کمال پور سے لاہور
چودھری فرزند علی
میں ضلع انبالہ کے گاؤں’’کمال پور ‘‘میں پیدا ہوا۔ میرے گاؤں سے کچھ ہی دور ’’نہر سرہند‘‘ بہتی ہے۔یہ نہر جس مقام سے نکلتی ہے‘ اس کے قرب میں عظیم صوفی بزرگ حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی ؒ کا مزار ہے۔ اسی درگاہ کے قرب کی وجہ سے نہر کا نام ’’نہر سرہند‘‘ معروف ہوا۔ شہر سرہند شریف بھی اسی مناسبت سے مشہور ہے۔
ہمارے گاؤں کے قریب جانب مغرب راجپوت مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا گاؤں’’چونتا‘‘ واقع تھا۔
چونتا اور کمال پور کے رہائشی مسلمانوں کا ہندوؤں اور سکھوں پر بڑا رعب و دبدبہ تھا۔ وہ لوگ سمجھتے تھے کہ راجپوت لڑاکا اور مرنے مارنے والی قوم ہے۔ ان کے پاس اسلحہ اور سامان حرب و ضرب بھی ہمہ وقت موجود ہوتا ہے۔ اسی لیے گرد و نواح کے غیرمسلم ان دونوں گاؤں کے راجپوت مسلمانوں سے پرخاش رکھتے اور ان سے مرعوب بھی رہتے۔
سرہند نہر پر ایک پل بنا ہوا تھا۔ یہ پل انگریزوں نے تعمیر کروایا۔ انگریز نے بلاشبہ تاجروں کے بھیس میں برصغیر پر ناجائز قبضہ کیا۔ صدیوں پرانی حکومت چھین کر مسلمانوں کوغلام بنا ڈالا۔ ان پر علم و فن کے دروازے بند کر دیے۔ اس خطہ سرزمین کو جسے سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا‘ لوٹ لوٹ کر یورپ کے عشرت کدے آباد کیے۔ مسلمانوں سے ہتھیائی دولت اور انہی کے چرائے ہوئے علم پڑھ کر یورپ کو بام عروج تک پہنچا دیا۔ لیکن یہ بات بھی ہے کہ اگر ہندوستان میں انگریز نہ آتا تو شاید ہم آج بھی بہ لحاظ ترقی صدیوں پیچھے اور ماضی کے اندھیروں میں گم ہوتے۔ انگریزوں کے تعمیراتی اور ترقیاتی کاموں کی طویل فہرست ہے جنھوں نے اس ملک کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔
گو یہ کام استعماری مقاصد کی تکمیل کے لیے انجام پائے مگر ان کاموں کا حقیقی فائدہ برصغیر کے عوام ہی کو ملا۔جہاں تک ہمارے گاؤں یا آس پاس کے ہندوؤں اور سکھوں کا تعلق ہے ،یہ سبھی لوگ صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل کر رہ رہے تھے۔ بظاہر اِن میں کوئی دشمنی نہ تھی۔ ہندو‘ مسلم اور سکھ ایک دوسرے کی خوشی‘ غمی اور دیگر تقریبات میں شریک ہوتے۔ لیکن ہندوؤں کے حوالے سے مسلمانوں کے دلوں میں انجانا سا خوف اور ڈر پوشیدہ تھا۔ مسلمان یہ جانتے تھے کہ ہندو دھوکے باز اور مکار قوم ہے اور ان پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کا یہی خدشہ آخر حقیقت بن کر سامنے آ گیا۔
زندگی اپنی تمام تر خوبصورتی لیے دھیرے دھیرے رواں دواں تھی۔ اس دوران میں نے بڑوں سے سنا کہ مسلمانوں کا ایک الگ ملک ’’پاکستان‘‘ بن رہا ہے۔ وہاں مسلمانوں کی اپنی حکومت ہو گی۔ دن تو مجھے یاد نہیں البتہ مہینا یقیناًاگست کا ہو گاکہ گاؤں کے قریبی علاقوں میں حالات خراب ہونے لگے۔ ہندو اور سکھ مسلمان آبادیوں پر حملے کر رہے تھے۔ مختلف علاقوں سے خبریں آنے لگیں کہ آج ہندوؤں نے فلاں گاؤں پر حملہ کر دیا۔ فلاں دیہہ کوآگ لگا دی۔ حالات دن بہ دن خراب ہوتے گئے۔ مسلمانوں کو یوں لگ رہا تھا جیسے اب ہندوستان سے جانا ان کا مقدر ٹھہر گیا۔
