(کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل)
شاہینوں کے شہر سرگودھا میں ایک عالم دین اور مفتی ہوا کرتے تھے۔تبلیغی جماعت کے احباب اکثر ان کے پاس حاضر ہوتے اور انہیں جماعت کے ساتھ چلنے کی دعوت دیتے مگروہ کہتے کہ بھائی میں مدرسے میں بیٹھ کر بھی دین کا کام ہی کر تا ہوں اورجمعہ میں وعظ و نصیحت کرکے بھی تبلیغ ہی توکررہا ہوں، مگر اپنی پالیسی کے مطابق احباب کاحاضر ہونا جاری رہاتوآخر ایک دن وہ ان کے ساتھ تین دن کے لیے چل پڑے۔کسی ایسے دیہات میں تشکیل ہو گئی جہاں لوگوں کو بستر والوں کا آنا نا گوار تھا۔مفتی صاحب کو لیے جماعت شام کو گشت کے لیے نکلی اور ان کو متکلم بنا دیا۔ پہلے ہی دروازے پر دستک دی تو ایک چودھری صاحب باہر نکلے مفتی صاحب نے سلام کے بعد جوں ہی بات شروع کی تو چودھری صاحب نے ایک تھپڑ منہ پر جڑ دیااور کہا ،تم مجھے غیرمسلم سمجھتے ہو ،جاؤ ہندوؤں میں جا کرتبلیغ کرو، یہ کہا اور دروازہ بند کر کے یہ جا اور وہ جا۔مفتی صاحب نے رونا شروع کردیا۔ ساتھی بھی گھبر ا گئے کہ اتنی محنت کے بعد مفتی صاحب تیارہوئے تھے نکلتے ہی یہ معاملہ ہو گیا ۔ ساتھیوں نے ان کو تسلی دینے کی کوشش کی تو مفتی صاحب نے فرمایا بھائی میں اس لیے نہیں رو رہا کہ مجھے تھپڑ کیوں پڑا۔ میں تو اس لیے رو رہا ہوں کہ ساری عمر منبر پر بیٹھ کرحضور اکرمﷺ کے سفرطائف کا واقعہ لوگوں کو سناتے رہے، مگر سمجھ میں آج آیاکہ اس کی حقیقت کیاہے ۔اسی طرح ایک دوست فرماتے ہیں کہ ایک اللہ والے مجھے اکثر فرمایا کرتے کہ دنیا میں اس طرح رہو کہ تمہار ا دل آخرت میں اٹکارہے۔ کہتے کہ میں سوچتا کہ یہ کس طرح ممکن ہے، انسان جہاں رہے گا اس کا دل بھی وہیں رہے گا۔فرماتے ہیں کہ یہ بات اس وقت میری سمجھ میں آئی جب میرا اکلوتا بیٹاشدید بیمار ہو ا۔ اس وقت صورت حال یہ ہوئی کہ میں بیٹھادفتر میں ہوتاتھا جب کہ دل میرا بیٹے میں اٹکاہوتاتھا۔ کام میں دفتر کاکررہا ہوتاتھااور دھیان بیٹے میں لگا ہوتاتھا ۔جوں ہی موقع ملتا میں کسی سے پوچھتا کہ یار یہ بتاؤکہ اچھا سا ڈاکٹر کون سا ہے کسی سے پوچھتا کہ بہتر لیبارٹری کو ن سی ہے ۔اسی طرح میرا دن پورا ہو جاتا اورچھٹی ہوتے ہی میں کبھی کسی ڈاکٹر کی طرف جا رہا ہوتا اور کبھی کسی لیبارٹر ی کی طرف۔اس وقت یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ یہ کس طرح ممکن ہوا کرتا ہے کہ انسان خود کہیں اور رہے اور اس کادل کہیں اور۔اسی طرح راقم الحروف بھی سوچتا ہے کہ زندگی میں کتنی ہی باراس حدیث کو پڑھا، سنا اور سنایا کہ دنیا میں اس طرح رہو کہ جیسے راہ چلتا مسافر یا اجنبی مگر اس کی حقیقت سمجھ میں نہ آئی۔ اس کی حقیقت اس وقت منکشف ہوئی جب راقم کو عر ب امارات میں رہنے کاموقع ملا۔ان امارات میں ابو ظبی بلا شبہ دنیاکاایک پرسکون ، خوبصورت ترین ، صا ف ستھرا اورمنظم شہر ہے۔اس کا ساحل سمندر قدرتی حسن اورانسانی کاوش کا شاہکار، اس کی شاہراہیں صاف ستھری،منظم اورپررونق ، اس کی بلند و بالا عمارات ڈیزائننگ اور تکنیکی مہارت کابہترین نمونہ ، اس کے شاپنگ مال جدیدیت کے علمبردار اوراس کے پارک صحرا میں دولت کی فراوانی کا ثبوت ہیں۔اسی طرح دوبئی ہے جس سے نہ صرف دولت کی ہر نہر ہو کر گزرتی ہے بلکہ اب دنیا کا ہر دولت مند بھی اسی کوچے کا رخ کرتا ہے کیونکہ جو آسائش ،سہولت ،آرام اور راحت یعنی عیاشی یہاں انہیں مہیا کر دی گئی ہے وہ انہیں کہیں بھی حاصل نہیں۔