سیدنا بلالؓ

مصنف : نعیم احمد بلوچ

سلسلہ : سیرت صحابہؓ

شمارہ : جنوری 2007

قسط ۔۱

            سفر کے لیے سامان تیار تھا،محض ایک کام باقی تھا،یہ کام بہت اہم تھا ۔ اس کے بغیر کسی اہم کام کے کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا یعنی نذر چڑھانے اور فال لینے کا،مالک نے اپنے غلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : ‘‘بلال، تمہیں تو معلوم ہے کہ اس دفعہ میرا بیٹا قافلے کے ساتھ نہیں جا رہا ۔ اس لیے اس بار قافلے کی حفاظت کی ذمہ داری تمہاری ہے !’’ ‘‘جو حکم آقا۔’’ بلال نے فرمانبرداری سے کہا۔ ‘‘چلو…… پھر ہبل کے پاس چلتے ہیں تاکہ اس کے حضور ہم اپنی نذر پیش کریں ۔’’ آقا اور غلام دونوں کعبہ کی طرف چل دیے۔ قریب پہنچے تو انہوں نے کچھ معزز لوگوں کو محفل جمائے گفتگو کرتے دیکھا ۔ آقا نے کہا : ‘‘بلال میں ان لوگوں کے پاس جا رہا ہوں ، تم ہبل کے پاس چلے جاؤ اور اسے نذر بھی پیش کرو اور سفر کرنے سے متعلق اس سے فال بھی لے لو۔’’

            یہ اس زمانے میں مکہ کے لوگوں کا عام طریقہ تھا کہ وہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے اپنے دیوتا کی مرضی معلوم کرتے ۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا کہ بت کے پاس بہت سارے تیر ہوتے ۔ اس پر ہاں یا نہیں اور اس طرح کے دوسرے الفاظ لکھے ہوتے ۔ بت کا کاہن ان تیروں کو بت کے سامنے گھماتا اور پھر قرعہ اندازی کرتے ہوئے کوئی سا تیر بغیر دیکھے اٹھا لیتا ۔ اس تیر پر جو کچھ لکھا ہوتا ، وہی دیوتا کا حکم اور مشورہ خیال کیا جاتا ۔ اسے فال لینا کہتے تھے یا پھر یوں بھی ہوتا کہ کاہن لکھے ہوئے الفاظ پر تیر مارتا اور تیر جہاں لگتا ، وہی قسمت کا فیصلہ ٹھہرتا ۔ بلال کعبہ میں رکھے سب سے بڑے بت ہبل کے پاس پہنچا تو وہاں پر پہلے ہی ایک فال لی جا رہی تھی ۔ ایک عورت کی گود میں ایک معصوم بچہ تھا، اور اس کے ہمراہ کچھ مرد تھے ۔ عورت ان مردوں میں سے ایک کو گود میں لیے بچے کا باپ کہہ رہی تھی اور وہ شخص اس کا انکار کر رہا تھا ۔ اس جھگڑے کا حل بھی فال کے تیر کے ذریعے سے ہونا تھا ۔ کاہن نے نسب معلوم کرنے کے لیے مخصوص تیر نکالے ۔ وہ ان کو گھمانے کے لیے تیار تھا کہ اتنے میں بلال بھی ان کے قریب پہنچ گیا ۔ کاہن نے تیروں کو گردش دی اور لوگ دھڑکتے دل کے ساتھ نتیجے کا انتظار کرنے لگے ۔ وہ کاہن کے اوپر جھکے ہوئے تھے ۔ دوسری طرف عورت شدید کرب میں مبتلا تھی کہ معلوم نہیں اس کے معصوم بچے کو باپ کا نام ملتا ہے یا نہیں ۔ نتیجہ نکلا اور جس تیر کا قرعہ نکلا اس پر لکھا تھا ……‘‘صریح’’ یعنی عورت کا دعوی سچ نکلا ۔ اس نے خوشی سے بچے کو گلے سے چمٹایا اسے پیار کیا اور اپنے شوہر کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے بولی : ‘‘تم نے دیکھ لیا ،تسلی کر لی ، دیوتا نے میرے حق میں فیصلہ دے دیا ہے ۔’’ وہ شخص خاموش رہا او ربھیڑ آہستہ آہستہ چھٹنے لگی ۔ اب وہاں صرف بلال ہی رہ گیا ۔ تب اس نے کاہن کو نذرانہ پیش کیا او ربت کو آہستہ آہستہ ، مگر بڑی عقیدت سے کہنے لگا : ‘‘عظیم ہبل، ہم نہایت عاجزی سے تمہارے حضور نذر پیش کرتے ہیں اور آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ ہماری حفاظت فرما او راس سفر کو ہمارے لیے مبارک بنا ۔’’ اس کے بعد کاہن نے اس مقصد کے لیے تیار کی گئی ایک خاص تختی کو نشانہ بنایا او رتیر چھوڑا ۔ تیر جس خانے پر لگا اس کا مطلب ‘‘نہیں’’ تھا یعنی بت بلال کو سفر نہ کرنے کا مشورہ دے رہا تھا ۔ بلال کو ہبل کے اس فیصلے پر بڑی مایوسی ہوئی۔ اس نے سرخ عقیق سے بنے انسانی شکل کے اس بت کو حسرت سے دیکھا اور پھر کاہن کی طرف رخ کر کے بولا : ‘‘اس نے تو سفر نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے ، مگر ہم نے تو ہر چیز تیار کر رکھی ہے ، ہم تو روانہ ہونے والے ہیں !’’ کاہن بولا : ‘‘پریشان مت ہو ، دیوتا کو مزید نذرانہ پیش کرو اور دوبارہ فال لو ، ہو سکتا ہے وہ تم پر مہربان ہو کر تمہاری مرضی کے مطابق فیصلہ دے !’’ بلال نے فوراً ایک اور نذرانہ دیا اور کاہن نے اس مرتبہ تیر گھما کر فال لی ، جو تیر نکلا اس پر لکھا تھا : ‘‘سفر کرو’’

            بلال قدرے مطمئن ہو گیا ، مگر وہ مزید تسلی چاہتا تھا اس نے ایک اور نذرانہ پیش کیا اور پھر فال لی۔ اس مرتبہ بھی دیوتا نے سفر کرنے کے متعلق فیصلہ دیا ۔ تیر کا فیصلہ اس کا فیصلہ سمجھا جاتا تھا ۔ بلال اب مطمئن تھا وہ خوشی خوشی اپنے مالک کو یہ اطلاع دینے چلا ۔ اس کا آقا امیہ بن خلف قریش کے سرداروں میں سے تھا ۔ بلال نے اسے جاکر اطلاع دی تو وہ بھی خوش ہوا اور اسی شام تاجروں کا یہ قافلہ شام کے ملک کی طرف روانہ ہو گیا ۔ یہ ایک طویل سفر تھا اور قافلہ بھی خاصا بڑا تھا۔ کئی سو اونٹوں پر مختلف سامان لدا ہوا تھا او رکئی محافظ تلواریں میانوں میں لٹکائے اس کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے ۔ یہ قافلہ دن کو سفر کرتا اور رات کو آرام کرنے کی غرض سے ڈیرے ڈال لیتا ۔ رات کو اگر چاندنی ہوتی تو ہمت کے مطابق سفر جاری رکھتا ۔ سفر کا بیشتر فاصلہ طے ہو چکا تھا او ر شام کا دھندلکا قریب آلگا تھا ۔ قافلے کے سردار کا کہنا تھا کہ آج ہمیں منزل پر پہنچنا ہے ۔ بلال نے محسوس کیا کہ قافلے والے تھکن محسوس کر رہے ہیں ۔ اس نے نغمہ الاپنا شروع کر دیا ۔ بلال کی آواز اس قدر شیریں اور کانوں میں رس گھولنے والی تھی کہ پورا قافلہ جھوم اٹھا ۔تھکے ہوئے اونٹوں اور سست قدم گھوڑوں کی چال میں بھی تیزی آگئی۔ لوگ اپنی تھکن بھول گئے ۔ پورے قافلے میں ایک نئی زندگی آگئی اور بلال کے ا سی مسحور کن نغمے کی بدولت وہ اسی رات ملک شام پہنچ گئے ۔ قافلے نے شہر کے مضافات میں خیمے نصب کر لیے ، کھانا تیار ہونے لگا اور لوگ ٹولیوں میں بیٹھ کر گپیں ہانکنے لگے ۔ بلال اسی طرح کی ایک ٹولی کے قریب سے گزرا تو اسے کسی نے پکار کر کہا : ‘‘بلال! تمہاری آواز بہت خوبصورت او رمیٹھی ہے ۔ تمہارے نغمے نے راستے کی تھکاوٹ دور کر دی اور ہمارے لیے سفر مختصر کر دیا!’’ بلال نے دیکھا تو یہ ابوبکر بن ابی قحافہ تھے ۔ بلال ان کی اس تحسین پر مسکرا دیا ۔ ابو بکر کا یہی جملہ ان کے درمیان دوستی کا پہلا رابطہ بنا ۔ قافلے کے قیام کے دوران میں دونوں میں اکثر ملاقاتیں ہوتی رہیں او ردوستی کا رشتہ مضبوط ہوتا گیا ۔ جب قافلے کی واپسی کا دن آیا تو بلال نے دیکھا کہ ابو بکر جلدی جلدی کہیں جا رہے ہیں ۔ بلال حیران ہوئے کہ اس وقت بھلا ابوبکر کہاں کا قصد کر رہے ہیں ۔ فوراً ان کی طرف لپکے اور پوچھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں ؟ جواب ملا : ‘‘ایک راہب کے پاس۔’’ ‘‘کیوں؟’’ ‘‘کئی دنوں سے ایک ہی خواب آرہا ہے، اس کی تعبیر پوچھنے جا رہا ہوں ۔ میں نے سنا ہے کہ یہ راہب خوابوں کی تعبیر ٹھیک بتاتا ہے ۔’’ بلال نے کوئی دلچسپی ظاہر نہ کی اور واپس مڑے تو ابوبکر نے پوچھا : ‘‘کیا تم میرے ہمراہ نہیں آؤ گے ؟’’ بلال نے انکار کرنا مناسب نہ سمجھا اور ان کے ساتھ ہولیا ۔ راہب کے پاس پہنچے اور ابوبکر نے اپنا خواب سنایا ۔ راہب نے ان کا خواب بڑے غور سے سنا اور پھر نظریں ان کے چہرے پر گاڑ دیں ۔ بلال کو یوں لگا جیسے وہ اس کو پہچان رہا ہو ۔ یہ راہب ایک عیسائی تھا اور آسمانی کتابوں کا بڑا عالم تھا ۔ اس کے علاوہ خوابوں کی تعبیر بتانے میں اس کا بڑا شہرہ تھا ۔ اس نے خاموشی توڑی اور ابوبکر کو مخاطب کرتے ہوئے بولا : ‘‘آپ کہاں کے رہنے والے ہیں ؟’’ ‘‘مکہ کے ۔’’ ‘‘کس قبیلے کے ؟’’ ‘‘قریش کے ۔’’ ‘‘کرتے کیا ہیں ؟’’ ‘‘تجارت ، اس وقت ایک تجارتی قافلے کے ہمراہ آیا ہوں ۔’’ ‘‘ہوں ،تمہارا خواب سچا ہے ، مگر تمہیں اس وقت اس کی سمجھ نہیں آئے گی ۔ اس خواب کی حقیقت تم اس وقت جانوگے ، جب تمہارے اندر ایک نبی مبعوث ہو گا۔ تم اس نبی کے دست راست ہو گے شاید وزیر بنو اور اس کے جانشین بھی !’’ ابو بکر حیرت سے راہب کو دیکھنے لگے اور بلال بول اٹھا : ‘‘یہ نبی کون ہوتا ہے ؟’’ ‘‘اللہ کا نمائندہ ، اس کی طرف سے بندوں کو پیغام پہنچانے والا۔’’ ‘‘ تو کیا اس نبی کو ہبل بھیجے گا یا لات اور عزی میں سے کوئی ، یا کعبہ میں موجود کوئی اور خداوند؟’’ راہب نے قدرے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا : ‘‘اسے آسمانوں اور زمین کا پروردگار بھیجے گا۔ کعبہ میں رکھے دیوتاؤں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔ و ہ تو ان بتوں کو گرانے اور توڑنے کا حکم دے گا ۔ صرف اسی اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دے گا جو اسے بھیجے گا۔’’

