے گروپ نے پانچ سیمنٹ پلانٹ اور مسلم کمرشل بینک خریدا ۔ شون گروپ نے پاک چائینا فرٹیلائیزر اور نیشنل فائبر پر ہاتھ صاف کیا ۔ توکل گروپ نے بلوچستان وہیلز، نیا دور موٹرز خریدے، بیبو جی گروپ آف حبیب اللہ خٹک نے نیشنل موٹرز جو کہ پہلے گندھارا موٹرز تھی واپس لی، سکندر جتوئی نے میٹرو پولیٹن سٹیل، زیل پاک سیمنٹ اور شکار پور رائس حاصل کی۔ 1993 ء سے1996 ء کے دور میں بے نظیر بھٹو نے 20 صنعتی یونٹ، ایک مالیاتی ادارہ ، کوٹ ادو پاور پلانٹ اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن لمیٹڈ کے 12 فی صد حصص کی نج کاری کی۔ اب تک کی نج کاری فراڈ، دھوکہ دہی، اقرباء پروری اور لوٹ کھسوٹ کی بدترین مثال ہے۔
اب ہماری کمپر اڈ ور کلاس محض ملکی صنعت نہیں خرید رہی بلکہ بڑی تیزی سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ ساجھے داری کے لیے بھی بھاگ دوڑ کر رہی ہیں۔ مثلاً بابر علی ہو ٹیکسٹ پاکستان لمیٹڈ کا چیئرمین ہے، یہ شخص سیمنز(Siemens) ، اور لیور برادرز بروک بانڈ کابھی چیئرمین ہے کیونکہ ان کے کاروبار میں 25 فی صد حصص رکھتا ہے۔ اس طرح جتنی بھی ملٹی نیشنل کمپنیاں سابقہ دس سالوں میں پاکستان میں آئی ہیں انہوں نے سیاسی مشکلات سے بچنے کے لیے مقامی سرمایہ داروں کے حصص ضرور رکھے ہیں۔ اسی روپے کی وجہ سے ہم پاکستانی سرمایہ داروں کو گماشتہ سرمایہ دار طبقہ کہتے ہیں۔ یہ ملک کے اندر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی دلالی میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ چند بڑے صنعتی گروہ بیرون ملک بھی کاروبار رکھتے ہیں مثلاً نسیم سہگل کے پاس کو ہ نور انگلینڈ ہے۔ منشاء کے پاس نشاط یورپ اور نیو بری منشاء (Newbury Mansha) پرائیویٹ لمیٹڈ ہے۔ صدر الدین ہاشوانی ٹیمپاپاک لمیٹڈ فلور یڈا رکھتا ہے اور حبیب کے پاس اے جی زیورخ اور حبیب سنز ہے جبکہ فتح گروپ کے زیر انتظام کمپنیاں ہانک کانگ اور جرمنی میں ہیں۔
اب اس سارے دور یعنی 1988 ء سے 2000 ء تک کے دور میں حکومتی پالیسیاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے حکم پر اس طرح بنتی رہیں کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سرمایہ کاری اور ایک نئے نو آبادیاتی دور کے آغاز کے لیے پیش قدمی ہو سکے۔ بے نظیر سامراج سے معاہدے اور نظریات کو بیک بینچز(Back Benches) پر پھنک کر آئی تھی۔ لہٰذا اس سے کسی خیر کی توقع بھولے لوگ ہی رکھ سکتے تھے ۔ اب سوویت یونین سے بکھرنے اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد آزاد معیشت کے علمبرداروں نے استحصال کی رفتار بڑھا دی ۔ ساری تیسری دنیا کے ممالک کی طرح پاکستان کو حکم ہوا کہ صنعت کے تحفظات ختم کر دیئے جائیں اور آزاد معاشی مقابلے کو ممکن بنایا جائے۔ صنعت کو تحفظ ٹیرف یعنی درآمدی ڈیوٹی کی شکل میں دیا جاتا تھا۔ مطالبہ ہوا کہ ٹیرف کو کم کیا جائے۔ ٹیرف ہمارے زر مبادلہ کا 50 فی صد بنتا تھا۔ حکمرانوں نے عرض کیا کہ حکومت کس طرح چلے گی۔ حکم آیا کہ غیر ترقیاتی اخراجات کم کر دو، غیر ترقیاتی اخراجات دو قسم کے تھے، صحت اور تعلیم وغیرہ پر یا سول و ملٹری بیورو کریسی یعنی بیوروکریٹ کیپیٹل پر۔ اب فوج اور بیورو کریسی یعنی بیورو کریٹ کیپٹل اور کمپراڈ ور کلاس (جس کے نمائندے بے نظیر اور نواز شریف تھے) کے درمیان تناؤ کا آغاز ہوا۔ فوج اور سول بیوروکریسی نے اپنے اللّے تلّلے کم کرنے سے انکار کر دیا۔ 1990-93 ء کے دوران نواز شریف کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ڈائریکٹ ٹیکس لگاتا، نواز شریف نے ٹیرف ڈیوٹی کم نہ کی تو ان کو غلام اسحاق خان نے رخصت کر دیا اور اس کی جگہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا نمائندہ معین قریشی آیا۔ اس نے آتے ہی سب سے پہلا کام ٹیرف ڈیوٹی کم کرکے دکھایا، 125 فیصد سے 65 فیصد یعنی نصف کر دی۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ درآمدی ڈیوٹی سے حاصل ہونے والا ریونیو کم ہو گیا۔ سستی درآمد سے مقامی صنعت جو کہ نزاع کے عالم میں تھی نصف سے زیادہ بند ہوگئی۔ اس سے ریونیو پر دوسرا حملہ ٹیکس میں کمی کی شکل میں ہوا۔ گویا بے نظیرکے اقتدار کی کشتی میں سوار ہونے سے قبل ہی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے نمائندے معین قریشی نے اس میں سوراخ کر دیا۔ بے نظیر کے پاس ماسوائے ان ڈائریکٹ ٹیکس لگانے کے کوئی چارہ نہ تھا۔ بے نظیر بجلی، گیس ، روٹی غرض ہر چیز مہنگی کرتی چلی گئی۔ مزید برآں ان کے خاوند کو یہ پختہ یقین تھا کہ پیسے کے بغیر سیاست ممکن نہیں، لہٰذا خوب لوٹ سیل لگائی گئی۔ بینظیر کے پاس جب اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ فوج اور بیوروکریسی کو لگام ڈالے لیکن اس سے پہلے کہ وہ کوئی قدم اٹھاتی رخصت کر کے گھر بھیج دیا گیا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا نمائندہ شاہد جاوید برکی تیزی سے آیا اور ٹیرف کو مزید نصف کر گیا، ریونیو مزید کم ہوگیا۔ ملکی صنعت جھٹکے کھانے لگی اور عنان حکومت صنعت کار وزیر اعظم کے سپرد ہوئی۔ 1993 ء میں ڈائیوو، میکڈونلڈ جیسی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو آوازیں دیں گئیں کہ پاکستان برائے فروخت ہے۔سرمایا دار کلاس اب زیادہ پر اعتماد تھی۔ بیوروکریٹ کیپیٹل پر حملے کئے گئے،چیف آف آرمی سٹاف سمیت ایک عدد چیف جسٹس کو بھی رخصت ہونا پڑا۔سرمایہ دار کلاس آزاد منڈی کے اطلاق سے مزید پھول گئی۔
پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طاقتور ترین اجارہ دار لیور برادرز ہے۔ تقسیم سے قبل ہندوستان میں لیور برادرز کی دو کمپنیاں تھیں۔ ایک کا نام ہندوستان و ناسپتی مینو فیکچرنگ کمپنی لمیٹڈ (Hindustan Vanaspati Manufacturing Company Limited) تھا جو کہ و ناسپتی تیل برآمد کرتی تھی۔ دوسری کا نام لیور برادرز (انڈیا) لمیٹڈ تھا جو کہ صابن کی تیاری اور تجارت میں مصر و ف تھی۔ تقسیم کے بعد یہ دنوں صنعتیں پاکستان کی منڈی سے دور پڑتی تھیں لہٰذا ریاست بہاول پور، جو کہ پاکستان میں شامل تھی، کو نیا ہدف بنایا گیا۔ یوں دو پرائیوٹ پارٹنرز سید امجد علی اور سر ولیم رابرٹ نے ریاست بہاول پور اور لیور برادرز سے مل کر صادق ویجی ٹیبل آئل اور الائیڈ انڈسٹریز کی 1948 ء میں بنیاد رکھی ۔ اس کے ساتھ ہی صادق سوپ فیکٹری بنانے کا ارادہ بھی کیا گیا۔ ریاست بہاول پور نے اس ملٹی نیشنل کمپنی کو عوام کو لوٹنے کے منصوبے کی خوشی میں دس سال کا ٹیکس ہالیڈے بھی دیا اور اس کے علاوہ متعدد مراعات سے بھی نوازا۔ ریاست بہاول پور بھی ہماری آج کے حکمرانوں کی طرح جلد‘‘ سرمایہ کاری’’ چاہتی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ کمپنی ہماری مقامی صنعت کو کینسر کی طرح کھا گئی۔ ہر پراڈکٹ کے ڈانڈے جا کر اس ملٹی نیشنل کمپنی سے جا ملتے ہیں۔ کسی شے کے بظاہر دو مخالف برانڈ بیک وقت اسی کمپنی کی ملکیت ہوتے ہیں۔
ایک اور ملٹی نیشنل کمپنی سوزوکی نے پاکستان کی صنعت کو بڑی تیزی سے جکڑ لیا۔ 1988-89 ء کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پاک سوزوکی موٹر کمپنی نے 39,182 یونٹ پیدا کئے اور بیچے۔ اس سے پچھلے سال اس کمپنی نے 35,233 یونٹ بیچے تھے۔ مقامی طور پر تیار ہونے والی اس کمپنی کی گاڑی اب مارکیٹ پر اجارہ داری کے بعد اپر مڈل کلاس کی اپروچ سے بھی باہر ہو گئی ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ لوٹ کھسوٹ ادویات کے میدان میں ہے۔ اس میدان میں ہمہ جہت مواقع ہیں کہ مرتے ہوئے انسان سے کچھ بھی لیا جا سکتا ہے ۔ مزید برآں لمبی چوڑی مشینری او رپلانٹ کی بجائے محض کیمیکلز کو ملانا ہوتا ہے۔ اس ساری صورتحال سے کیا واضح ہوتا ہے؟ یہی کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ہمیشہ سے ناجائز منافع کما رہی ہیں ۔ یہ اپنی منسلکہ یا جائنٹ و نچرز کی کمپنیوں کو مہنگے داموں خام مال اور ٹیکنالوجی فروخت کرتی ہیں اور یوں ہمارے وسائل کے ایک بڑے حصے کو بلا تردد اٹھا کر لے جاتی ہیں۔ پاکستان میں کئی سیاسی تبدیلیاں آئیں، عوام کے سروں سے غربت کے کئی ریلے گذر گئے، عسرت وتنگی برھتی رہی مگر جو چیز نہیں بدلی وہ ان کمپنیوں اور ان کے حلیف سامراجی ملکوں کی طرف ہمارے حکمرانوں کا رویہ ہے۔ ان کمپنیوں کا استحصال ہر رنگ اور ہر دورمیں جاری رہا۔
پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ یورپ کے روایتی سرمایہ دار کی طرح جاگیر داری کو ختم نہیں کرنا چاہتا۔ آج کے نئے عالمی و معاشی پس منظر میں یہ تعلق مزید گہرا ہو گیا ہے ۔ اول یہ کہ جاگیرداروں نے زرعی خام مال پرمنحصر صنعت بھی خود ہی لگا لی ہے مثلاً شوگر، کپڑے اور گھی وغیرہ کی صنعت ۔ دوسرایہ کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نئے فیز میں جا گیر دار ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ کارپوریٹ فارمنگ میں حلیف کے طور پر عمل کریں گے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی کھاد، بیچ ٹیکنالوجی میں حصے داری کا چھوٹا کسان تو تصور بھی نہیں کر سکتا۔ وہ زمین بیچ رہا ہے اور دوبارہ جاگیر داری مضبوط ہو رہی ہے۔کھیت مزدور بڑھ رہے ہیں ۔ تیسرا یہ کہ پاکستان میں بیورو کریٹس ، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی قریبی رشتے داریاں اور طاقت کا ساجھا ہے جسے علیحدہ علیحدہ کر کے دیکھنا ممکن نہیں۔ سابقہ پچاس سال سے اوپر کے ان تین طبقوں کا nexus توڑا نہیں جا سکا۔ یہ تینو ں طبقے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔
پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ اپنی صنعت بند ہو جانے پر تاجر طبقے کا شکل دھارتا جار ہا ہے جو کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی دلالی میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ درمیانہ طبقہ چھوٹے چھوٹے مفادات کی دوڑ میں لگاہوا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ شاید ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سرمایہ کاری سے اسے روز گار مل جائے گا یا وہ باہر چلا جائے گا۔ اس سے آگے اس کی سوچ کام نہیں کرتی۔ نچلی مڈل کلاس مذہب کے خود ساختہ گورکھ دھندوں میں دھنسی ہوئی ہے اور اس کا بڑی حد تک رجحان مذہبی جماعتوں کی طرف ہے۔ مزدور اور کسان غربت اور محرومی کی چکی میں بڑی بُری طرح پس رہے ہیں۔ مزدوروں کی لڑائی سرمایہ داروں سے ہے۔ کوئی عدالت اور قانون ان کے تحفظ کا ضامن نہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مزدور کو دوسرے مزدوروں کی نسبت تنخواہ زیادہ ملتی ہے لیکن اس کا قدرِ زائد کے حوالے سے استحصال زیادہ ہوتا ہے اگرچہ یہ بات اسے مشکل سے سمجھائی جا سکتی ہے۔ کسانوں کا مسئلہ بڑ اٹیڑھا ہے ۔ ان کی حالت دگر گوں ہے۔ بڑے بڑے زمینداروں نے کسان کمیٹیاں بنائی ہوئی ہیں جن کا سیزن پر شوگر ملوں سے جعلی تصادم ہوتا ہے اور اس کی آڑ میں وہ اپنی فصل کی بہتر قیمت لے لیتے ہیں جبکہ چھوٹے کسانوں کی کوئی فعال تنظیم نہیں۔ اس کے لیے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی یلغار سے کاشت کاری نا معقولیت کی حد تک غیر منفعت بخش ہوتی جارہی ہے۔ وہ اونے پونے دام زمین فروخت کر کے شہروں میں بے روز گاروں کی طرح رخ کر رہا ہے۔ بڑے زمیندار یہ زمین ایڈوانس دے کر لے لیتے ہیں او ر باقی پیسوں کی ادائیگی کے لیے بیچنے والے کو کچہری کا راستہ دکھا دیتے ہیں۔ یوں وسطی پنجاب میں بھی جاگیر داری اور جدید کارپوریٹ فارمنگ معرض وجود میں آرہی ہے۔ پنجاب کے جنوبی حصوں میں توخیر پہلے ہی بڑے بڑے رقبوں پر کسان ذلت آمیز شرائط پر زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ گویا مزدور اور کسان ہی وہ طبقہ ہے جس کی روز مرہ کی زندگی(daily conditoins of life) اسے لڑنے پر مجبور کر رہی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ وہ طبقہ جس کی نشاندہی ہم نے سابقہ سطور میں کی کہ جس کے مفادات کا براہِ راست ٹکراؤ سامراجی مفادات سے ہے اور جس کی روز مرہ زندگی اسے تبدیلی کا ہر اول دستہ بنانے پر مجبور کر رہی ہیں،اس کے پروگرام کی حامل کون سی پارٹیاں ہیں؟ تو بلا شبہ بائیں بازوکی پارٹیاں ہی سامراج دشمنی اور سامراج مخالف جدوجہد کا اعزاز سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ لیکن وہ بھی کس حد تک مخلص ہیں اسے تاریخ اور پاکستان کے معروضی حالات کے تناظر میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