نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
‘‘اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔’’
میرے بھائیو!
سب سے پہلے تو آپ کو رمضان المبارک کی سعادت ملنے اور رمضان المبارک میں روزے رکھنے اور اس کام کے لیے توفیق الٰہی پر مبارک باد دیتا ہوں۔ یہ معمولی نعمت نہیں ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے بڑے وعدے فرمائے ہیں، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی بشارتیں سنائی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ‘‘من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ’’ کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے، اللہ کے وعدوں پر یقین کرتے ہوئے اور اس کے اجر و ثواب کی لالچ میں، تو اس کے سب پچھلے گناہ معاف ہو گئے۔ اور یہ بظاہر آخری جمعہ ہے، جمعتہ الوداع ہے۔ اس کے بعد جو روزے باقی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو رکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور شب قدر کی دولت و نعمت بھی عطا فرمائے، ہماری اور آپ کی عاجزانہ دعاؤں کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، جو اس مہینہ میں کی گئیں۔
اب میں آپ کے سامنے بظاہر ایک نئی بات کہنے والا ہوں، لیکن وہ نئی بات نہیں ہے، وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے ماخوذ ہے، اور قرآن مجید پر مبنی ہے لیکن بہت سے بھائیوں کے لیے نئی ہو گی، اور نئی چیز کی ذرا قدر ہوتی ہے اور اس سے آدمی کا ذہن ذرا تازہ، بیدار اور متوجہ ہو جاتا ہے۔ وہ نئی بات یہ ہے : ‘‘روزے دو طرح کے ہیں، ایک چھوٹا روزہ ایک بڑا روزہ’’۔
چھوٹے روزے کی تحقیر مقصود نہیں، صرف زمانی اور وقتی لحاظ سے کہہ رہا ہوں۔ چھوٹا روزہ کتنا ہی بڑا ہو، ۱۳ گھنٹہ، ۱۴ گھنٹہ کا روزہ ہو گا، بعض ملکوں میں جہاں دن اس زمانہ میں بڑا ہوتا ہے اس سے کچھ زیادہ۔ یہ وہ روزہ ہے جو بلوغ پر مسلمان پر فرض ہو جاتا ہے، وہ صبح صادق سے شروع ہوتا ہے اورغروبِ آفتاب تک قائم رہتا ہے۔ اس روزہ کا ایک قانونی ضابطہ اور اس کے کچھ شرعی احکام ہیں جو آپ کو معلوم ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ اس روزہ میں آدمی کھا پی نہیں سکتا اور ان تعلقات و معاملات کا لطف نہیں حاصل کر سکتا جن کی اوردنوں میں اجازت ہے۔ یہ روزہ چاہے ۲۹ دن کا ہو یا ۳۰ دن کا، اس میں محدود پابندیاں ہیں۔ رمضان کے اس روزے سے لوگ واقف اور اس کے قوانین و احکام پر عامل ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ غور کریں کہ اس روزے کے علاوہ اور کون سا روزہ ہے جو اپنے وقت اور رقبہ میں اس سے بڑا ہے، گرمی کے روزے اور بڑے ہوتے ہیں اور اس روزے کے علاوہ اور کون سا بڑا روزہ ہو گا، کیا شش عید کا روزہ بتانے والا ہوں، یا پندرہویں شعبان کا؟ کون سا روزہ بتانے والا ہوں۔
