اب موسیٰ بن عبداللہ بن خازم اپنی قوت کو روز بروز بڑھاتا جاتا تھا ۔ قلعہ کی مضبوطی کو یوماً فیوماً ترقی دیتا۔ اسلحہ ، زرہ ، بکتر اچھی اچھی منجنیقوں اور ہر قسم کے سامان جنگ کو فراہم کرتا اور اس کے ساتھ اس کے علم کے نیچے بہادران عرب کا بھی اچھا مجمع جمع ہوتا جاتا۔ اول تو اس کے باپ کے پرانے اور بہادر وجان باز رفقا خراسان کو چھوڑ چھوڑ کے اس کے پاس چلے آرہے تھے جو سنتا کہ اب ان کے قدیم محسن کا بہادر فرزند ترمذ میں بیٹھا ناموری پیدا کر رہا ہے تو گھر بار چھوڑ کے ا دھر کا رخ کردیتا۔ اس کے علاوہ اکثر بہادران عرب بھی اس کی پناہ ڈھونڈتے جو بنی امیہ کی حکومت سے ناراض تھے۔ اور اس دن کا انتظار کر رہے تھے جب کوئی ہاشمی یا کوئی متقی و پرہیزگار شخص علم مخالفت بلند کرے گا ، ایسے لوگ بھی ہر طرف سے جان بچا کے اس سرزمین میں آتے اور موسیٰ کے وفادار وجان نثار دوست بن جاتے۔
اس کی عظمت وقوت کی شہرت ہوئی تو سرداران توران اور ملوک ترک وتاتار بھی اس کا لوہا ماننے لگے۔ نہ طرخون کو حملہ کرنے کا حوصلہ ہوتا نہ اس کے بیٹے ارسلان کو مکرو فریب کا جال پھیلانے کی جرات ہوتی اور نہ شاہ کاشغر کی اتنی ہمت ہوتی کہ اپنی بیٹی نوشین کو آکے اس سے چھینے بلکہ برخلاف اس کے خود موسیٰ بن خازم ناموران عرب کے چھوٹے چھوٹے لشکروں کے ساتھ ترمذ سے نکل کے گردو نواح اور قرب و جوار کے شہروں پر حملہ کرتا اور فتوحات حاصل کر کے دولت کے ساتھ اپنی فوجی اور جنگی قوت کو بڑھاتا رہتا۔
ہلال ضبی کے خیال کے مطابق حاکم خراسان بکیر بن وشاح کو کبھی اس کی طرف نظر اٹھا کے دیکھنے کی جرات نہ ہوئی۔ اسے ڈر تھا کہ اگر میں نے ذرا بھی موسیٰ سے چھیڑ کی تو عبداللہ بن خازم کے طرفدار جو سارے خراسان میں پھیلے ہوئے ہیں سب شہروں میں اٹھ کھڑے ہوں گے اور مجھے جان چھڑانا مشکل ہو جائے گا۔ حاکم سمرقند طرخون نے اسے ابھارا اور اپنی طرف سے کافی مدد دینے کا وعدہ بھی کیا مگر بکیر ہمیشہ ٹالتا رہا۔
آخر 74 ہجری میں بکیر کا زمانہ ولایت خراسان ختم ہو گیا اور اس کی جگہ عبدالملک نے امیہ بن عبداللہ بن خالد نام کے ایک نامور قریشی شخص کو والی بنا کے بھیجا۔ ولی عہد سمر قند ارسلان خود ہی اپنے باپ طرخون کا سفیر بن کے اس نئے حاکم خراسان کی خدمت میں حاضر ہوا اور باپ کی طرف سے یہ پیام دیا کہ ہم سب فرماں روایان توران وترکستان دولت اسلامیہ کے مطیع و منقاد اور والی خراسان کے وفادار دوست ہیں لیکن ان ممالک اسلام میں سطوت اسلام اسی وقت قائم ہو سکتی ہے جب موسیٰ بن عبداللہ بن خازم کی بیخ کنی کر دی جائے جو باغیانہ انداز سے روز بروز اپنی قوت بڑھاتا جاتا ہے اور خلافت کی مطلق پروا نہیں کرتا۔ اگر آپ نے اس فتنہ کو دور کر دیا تو ہم اور تمام شاہان ترک اپنی پوری قوت سے آپ کا ساتھ دیں گے اور کوشش کریں گے کہ ترکستان کا کوئی شہر خلافت دمشق کی اطاعت سے باہر نہ ہو۔
