میں نے لیڈی میکلیگن کالج میں نیا نیا داخلہ لیا تھا ابھی کلاس فیلوز سے زیادہ واقفیت بھی نہیں ہوئی تھی زیادہ وقت لیکچر سننے ، نوٹس بنانے اور لان میں بیٹھ کر پڑھنے میں گزر جاتا تھا۔وقت ختم ہوتے ہی میں سڑک سے رکشہ پکڑتی اور گھر چلی آتی ۔سب سے زیادہ تکلیف دہ لمحات یہی ہوتے تھے کیونکہ اس وقت بے انتہا رش ہوتا تھا۔بسیں کھچا کھچ بھری ہوتیں اور مجھے ویسے بھی دو بسیں بدلناہوتی تھیں اس لیے میں اکثر رکشا پر گھرآجاتی ۔
ایک بار کلاس میں مجھے شدید سر درد شروع ہوا اور بخار بھی محسوس ہونے لگا۔ تو میں نے پیریڈ چھوڑ کرگھر کر راہ لینے کی ٹھانی ۔کالج گیٹ سے نکلی ہی تھی کہ سامنے ایک رکشا نظر آیا۔ میرے ہاتھ دینے سے پہلے ہی وہ رک گیااورمیں بھی بلا سوچے سمجھے اس میں بیٹھ گئی ۔ میں نے رکشے والے کو گھر کا راستہ بتایااوربے فکر ہو کر بیٹھ گئی ۔ رکشے والا مضبوط جسم کا نوجوان لڑکا تھا۔تھوڑی ہی دیر کی خاموشی کے بعد وہ بولا۔باجی مجھے آپ سے ایک بات کہنی ہے اجازت ہو توعرض کروں۔میں سمجھی شاید راستے کے متعلق کچھ کہے گا۔ میرے جواب پر کہنے لگا۔میں کل سے بہت پریشان ہوں آپ پہلی سواری ہیں جسے میں قابل اعتماد سمجھ کر اپنی پریشانی بتانے لگا ہوں۔آپ مجھے پہلی نظر میں اپنی بہن لگی تھیں۔میری بہن سوات میں رہتی ہے۔ میں ان پر خلوص الفاظ سے پگھل گئی۔اور اس کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ مجھے بتائے کہ بات کیا ہے۔وہ بولا ، باجی کل رکشہ میں ایک غیر ملکی عورت بیٹھی تھی وہ مجھے انار کلی لے گئی مجھے ٹھہراکر شاپنگ کی اورپھر مجھے اسٹیشن چلنے کوکہا۔ میں اسے اسٹیشن چھوڑ آیا اور باجی میں اسے چھوڑ کر ہوٹل کھانا کھانے لگا تو تین بنڈل رکشے میں پڑے دیکھے۔ وہ عورت اپنے تین بنڈل چھوڑ گئی تھی۔میں فوراً اسٹیشن پہنچا مگر وہ عورت مجھے نہ ملی۔پہلے سوچا یہ بنڈل تھانے دے دوں مگر تھانے میں ان کا جو حشر ہونا تھا وہ مجھے معلوم تھا۔ ایک بار میں نے ایک مسافر کا بٹوہ تھانے دیا تو تھانے دار صاحب نے میرے سامنے بٹوہ کھول کر پیسے تقسیم کر دیے اور دو روپے مجھے پکڑ ا کر کہا جا بچہ عیش کر ۔ باجی میں نے وہ بنڈل کھول کر دیکھے تو ایک میں تین ساڑھیاں تھیں دوسرے میں موتیوں کاقیمتی نیکلس اور تیسرے میں سرمئی رنگ کی شال۔میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کا کیا کروں میں اکیلا آدمی ہوں کوئی بھی چیز میرے کام کی نہیں۔
بات کچھ ایسی تھی کہ میرے دل کو جا لگی میں بن سوچے بول پڑی کہ مجھے دکھاؤ اگر کم قیمت لو گے تو میں خرید لوں گی اس نے رکشا روکااورآگے جھک کر دیکھنے لگا پھر بولا باجی مجھے رقم کی ضرور ت نہیں ایک بہن پردیس میں ہے دوسری آپ کو کہا ہے یہ چیزیں آپ رکھ لیں مجھے لگے گا کہ میں نے اپنی بہن کو دے دیں۔ اس کی آواز خلوص و محبت سے کانپ رہی تھی۔ اس نے پھر رکشہ سٹارٹ کیا اور کہنے لگأ کہ باجی اس کے بدلے مجھے کسی اچھی جگہ ملازمت دلوا دینا۔یہی میری خوش بختی ہو گی ۔ میں حیرا ن تھی کہ جن چیزوں کا ذکر ہو رہا ہے وہ تو مجھ تک پہنچی نہیں۔ پھر میں نے ایک دم محسوس کیا کہ رکشہ غلط راستے پر جا رہا ہے میں نے کہا بھائی میرا گھر تو مزنگ میں ہے یہ راستہ غلط ہے ۔ میرا منہ بولا بھائی ہنسا اورکہنے لگاباجی میں آپکو وہ تحفے ہاتھ میں دیناچاہتا ہوں دراصل صبح جلد ی میں گھر ہی بھول آیا ہوں۔آپ باہر کھڑی رہیے گا میں فورالے آؤں گا۔میں بیوقوف بنی اس کی باتیں سنتی رہی سمن آباد سے بھی کچھ آگے آ گئے تو تو مجھے شبہ ہوا کہ کہیں میرے ساتھ یہ چکر تو نہیں کر رہا۔میں نے محسوس کیا کہ اب اس کا لہجہ بھی بدلتا جا رہا تھا۔میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ اب کیا کروں۔اسی وقت میرے ذہن میں اپنی بہنوئی کی باتیں یاد آئیں جو پولیس میں انسپکٹر تھے اور وہ اس طرح کے فراڈ کی باتیں اکثر سنایا کرتے تھے اس خیا ل کے آتے ہی میں نے اپنا بیگ باہر پھینک دیااور چلا اٹھی بھیا ذرا ایک منٹ رکنا میر ا بیگ گر گیا۔بھیااپنی بہن کی چال میں آگیا اس نے رکشا روکا ،میں نے چھلانگ لگائی اوررکشے سے باہر۔ سڑک پر ہلکی ٹریفک چل رہی تھی۔ میں نے اپنا بیگ اٹھایا ۔ رکشے والا بولا چلو،باجی دیر ہو جائے گی۔میں نے اپنا بیگ کھولا اورکاپی پنسل نکال کر رکشے کا نمبر نوٹ کرنے لگی۔ یہ دیکھتے ہی اس کا رنگ اڑ گیا اور اس نے یکدم سے رکشہ سٹارٹ کیا اور یہ جااوروہ جا۔نمبرنوٹ کر کے میں نے دوسرا رکشہ پکڑا اور گھر آ گئی۔میں نے اپنے بھائی جان کو سارا قصہ سناکر رکشے کا نمبر دیا۔ وہ بیچارا جلد ہی پکڑا گیا۔اسکی جودرگت بنی وہ تو خیر الگ سے ایک قصہ ہے البتہ اس انکشاف نے میرا خون منجمند کر دیا کہ وہ ایک ایسے منظم گروہ کا فرد تھا جو صرف شکارکی خاطر رکشہ ڈرائیوری کرتے تھے اور انسانوں کی سمگلنگ کرتے تھے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے بروقت بچا لیااگر ذرا سی دیر کر جاتی تو نہ جانے آج کہاں ہوتی۔