بڑا روزہ ہے: اسلام کا روزہ! اسلام خود ایک روزہ ہے اور یہ سب روزے اور عیدین بھی، بلکہ روزہ، نماز یہاں تک جنت بھی، جو اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا، وہ سب اس کے طفیل ہی ہے۔ اصل بڑا روزہ، اسلام کا روزہ ہے۔ وہ کب ختم ہوتا ہے، کب شروع ہوتا ہے، یہ بھی سن لیجیے۔
جو خوش قسمت انسان مسلمان گھر میں پیدا ہوا ، اور وہ شروع سے کلمہ گو ہے، اس پر بلوغ کے بعد ہی یہ طویل مسلسل روزہ فرض ہو جاتا ہے اور جو اسلام لائے، کلمہ پڑھے، یہ روزہ اس پر اسلام قبول کرنے کے وقت شروع ہوتا ہے۔
اور یہ روزہ کب ختم ہوگا، یہ بھی سن لیجیے۔ رمضان کا روزہ اور نفلی روزہ تو غروب آفتاب پر ختم ہو جاتا ہے، مگر اسلام کا روزہ تو آفتاب عمر کے غروب ہونے پر ختم ہو گا۔
رمضان کے روزہ و نفلی روزہ کا افطار کیا ہے۔ آپ عمدہ سے عمدہ مشروب اور لذیذسے لذیذ غزا سے افطار کر سکتے ہیں۔ زیادہ مشروبات اور ماکولات کا نام سن کر آپ کے منہ میں پانی آجائے گا اور شوق پیدا ہو جائے گا، اس لیے میں ان کا نام نہیں لیتا۔ وہ روزہ زمزم سے کھلتا ہے، وہ روزہ ٹھنڈے پانی سے کھلتا ہے، یا دوسرے مشروبات سے یا کھجور وغیرہ سے کھلتا ہے۔ اور زندگی کا یہ طویل و مسلسل روزہ کس سے کھلے گا؟ حضرت محمدؐ رسول اللہ محبو ب رب العالمین ، شفیع المذنبین، سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے جامِ طہور ، جامِ کوثر سے کھلے گا۔ اگر وہ روزہ پکا ہے اور آپ نے اس روزے کی شرائط پوری کر دی ہیں اور محض اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کے فضل سے ہم دنیا سے کلمہ پڑھتے ہوئے گئے، ہماری روح اس حال میں نکلی، کہ ہماری زبان پر کلمہ تھا اور ہم ‘‘لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ’’ کہہ رہے تھے، ہمارے دل میں نور ایمان تھا، ہمارے دماغ میں اللہ سے ملاقات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کرنے کا شوق تھا، تو وہ روزہ اس وقت ختم ہوتا ہے۔ اس کا افطار کیا ہے اس کی ضیافت کیا ہے؟ وہ ہے جس ضیافت پر آدمی اپنی جان دے دے …… اور اللہ کے بندوں نے جان دی ہے۔ سیکڑوں اور ہزاروں لاکھوں آدمیوں نے اس شوق میں جان دی ہے، کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار نصیب ہو، اللہ کے رسولؐ کے سامنے ہم جب ہوں تو وہ ہم سے خوش ہوں، راضی ہوں، جہاد کے واقعات، غزوات اور جنگوں کے واقعات پڑھئے۔ لوگوں نے خوشی خوشی جانیں دیں، بلکہ ایسا شوق تھا کہ ایک بچہ احد کی جنگ کے موقع پر آیا۔ اس نے کہا: یا رسولؐ اللہ مجھے بھی جہاد کرنے کی اجازت دیجیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی تم چھوٹے ہو۔ اس نے کہا: نہیں چھوٹا نہیں، میں لڑ سکتا ہوں۔ اس نے بڑی خوشامد کی، کسی نے سفارش بھی کی تو آپ نے اجازت دے دی۔ دوسرے صاحبزادے آئے جو ذرا چھوٹے تھے، کہنے لگے: آپ نے انھیں اجازت دی تھی، مجھے بھی اجازت دے دیجیے، آپ ؐنے فرمایا:تم ابھی بچے ہو۔ اس نے عرض کیا: آپ ہماری کشتی کرا کر دیکھ لیجیے۔ اگر میں اس کو پچھاڑ دوں تو مجھ کو اجازت دے دیجیے۔ یہ بچوں کا شوق تھا، کشتی ہوئی، اس نے واقعی پچھاڑ دیا اور آپ ؐ نے ان کو بھی اجازت دے دی اور وہ شہید بھی ہوئے۔ ابوجہل کو دیکھ کر دونوں بھائیوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف سے کہا کہ ہمیں ابو جہل کو دکھائیے، ہم نے سنا ہے کہ اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے، میں یہ شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں، ابوجہل کے بتانے پر دونوں لپک پڑے اور اس کا کام تمام کر دیا۔
