دوسرا نقطہ نظر ، آپﷺ سے ایک رات میں تراویح اور تہجد الگ الگ پڑھنا ثابت نہیں ہے۔نماز تراویح آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے با جماعت آٹھ رکعت ہی ادا کرنا ثابت ہے اس سے زائد کا ثبوت یکسر نہیں ملتا۔
رات کی نماز میں ایک عظیم درجہ اور فضیلت ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘علیکم بقیام اللیل فانہ داب الصالحین قبلکم وھو قربۃ لکم الی ربکم و مکفرۃ للسیات ومنھاۃ عن الاثم’’(ترمذی الدعوت باب من فتح لہ منکم:۳۵۴۹)
‘‘اپنے ذمہ رات کا قیام لازم کر لو کیوں کہ یہ سابقہ نیک لوگوں کا طریقہ اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا سبب ہے نیز برائیوں کا کفارہ اور گناہوں سے روکنے کا باعث ہے۔’’
نیز آپ نے فرمایا ہے کہ : ‘‘اشرف امتی حملۃ القرآن واصحاب اللیل’’
‘‘میری امت میں سے بلند ترین مرتبہ والے لوگ حامل قرآن اور رات کو جاگنے والے (یعنی رات کی نماز پڑھنے والے) ہیں۔’’ (ابن عساکر، ج۲۔ص۴۳۳)
ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نماز کے بعد اس نماز کا درجہ بیان فرمایا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ گرامی کی روشنی میں رات کی نماز بڑی اہمیت اور درجات کی حامل ہے۔ مگر رمضان المبارک میں اس کے اجر و ثواب میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے جس طرح دیگر نوافل کا ثواب فرائض کے برابر ہو جاتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ۔ (صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین، حدیث:۱۷۷۹)
‘‘جو رمضان میں صدقِ دل اور اعتقادِ صحیح کے ساتھ رات کا قیام کرے اس کے تمام سابقہ (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔’’
نیز فرمایا: ‘‘میں نے تمھارے لیے اسے مسنون کر دیا ہے۔’’
‘‘وانی سننت للمسلمین قیامہ’’ (باب الترغیب فی قیام رمضان، قیام اللیل للمروزی، ص ۱۹۳)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لیے رات کا قیام (نمازِ تراویح) سنت ہی قرار نہیں دیا ، بلکہ اس نماز کی جماعت کا اہتمام بھی فرمایا مگر آپ نے صرف تین دن تک جماعت کا اہتمام کیا، تاکہ امت پر فرض نہ ہو جائے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین دنوں میں کتنی رکعت نماز ادا کی اور رمضان المبارک میں تراویح کی تعدادِ مسنون کیا ہے؟ نیز تعامل صحابہ سے کتنی تراویح صحیح سند سے ثابت ہیں لہٰذا اس مسئلہ میں ہماری بحث کا تعلق مسنونیت سے ہو گا، جواز سے نہیں کیوں کہ یہ نفل نماز ہے اس میں کمی و بیشی جائز ہے۔
پہلی حدیث:
عن ابی سلمۃ بن عبدالرحمان انہ سأل عائشہ رضی اللہ عنہا کیف کانت صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان؟ فقالت: ‘‘ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ’’(بخاری، کتاب التھجد:۱۱۴۷)
‘‘ابو سلمہ بن عبدالرحمان سے مروی ہے کہ انھوں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رمضان میں کیسی تھی؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: آپ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔’’
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے، اس لیے اس کی صحت پر دلائل پیش کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔
اس حدیث سے لازماً نمازِ تراویح مراد ہے جیسا کہ علامہ انور شاہؒ نے عرف الشذی میں، ابن ہمامؓ نے فتح القدیر میں، علامہ ذیلعیؒ نے تخریج الہدایۃ میں، علامہ زرقانیؒ نے شرح موطا میں، علامہ سیوطی ؒ نے شرح موطاء میں ، علامہ عبدالحیؒ نے تعلیق الممجد میں، ابو السعودؒ نے شرح کنز میں ، طحطاویؒ نے ملاعلی قاریؒ نے شرح مشکوٰۃ میں، شیخ عبدالحقؒ محدث دہلوی نے فتح سرمنان میں اور مولانا احمد علیؒ سہارن پوری نے حاشیہ بخاری میں تصریح کی ہے۔
دوسری حدیث:
حدثنا محمد بن حمید الرازی قال حدثنا عبداللہ قال حدثنا عیسی بن جاریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال: ‘‘صلی بنا رسول اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات والوتر’’ (قیام اللیل للمروزی باب عدد الرکعات، صفحہ:۲۔ صحیح ابن حبان حدیث:۹۲۰)
‘‘حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں وتر کے علاوہ آٹھ رکعت نماز پڑھائیں۔’’
اس حدیث کی سند میں بعض راوی اگرچہ متکلم فیہ ہیں لیکن مجموعی لحاظ سے اس کی سند ان تمام احادیث سے اچھی ہے جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی با جماعت نماز کی رکعات کا تعین ہے۔
تیسری حدیث:
جاء ابی بن کعب فی رمضان فقال: یا رسول اللہ کان اللیلۃ شی ء قال: ‘‘وما ذاک یا ابی؟ قال نسوۃ داری قلن: انا لا نقرء القرآن فنصلی خلفک بصلاتک فصلیت بھن ثمان رکعات والوتر فسکت عنہ و کان شبہ الرضا۔ (مسند ابی یعلیٰ رقم ۱۸۰۱۔ قیام اللیل للمروزی، باب صلوٰۃ النبیؐ جماعۃ ص :۱۹۷)
‘‘ابی بن کعب نے رمضان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ آج رات کو ایک نئی بات ہو گئی ہے آپ نے فرمایا ابی کون سی بات؟ عرض کیاکہ میرے گھر کی عورتیں اکٹھی ہو کر کہنے لگیں کہ چونکہ ہم قرآن نہیں پڑھتیں اس لیے تمھارے پیچھے، تمھاری اقتداء میں نماز پڑھنا چاہتی ہیں، تو میں نے ان کو آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھا دیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خاموش ہو گئے اور گویا اس بات کو پسند فرمایا:
بالفاظ دیگر آپ کے سکوت نے اس نماز کی تعدادِ رکعات پر مہر تصدیق ثبت فرما دی۔
ان دلائل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور آپ کی حیاتِ مبارکہ میں ہی صحابہ کرام کے عمل سے گیارہ تراویح ثابت ہو گئیں۔
چوتھی روایت:
‘‘عن مالک عن محمد بن یوسف عن السائب بن یزید انہ قال: امر عمر بن الخطاب ابی بن کعب و تمیما الداری ان یقوما للناس باحدی عشرۃ رکعۃ۔’’(مؤطا امام مالک، کتاب قیام رمضان حدیث:۲۴۹۔ المصابیح للسیوطی ص ۴۲۔ معرفۃ الآثار والسنن للبیہقی جلد:۲، ص ۴۹۶)
‘‘سائب بن یزید کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ابی بن کعب اور تمیم دارمی کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھائیں۔’’
دوسرے فریق کے دلائل
پہلی دلیل:
‘‘انبأنا منصور بن ابی مزاحم انبأنا ابو شیبۃ عن الحکم بن عتیبہ عن مقسم عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ والوتر۔’’ (بیہقی جلد۲،ص:۴۹۶)
‘‘ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے۔’’
اس روایت میں ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ ہیں جن کی حدیث حجت نہیں بن سکتی۔