یہ فقرہ کارگر ہو گیا اوربنو امیہ نے فوراً بنو خزاعہ کے ایک نامور سردار کو سپہ سالار مقرر کر کے بڑا بھاری زبردست لشکر اس کے ہمراہ کیا اور حکم دیا کہ فوراً جا کے ترمذ پر حملہ کرو اور موسیٰ بن عبداللہ کو جوا پنے باپ کے انتقام میں خلافت کا دشمن ہو گیا ہے قتل کر کے اس کا سر کاٹ لاؤ۔ یہ لشکر عظیم ایک سیلاب کی طرح دوڑتا اور آندھی کی طرح خاک اڑاتا ہوا دریائے جیحون کے پار اترا اور روانگی کے ایک مہینہ بعد ترمذ پہنچ کے قلعہ کا محاصرہ کر لیا۔
ادھر اہل ترمذ نے جو دیکھا کہ موسیٰ کی بیخ کنی کے لیے بہت بڑا عربی لشکر آگیا ہے تو فوراً چاروں طرف دوڑنے اور ملوک ترکستان سے درخواست کرنے لگے کہ ایسے وقت میں آپ سب صاحبوں کو ہماری مدد کرنی چاہیے اگر آپ نہ پہنچے تو وہ عرب جو موسیٰ کے دشمن ہیں ترمذ پر قبضہ کر لیں گے اور ہمارا شہر ہمیشہ کے لیے عربوں کی قلمرو میں شامل ہو جائے گا ۔ آپ کے اس وقت پہنچنے سے یہ فائدہ ہو گا کہ عرب فقط موسیٰ کو سزا دے کے چلے جائیں گے اور یہ علاقہ ان کی دستبرد سے بچ جائے گا۔ اس بات کو خوب یاد رکھیے کہ جیحون کے اس پار کسی ایک جگہ بھی مسلمانوں کا قدم جم گیا تو پھر سارا ترکستان ان کی حکومت میں شامل ہو جائے گا اور کسی شہر کی آزادی باقی نہ رہے گی ۔ اہل ترمذ کی اس فریاد کو تمام شہر کے بادشاہوں نے سنا اور فوجیں لے کے ترمذ پر آپہنچے اور اس کے باہر پڑاؤ ڈال دیا۔ اس سخت محاصرہ کو پورے دوہفتے نہیں ہو رہے تھے کہ طرخون اور ارسلان بھی سمرقند کے لشکر کے ساتھ آگئے اور سب کی متفقہ کوشش یہ تھی کہ موسیٰ کو زندہ نہ چھوڑیں اور اس کی قوت کو بالکل تباہ و برباد کر دیں۔
جب ترکی و تورانی فوجوں کی بھی کثرت ہوئی تو محاصرہ کے لیے یہ انتظام کیا گیا کہ قلعہ کی مشرقی و شمالی سمتوں میں طرخون اور جملہ شاہان ترک کے لشکر تھے جن کا افسر اعلی طرخون اور سپہ سالار ارسلان تھا اور مغربی وجنوبی سمتوں پر عربی لشکر ٹھہرا جس کا سردار خزاعی شخص تھا۔ محاصرہ نے طول کھینچا اور حملہ آوروں کو قلعہ کا کوئی رخ کمزور نظر نہ آسکا جدھر سے دھاوا کرتے۔ گو کہ یہ نہایت ہی قیامت خیز شورش اور ہمت شکن لڑائی تھی مگر موسیٰ نے اس کی مطلق پروا نہ کی۔ اس نے معمول کر لیا تھا کہ ہر روز قلعہ سے نکل کے دن کے نصف اول میں یعنی صبح سے دوپہر تک خزاعی کے لشکر عرب پر حملہ کرتا اور نصف آخر میں یعنی دوپہر سے شام تک ترکوں سے مقابلہ کرتا۔ لڑائی کے وقت قلعہ سے زبردست منجنیقیں جو مناسب موقعوں پر پہلے سے لگا رکھی گئی تھیں دشمنوں پر من من بھر کے پتھر پھینکتیں اوربہت سے حملہ آوروں کو کچل کے فنا کر دیتیں۔
تین مہینے تک مسلسل لڑائیاں ہوتی رہیں جن میں حملہ آوروں نے بہت کچھ نقصان اٹھایا۔ موسیٰ نے غلہ اور خوراک کا سامان بھی اتنا فراہم کر لیا تھا کہ باہر سے رسد بندہونے کی پروا نہ تھی تاہم اس نے چاہا کہ لڑائی کو کسی طرح ختم کر دے اور یہ خونزیری موقوف ہو۔ چنانچہ اپنے ہوشیار سرداروں سے مشورہ کے طور پر کہا :‘‘میرا ارادہ ہے کہ خزاعی کے لشکر پر شب خون ماروں اور ایک ہی رات میں اس کی فوج کو اس قدر تباہ کر دوں کہ پھر اسے مقابلہ کی جرات نہ ہو۔’’ اور سب سرداروں نے تو اس تجویز سے پورا پورا اتفاق کر لیا مگر عمرو بن خالد بن حصین کلابی نے کہا: ‘‘شب خون کی تجویز سے مجھے اتفاق ہے مگر اس کے خلاف ہوں کہ وہ خزاعی کے عربی لشکر پر ہو۔ اہل عرب بالعموم زیادہ ہوشیار او رمحتاط ہوتے ہیں اور اکثر رات کو زیادہ بسالت و شجاعت اور جوش و خروش سے لڑتے ہیں لہذا بجائے عربوں کے یہ شب خون ترکوں پر ہو تو زیادہ مناسب ہوگا ان کو حملہ کر کے ایک ہی شب خون میں تباہ کر دیں گے اور میرے خیال میں ہمیں پہلے ترکوں کو ہی تباہ کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ اس رائے کو موسیٰ نے پسند کیا اور اسی صحبت میں شب خون کے لیے ایک خاص رات مقرر ہو گئی جس کی سوا ان افسروں کے جو موجود تھے اور کسی کو خبر نہیں کی گئی اور خاموشی کے ساتھ شب خون مارنے کی تیاریاں ہونے لگیں۔
شب مقررہ کو آدھی رات کے وقت موسیٰ نہایت ہی خاموشی سے چار سو بہادر جنگجو ساتھ لے کے قلعہ سے نکلا اور ایک بلند ٹیلے پر جا پہنچا جس کے نیچے ترکوں اور تورانیوں کا پڑاؤ تھا۔ یہاں پہنچتے ہی اپنی فوج کو سو سو بہادروں کی چار ٹکڑیوں میں تقسیم کر کے چاروں طرف کمین گاہوں میں پھیلا دیا اور سب کو سمجھا دیا کہ جیسے ہی نعرہ اللہ اکبر بلند کروں تم سب تکبیر کے نعرے لگائے ہوئے نکل کے دشمنوں پر جا پڑنا۔ اس کے بعد عمرو بن خالد کو چار سو آدمی دے کے حکم دیا کہ تم بھی میرے پیچھے پیچھے لگے رہنا اور ہمارے نعروں اور ہماری تکبیر کی آواز سننے کے تھوڑے ہی دیر بعد تم بھی حملہ کر دینا اور اسی شان سے کہ ہر شخص اللہ اکبر کے نعرے لگا رہا ہو۔ یہ سب انتظام خاموشی کے ساتھ ہو گیا اور جیسے ہی دو ثلث رات گزر گئی موسیٰ کی تکبیر پر سب فوجوں نے اپنے اپنے مقاموں سے نکل کے حملہ کیا۔ ان کی تکبیروں کے نعروں سے دشت و جبل گونج اٹھے اور عربی تلواریں ترکوں پر برسنے لگیں۔ ترک سراسیمہ و مضطر اٹھے اور گھبرا گھبرا کے چاروں طرف دیکھ رہے تھے کہ کدھر حملہ کریں اور کس سے لڑیں۔ تکبیر کی آو ازیں ہر سمت سے قریب آتی جاتی تھیں اورزیادہ پریشان کر رہی تھیں۔ اندھیرے میں اپنا پرایا معلوم نہ ہوتا تھا،وہ اپنی جان بچانے کے لیے بے دیکھے چاروں طرف تلواروں کے ہاتھ مارنے لگے۔ نہ یہ خبر تھی کہ کس سے لڑ رہے ہیں اور نہ یہ جانتے تھے کہ پاس والا اپنا ہے یا پرایا۔ اب تک یونہی برابر تلوار چلتی رہی۔ جس میں زیادہ ترترکی سپاہی اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں سے مارے گئے اور اسی بدحواسی میں بھاگنا شروع کیا مگر کسی طرف راستہ نہ ملتا تھا اس لیے جدھر کا رخ کرتے ادھر سے اللہ کا اکبر کا نعرہ سنتے اور گھبرا کے دوسری طرف پھر جا تے یہاں تک کہ صبح کی روشنی نمودار ہوئی اور ترکوں نے دیکھا کہ ہم چاروں طرف سے عربوں میں گھرے ہوئے ہیں ۔ مسلمانوں نے اول سے آخر تک یہ کارروائی کی تھی کہ ترکوں کے گرد پھیل کے اور ان کے درمیان گھس کے فقط تکبیر کے نعرے بلند کرتے اور بجز مجبوری وضرورت کے کسی پر حملہ نہ کرتے اس کا انجام یہ ہوا کہ ان کے فقط سولہ آدمی کام آئے اور تورانیوں کا آدھا لشکر خود اپنے لوگوں کے ہاتھ سے کٹ گیا۔ صبح ہوتے ہی عربوں نے ان کو ایک جانب راستہ دے دیا۔ جدھر سب کے سب بھاگے اور جو کچھ مال و دولت اور سامان جنگ ساتھ لائے تھے حملہ آوروں کے لیے چھوڑ گئے ۔ جس کو موسیٰ کے سپاہی کمال مستعدی اور پھرتی کے ساتھ اٹھا کے قلعہ میں لے گئے اور ترکی حملہ آوری کا خاتمہ ہو گیا۔
اس معرکہ میں دو تین سو ترکوں کو مسلمان گرفتار بھی کر لائے تھے۔ قلعہ کے اندر جب وہ موسیٰ کے سامنے لا کے پیش کیے گئے تو اس نے نہایت ہی حیرت سے دیکھا کہ ان میں طرخون کا بیٹا ارسلان بھی ہے اس کو دیکھ کے موسیٰ ہنسا اور کہا:‘‘ تم پھر میرے پاس آگئے۔’’ ارسلان:‘‘ میں نے پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ مجھے قتل کر ڈالو ورنہ یونہی ہمیشہ آیا کروں گا اور اتنی مہلت نہ دوں گا کہ اطمینان اور فارغ البالی کے ساتھ بیٹھ کے مہ جبین نوشین کے وصل سے لطف اٹھاؤ۔’’ (جاری ہے)