اس چھوٹے روزہ کا حکم اور اس کی پابندیاں سب کو معلوم ہیں۔ سب روزہ دار کھانے پینے سے اور ان تمام چیزوں سے بچتے ہیں جو ممنوع ہیں، لیکن اس بڑے روزہ کا خیال بہت کم لوگوں کو ہے حالانکہ یہ روزہ ہم لوگوں کو اس بڑے روزہ کے طفیل ہی ملا ہے، اس بڑے روزہ کی برکت سے ملا ہے، یوں سمجھئے کہ اس بڑے روزہ کے انعام میں ملا ہے، اور عید بھی اسی روزے کے طفیل میں ملی ہے۔ اگر اسلام نہ ہوتا تو نہ نماز ہوتی، نہ روزہ ہوتا ۔ اور دیکھ لیجیے جہاں اسلام نہیں، وہاں نہ نماز ہے نہ روزہ، نہ کلمہ ہے، نہ اللہ پریقین ہے، نہ اس کے واحد ہونے کا یقین ہے، نہ حشر کا نہ روز قیامت کا، نہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا، یہ سب دولت ایمان ہم کو اسلام کے طفیل ملی ہے۔ ہم گناہ بھی نہیں کر سکتے کہ کیا کیا دولتیں ہم کو اسلام کے طفیل ملی ہیں۔ اسلام کے طفیل میں آدمیت ملی ہے، انسانیت ملی ہے، عزت ملی ہے، طاقت ملی ہے، روحانیت ملی ہے، اور مرنے کے بعد قیامت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت ملے گی، اس کا تو پوچھنا ہی کیا۔ ‘‘وما لا عین رات ولا اذن سمعت، ولا خطر علی قلب بشر’’ نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی کے دل میں اس کا خیال گزرا۔ تو اس (طویل و مسلسل) روزے کا لوگوں کو کم خیال آتا ہے۔ اب ہم آپ کو بتاتے ہیں، معلوم نہیں پھر کبھی ہماری آپ کی ملاقات ہو یا نہ ہو اور ہمیں کچھ کہنے سننے کا موقع ملے یا نہ ملے، بڑے کام کی بات آپ سے کہہ رہا ہوں کہ اس روزہ (رمضان کے روزہ یا نفلی ) میں پانی پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، کھانا کھانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، یہ روزہ ٹو ٹ جائے تو ساٹھ روزے رکھنے چاہئیں، تب ان کی قضا ہو گی، لیکن وہ روزہ جو اسلام کا روزہ ہے اس کا بہت کم لوگوں کو خیال ہے، ہم بتاتے ہیں کہ اس میں کیا کیا چیزیں منع ہیں۔اس میں کھانے پینے کی محدود چیزیں جو حرام ہیں، منع ہیں۔ اس میں شرک منع ہے۔ سب سے بد تر چیز جو اللہ کو نا پسند ہے، وہ یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ‘‘اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُمَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ’’ قرآن مجید میں صاف آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں فرمائے گا، باقی جس کو چاہے گا، معاف فرما دے گا۔