ابو شیبہ کو امام احمد، ابن معین، بخاری، نسائی، ابو حاتم، ابن عدی، ابو داؤد، ترمذی، بیہقی، احوص بن فضل، جوزجانی، ابو علی نیشا پوری، صالح بن محمد بغدادی، معاذ العنبری اور شعبہ نے ضعیف منکر الحدیث کاذب، مذموم ساقط اور متروک الحدیث قرار دیا ہے۔
حافظ ابن حجر، ابن ہمام، ذیلعی، عینی، خزرجی، ذہبی، صاحب غایۃ الاوطار، صاحب شرح وقایہ،صاحب نور الہدایہ، مولانا عبدالحی لکھنوی، شاہ عبدالحق محدث دہلوی، علامہ انور شاہ ، امام سیوطی، حافظ مزی وغیرہم اس کے ضعیف کاذب و متروک الحدیث ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔
ابن ہمام ، ذیلعی، علامہ انور شاہ اور صاحب نور الہدایہ اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق بتلاتے ہیں، حافظ ابن حجر، ذیلعی، ابن ہمام اور مولانا عبدالحق محدث اس کے ساتھ ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث کے معارض بتلاتے ہیں لہٰذا اس حدیث سے استدلال کرنا غلط ہے۔
یحییٰ بن سعید کا اثر:
حدثنا وکیع عن مالک بن انس عن یحییٰ بن سعید ان عمر بن الخطاب امر رجلا ان یصلی بھم عشرین رکعۃ۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲،ص ۳۹۳)
‘‘یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ عمر بن خطابؓ نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعت نماز پڑھائے۔’’
یہ روایت ضعیف اور منقطع ہے کیونکہ یحییٰ بن سعید حضرت عمرؓ کے زمانہ میں موجود نہ تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ۲۳ھ میں شہید ہو چکے تھے اور یحییٰ بن سعید طبقۂ خامسہ میں سے ہیں جو تابعین کا طبقہ صغریٰ ہے جس نے ایک یا دو صحابی کو دیکھا ہو اور یہ ۱۴۳ ھ یا ۱۴۴ھ میں فوت ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہ روایت منقطع السند ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب تراویح کی نماز قائم کی تھی تو صحیح سند سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے امام کو گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم دیا ۔ بیس رکعت والی روایت صحیح نہیں بلکہ مقطوع السند ہے۔
یزید بن رومان کا اثر:
عن یزید بن رومان: کان الناس یقومون فی زمان عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فی رمضان بثلاث وعشرین رکعۃ۔(موطا امام مالک قیام شھر رمضان)
‘‘یزید بن رومان کہتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وقت میں تئیس رکعت کا قیام کرتے تھے۔’’
یہ اثر بھی منقطع اور ضعیف ہے کیوں کہ یزید بن رومان حضرت عمر ؓ کے وقت موجود نہیں تھے۔لہٰذا اس اثر سے استدلال جائز نہیں نیز اس میں اس بات کی کوئی تصریح نہیں کہ لوگ کس کے حکم اور کس کی ہدایت پر بیس رکعت پڑھتے تھے، لہٰذا اس کا کوئی مقام نہیں۔
سائب بن یزید کا اثر:
‘‘عن السائب بن یزید قال انھم کانوا یقومون فی زمن عمر بن الخطاب بعشرین رکعۃ والوتر وفی روایۃ وعلی عھد عثمان و علی رضی اللہ عنہما مثلہ۔’’ (بیہقی جلد ۲،ص۴۹۶، کتاب الصلوٰۃ)
‘‘سائب کہتے ہیں کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وقت بیس رکعت اور وتر کا قیام کرتے تھے۔’’
(۱) یہ اثر ناقابل استدلال ہے اس کی سند میں ابو عثمان ہے جس کے متعلق علامہ نیموی آثار السنن میں لکھتے ہیں: لم اقف علی من ترجم لہ یعنی اس کے حالات کا مجھے علم نہیں (التعلیق الحسن ص ۲۵۲) معلوم ہوا کہ یہ اثر مجہول ہے۔