لیکن بعض مسلمان اپنے گھر بار‘ زمین جائداد اور اپنے آباؤ اجداد کی قبریں چھوڑ کر کہیں جانے کو تیار نہ تھے۔ کئی جذباتی نوجوان اس حد تک تیار تھے کہ اگر ہندوؤں اور سکھوں نے حملہ کیا تو ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ شہید ہوجائیں مگر کفار سے شکست نہ کھائیں اور نہ ہی اپنی دھرتی چھوڑ کر جائیں۔
ہندوؤں اور سکھوں کاطریقہ کار یہ تھا کہ جس مسلمان گاؤں پر حملہ کرنا ہوتا‘ اس کے خلاف کوئی الزام لگاتے یا بہانہ گھڑتے۔ پھر آس پاس کے سیکڑوں دیہات سے ہزاروں ہندواور سکھ اسلحے سے لیس ہو کر حملہ آور ہوتے اور اس گاؤں کو تہس نہس کر ڈالتے۔ کمال پور کے مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ ان حالات میں ہندوؤں سے مقابلہ کرنا دانشمندی نہیں کیونکہ ہندو اور سکھ جنونی کیفیت میں مبتلا تھے۔ وہ ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے ہو کر مسلمانوں پر بے رحمی سے حملے کر رہے تھے۔
مسلمانوں کے پاس دفاع کے لیے قابل ذکر ہتھیار بھی نہیں تھے۔ وہ چاروں طرف سے ہندوؤں اور سکھوں کے درمیان گھرے ہوئے تھے۔ جس دن پختہ یقین ہو گیا کہ اب کمال پور پر حملہ ہو کر رہے گا تو مسلمانوں نے عورتوں‘ بچوں اور بزرگوں کو ہندوؤں کے ہاتھوں مروانے کے بجائے وہاں سے نکل جانا بہتر سمجھا۔ جب بزرگوں نے یہ ملک چھوڑنے کا اصولی فیصلہ کر لیا تو ہر شخص اپنے اپنے خاندان کو لے کر جان بچاکسی نہ کسی جانب نکل کھڑا ہوا۔
عام حالات ہوتے تو ہندوؤں کو کبھی کمال پور پہ حملہ آور ہونے کی جرآت نہ ہوتی۔ انھیں معلوم تھا کہ کمال پور کے بہادر راجپوت منہ توڑ جواب دیں گے لیکن اب تو جنون کی سی کیفیت تھی۔ ایک طرف نہتے مسلمان جبکہ دوسری طرف تربیت یافتہ اور مسلح دشمن‘ لہٰذا بچاؤ کی تدبیر کرنا ہی بہتر تھا۔ ان حالات میں میرے والد صاحب نے اہل خانہ کو ساتھ لیا اور چونتا آ گئے۔ اگرچہ چونتا بھی خطرے میں گھر چکا تھا لیکن کمال پور پر حملے کا زیادہ خطرہ تھا کیونکہ وہ بڑا گاؤں تھا جو ہندوؤں کے دل میں ہمیشہ کانٹا بن کر چبھتا۔
والد صاحب ہمیں چونتا چھوڑ کر اگلے دن تنہا کمال پور گئے۔ گھر کی ضروری اشیا ساتھ لیں‘ بھینسوں کادودھ نکالا اور انھیں باندھنے کی بجائے آزاد کر دیا۔ پھر بھرے گھر کے دروازے کھلے چھوڑ چونتا آ گئے۔ آس پاس کے کئی علاقوں سے بھی مسلمان وہاں جمع ہو گئے تھے۔ یوں مسلمانوں کا کافی بڑا اجتماعِ بن گیا۔ بعد میں کمال پور پر واقعی حملہ ہوا۔ بچے کھچے لوگوں کو مار ڈالا گیا‘ بے تحاشا لوٹ مار کی گئی اور گاؤں کو نذر آتش کر دیا گیا۔