شرک کیا ہے، آپ سن لیجیے۔ اس کو سب برا سمجھتے ہیں۔ آپ بھی برا سمجھتے ہوں گے۔ عقیدہ یہ ہے کہ کارخانہ عالم اللہ کا بنایا ہوا ہے اور وہی چلا رہا ہے۔ ‘‘اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ’’ اسی کا کام ہے پیدا کرنا، اسی کا کام ہے جلانا، اسی کو مانتے ہیں کہ خالق ارض و سموات اور کائنا چلانے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے، لیکن بہت سے بھائی ایسے ہیں جن کے دل میں اور کبھی ان کے دماغ میں یہ بات پورے طور سے جذب نہیں ہوتی کہ کائنات کا چلانے والا بھی اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ ایسا سمجھتے ہیں کہ کارخانہ عالم تو اللہ نے بنایا، ‘‘کن فیکون’’کہہ دیا بس بن گئی، لیکن چلانے میں دوسری ہستیاں شریک ہیں، جیسے کوئی بادشاہ اپنی مرضی سے کوئی کام کسی کے سپرد کر دے، کسی کے ذمہ کر دے، بھائی تم خیرات بانٹا کرو، تم دیکھو کھانے پینے کا خیال رکھنا، غلہ پہنچا دو، کچھ پہنچا دو جس کی ضرورت ہو، کوئی بیمار ہو، اس کو شفا دے دو، کسی کے اولاد نہیں ہے، اس کو اولاد عطا کر و، کوئی کسی مصیبت میں گرفتار ہے، اس کی خلاصی کر دو، کس کا مقدمہ جتا دو وغیرہو غیرہ۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے مقبول بندوں کے ذمہ کچھ کارخانے کر دیئے ہیں تو اس میں اللہ کی شان کے خلاف کوئی بات نہ ہو گی، ان کی قبولیت اور بزرگی کی وجہ سے اپنے ارادہ سے سپرد کیا ہے اور جب چاہے گا، لے لے گا۔
لیکن ایسا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، میرا ہی کام ہے پیدا کرنا، اور میرا ہی کام ہے جلانا اور حکم دینا ‘‘اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ’’ ۔
یہ دنیا تاج محل نہیں ہے کہ شاہجہاں بنا کر چلے گئے، اب اس کے بعد کوئی چاہے دیوار پر کچھ لکھ دے،دھبہ لگا دے، کھونچا لگا دے، کوئی حصہ توڑ دے، وہ کچھ نہیں کر سکتے، ان کے بس میں کچھ نہیں، اور شاہجہاں کیا خواہ بڑے سے بڑا بادشاہ اور حکمراں ہو۔
لیکن کارخانہ یعنی کارخانہ عالم پورے طور سے اسی کے قبضہ اور اختیار میں ہے، وہی خالق کائنات ہے، ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور وجود بخشنے والا ہے، اور وہی حکمراں، سیاہ سپید کرنے والا، جلانے مارنے والا، روزی اور اولاد دینے والا ہے۔ ‘‘اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ۔’’ اولاد دینا،روزی دینا، قسمت اچھی بری کرنا، ہرانا جتانا، اور کسی کو عزت دینا، کسی کی آئی ہوئی بلا کو ٹال دینا، یہ سب اللہ کے قبضہ میں ہے اور ہمیشہ سے ہمیشہ رہے گا۔ اس دنیا کا ایک پتا بھی اور ایک ذرہ بھی اس کے حکم کے بغیر ہل نہیں سکتا، پوری باگ ڈور عنان حکومت اور کنجی اس کے ہاتھ میں ہے۔
ایک بات تو یہ ہے کہ توحید کامل ہونی چاہیے۔ اولاد وہی دے سکتا ہے، روزی وہی دے سکتا ہے، عزت وہی دے سکتا ہے، جلانا مارنا اسی کا کام ہے، یہ نہ کسی ولی کے قبضہ میں ہے ، نہ کسی قطب کے قبضہ میں ہے، نہ کسی غوث کے قبضہ میں ہے، نہ کسی ابدال کے قبضہ میں ہے۔ ایک بات یہاں سے لے کر جائیے پہلے عقیدۂ توحید کو جانچئے، کہ آپ اللہ ہی کو مسبب الاسباب سمجھتے ہیں اور خالق و رازق سمجھتے ہیں۔