نہ صرف پاکستا ن بلکہ دنیا بھر کی بے نظیریں اور نواز شریفے ،ڈرگ ٹریفکنگ کے گاڈ فادرز، بلیک منی کے بے تاج بادشاہ ، بزنس کے ٹائیکون((tycoonمیڈیا کے ستون سب ہی ادھر کا رخ کرتے ہیں۔ یہیں برج العرب ہے جوسمند ر میں ایلومینیم اور فائبر سے تعمیر کیا گیا ایک شاہکار ہے جس کے کچھ حصے سمند رکے اندر ہیں جہاں چائے پینے والے اپنے ارد گرد مچھلیوں اور سمندری مخلوق کو چلتے پھرتے دیکھتے ہیں۔یہیں ایک سو دس منازل پر مشتمل دنیا کی سب سے بڑی عمارت برج العالم زیر تعمیر ہے دنیا بھر کی انجنیرنگ اور ارتھ مشینری کا رخ اسی طرف ہے۔ یہیں عجوبہ عالم دبئی پامززیر تعمیر ہیں یعنی سمندر میں پام کی شکل کے مصنوعی جزیرے جو دیوار چین کی طرح چاند سے بھی نظر آئیں گے، جہاں وہ لوگ رہیں گے جن کی پلاننگ ہمیشہ اسی دنیا میں رہنے کی ہے جن کے اپنے جہاز، جن کی اپنی سلطنتیں ہیں اورجن کے کتے تیسری دنیا کے باسیوں سے ہزاروں گنا بہتر خوراک کھاتے ہیں ۔یہیں نالج ولج ، میڈیا سٹی اورانٹر نیٹ سٹی ہے ۔یہیں دنیا بھر کے مہنگے اور جدید ترین شاپنگ سنٹر ز ہیں ۔یہیں گلوبل ولج بنتا ہے جس کی طرف دنیا بھر کے کاروباری لوگوں اور اداروں کا رخ ہوا کرتا ہے۔ یہیں جمیرا بیچ اور ممظر بیچ ہیں جو قدرتی حسن کا بہترین منظرپیش کرتے ہیں یہیں جبل علی ہے جو دنیا کی ایک بڑی انڈسٹریل اسٹیٹ ہے۔یہیں ایمریٹس شاپنگ مال ہے جہاں سکی انگ (skiing) کے لیے مصنوعی برف کا میدان بنا دیا گیا ہے اور جس میں ‘‘خریدار ’’اور ‘‘خریداری’’ سب دنیا کو یہ ثابت کرنے پہ تلے رہتے ہیں کہ اسلامی دنیا کتنی جدید ، ماڈرن، روشن خیال بلکہ آزاد خیال ہے۔اسی طرح روشنیوں اوررنگوں کا شہر شارقہ ہے جسے لوگ شارجہ کہتے ہیں۔اس کاساحل بھی بلا شبہ قدرت کا حسین عطیہ ہے۔یہاں کی عمارات، یہاں کے سٹیڈیم ، یہاں کے میوزیم سب زبان حال سے کہتے ہیں کہ تیل دیکھو او رتیل کی دھار دیکھو۔راقم نے بھی یہ سب کچھ دیکھامگر ایک اجنبی یا راہ چلتے مسافر کی طرح کیونکہ اسے ہر لمحے یہ خیال غالب رہا کہ یہ ساحل، یہ نظارے ، یہ حسن، یہ عمارات ، یہ سڑکیں، یہ کشادگی ، یہ جدیدیت، ان میں سے کچھ بھی میرا نہیں نہ میرے وطن کاہے، تو مجھے ان سے کیا لینا؟۔راقم نے اس سے قبل جنت نظیر کشمیر بھی دیکھا ،قدرتی حسن سے مالا مال سوات ، مانسہر ہ و بالاکوٹ بھی دیکھا اور خوب دیکھا کیونکہ وہاں راقم کو یہ خیال ہوتا تھا کہ یہ سب کچھ اپنا ہے، اپنے وطن کا ہے ۔مگر ابو ظبی سے دبئی تک اور دبئی سے شارقہ تک سب اجنبی ،سب کسی کا ، اپناکچھ بھی نہیں۔ ان کو دیکھا تو ہے مگر ایک اچٹتی نگاہ سے جیسے راہ چلتا مسافر راستے کے مناظر پہ ایک نگاہ ڈالا ہی کرتاہے یاجیسے اتفاقاً گزرنے والا چیزوں کو دیکھا ہی کرتاہے مگر اجنبی کی طرح۔ ہر منظر ، ہر نظارہ ، ہر عمارت، ہر شاہکار راقم پر آقا ﷺ کے اس فرمان (کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل) کی حقیقت منکشف کر گیا کہ دنیا میں اس طرح رہو کہ جیسے اجنبی یاراہ چلتا مسافر ۔اورراقم نے سوچا کہ بیوی بچوں کی فرقت ، دوستوں کی جدائی اوروطن سے دوری کے بدلے ،اسی طرح ہجر کے صدموں، فرقت کے لمحوں اورجدائی کی راتوں کے عوض اگرآقا ﷺ کا ایک فرمان بھی سمجھ میں آ گیا تو سودا مہنگا نہیں تھا۔