انقلاباتِ زمانہ ،پہلے مسلمانوں کو یقین تھا کہ ہمارا علاقہ پاکستان میں شامل ہو گا لیکن جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی تاریخی بددیانتی اور نہرو کے ساتھ کی گئی سازباز سے راتوں رات یہ فیصلہ ہو گیا کہ سارا علاقہ بھارت کوملے گا‘ تو پہلے سے مصائب میں گھرے مسلمانوں پر غم و اندوہ کا ایک اور پہاڑ ٹوٹ پڑا
’’اک اور دریا کا سامنا تھا منیرمجھ کو
ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا‘‘
تب مسلمان اپنے ہی وطن میں حقیقی معنوں میں بے یار و مددگار ہو گئے۔ جس دیس میں وہ صدیوں سے آباد تھے‘ اچانک ان کے لیے اجنبی اور پردیس بن گیا۔ لوگ گھر بار کے ہوتے ہوئے بھی بے گھر اور دربدر ہو گئے۔اس وقت حالت یہ تھی کہ امیر اور رئیس لوگ خالی ہاتھ صرف تن کے کپڑے لیے اپنی عزت‘ جان اور ایمان بچا کر سب کچھ چھوڑ چھاڑ چلے آئے تھے۔
بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ تمام لوگ نماز مغرب کے بعد ایک قافلے کی صورت پاکستان روانہ ہوں گے۔چناں چہ ہمارا قافلہ رات کے اندھیرے میں محو سفر ہوا۔ جوں جوں وہ آگے بڑھا‘ لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ قریبی علاقوں کے مسلمان بھی قافلے میں شامل ہونے لگے۔ ایک رات کے اندر شامل ہونے والوں کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچی۔
بوڑھے‘ بیمار‘ خواتین اور بچوں کو بیل گاڑیوں پر سوار کرایا گیا۔ کچھ لوگ گھوڑوں پر سوار تھے۔ جبکہ ہزاروں افراد پاپیادہ دیوانہ وار اپنی منزل کی جانب گامزن تھے۔ راستے میں آنے والے ہندوؤں اور سکھوں کے علاقوں سے گزرتے ہوئے سخت خطرہ تھا۔ وہ لوگ قافلے پر حملے کرتے‘ لوٹ مار کر کے مسلمانوں کو قتل کر ڈالتے اور نوجوان خواتین کوپکڑ لیتے۔ اس لیے قافلے میں شامل نوجوان اور گھڑسوار قافلے کی چاروں طرف سے حفاظت کر رہے تھے۔ میرے والد بھی جوان‘ طاقتور اور پہلوان قسم کے تھے۔ اس لیے وہ بھی کئی نوجوانوں کولیے قافلے کی نگرانی کرتے رہے۔ قافلہ بہت بڑا تھا۔ اس کی لمبائی دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ بیل گاڑیوں اور پیدل افراد کی وجہ سے قافلہ انتہائی سست رفتاری سے چل رہا تھا۔
کئی جگہوں پر ہندوؤں اور سکھوں نے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قافلے کے آخری حصوں پر حملے کیے۔ لیکن مسلمان نوجوانوں اور گھڑسوار بہادروں نے منہ توڑ جواب دیا۔ حملہ آور بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ دو تین دفعہ دونوں طرف سے جانی نقصان بھی ہوا لیکن مجموعی طور پر ہمارا قافلہ بحفاظت منزل کی طرف رواں دواں رہا۔