ایک بات تو یہ ، اور اس کے بعد دوسری بات، قیامت کا یقین و آخرت کا یقین ہے اور اس کے بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری پیغمبر ماننا، خاتم النبیین، سید المرسلین، شفیع المذنبین کا محبوب رب العالمین ماننا، اور یہ ماننا کہ شریعت انھی کی چل رہی ہے اور قیامت تک چلے گی، اور آخرت میں کام آئے گی۔ قیامت تک اور کسی کی شریعت نہیں چلے گی۔ اگر کوئی آپؐ کے بعد نئی شریعت لے کر آئے تو وہ کذاب اور دجال ہے، ملحد ہے، دین کا باغی ہے، اور واجب القتل ہے۔ شریعت شریعت محمدی ہے اور وہی قیامت تک چلے گی اور ہر جگہ چلے گی۔ اس پر جو چلے گا وہ ہی فلاح یاب ہو گا، اور سرخرو ہو گا۔
آپؐ حبیب خدا ہیں، جو آپؐ سے محبت کرے خدااس سے محبت کرتا ہے اور آپؐ نے فرمایا: ‘‘لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین’’ (تم میں سے کوئی مومن نہیں جب تک کہ میں اسے اپنے باپ سے، بیٹے سے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں) یہ مرتبہ اور کسی بزرگ ، ولی کیا چیز، کسی نبی اور رسول کو بھی نہیں ملا۔ یہ مرتبہ خدا نے آپؐ کے لیے رکھا تھا، ایک تو یہ کہ آپ پر ایمان بھی ہو، عقیدہ بھی ہو، محبت بھی ہو، اور شفاعت کا شوق بھی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ میں شریعت پر چلنے کا اہتمام بھی ہو، آپ پوچھیں ، آپ کے اندر جذبہ اور جستجو اس بات کی پیدا ہو کہ مسئلہ بتائیے۔ لیکن افسوس ہے کہ مسلمانوں میں یہ بات پورے طور پر نہیں ہے۔ شادی بیاہ کس طریقہ پر ہو، حضور صلعم اور صحابہؓ کا کیا طریقہ کار تھا، خوشی کا اظہار اور غم کا اظہار بھی شریعت و سنت کے مطابق ہونا چاہیے۔ ماتم کرنا، گانا بجانا، یہ تزک و احتشام، دھوم دھام اور شادیوں میں وہ سب کام کرنا، چاہے سود لے کر اور زمینیں بیچ کر، رشوت لے کرہو، بس جس سے نام ہو، ہماری حیثیت عرفی بلند ہو، لوگوں میں اونچے سمجھے جائیں، اور یہ جہیز کا مطالبہ اور نہ دینے پر نازیبا سلوک، کہ گردن شرم سے جھک جائے، کیسی بری بات ہے۔ یہ سب شریعت کے خلاف ہے، اللہ کو نا پسند ہے۔ ان سب باتوں میں ہم شریعت کے پابند ہیں، صرف نماز و روزہ میں ہی پابند نہیں ہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں پابند ہیں۔ ہر چیز میں ہمارے لیے نمونہ، اسوۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ‘‘قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ’’ (اے پیغمبر! لوگوں) کہہ دو کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، خدا بھی تمھیں دوست رکھے گا۔ (آل عمران:۳۱)
تو ایک بات یہ ہے کہ شریعت اسلامی پر عمل ہو اور شریعت کو آپ سمجھیں، کہ وہ پوری زندگی میں نافذہے، پوری زندگی میں اس کا سایہ ہے، پوری زندگی اس کے ماتحت ہونی چاہیے۔ یہ نہیں کہ بس نماز و روزہ شریعت کے مطابق ہوں، اس کے لیے مسئلہ پوچھیں، اور نکاح و طلاق، تجارت اور کاروبار میں آزاد ہیں، لاٹری بھی چل رہی ہے، جوا بھی چل رہا ہے، ٹیلی ویژن بھی دن رات چل رہا ہے۔ (جو لہو الحدیث کی بہترین تشریح ہے) اسراف اور فضول خرچی بھی چل رہی ہے، نمودونمائش بھی جاری ہے، ہمسایہ قوم کی نقالی بھی چل رہی ہے۔