(۲) اس کی سند میں ابو طاہر بھی ہے اور اس کے متعلق ثقہ یا غیر ثقہ ہونے کا علم نہیں۔ (نصب الرایہ ج۲،ص۱۵۴)
(۳) سائب سے صحیح سند کے ساتھ اس کے برعکس گیارہ رکعت ثابت ہیں۔
(۴) محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ گیارہ رکعت والا اثر ہی سائب سے صحیح ترین ہو سکتا ہے۔(قیام اللیل، ص ۳۰۰)
(۵) علی اور عثمان رضی اللہ عنہما کے عہد میں بیس رکعتوں والے الفاظ بیہقی میں موجود نہیں بلکہ جن لوگوں نے اسے بیہقی کی طرف منسوب کیا ہے ان کو غلطی لگی ہے۔
حضرت علیؓ کا اثر:
(۱) ان علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ امر رجلا یصلی بالناس خمس ترویحات عشرین رکعۃ۔ (بیہقی ج ۲، ص ۴۹۷، کتاب الصلوٰۃ و مصنف ابن ابی شیبہ ج۲، ص ۲۹۳)
یعنی ‘‘حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو کہا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعت نماز یعنی پانچ ترویحے پڑھائے۔’’
(۲) حماد بن شیب عن عطاء بن السائب عن عبد الرحمن السلمی قال ان علیا دعا القراء فی رمضان فامر رجلا یصلی بالناس عشرین رکعۃ وکان علی یوتر۔ (بیھقی جلد۲، ص ۴۹۶ کتاب الصلوۃ )
‘‘ یعنی حضرت علی نے قاریوں کو رمضان المبارک میں بلایا اور ایک قاری کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعت نماز پڑھائے اور وتر حضرت علی خود پڑھاتے تھے۔’’
ان میں سے پہلے اثر کی سند میں ایک راوی ابوالحسناء ہے جس کے متعلق مولانا عبدالحئی لکھنوی کے شاگرد شوق نیموی،آثار السنن میں لکھتے ہیں لا یعرف کہ اس کا حال معلوم نہیں۔(آثار السنن ج ۶،ص۵۸)
وقال الحافظ فی التقریب مجھول حافظ ابن حجر تقریب میں لکھتے ہیں کہ یہ مجہول ہے۔(تقریب التھذیب ص ۵۸۲)
بہرحال یہ اثر مجہول ہے جس سے استدلال درست نہیں نیز ابوالحسناء کی ملاقات حضرت عمرؓ سے نہیں ہوئی لہٰذا یہ منقطع بھی ہے۔ اسی طرح اس اثرکی سند میں ابو سعید بقال ہے اور وہ اتنا ضعیف ہے کہ علامہ ذہبی کہتے ہیں کہ میرے علم کے مطابق اس کی کسی نے بھی توثیق نہیں کی۔ مع ہذا یہ مدلس بھی ہے اور یہ روایت بھی اس نے عن سے بیان کی حالاں کہ مدلس اگرچہ ثقہ ہو جب عن سے روایت کرتاہے تو روایت قبول نہیں کی جاتی چہ جائیکہ مدلس ضعیف بھی ہو۔
دوسرے اثر میں حماد بن شعیب ہے جو سخت ضعیف ہے۔ بخاری کہتے ہیں اس میں نظر ہے ، یعنی جب امام بخاری فرمائیں کہ اس راوی میں نظرہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا ، نہ ہی وہ دوسری روایت کی شاہد بن سکتی ہے اور نہ وہ متابعت کا کام دے سکتی ہے۔نیز اس اثر میں عطاء بن السائب ثقفی ہیں جو شروع میں ثقہ تھے بعد میں بد حافظہ ہو گئے جب ثقہ تھے تو ان سے صرف تین شخص شعبہ، سفیان،اور حماد بن زید روایت کرتے تھے، اس کی اس دور کی روایات صحیح ہیں(میزان الاعتدال ج ۲ص ۱۹۸) مگر حماد بن شعیب ایک تو خودضعیف ہے دوسرے عطاء کے سوء حافظہ کے وقت ان سے یہ اثر روایت کرتا ہے لہٰذا یہ اثر ناقابل حجت ہے۔
عبداللہ بن مسعودؓ کا اثر قال الاعمش کان عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ یصلی عشرین رکعۃ۔(قیام اللیل ص۲۰۰)
یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیس رکعت پڑھتے تھے۔