دو راتیں اورپورا دن سفر کرنے کے بعد دوسری رات صبح پو پھٹنے سے پہلے ہم لدھیانہ پہنچے۔ یہ ہمارے قافلے کا پہلا پڑاؤ تھا۔ لدھیانہ پہنچ کر قدرے اطمینان کا سانس ملاکیونکہ کم از کم وہاں سکھوں اور ہندوؤں کے حملے کا خطرہ نہ تھا۔ تاہم مہاجر کیمپ میں مشکلات اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ مہاجر کیمپ لدھیانہ شہر میں ریلوے لائن کے ساتھ قائم کیا گیا۔ یہ بہت بڑی جگہ تھی جہاں ہزاروں کی تعداد میں مہاجرین مقیم تھے۔ یہ کوئی باقاعدہ کیمپ نہ تھا جس میں مہاجرین کے لیے خیمے لگا کر رہائش کا بندوبست ہوتا۔ ہزاروں افراد کھلے آسمان تلے دھوپ‘ بارش‘ آندھی‘ طوفان اور موسم کے رحم و کرم پر پڑے تھے۔
اگر کسی شخص کے پاس کوئی ذاتی کپڑا یا چادر موجود تھی تو اس نے اسے تان کر سایہ کر لیا۔ ہم نے بھی ایک پھٹا پرانا کپڑا تان کر سر چھپانے کے لیے جھگی سی بنا لی۔ جب کہ اکثر لوگوں کے پاس چادر بھی نہ تھی۔ وہ یونہی سر برہنہ اور بے سایہ موسمی شدائد کا شکار ہو رہے تھے۔ بعض لوگ تو اتنی کسمپرسی کے عالم میں تھے کہ ان کے پاس پورا تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا نہ تھا۔ کیمپ کے یہ ایام نہایت اذیت ناک اور کربناک تھے۔ ہم لوگ بے وطن مسافر اور خانماں برباد پناہ گزینوں کی حقیقی تصویر بنے بھوکے‘ پیاسے اور بے یارومددگار پڑے تھے ۔ کیمپ کے اندر اشیائے خور و نوش ناپیدتھیں۔کسی کے پاس اوّل تو کچھ تھا ہی نہیں‘ اگر تھا بھی تو وہ جلد ختم ہو گیا۔ بھوک‘ افلاس اور بیماری نے ڈیرے ڈال دیے تھے۔ حکومت کی طرف سے ملنے والا راشن بمشکل ایک دن چلتا۔ جو بیمار تھے، ان کا یہاں کوئی پرسان حال نہ تھا۔ والد صاحب پیچش کے مرض میں مبتلا ہو گئے۔ دوائی کا نام و نشان نہ تھا اور نہ ہی کوئی خوراک ملتی۔ ان کی حالت انتہائی خراب ہو گئی۔ یوں سمجھئے کہ وہ قریب المرگ حالت میں پہنچ گئے۔
برسات کا موسم شروع ہو چکا تھا۔ موسم نے بھی عجیب پریشان کن صورت حال پیدا کر دی۔ ایک دن اتنے زور شور سے بارش ہوئی کہ ہر طرف پانی ہی پانی ہو گیا۔ میری والدہ‘ بڑے بھائی‘ چھوٹی بہن‘چند ماہ کا چھوٹا بھائی اور میں ریلوے پٹڑی کے ساتھ ایک اونچی جگہ پر چادر تان کر بارش سے پناہ لیے بیٹھ گئے۔ بارش نے ہمارا سامان اور کپڑے بھگو ڈالے اور تھوڑی بہت خوراک جو موجود تھی، وہ بھی خراب ہو گئی۔کئی گھنٹوں کی موسلادھار بارش کے بعد خدا خدا کرکے موسم صاف ہوا تو ہر کوئی جو کونوں کھدروں میں چھپا ہوا تھا‘ باہر نکل آیا۔ ہر کسی نے اپنے کپڑے اور سامان خشک ہونے کے لیے ریل کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ اونچی جگہ پر رکھ دیا۔
ہر طرف جل تھل ہوگیا تھا۔ کھیتوں میں فصلیں تباہ ہوچکی تھیں۔ اس سے قبل لوگ آس پاس کے کھیتوں سے کچا اناج اور غلہ توڑ لاتے تھے لیکن بارش نے سب کچھ ختم کر دیا۔میرے بڑے بھائی اناج اور غلے کی تلاش میں نکلے۔ پانی اتنا زیادہ تھا کہ ان کے پیٹ اور سینے تک آ پہنچا۔ مگر انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ بہت دور تک جا نکلے۔ انھیں اور تو کچھ نہ ملا البتہ کماد کا ایک کھیت نظر آ گیا۔ وہاں سے وہ گنے توڑ لائے۔ ہم سب نے گنے چوسے‘ توکچھ پیٹ کی آگ بجھی۔ اسی طرح دو تین دن ہم نے گنے چوس چوس کر گزارہ کیا۔ پھر جا کر کہیں راشن ملا۔
