کسی کو خواب کسی کو خیال دیتا ہے
کسی کو ہجر کسی کو وصال دیتا ہے
میں اس سے قطرۂ شبنم کی بھیک مانگتا ہوں
وہ میری سمت سمندر اچھال دیتا ہے
زمین حرف کو کرتا ہے آسمان بر دوش
وہی خیال کو اوج کمال دیتا ہے
یہ سب اندھیرے اجالے ہیں دست قدرت میں
وہ روز و شب کو نئے خد و خال دیتا ہے
اتارتا ہے فلک سے کبھی وہ ‘‘من و سلویٰ’’
کبھی زمین سے رزق حلال دیتا ہے
وہی جو ماں کی دعاؤں کو رد نہیں کرتا
وہی جو سر سے بلاؤں کو ٹال دیتا ہے
جب آفتاب تخیل گہن میں آ جائے
وہ ذہن و دل کے دریچے اجال دیتا ہے
اسی کے دست ہنر کا ہے آئینہ خورشید
جو آئینے کو بھی حیرت میں ڈال دیتا ہے