اس کے راوی اعمش ہیں جو عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت کرتے ہیں۔ حالاں کہ اعمش نے عبداللہ بن مسعودؓ کا زمانہ نہیں پایا،کیوں کہ حضرت ابن مسعودؓ ۳۲ھ یا۳۳ھ میں فوت ہوئے اور اعمش۶۰ھ کے بعد پیدا ہوئے۔ حافظ ابن حجر نے تقریب میں اور علامہ خزرجی نے خلاصہ میں کہا ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ ۳۲ھ یا۳۳ھ میں ساٹھ برس سے کچھ زیادہ کے ہو کر فوت ہوئے اور اعمش ۱۴۸ھ میں چوراسی برس کے ہو کر فوت ہوئے، لہٰذا یہ اثر منقطع ہوا اور منقطع اثر ضعیف اور نا قابل استدلال ہوتا ہے۔
ابی بن کعب کا اثر
عن عبدالعزیز بن رفیع قال کان ابی بن کعب یصلی بالناس فی رمضان عشرین رکعۃ ویوتر بثلاث۔ (مصنف ابن ابی ثیبہ ج ۲،ص۳۹۳)
‘‘عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ ابی بن کعب مدینہ کے لوگوں کو رمضان المبارک میں بیس رکعت (تراویح) اور تین وتر پڑھاتے تھے۔’’
اس اثر کے نا قابل حجت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ عبدالعزیز بن رفیع نے ابی بن کعب کا زمانہ نہیں پایا، ابی بن کعب ۳۳ ھ میں یا اس سے بھی پہلے فوت ہو گئے تھے اور عبدالعزیز بن رفیع۵۰ھ کے بعد پیدا ہوئے۔
صاحب ہدایہ نے بیس رکعت کے متعلق لکھا ہے کہ واظب علیہ الخلفاء الراشدون رضی اللہ عہنم کہ خلفاء راشدین ہمیشہ بیس رکعت پڑھتے رہے مگر حافظ ابن حجر درایہ فی تخریج احادیث الہدایہ میں لکھتے ہیں لم اجدہ یعنی مجھے اس کا ثبوت نہیں ملا(یہ محض دعویٰ ہی دعویٰ ہے) اسی طرح علامہ ذیلعی حنفی بھی نصب الرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ میں کوئی حوالہ نہ دے سکے اس حوالہ کو لا پتا چھوڑ کر آگے نکل گئے۔
‘‘معلوم ہوا کہ تمام صحابہ سے عموماً اور خلفاء راشدین سے خصوصاً بیس تراویح کا ثبوت صحیح سند سے بالکل ثابت نہیں بلکہ یہ صحابہ پر صریح بہتان ہے کہ وہ ہمیشہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ رکعت پڑھیں اور صحابہ ہمیشہ بیس پڑھتے رہے بلکہ خلفاء راشدین سے تو نفس تراویح پر بھی مواظبت ثابت نہیں حتیٰ کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جنھوں نے ان کا اہتمام کیا، وہ بھی جماعت پر مواظبت نہیں کرتے تھے دیکھیے فتح الباری، قسطلانی، عمدۃ القاری، زرقانی، جواز کا مسئلہ الگ ہے مگر وہ بیس سے مخصوص نہیں زوائد بھی ہوسکتی ہیں۔ دیگر آثار بھی احناف کی طرف سے پیش کیے جاتے ہیں مگر ان کی اسانید پر بحث کرنے سے قطع نظر کرتے ہوئے ہم کہتے ہیں کہ ہم نے یہ کب کہا ہے کہ دنیا میں بیس رکعت کسی نے بھی نہیں پڑھیں اور نہ پڑھائیں، ہم تو کہتے ہیں کہ کسی نے بیس پڑھی ہیں، بعض نے چالیس، کسی نے چوبیس پڑھی ہیں اور کسی نے چونتیس کچھ لوگ اٹھائیس پڑھتے تھے اور کچھ اڑتیس، کوئی سولہ پڑھتا تھا اور کوئی چھتیس (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو عمدۃ القاری۔ علامہ العینی) بلکہ زیر بحث مسئلہ یہ ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعت رمضان و غیر رمضان میں ادا کی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعات سے زائد ثابت نہیں ہیں اور وہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم جن کی اتباع کی ہمیں تاکید کی گئی ہے اور وہ آپ سے ایک بالشت پس و پیش نہیں ہو سکتے انھوں نے وتروں سمیت گیارہ رکعت سے زائد نہیں پڑھیں اور نہ ہی پڑھنے کا حکم دیا ہے بلکہ تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بسند صحیح غیر متکلم فیہ گیارہ سے زائد ثابت نہیں ہیں لہٰذا بیس ہی کو اس طرح شرعی حکم اور سنت سمجھ کر با جماعت پڑھنا ثابت نہیں، کیوں کہ بیس تراویح کا سنت ہونا اور با جماعت پڑھا جانا بالکل ثابت نہیں۔