مہاجرین کے لیے ہفتے بعد بذریعہ ریل خوراک آتی۔ اس میں آٹا‘ چینی‘ چاول‘ خشک دودھ اور بھنے ہوئے چنے شامل ہوتے۔ لیکن عموماً ہمیں ایک آدھ چیز ہی ملتی اور وہ بھی آدھی۔ بہرحال ہم نے وہاں طویل اذیت ناک اور کربناک وقت گزارا۔ تقریباً دو ماہ بعد بالآخر مہاجر کیمپ سے روانگی کا وقت آن پہنچا۔
ہمیں ریل میں سوار ہونے کا حکم ملا تو زبردست دھکم پیل کا ماحول تھا۔ ہر شخص پہلے سوار ہونے کی کوشش میں کسی چیز کی پروا کیے بغیر ایک دوسرے کو لتاڑتے اور پچھاڑتے آگے بڑھ رہا تھا۔ جوان اور زور آور‘ بوڑھوں اور ناتوانوں کوپیچھے دھکیلتے ریل پر سوار ہونے لگے۔ یہ بات حتمی تھی کہ جو چڑھ گیا سو چڑھ گیا‘ جو رہ گیا سو رہ گیا۔ حتیٰ کہ عورتوں‘ بوڑھوں اور بچوں کو بھی کھڑکیوں کے راستے اندر پھینکا جا رہا تھا۔
میرے والد نے ہمیں بھی کھڑکی کے ذریعے ہی اندر بٹھایا۔ جن لوگوں کو اندر جگہ نہیں مل سکی‘ وہ ریل کی چھت پر سوار ہو گئے۔ گاڑی چلنے والی تھی ہم سب تو اندر تھے لیکن والد محترم کو ابھی تک اندر آنے کا موقع نہ مل سکا۔ آخر وہ بڑی مشکل سے ریل کی چھت پر چڑھ گئے۔ ہمارے سامان کی گٹھڑی جس میں ہمارا زندگی کا کل اثاثہ تھا یعنی ضرورت کے بعض کپڑے اور کچھ دیگر اہم چیزیں پلیٹ فارم پر پڑی تھیں۔
گاڑی چلنے والی تھی۔ پلیٹ فارم پر لوگ موجود تھے۔ والد نے چند لوگوں سے کہاکہ یہ گٹھڑی انھیں گاڑی کی چھت پر پکڑا دیں‘ مگر انھوں نے ہماری آنکھوں کے سامنے کھولی‘ اچھی طرح دیکھا اور دوبارہ باندھ کر اپنے سر پر رکھ چلتے بنے۔ ادھر گاڑی بھی چل پڑی۔ یوں ہماری آخری متاع بھی ہماری آنکھوں کے سامنے لٹ گئی۔
اب ہم صرف تن کے کپڑوں کے ساتھ پاکستان کی جانب محو سفر تھے۔ یقین جانیے اس وقت میرے بدن پر صرف ایک کرتا تھا۔ میری دھوتی اسی گٹھڑی میں تھی۔ سردی لگ رہی تھی اور میں کانپ رہا تھا۔ آخر آہستہ آہستہ گرمی کی وجہ سے میرا جسم نارمل ہونے لگا۔
یہ سفر بھی روح فرسا تھا۔ قدم قدم پر ہندو اور سکھ موت بن کر کھڑے تھے۔ وہ رات کی تاریکی اور دن کے اْجالے میں ریلوں پر حملہ کرتے۔ ریلوں پر حملے کی اطلاعات تسلسل کے ساتھ موصول ہو رہی تھیں۔ ایک مصدقہ اطلاع یہ تھی کہ ہم سے پہلے جانے والی ریل پر مسلح ہندوؤں اور غنڈوں نے حملہ کر کے تمام مسلمانوں کو قتل کر ڈالا۔ یہاں تک کہ سکھوں نے معصوم بچوں کو نیزوں میں پرو کر وحشیانہ رقص کیا۔ نوجوان عورتوں کی عصمت دری کی اور پھر انھیں قتل کردیا یا ساتھ لے گئے۔
اس دوران ایک ایسی ریل بھی لاہور پہنچی جس میں کوئی انسان سلامت نہیں بچا تھا۔ لاہور میں جو مسلمان رضاکار اور شہری مہاجرین کی خدمت پر مامور تھے، وہ اس وقت حیران رہ گئے جب ایک ریل اسٹیشن پر آ کر رْکی اور پوری ریل سے کوئی ایک شخص بھی نیچے نہیں اْترا۔ بلکہ ڈبوں سے خون نیچے ٹپک رہا تھا اور ریل لاشوں سے اٹی پڑی تھی۔