            بلال نے گھبرا کر بوچھا : ‘‘یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ کیا وہ تمام دیوتاؤں کو توڑنے او ر گرانے کا حکم دے گا؟’’ راہب نے بلال کے جواب میں کچھ نہ کہا ، بلکہ محض سر ہلا کر خاموش ہو گیا ۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ اب انہیں یہاں سے رخصت ہو جانا چاہیے ۔ ابوبکر نے یہ اشارہ سمجھ لیا او ربلال کو اٹھنے کا کہا اور خاموشی سے راہب کی عبادت گاہ سے باہر آگئے ۔

            قافلہ واپس پہنچا ، یہ ایک کامیاب تجارتی سفر تھا ۔ لوگوں کی اکثریت کعبہ کی طرف لپکی تاکہ گھروں میں داخل ہونے سے پہلے کعبہ کا طواف کر سکیں ۔ کعبہ کا طواف وہ رب الارباب یعنی خداؤں کے خدا ،سب سے بڑے خدا کی محبت میں کرتے اور بتوں کی پوچا اس عقیدے کے ساتھ کہ ان بتوں کو بڑے خدا نے مختلف اختیارات دے رکھے ہیں اور ان کی عبادت کرنے سے وہ خوش ہو کر بڑے خدا سے ان کی سفارش کریں گے ۔ چنانچہ اس وقت بھی وہ کعبہ کے اندر اور اس کے اردگرد بتوں کے آگے سجدہ ریز تھے ۔

            بلال بھی دوسرے لوگوں کی طرح کعبہ کا طواف کرنے کے بعد بتوں کی پرستش کر رہا تھا ، لیکن آج اس کی کیفیت عجیب تھی ۔ وہ پہلے کی سی کیفیت اور اخلاص سے خالی تھا۔ اس کا سینہ پہلے اپنے معبودوں کے لیے عاجزی اور نیاز مندی سے بھرا ہوتا ، مگر آج وہ رسمی انداز میں مذہبی رسومات ادا کر رہا تھا ۔ وہ پہلے دیوتاؤں کو مخاطب کرتا تو ڈرتے ڈرتے ، گڑگڑاتے ہوئے ، رندھی اور درد میں ڈوبی آواز کے ساتھ ، مگر اب کوشش کے باوجود بھی وہ اپنے اندر یہ کیفیت پیدا نہیں کر پا رہا تھا ۔ راہب کی یہ بات کہ مکہ میں مبعوث ہونے والا نبی لات و منات کی طرف سے نہیں کسی اور کی طرف سے اور ہو گا ۔ اس کے اندر کئی سوالات پیدا کر چکا تھا اس کے ذہن میں بار بار یہ سوال پیدا ہوتا کہ ان معبودوں کو ہم دیوتا کیوں مانتے ہیں ؟ کیا یہ زمین و آسمان انہوں نے بنائے ہیں ؟ آخر کیسے معلوم ہو کہ یہ ہماری سفارش اللہ کے حضور پہنچاتے ہیں ؟ کیا کسی نے کوئی تجربہ یا مشاہدہ کیا کہ یہ معبود آدمی کی کوئی مدد کرتے ہیں ۔’’ ان سوالوں کا ایک ہی جواب اس کے ذہن میں آتا تھا ، سارے لوگ ان کو مانتے ہیں ۔ سبھی اس کے آگے گڑگڑاتے ہیں ۔ کیا یہ سارے غلط ہیں ؟ ایسا نہیں ہو سکتا!مگر پھر اسے اپنا ماضی یاد آجاتا ۔ یہ ماضی اسے بتاتا کہ سارے لوگ غلط ہو سکتے ہیں ۔ وہ جانتا تھا کہ انہی لوگوں میں سے کچھ لوگ اس کے ماں باپ کو حبشہ سے پکڑ لائے تھے اور مکہ لا کر انہیں بیچ دیا ۔ اب معلوم نہیں اس کے والدین حبشہ میں کن خداؤں کی پرستش کرتے تھے ، کیونکہ غلام بننے کے بعد تو وہ اپنے خداؤں کو نہیں پوج سکتے تھے ۔ تبھی انہوں نے بھی کعبہ کے بتوں کو پوجنا شروع کر دیا تھا جن کی پرستش ان کے آقا کرتے تھے ۔ وہ خود مکہ میں پیدا ہوا تھا اور اسی لیے یہاں کا ماحول اس پر اثر انداز ہوا اور وہ آج ان معبودوں کے آگے سر جھکائے کھڑا ہے ۔ بلال انہیں منتشر سوچوں اور ڈانواں ڈول ایمان کے ساتھ اٹھا اور اپنے آقا امیہ بن خلف کے گھر کی طرف چل پڑا ۔ وہاں خوب رونق تھی ، امیہ کا خاندان ، بنو جمح اکٹھا تھا اور خوب جشن منایا جا رہا تھا ۔ سبھی تجارت میں اس قدر منافع کی خوشی منا رہے تھے۔ بلال کو بجا طور پر توقع تھی کہ کوئی اس کی بھی تعریف کرے گا کہ اس کی مہارت اور چابکدستی کے سبب اس قدر منافع ہوا ، لیکن کسی نے اس کی تعریف تو دور کی بات، اس سے بات تک نہ کی ۔ بلال یہ سوچتا رہا کہ کاش کوئی ہونٹ ، کوئی منہ اس کی تعریف کے لیے بھی کھلے ، مگر اس نے پتھروں سے امیدیں وابستہ کی تھیں او رجب امیدوں کا چراغ بجھا تو وہ ملول ہو گیا ۔ دکھی ہو کر اس محفل سے نکل آیا اور اسے یاد آگیا کہ یہ آقاؤں ، مالکوں اور امیروں کی محفل ہے ۔ بھلا وہ ایک غلام ،غیر عربی اور موٹے ہونٹوں والے حبشی کی تعریف کیوں کریں ! وہ اس محفل سے الگ تھلگ ایک کونے میں بیٹھ گیا اور تمنا کرنے لگا کہ کاش وہ بھی آزاد ہوتا۔ جو اچھا برا کرتا ، اس کا مالک ہوتا ، جہاں چاہتا جاتا ، جہاں چاہتا نہ جاتا ، مگر اب ! اب تو اس کا ہر اچھا کام اس کے مالک کا ہے۔ وہ تو انسان نما جانور ہے جس کا مالک اس کا آقا ہے اور جانور کی طرح وہی کچھ کرنے پر مجبور ہے جو اس کا مالک حکم دے ۔ بلال جوں جوں سوچتا جاتا ، مایوسیاں اور محرومیان سیاہی بن کر اس کو گھیرنے لگتیں ۔ وہ بے خیالی سے بڑبڑانے لگا ۔ میری قسمت میں یہی لکھا ہے کہ میں غلام بن کر زندہ رہوں ، غلام ہی مروں ، میں دیکھتا ہوں تو اپنے آقاؤں کی آنکھوں سے دیکھتا ہوں ، سنتا ہوں تو انہی کے کانوں سے سنتا ہوں ، عبادت کرتا ہوں تو انہی کے خداؤں کی عبادت کرتا ہوں ۔ مگر پھر اسے ایک اور خیال آیا ۔ یہ بھی اس کے اندر کی ایک آواز تھی ۔ اور یہ آواز بھی بڑی بھرپور اور زوردار تھی ۔ یہ آواز اسے ملامت کر رہی تھی اور کہہ رہی تھی : ‘‘اے ناشکرے غلام! بے شک تو غلام ہے ، مگر کیا اوروں کی طرح غلام ہے ؟ کیا تیرا مالک تجھ پر اعتماد نہیں کرتا ؟ تجھے اچھے کپڑے اور بہتر کھانا نہیں کھلاتا ؟ یہ اسی کی دی ہوئی عزت تو ہے لوگ تم سے محبت کرتے ہیں ۔ تجھے اپنی محفلوں میں قبول کر لیتے ہیں ۔ مگر اس سوچ کا ردعمل بڑا شدید ہوا ۔ اس کے ذہن کے سارے گوشے چیخ اٹھے کہ اس کی بیدار عزت نفس اسے ملامت کرتی ہوئی بولی : ‘‘اے کند ذہن غلام تو چند لقموں اور چند چیتھڑوں ہی پر بہل گیا! کیا تیری یہی قسمت ہے ؟ اس قدر بے وقوف ہے کہ یہ بھی نہیں جانتاکہ تیرا مالک محض تیری خوش الحانی اور ذہانت کی وجہ سے تمہیں یہ مرتبہ دیتا ہے ۔ وہ تم پر تمہاری تنومندی اور شاندار صحت کی وجہ سے مہربان ہے ۔ بھلا تم میں اور اس اونٹ میں کیا فرق ہے جس کو اس کا مالک اچھا اور قیمتی سمجھ کر بڑی حفاظت کرتا ہے ، کھانے پینے کا خیال رکھتاہے ، مگر ضرورت پڑنے پر اسے بیچنے یا ذبح کرنے سے دریغ نہیں کرتا ……’’ شاید اس کی سوچوں کے بے لگام گھوڑے اسے مزید دور لے جاتے ، مگر کچھ آوازوں نے اسے خیالوں کے اس بھنور سے نکال لیا ۔ اسے پکارنے والے قریش کے نوجوان تھے۔ وہ اس سے کوئی دلکش نغمہ سننے کی فرمائش کرنے لگے۔

 ٭٭٭

            خاصے دنوں بعد ایک عجیب واقعہ ہوا ۔ یہ رات کا وقت تھا ۔ سب لوگ سوئے ہوئے تھے ۔ رات کا سکوت اور سکون پوری بستی پر چھایا ہوا تھا۔ اس عالم میں قبیلہ بنو تمیم کے گھروں میں سے ایک گھر کا دروازہ کھلا ۔ ایک دبلا پتلا مگر چست اور تیز طرار شخص باہر نکلا۔ اس نے دروازہ اسی آہستگی سے بند کیا جس آہستگی سے اسے کھولا تھا ۔ باہر نکلا تو اس کے چہرے پر چاند کی روشنی پڑی او رچہرہ روشن ہو گیا ۔ اس کے چہرے پر جسم کی مناسبت سے گوشت زیادہ نہیں تھا ۔ وہ احتیاط سے قدم بڑھانے لگا ۔ رخ بنو جمح کے محلے کی طرف تھا ۔ تھوڑی دیر بعد وہ بنو امیہ کے گھر کے سامنے کھڑا تھا چند لمحوں کے توقف کے بعد وہ حویلی کے اس حصے کے سامنے تھا جو غلاموں کے لیے وقف تھا ۔ وہ ایک کمرے کے پاس آیا اور ادھر ادھر دیکھنے کے بعد قدرے بلند سرگوشی میں بولا : ‘‘بلال ……بلال!’’ بلال ایک غلام تھا اور غلاموں کو بہرکیف اس کی عادت ڈالنی ہوتی ہے کہ ان کی نیند گہری نہ ہو ، اور وہ ہلکے سے کھٹکے کے ساتھ ہی اٹھ کھڑے ہوں ۔ یہی وجہ تھی کہ بلال ان ہلکی سی آوازں کو سننے کے بعد اٹھ کھڑا ہوا ۔ اس نے آواز کی سمت دیکھا اور کھڑکی کے قریب آگیا اور ایک سائے کو دیکھ کر باہر کی طرف لپکا ۔ ادھر آواز دینے والا قدرے شش و پنج کا شکار تھا کہ نہ جانے بلال نے اس کی آواز سنی ہے یا نہیں ۔ اس نے واپس جانے سے قبل پھر بلال کو پکارا ۔ تھوڑے ہی انتظار کے بعد بلال ان کے سامنے تھا ۔ وہ حیرت سے رات کے اس حصے میں ایک غلام کو یوں چوری چھپے پکارنے والے کو دیکھ رہا تھا ۔ وہ اسے پہچان چکا تھا بلال حیرت سے بولا : ‘‘ابو بکر، آپ! اس وقت خیریت تو ہے؟’’ ‘‘ہاں بلال ، ایک اہم خبر ہے ، بہت اہم۔ میں وہ خبر تمہیں اسی وقت سنانا چاہتا ہوں ۔ ’’ ‘‘لیکن آپ مجھے صبح بھی تو بتا سکتے تھے۔’’ ‘‘نہیں ……وہ خبر پہلے میں تمہیں سنانا چاہتا ہوں ۔’’ ‘‘اچھا ، سنائیے۔’’ ‘‘بلال…… اس امت کے نبی مبعوث ہو چکے ہیں ۔’’ ‘‘وہ کون صاحب ہیں ؟’’ ‘‘محمد (ﷺ) بن عبداللہ۔’’ ‘‘لیکن آپ کو کیسے معلوم ہوا ۔’’ ابوبکر ، بلال کا سوال سن کر بولے : ‘‘دراصل میں یہ سرگوشیاں خاصے دنوں سے سن رہا تھا کہ محمد(ﷺ) بن عبداللہ اپنے آپ کو اللہ کا نبی کہتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے گھر پر اپنے قریبی رشتے داروں کو کھانے کی دعوت دی تھی اور انہیں یہ بات بتائی تھی اور پھر یہ بات سننے میں آئی کہ وہ خفیہ طور پر لوگوں کو اپنے نئے دین کی طرف بلاتے ہیں ۔ مجھے تجسس ہوا اور میں ان کے پاس پہنچ گیا اور سنی ہوئی باتوں کی بابت پوچھا ۔ انہوں نے فرمایا: ‘‘ہاں ابوبکر، میرے بزرگ و برتر رب نے مجھے اپنا رسول بنایا ہے اور اپنی قوم کی طرف بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے ۔ اس نے مجھے ہمارے جدامجد ابراہیم ؑ کی دعا بنا کر بھیجا ہے ۔’’ میں نے انہیں کہا : ‘‘اللہ کی قسم! مجھے آپ کے بارے میں جھوٹ کا کبھی تجربہ نہیں ۔آپ اپنی عظیم امانت داری ، صلہ رحمی اور حسن کردار کے سبب رسالت کے اہل ہیں ۔ اپنا ہاتھ بڑھائیے میں آپ کی بیعت کرتا ہوں۔’’ ‘‘آپ نے اتنی جلدی ان کی بیعت کیوں کر لی؟ آخر ان کے پیش نظر جاہ و جلال بھی تو ہو سکتا ہے!’’ ‘‘نہیں اے بلال! میں ابن عبداللہ سے خوب واقف ہوں ۔ انہیں مال و دولت اور مقام و مرتبے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ ان کے پاس خدیجہؓ اور اپنی تجارت کا بہت سا مال ہے پھر وہ قریش کے اعلی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ انہیں بھلا اس کی کیا حاجت۔’’ ‘‘وہ تعلیم کس بات کی دیتے ہیں ۔’’ بلال کی دلچسپی بڑھی ۔ ‘‘وہ کہتے ہیں کہ پتھر کے بنے بے جان بتوں کی پوجا چھوڑو ۔ ان کے دست قدرت میں کچھ نہیں، یہ محض بے جان مورتیاں ہیں اور ان کے بجائے ایک اللہ کی عبادت کرو جس نے زمین و آسمان اور اس کے درمیان کی ہر شے کو تخلیق کیا ہے ۔’’ ابو بکر کچھ لمحہ رکے پھر بولے : ‘‘اور بلال وہ کہتے ہیں کہ آقا اور غلام میں کوئی فرق نہیں ، یہ انسان کا عمل ہے جو اسے دوسرے سے بہتر بناتا ہے۔’’ ‘‘اور وہ کہتے ہیں کہ اللہ سے براہ راست رابطہ کیا جا سکتاہے ۔ اس کے لیے کسی انسانی یا غیر انسانی وسیلے کی ضرورت نہیں ۔’’ ‘‘اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اصل زندگی آخرت کی ہے ……’’ بلال سر جھکائے سوچتا رہا اور ابوبکرؓ اس کے چہرے کے تاثرات سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے رہے وہ کس قدر متاثر ہوا ہے ۔ تھوڑی دیر تک دونوں خاموش رہے پھر ابوبکرؓ ہی کو خاموشی توڑنا پڑی۔ ‘‘بلال تمہاری کیا رائے ہے ؟’’ (جاری ہے)