تصریحات ائمہ
امام ابی حنیفہؒ و محمدؒ
قال محمد طول القیام فی صلوٰۃ التطوع احب الینا من کثرۃ الرکوع والسجود وھو قول ابی حنیفہ۔ (کتاب الآثار ص ۱۰۲)
قال ایضا بعد ذکرہ حدیث عائشۃ نأخذ بھذا کلہ۔ (مؤطا امام محمد، ص۱۳۸)
یعنی ‘‘امام محمد فرماتے ہیں کہ نوافل میں لمبا قیام کثرۃ رکوع و سجود سے زیادہ محبوب ہے اور امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا بھی یہی مسلک ہے۔’’
نیز آپ نے مؤطا میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بیان کرنے کے بعد فرمایا: ‘‘ہم اسی حدیث کو لیتے (اور اپنا مسلک بناتے) ہیں۔’’
امام الشافعی
ذکر الشافعیؒ عن السائب قال امر عمر ابی بن کعب و تمیما الداری ان یقوما للناس باحدی عشرۃ رکعۃ۔ (معرفۃ السنن والآثار)
قال الشافعی رئیت الناس یقومون بمکۃ بثلاث وعشرین و بتسع وثلثین و لیس فی شیء من ذالک ضیق۔ (فتح الباری)
امام شافعی رحمتہ اللہ نے سائب سے حضرت عمرؓ کی وہ حدیث بیان فرمائی جس میں آپؓ نے ابی بن کعبؓ اور تمیم داری ؓ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھائیں۔
امام شافعیؒ نے فرمایا کہ میں نے مکہ کے لوگوں کو تئیس اور انتیس رکعتیں پڑھتے دیکھا اور اس میں کوئی تنگی نہیں۔’’
امام مالکؒ
قال الجوزی من اصحابنا عن مالک انہ قال الذی جمع علیہ الناس عمر بن الخطاب احب الی وھو احدی عشر رکعۃ وھی صلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ولا ادریٰ من این حدث ھذا الرکوع الکثیر۔ (السبکی فی شرح المنھاج ص۸، تحفۃ الاحوذی، عینی)
قال العلامۃ بدر الدین العینی الحنفی فی ثمان رکعات وھو اختیار مالک لنفسہ واختارہ ابن العربی۔ (جلد۵،صفحہ۳۵۷، عمدۃ القاری)
امام جوزی حضرت امام مالکؒ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جس (امر) پر عمر بن خطابؓ نے لوگوں کو اکٹھا کیا وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور وہ گیارہ رکعتیں ہیں اور یہی آں حضرتؐ کی نماز ہے اور مجھے معلوم نہیں کہ یہ اتنی کثیر رکعتیں کہاں سے پیدا ہو گئیں؟
علامہ عینی کہتے ہیں کہ آٹھ رکعت ہی امام مالک ؒکا پسندیدہ مسلک ہے اگرچہ آپ ؒ سے بیس، انتالیس اور چالیس بھی مروی ہیں۔
امام احمدؒ
امام احمد فرماتے ہیں: روی فی ھذا الوان نحوا من اربعین انما ھو تطوع۔(ترمذی، کتاب الصیام، باب قیام شہر رمضان)
یعنی اس بارے میں مختلف روایات ہیں چالیس رکعت تک ہیں اور یہ تو نفل نماز ہے۔
ابن ھمامؒ کا فیصلہ
قال فتحصل من ھذا کلہ ان قیام رمضان سنۃ احدی عشرۃ بالوتر فی جماعۃ فعلہ علیہ الصلوٰۃ والسلام فیکون سنۃ۔(فتح القدیر، جلد اوّل)
یعنی ان دلائل سے ثابت ہوا کہ رمضان کی نماز سنت گیارہ رکعت مع وتر ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے با جماعت ادا فرمائی۔
حاشیہ ہدایہ
السنۃ ما واظب علیہ الرسول ﷺ فحسب فعلی ھذا التعریف یکون السنۃ ھو علی ذالک القدر المذکور(ثمان رکعات)۔ (حاشیہ ہدایہ)