اس طرح کے واقعات سے تمام مسافر سہم گئے۔ ریل سست رفتاری سے چل رہی تھی۔ جہاں کھڑی ہوتی، گھنٹوں کھڑی رہتی اور چلنے کا نام نہ لیتی۔ اس وقت ہر آن اور ہر پل یہ خوف سوار تھا کہ ابھی سکھ اور ہندو تلواریں‘ نیزے اور اسلحہ لہراتے ہوئے آئیں گے اور پوری ریل کو خون میں نہلا دیں گے۔ دوران سفر بھوک تو تھی ہی پانی بھی نہ ملتا۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے پیاس سے بلک رہے تھے۔ جہاں ریل رکتی وہاں پانی کا نام و نشان نہ ہوتا۔ اگر کہیں پانی کا کوئی کنواں یا گڑھا موجود تھا تو ہندوؤں نے مسلمانوں کو قتل کر کے لاشیں اس میں پھینک دیں۔ اس پانی میں انسانی خون کی آمیزش تھی اور وہ پینے کے قابل نہ تھا۔
ہمیں فیروز پور سے کچھ پہلے ریل سے اْتار دیا گیا کیونکہ آگے ہندو سکھ دہشت گردوں نے پٹڑی اکھاڑ دی تھی۔ چناں چہ ریل کے ہزاروں مسافر ایک بار پھر پاپیادہ عازم سفر ہوئے۔ ریل کے طویل اور تھکا دینے والے سفر کی وجہ سے پہلے ہی لوگوں کی ہمت جواب دے چکی تھی۔ اوپر سے بھوک‘ پیاس کی حالت میں پیدل سفر انتہائی دشوار معلوم ہوا۔ خوراک نہ ملنے کی وجہ سے اکثر لوگوں میں کمزوری کے آثار نمایاں تھے۔ بیماروں اور بوڑھوں کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ کئی میل کا سفر طے کرنے کے بعد ہم فیروز پور پہنچے۔ وہاں ایک جگہ مہاجر کیمپ قائم تھا۔ ہم ایک بار پھر بھوکے پیاسے کھلے آسمان تلے رات گزارنے پر مجبور ہو گئے۔
یہ رات میری زندگی کی ایک عجیب خوفناک اور ہولناک رات تھی۔ اکثر لوگوں کے پاس خوراک بالکل نہیں تھی۔ بھوک سے اکثر لوگوں کا برا حال تھا۔ پیاس کی وجہ سے چھوٹے بڑے سب بلک رہے تھے۔مجھے میں یہ مناظر کبھی نہیں بھول سکتا جب مائیں اپنے بچوں کو کھانا پکنے کے جھوٹے دلاسے اور لوریاں دے کر سلانے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں لیکن معصوم بچوں کی خوفناک چیخوں نے آسمان سر پر اْٹھایا ہوا تھا۔ اْدھر بیمار ایک بوند کو ترستے لواحقین سے پانی کی فریاد کر رہے تھے۔ یہ لوگ اپنی بیماری اور تکلیف سے کراہ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ان کا کچھ کیا جائے۔ مگر ہر شخص بے بس اور لاچار تھا۔ جوان باہمت لوگ بھی اپنے پیاروں کی حالت زار دیکھ کر منہ چھپا کر آنسو بہاتے رہے۔
ایک عجیب حشر بپا تھا‘ ہر شخص اپنی مصیبت میں گرفتار سرگرداں و پریشان تھا۔ کچھ بچے روتے بلکتے سو گئے۔ کچھ بچوں کے رونے کی آواز یں صبح تک بے چین کرتی رہیں۔بیماروں کے کراہنے اور ہائے ہائے کی آوازوں نے ماحول کو غمناک بنا دیا۔ صبح ہوئی تو روانگی کا اذن ملا۔ پھر چیخ پکار اور ہڑبونگ مچ گئی۔ نفسانفسی کا عالم تھا۔ بھوک‘ پیاس‘ کمزوری اور نقاہت کے سبب بیشتر لوگ اپنا وجود لے کر بھی چلنے سے قاصر تھے‘ چہ جائیکہ وہ سامان اٹھاتے یا اپنے بیماروں کو ساتھ لیتے۔
