قرآن کریم میں بنی اسرائیل کا تذکرہ بہت تفصیل سے آیا ہے ۔ ان کی تاریخ کے مختلف ادوار پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔اللہ تعالیٰ کے ان پر احسانات ،ان کی احسان ناشناسی اور اس کے نتیجے میں عذاب الہیٰ کے مختلف واقعات بیان کیے گئے ہیں ۔قرآن کے زمانہ نزول میں اللہ تعالیٰ کے رسول بر حق اور دین برحق کے خلاف ان کے روّیے ،سازشیں اور عداوتیں بھی زیر بحث آئی ہیں ۔ان کی اخلاقی کم زوریوں ،اور بے راہ روی کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے ۔تاریخ نے ان قرآنی بیانات پر مہر تصدیق ثبت کی ہے ۔لیکن آج کل کے حالات میں عالمی سطح پر مسلمانوں کے ارباب حل و عقد پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ بقائے باہم کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ان قرآنی بیانات کو حذف کر دیا جائے یا کم ا ز کم ان کا تذکرہ نہ کیا جائے ۔مسلم حکمران اس دباؤ کو قبول کر رہے ہیں ۔اس کا مظہر یہ ہے کہ متعدد مسلم ممالک کے تعلیمی نصاب پر نظر ثانی کی گئی ہے اوراس میں یہود سے متعلق مذکورہ بیانات کو نصاب سے خارج کر دیا گیا ہے ۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اسرائیلی نصابی کتابوں میں عربوں اور مسلمانوں کی تصویر ایسے وحشی درندوں اور ظالم و جابر انسانوں کی پیش کی جاتی ہے جو اخلاق و کردار اور تہذیب و تمدن سے بالکل عاری ہیں ۔نئی نسل کے دلوں میں مسلمانوں سے بغض و نفرت اور حقارت کے جذبات پروان چڑھائے جاتے ہیں ۔بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیا ان جذبات و احساسات کے ساتھ پروان چڑھنے والی نسل بقائے باہم کے اصول پر کار بند رہ سکتی ہے ۔معا صر عربی ہفت روزہ المتجمع کویت (شمارہ ۱۶۶۸ ) میں جناب جہاد عادل شاہ ابو ہاشم نے اس پہلو سے اسرائیلی نصابی کتابوں کا جائزہ لیا ہے کہ ان میں عرب مسلمانوں کی کیسی تصویر پیش کی جاتی ہے مذکورہ جریدہ کے شکریہ کے ساتھ ساتھ اس کی تلخیص پیش کی جارہی ہے :
اسرائیلی نصابی کتب میں بچوں کے لئے جو کہانیاں شامل کی گئی ہیں ۔ان میں سے ایک کہانی میں جس کا عنوان ‘مقاصد الائر من الحدود الشمالیہ ہے ’یہ آئے ہیں ۔
یہ عرب کیسے لوگ ہیں ؟یہ صرف معصوم بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں کو قتل کرتے ہیں یہ ہم فوجیو ں سے کیوں نہیں بھڑتے ؟’’
ایک دوسرے قصہ میں جس کا عنوان ‘افرات’ ہے ۔یہ بیان کیا گیا ہے : ‘‘عربوں نے یہود کے خلاف بہت سی وحشی کارروائیاں انجام دی ہیں ۔یہ لوگ رحمت و شفقت کے معنی نہیں جانتے ۔قتل و غارت گری ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے ۔خون کا رنگ انھیں بہت محبوب ہے ۔عرب نے یہود پر وحشی درندوں کی طرح اچانک حملہ کیا ۔ان کی زمینوں پر قبضہ کر لیا ۔دینی تعلیم گاہیں اور عبادت خانے بھی ان کی جارحیت سے محفوظ نہیں رہے۔ انھوں نے اپنی نفسیاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے یہودی عورتوں اور دوشیزاؤں کا اغوا کیا ۔’’
ایک کہا نی جس کا عنوان ‘خریف اخضر ’ہے ۔اس میں ایک بوڑھے عربی کا کردار پیش کیا گیا ہے جو یہودی فوجیوں کے ہاتھوں قید ہو گیا ۔وہ خوف اور بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر دریافت کیے ہوئے اپنے ملک کی بہت سی حساس نوعیت کی معلومات دے دیتا ہے اور ذلت خواری کے ساتھ یہودی فوجیوں کے ہاتھوں کا بوسہ لینے لگتا ہے ۔ایک کہانی جس کا عنوان ‘غبارالطرف ’ہے ،اس میں ایک یہودی دوسرے یہودی کو ان الفاظ میں نصیحت کرتا ہے :‘‘عرب کتوں کی طرح ہیں ۔اگر وہ دیکھیں گے کہ تم ان کی فتنہ پر دازیوں پر خاموش ہو اور کسی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہو تو شیر ہوجائیں گے اور اگر انھیں مارنے لگوتو کتوں کی طرح دم دبا کر بھاگ جائیں گے ،،
