اِذن اور رضا

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : ستمبر 2017

’’ج‘‘ ایک اسلامی ادارے میں پچھلے بیس سال سے کام کر رہا ہے ۔ اس کی قابلیت اور مہارت کی تعریف کی جاتی ہے اور اسے ادارے کے لیے ایک سرمایہ تصور کیا جاتا ہے ۔ لیکن ہر برس جب انکریمنٹ اور مراعات کی بانٹ ہوتی ہے تو بعض ایسے حضرات کو اس پر ترجیح دے دی جاتی ہے جو نہ صرف کام اور قابلیت کے اعتبار سے اس سے کم تر ہوتے ہیں بلکہ زمانی اعتبار سے بھی اس سے جونیئر ہوتے ہیں۔ وہ جب انتظامیہ سے اس کی وجہ پوچھتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ دیکھو اللہ کی رضا پر راضی رہو ، اگر اللہ کی مرضی ہوتی تو یقیناً تمہیں بھی یہ مراعات مل کر رہتیں۔ لیکن اللہ کی مرضی ہی نہ تھی اس لیے تمہیں یہ سب کیسے ملتیں؟اور پھر ’’ج‘‘ بڑبڑاتے ہوئے ، منہ لٹکائے میرے پاس چلا آتا ہے ۔ پہلے تو وہ اپنے دل کا غبار نکالتا ہے ا ور پھر مجھ سے پوچھتا ہے کہ یہ اللہ کی مرضی ہمیشہ اس کے خلاف ہی کیوں ہوتی ہے ؟  میں اسے کہتا ہوں ، پگلے ، اس کا اللہ کی مرضی سے کیا تعلق ؟  ہر جگہ اورہر زمانے میں استحصالی اور طاقتور طبقہ کمزور اور غریب کے خلاف ’’اللہ کی مرضی ‘‘کو بطور ہتھیار استعمال کرتا رہا ہے ، اسی طرح یہ بھی کر رہے ہیں۔ وہ کہتا ہے لیکن یہ تو اسلامی ادارہ ہے ۔ میں کہتا ہوں بیشک ہے لیکن ایسے ہی نام کا اسلامی ادارہ ہے جیسے میں اور تم نام کے مسلمان ہو۔ جس طرح ہماری عملی اورمعاشرتی زندگی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اس کوہم اپنی مرضی سے گزارتے ہیں اسی طرح اس ادارے کے اس عمل کا بھی اسلا م سے کوئی تعلق نہیں ،یہ بھی  مفادا ت ، تعلقات اور تعصبات کی گیم ہے ۔
    یہ صرف اس’’ ج ‘‘ کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ ان لاکھوں کروڑوں انسانوں کا بھی مسئلہ ہے جو مسلمانوں کے معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور جہاں ہر ظالم ، ہر جابر ، ہر غاصب ، ہر طاقتور ،ہرچور ، ہر ڈاکو اور ہر لٹیرا یہ کہہ کر ان کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ دیکھو اپنے حقوق نہ ملنے پرصبر کرو کیونکہ اللہ کی مرضی ہی ایسے تھی۔اگر اللہ کی مرضی ہوتی تو یقیناً انہیں بھی یہ سب چیزیں مل کر رہتیں لیکن اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے جسے چاہتا ہے امیر کرتا ہے جسے چاہتا ہے غریب کرتا ہے اس لیے اس کی رضا پہ راضی رہنا ہی مومن ہونے کی علامت ہے اور بیچارے عوام مومن بن کر ساری عمر گزار دیتے ہیں۔
     اصل میں اللہ کا حکم یا اذن يا مشيت اور اس کی مرضی یا رضا دو الگ الگ چیزیں ہیں جنہیں استحصالی اور مذہبی گرو گڈ مڈ اور خلط ملط کر دیتے ہیں اور اس سوئے اختلاط سے اپنا کام نکا ل لیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اس کائنات میں کوئی کا م اللہ کے حکم کے بغیر نہیں ہو سکتا ۔ریت کا کوئی ایک ذرہ ، پانی کا کوئی ایک قطرہ یا درختوں کا کوئی ایک پتہ بھی اس کے حکم کے بغیر نہیں ہل سکتا۔( وما تسقط من ورقۃ الا یعلمھا) لیکن اس کی مرضی یا رضا صرف نیک اور اچھے کاموں کے ساتھ ہوتی ہے ۔ کسی ظلم ، کسی جبر، کسی غصب ، کسی دھوکے ، کسی جھوٹ ، کسی زیادتی یا کسی برے کام کے ساتھ اس کی مرضی نہیں ہوتی ۔ وہ نہیں چاہتا کہ ان میں سے کوئی کام بھی ہو لیکن جب انسان یہ سب کچھ کرتے ہیں تو چونکہ انسانوں کو اُس نے خود اس دنیا میں اچھے برے کا اختیار دے رکھا ہے، تو وہ ان کو ہونے دیتا ہے ،ان کا ہاتھ نہیں پکڑتا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جب ایک ڈاکو ، ڈاکے کے لیے چلتا ہے تو اگر اس کا حکم نہ ہوتو وہ ایک قدم بھی نہیں چل سکتا لیکن اس کے اذنِ عام کے تحت وہ چلتا ہے تو وہ اس کو روکتا نہیں ، اس کو اپنا اختیار استعمال کرنے دیتا ہے ۔ لیکن اس کی رضا اور مرضی ہر گز یہ نہیں ہوتی کہ یہ ڈاکہ وقوع پذیر ہو۔ اسی لیے وہ اسکو گنا ہ میں لکھتا ہے۔اس کو ایک کلاس اور ٹیچر کی مثال سے سمجھیے کہ  کلاس میں بچے ٹیچر کے حکم یا اذن کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے ۔ اگر ایک بچہ شرارتیں کر رہا ہے یا پڑھائی کی طرف متوجہ نہیں ہے اور ٹیچر کسی حکمت کے تحت اس کو نہیں روکتا تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ٹیچر کی رضا اور مرضی اس میں شامل ہے ۔ اس کی مرضی یہی ہے کہ یہ بچہ بھی باقی سب کی طرح پڑھے لیکن جب وہ نہیں پڑھتا اور شرارت کرتا ہے تو اس اتھارٹی کے تحت ہی کر رہا ہے جو ٹیچر کے نہ روکنے کی شکل میں اسے حاصل ہے ۔ اگر ٹیچر اپنی اتھارٹی کو استعمال کرے تو وہ بچہ کچھ بھی نہیں کر سکتا ۔ اسی طرح اللہ کا اذن اور چیز ہے اور اس کی رضا اور چیز ہے ۔ اس کائنات کی ہر چیز اللہ کے اذن عام کے تحت کام کر رہی ہے اور وہ ان کو کام کرنے دیتا ہے اور اگر کہیں اس کی منشا نہ ہو تو وہ کاموں کے درمیان میں ہی روک لگا دیتا ہے اور ان کو وقوع پذیر نہیں ہونے دیتا ۔ انسانوں کا معاملہ بھی ایسے ہی ہے وہ بھی اپنے سب کام اس کی دی ہوئی قدرت ، اختیار اور اذن کے تحت کر ر ہے ہوتے ہیں اور وہ آزمایش کے لیے ان کو کرنے دیتا ہے الاّ یہ کہ وہ مداخلت کو ضروری سمجھے لیکن اس کی رضا اور مرضی صرف اور صرف اچھے اور نیک کاموں کے ساتھ ہی ہوتی ہے ۔ اس لیے طاقتور طبقات کا کمزوروں کو اپنے حقوق کے مطالبے سے یہ کہہ کر روکنا کہ اللہ کی مرضی ہی یہ تھی ، بالکل غلط بات ہے ۔ ہر ایک کو حق حاصل ہے کہ وہ نا انصافی اور ظلم کے خلاف اخلاقی اور قانونی دائروں میں رہتے ہوئے آواز بلند کرے کیونکہ اللہ کی مرضی کسی ظلم اور نا انصافی کے ساتھ نہیں ہوتی ۔
    جب اللہ یہ کہتا ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے تو اس کامطلب ہر گز یہ نہیں کہ وہ الل ٹپ ایسا کر دیتا ہے ۔ یہ اللہ کی طاقت ، قوت اور اتھارٹی کے بیان کا ایک اسلوب ہے ورنہ اس نے کائنات میں عروج و زوال کے جو اخلاقی اصول بنائے ہوئے ہیں انہی کے تحت ہی عزت و ذلت اور قوت و ضعف عطا کرتا ہے اگر ایسا نہ ہو تو اس کی شانِ عدل اور حکمت و بصیرت پر حرف آتا ہے جبکہ اللہ کی شان یہ ہے کہ جب اس کی کسی ایک صفت کا ظہورہوتا ہے تو باقی سب صفات بھی بیک وقت قائم رہتی ہیں کسی ایک صفت کے ظاہر ہونے کا مطلب باقی صفا ت کا غائب ہونا ہر گزنہیں ہے ۔
    جائز اخلاقی اور قانونی دائروں میں رہتے ہوئے بہتر زندگی کے لیے جہد مسلسل کرنا سب کا حق ہے ۔ اللہ کی مرضی کے نام پہ لوگوں کا استحصال کرنا اور ان کے ساتھ ظلم اور نا انصافی کرنا ایک ایسا شوگر کوٹڈ فعل ہے کہ جس کے اوپر سے شوگر کی پرتیں اتا ر کراس کا اصل چہرہ عام انسانوں کو دکھانا ضروری ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا کہ جب ہم اس بات کو سمجھ پائیں گے کہ اللہ کا اذن یا حکم اور اس کی رضا اور مرضی دو الگ الگ تصورات ہیں۔ان کو ایک سمجھنے سے ظلم اور نا انصافی فروغ پاتی ہے اور ان کو الگ الگ سمجھنے سے زندگی کو مثبت طریقوں سے آگے بڑھنے کا جواز ملتا ہے اور یہ جواز ملنا چاہیے کہ یہی مذہب و اخلاق کا اصل تقاضا ہے ۔