ایک بات تو یہ ہے کہ اس کے بعد روزہ میں جیسے غیبت منع ہے، ایسے ہی اس روزہ میں بھی غیبت منع ہے۔ اسی طرح جھوٹ بولنا، فحش بکنا، رشوت لینا اور رشوت دینا، سود خوری، اسراف اور فضول خرچی ممنوع ہے۔ تو آپ یہ سمجھ کر جائیں روزہ کے بعد ہم آزاد ہیں، ہرگز نہیں، ہم آزاد نہیں ہیں، وہ روزہ برابر چلتا رہے گا، وہ روزہ اب بھی ہے۔ بلکہ وہ اس روزہ پر بھی سایہ فگن ہے، اور یہ روزہ اس روزہ کا جزو ہے جو آپ رکھ رہے ہیں۔ وہ روزہ چلتا رہے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ یہی سب سے بڑی چیز اور اور تمنا کرنے کی ہے، بلکہ جس کے لیے جان کی بازی بھی لگا دینا چاہیے۔ہماری آزادی ، غریبی، مفلسی، دوستی، دشمنی، کامیابی اور ناکامی، یہ سب گزر جائے گی، بس خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ اولیاء اللہ کو اس کی بڑی فکر ہوتی تھی، بلکہ دوسروں سے دعا کراتے تھے، کہ خاتمہ بخیر ہو۔ سب کے دل کو یہ لگی ہوئی تھی، اور اللہ تعالیٰ نے خاتمہ بخیر فرمایا، ان کا ذکر خیر باقی رکھا۔
رمضان ختم ہونے کے بعد آپ یہ نہ سمجھیں کہ چھٹی ہو گئی اب ہم آزاد ہیں جو چاہیں کریں۔ ہرگز ایسا نہیں، آپ بالکل آزاد نہیں ہیں۔ آپ کے گلے میں اسلام کا طوق پڑا ہوا ہے۔ آپ کی تختی، آپ کے شناختی کارڈ پر لکھا ہے کہ آپ مسلمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں اس روز کا حساب ہو گا اور اس روزہ کا بھی حساب و کتاب ہو گا۔ ہم نے اپ کے سامنے آیت پڑھی:‘‘اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔’’میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کر دیا۔ چاہے کوئی تبدیلی لانا چاہے، سلطنت کہے، بادشاہ کہے، کہ ایسا کرو اور ویسا کرو، بڑے سے بڑا مسلمان اور علم کا دعویٰ کرنے والا کہے، کچھ ہونے کو نہیں۔ جو چیز حرام ہے، قیامت تک حرام رہے گی۔ دنیا میں کسی کو یہ اجازت نہیں اور نہ اس کی مجال ہے کہ اس میں ترمیم کرے۔ شریعت میں اب کوئی ترمیم نہیں ہو سکتی۔ وہ چیزیں جو حرام ہیں ، حرام ہی رہیں گی۔
یہاں سے آپ ارادہ کرکے جائیے کہ اگر کسی کی جائیداد آپ کے قبضہ میں ہے اور آپ کی نہیں ہے تو اس روزہ کا تقاضا ہے کہ آپ اس جائیداد کو چھوڑ دیں، اللہ تعالیٰ اس پر بڑا خوش ہو گا، آپ اللہ کے خوف سے ایسا کریں اور کہیں کہ لو اپنی جائیداد ، اپنا ترکہ یہ تمھیں مبارکہو، آپ اللہ کے خوف سے ایسا کریں اور کہیں کہ لو اپنی جائیداد، اپنا ترکہ یہ تمھیں مبارک ہو، اب ہم نے توبہ کی ہے تم جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا، دل آزاری کرنا، گالی بکنا، ناجائز ، حرام ذرائع، آمدنی، رشوت وغیرہ جن سے پیسے ملتے ہیں، حرام ہی ہیں، اور قیامت تک ناجائز ہی رہیں گے، اسی طرح سود ہے کہ بعض لوگ اس دور پرفتن میں اس کے جواب کی شکلیں نکال رہے ہیں، کس قدر افسوس ناک بات ہے جس چیز کو شریعت و دین نے حرام قرار دے دیا، قیامت تک حرام ہی رہے گی۔