ہم نے پھر ایک تلخ ‘ لرزہ خیز اور دلخراش منظر دیکھا۔ کئی لوگوں نے اپنے سامان پھینک دیے۔ انتہائی بیمار اور انتہائی لاغر بوڑھوں کو بھی وہیں چھوڑا اور صرف اپنی جان لیے پاکستان روانہ ہو گئے۔ آخر ہمارا اْجڑا قافلہ صبح سے شام تک سفر کرنے کے بعد سرحد تک پہنچ ہی گیا۔جونہی پاکستان کی مقدس سرزمین آئی‘ لوگوں میں زندگی‘ اْمید اور خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ پاک مٹی کو دیکھ کر اس قدر جذبات میں آئے کہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ لوگ والہانہ انداز میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ پاکستان کا مطلب کیا’’ لا الہ الااللہ‘‘ کے نعرے ہائے مستانہ بلند ہو رہے تھے۔
سرحد کے قریب گنڈا سنگھ والا کے مقام پر حکومت پاکستان کی جانب سے کیمپ لگایا گیا تھا۔ پاکستانیوں اور مقامی رضاکاروں نے مہاجرین کا والہانہ استقبال کیا۔ انھیں باعزت طریقے سے کیمپ میں ٹھہرایا۔ اچھا کھانا پیش کیا اور ان کی ممکنہ حد تک خدمت کی۔ وہاں بھی ایک رات کا قیام رہا۔ اگلے دن صبح سویرے ہر شخص اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہونے لگا۔ مہاجرین میں اکثر لوگوں کی کوئی مخصوص منزل متعین نہ تھی بلکہ جدھر جس کا جی چاہا‘ اْدھر کا رخ کر لیا۔
ہماری منزل فیصل آباد میں سمندری کاعلاقہ تھی۔ تقسیم سے پہلے وہاں ہمارے کئی رشتہ دار مقیم تھے۔ بس کے ذریعے سفر کرنا تھا لیکن ہماری والدہ محترمہ نے انکار کر دیا۔ وہ سمجھتی تھیں کہ بسوں میں بہت زیادہ ہجوم ہوتا ہے اور لوگ دم گھٹ کر مر جاتے ہیں۔ سو ہم نے گنڈا سنگھ والا سے پیدل مارچ شروع کر دیا۔ رات کے وقت لاہور ریلوے اسٹیشن کے سامنے موجود پارک میں پہلا پڑاؤ ڈالا۔
لاہور کی چکاچوند روشنیاں‘ رونق اور خوبصورتی میرے لیے بالکل نئی اور انوکھی چیز تھی۔ میں نے اس سے قبل کوئی شہر نہیں دیکھا تھا۔ اب میں لاہور کی روشنیاں اور رعنائیاں دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سمایا۔ ہمیں اپنی سابقہ تمام تکالیف بھول گئیں۔ میں خوش تھا کہ ہم بڑی اچھی جگہ آ گئے ہیں۔
مجھے یاد ہے‘ رات کے وقت ایک شخص گیس کی روشنی میں سرخ قندھاری اناروں کے دانے بیچ رہا تھا۔ گیس کی روشنی اور قندھاری انار کے سرخ دانے‘ دونوں ہی چیزیں میرے لیے اچنبھا تھیں کیونکہ زندگی میں پہلی دفعہ دیکھیں۔ گاؤں میں تو دیے اور لالٹین کے سوا کسی روشنی کا تصور بھی نہ تھا۔ یوں لاہور نے مجھے اپنادیوانہ بنا لیا۔ اپنی قسمت پر رشک کرنے لگا کہ گاؤں سے نکل کر شہر کی رونقیں اور خوبصورتیاں دیکھنا نصیب ہوئیں۔ اس طرح پاکستان پہنچنے کے بعد ہماری نئی زندگی کا آغاز ہو گیا۔