یعنی سنت وہ ہوتی ہے جس پر آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشگی فرمائی ہو اس تعریف کے مطابق رمضان کا قیام سنت آٹھ رکعت ہی ہو سکتا ہے۔
ملا علی قاری نے کہا:
فتحصل من ھذا کلہ ان قیام رمضان سنۃ احدی عشر رکعۃ فعلہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ایضاً فی صحیح ابن خزیمۃ انہ صلی اللہ علیہ وسلم بھم ثمانی رکعات الوتر۔ (مرقاۃ ج ۳،ص۱۹۴)
یعنی تراویح اصل گیارہ رکعت ہیں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی ہیں۔ آپ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ ؐ نے صحابہؓ کو آٹھ رکعت اور وتر پڑھایا ہے۔
شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ
قال ولم یثبت روایۃ عشرین رکعۃ منہ صلی اللہ علیہ وسلم کما ھو متعارف الان الا فی روایۃ ابی شیبۃ وھو ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشۃ وھو حدیث صحیح(فتح سرمنان)
آپ فرماتے ہیں بیس رکعت جو آج کل مشہور ہیں ان کی روایت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے صرف ابی شیبہ کی ایک روایت ہے جو ضعیف ہے اور حضرت عائشہؓ والی روایت اس کے معارض و مخالف ہے اور صحیح ہے۔
علامہ انور شاہ کاشمیری
قال لا مناص من تسلیم ان تراویحہ علیہ السلام کانت ثمانیۃ رکعات ولم یثت فی روایۃ من الروایات انہ’ علیہ السلام صلی التراویح والتھجد علحدۃ فی رمضان بل طول التراویح بین التراویح والتھجد لم یکن فرق فی الرکعات۔ (عرف الشذی ص۳۰۹)
آپ فرماتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آٹھ تراویح مانے بغیر کوئی جائے پناہ نہیں اور آپ سے کسی بھی روایت کے ذریعہ یہ ثابت نہیں کہ آپ نے تراویح اور تہجد رمضان میں الگ الگ پڑھی ہو بلکہ تراویح کی نماز کو طویل کیا ہے اور تراویح اور تہجد میں رکعات کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔
علامہ صاحب نے تصریح فرما دی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تہجد اور تراویح کی نماز رمضان میں الگ الگ نہیں پڑھی بلکہ تہجد کی جگہ تراویح نماز پڑھی ہے اس کے لیے ابن ماجہ میں ابی ذرؓ کی روایت سے بھی وضاحت ملتی ہے کہ آپؐ نے جن تین راتوں میں ہمیں قیام کرایا ان میں رات کے اول حصہ میں ثلث تک قیام کرایا اور دوسری رات نصف تک اور تیسری رات اتنی دیر تک کہ ہمیں سحری کا وقت گزر جانے کا اندیشہ ہوا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ راتوں کے تینوں حصوں میں نماز تراویح پڑھائی اور جب آخر رات تک نماز تراویح ہی پڑھی تو کون سا وقت باقی رہا جس میں تراویح کے بعد فجر سے پہلے کوئی اور نماز پڑھی لہٰذا آپ سے ایک رات میں تراویح اور تہجد الگ الگ پڑھنا ثابت نہیں ہے۔
خلاصہ و ماحصل
نماز تراویح آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے با جماعت آٹھ رکعت ہی ادا کرنا ثابت ہے اس سے زائد کا ثبوت یکسر نہیں ملتا۔
اسی طرح خلفاء راشدین سے بھی آٹھ رکعات سے زائد ثابت نہیں ہیں بلکہ دیگر صحابہ سے بھی بیس رکعات با جماعت صحیح سند سے ثابت نہیں ہیں۔ ہاں تابعین، و تبع تابعین و دیگر ائمہ سے آٹھ سے زائد بھی ثابت ہیں لیکن ان سے بھی بیس کا تعین کہ ان سے کم و بیش نہ پڑھی ہوں ثابت نہیں بلکہ چالیس تک بھی ثابت ہیں۔
(بشکریہ: ہفت روزہ الاعتصام، لاہور)