کوشش یہ کیجیے کہ آپ کا روزہ صحیح طریقہ پر اس کا افطار ہو، شاہ غلام علی صاحب، مجددی، دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نقشبندیہ مجددیہ سلسلہ کے کبار مشائخ میں تھے۔ نواب میر خان نے جوان کے مرید تھے ارادہ کیا جب انھوں نے سنا کہ حضرت کے یہاں پانسو پانسو آدمی رہتے ہیں اور کھانا کھاتے ہیں اور آپ ہی کو ان کی ضروریات پوری کرنا پڑتی ہیں۔ کوئی آمدنی نہیں، کوئی جائیداد نہیں تو انھوں نے ایک بڑی رقم پیش کرنا چاہی اور کہا کہ حضرت اس کو قبول فرمالیں، فرمایا کہ فقیر نے روزہ رکھا تھا اور جب آفتاب ڈوبنے لگے تو کوئی روزہ نہیں توڑتا۔ اب میرا آفتاب عمر ڈوبنے کے قریب ہے۔ اب کوئی جتنا کہے کہ یہ چیزیں لے لو، یہ دوا کھا لو، میں روزہ نہیں کھولوں گا، کہ تمام دن روزہ رکھا اور اب جب افطار کا وقت قریب ہے تو توڑ دوں۔’’
ہر شخص کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ اسلام کا روزہ ہے، ساری عمر کا روزہ ہے کبھی نہیں ٹوٹ سکتا، جو چیزیں حرام ہیں، حرام ہیں، غلط ہیں، غلط ہیں، عقیدہ خالص ہونا چاہیے، سمجھ لیجیے، نہ کوئی قسمت بری بھلی بنا سکتا ہے، نہ کوئی آئی ہوئی بلا کو ٹال سکتا ہے، نہ اولاد دے سکتا ہے، نہ نوکری دلا سکتا ہے، کہ آپ کسی اور سے مانگیں، جو کچھ مانگنا ہو، اسی سے مانگیں جو سمیع و مجیب ہے، وہ فرماتا ہے: ‘‘وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِی عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَالْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ ’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اپنے رسولؐ سے کہ بندہ تجھ سے میرے بارے میں پوچھے تو کہہ دیجیے کہ میں قریب ہوں۔ دعا کرنے والے کی قبول کرتا ہوں اور جب وہ دعا کرے۔
آپ یہاں سے بڑے روزے کا خیال لے کر جائیے خوش ہوئیے، اللہ کا شکر ادا کیجیے، یہ روزہ تو ختم ہو رہا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اور رمضان نصیب کرے۔ مگر زندگی کا کوئی اعتبار نہیں، صحت کا اعتبار نہیں، ہاں وہ مسلسل و طویل روزہ رہے گا، وہ روزہ مبارک ہو، اس روزہ کا خیال رکھیے، وہ روزہ نہ توڑیئے گا، وہ روزہ اگر ٹوٹا تو سب کچھ ٹوٹ جائے گا، سب کچھ بگڑ گیا۔
بس یہی دو روزے ہیں، ایک روزہ ہے قریب المیعاد، وہ ہے رمضان کا روزہ اور دن بھر کا روزہ ہے۔ ایک روزہ وہ ہے جو زندگی کے ساتھ رہے گا، اور مسلمانوں کے لیے جب سے وہ بالغ ہوا، اس دن تک جب تک سانس اور جان میں جان ہے، اور وہ شخص جس نے اسلام قبول کیا اس کا بھی جب تک بدن میں اس کے جان اور روح ہے، اس وقت تک باقی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو توفیق دے کہ ہم اس روزے کو برقرار رکھیں، اس روزے کی حفاظت کریں اور قدر کریں، اوراس روزے پر جئیں اور مریں۔
رب توفنا مسلمین، والحقنا بالصلحین واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
(یہ تقریر ۲۳ رمضان المبارک ۱۴۱۵ھ کو بعد نماز جمعہ شاہ علم اللہ تکیہ رائے بریلی میں کی گئی۔ مقرر نے خود اس پر نظر ثانی کی ہے)