اس کہانی کا عنوان ‘القریۃالعربیۃ ’ ہے ۔اس میں بیان کیا گیا ہے : ‘‘صفائی ستھرائی اور حفظ صحت کے اصولوں کا لحاظ عربوں میں معدوم ہے ۔یہ لوگ غسل کے عادی نہیں ۔بعض کسان ایسے ہیں جن کے جسموں پر طویل عرصے سے پانی نہیں پڑا ۔ایک عورت نے قسم کھا کر بتایا کہ اس کے چھ بچے ہوگئے ،لیکن اس عرصہ میں اس نے پانی کو ہاتھ نہیں لگایا عربوں میں یہ مثل عام ہے ‘‘گندابچہ زیادہ صحت مند اور قوی ہوتا ہے ’’۔عرب کپڑے پہنتے ہیں تو انھیں بوسیدہ ہونے سے پہلے نہیں اتارتے ،یہاں تک کہ ان میں جوں پڑ جاتی ہیں ۔عرب ہوٹل والا چائے کی پیالیوں کو اپنے تھوک سے دھو تا ہے ۔’’
متعدد صہیونی مطالعات میں ،جنھیں یہودی نوجوانوں میں بڑے پیمانے پر تقسیم کیا گیا ،عربوں کے یہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں :‘‘سخت گیر ،ظالم ،دھوکے باز ،بزدل ،جھوٹے ،متلون مزاج ،بددیانت ،لالچی ،چور ،بدمعاش ،قاتل ،ہائی جیکر ،کھیتوں کو نذر آتش کر دینے والے وغیرہ ۔’’
بچوں کے لیے جو کہانی کی کتابیں لکھی جاتیں ہیں ان میں عموماً عربی شخص کی یہ صفات بیان کی جاتی ہیں :‘‘آنکھوں میں بھینگا پن ،چہرہ زخم آلودہ ،ناک ٹیڑھی ،خدو خال سے شرارت ٹپکتی ہوئی ۔مونچھیں اینٹھی ہوئی ،دانت زرد اور بدبو دار ،آنکھوں میں رعب اور دہشت وغیرہ ۔’’صہیونی محقق یشعیا ہوریم نے لکھا ہے کہ ‘‘یہودی بچوں کے ذہنوں میں شروع ہی سے عربوں کی یہ تصویرنقش ہو جاتی ہے ۔’’
ایک ادارہ ‘وان لیر ’ نے چھ سو یہودی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سے انٹر ویو لے کر جاننے کی کوشش کی کہ وہ فلسطین میں عربوں کی موجودگی اور یہود کے ساتھ ان کے تعلقا ت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟ان نوجوان کی عمریں پندرہ سے اٹھارہ سال کے درمیا ن تھیں ۔اس سروے کا یہ نتیجہ سامنے آیا :
۹۲ فیصد نے یہ خیال ظاہر کیا کہ فلسطین پر یہود کا مکمل حق ہے ۔
۵۰ فیصد نے کہا کہ فلسطین کے اندر عربوں کے مالی حقوق سلب کر لینے چاہئیں ۔
۵۶ فیصد نے عربوں کے ساتھ مکمل مساوات سے انکار کیا اور ۳۷ فیصد نے کہا کہ عربوں کو صرف فوجی خدمات میں برابری دی جاسکتی ہے ۔
۴۰ فیصد نے عربوں سے انتقام لینے کے لیے خفیہ تحریک کی تائید کی ۔
۳۰ فیصد نے کاخ ،نامی دہشت گرد تحریک کی تائید کی ۔
۶۰ فیصد نے کہا کہ فلسطین سے تمام عربوں کو نکال باہر کرنا چائیے ۔
اسرائیلی نصابی کتا بوں میں نسل پرستی کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ان میں حضرت محمد ﷺ اور حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں ناشائستہ باتیں کہی جاتی ہیں ۔اسلام اور اس کی تعلیمات کے بارے میں بے بنیاد الزامات لگائے جاتے ہیں ۔بچوں اور نو عمروں کے ذہنوں میں ‘‘عظیم تر اسرائیل ’’ کا نقشہ راسخ کیا جاتا ہے جس کی حدود مدینہ منورہ تک ہیں ۔
مقام غور ہے کہ ان درسیات کو پڑھ کر جو نسل تیار ہوگی ،کیا اس کے دل میں عربوں اور مسلمانوں کے بارے ہم دردی نہ سہی ،ان کے انسانی حقوق کے احترام اور ان کے ساتھ بقائے باہم کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں ؟!!