فرشتوں کے قیدی

مصنف : نعیم احمد بلوچ

سلسلہ : ناول

شمارہ : مارچ 2005

قسط ۔۴

شر اور خیر کی ازلی دشمنی’ دور جدید کی مادیت پرستی سے اکتا کر ماضی کی ساد ہ زند گی کی طرف پلٹنے کی تمنا اور فطر ت میں ودیعت انسانی جذبوں کی شکست و ریخت کی تحیرخیز داستاں۔

کئی گھنٹوں کی بے ہوشی کے بعدبل کو جب ہوش آیا تواس نے اپنے آپ کوپلنگ کے نیچے پایا ۔ ہلنے کی کوشش کی تو محسوس ہواکہ ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں۔ اس نے منہ سے ہاتھوں پر بندھی بیلٹ اتار دی اور پھر پاؤں کو بھی آزاد کرا لیا۔ پلنگ سے باہر نکلنا ہی چاہتا تھا کہ اسے قدموں کی آواز سنائی دی۔ وہ جہاں تھا وہیں دبک کر بیٹھ گیا۔

 کیبن میں دو آدمی داخل ہوئے۔ بل ان کی ٹانگیں دیکھ رہا تھا۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعدایک آواز سنائی دی۔ ‘‘ میرے خیال میں یہاں تین آدمی تھے۔’’ ‘‘مگر یہ کیبن تو تین آدمیوں کا نہیں... شاید بیچارے گپ شپ کر رہے ہوں۔’’

 ‘‘نہیں مجھے تو اس کیبن میں کچھ گڑ بڑ لگتی ہے۔دیکھو’ اس شخص کے ہاتھ میں سائلنسر لگا ریوالور ہے۔’’ ‘‘ہاں واقعی ...کیپٹن کو بتانا پڑے گا۔’’

 ‘‘ہم اسٹریچر پر اسے ریوالور سمیت ڈالتے ہیں۔ تم ذرا باتھ روم میں بھی ایک نظر ڈال لو’ اس کا دروازہ کھلا ہوا ہے’ اندر کوئی بے ہوش نہ پڑا ہو۔’’ اور دوسرا شخص بغیر کچھ کہے باتھ روم میں داخل ہوگیا۔ ‘‘نہیں اور کوئی نہیں.. چلو انہیں باری باری لے جاتے ہیں۔’’ انہوں نے سب سے پہلے فلپ کو ریوالور سمیت اسٹریچر پر ڈالا اور باہر لے گئے۔ بل ان کے قدموں کو کیبن سے نکلتے دیکھ کر باہر آیا۔ اسے کیبن کے ایک کونے میں بلال اور سامنے کی دیوار کے ساتھ رینو نظر آیا۔ اسی لمحے اس کے کانوں میں پھر کچھ آوازیں آئیں۔ لگتا تھا کوئی ساتھ والے کمرے میں ہے۔ وہ بھاگ کر باتھ روم میں گھس گیا۔ کیبن میں مزید کچھ آدمی داخل ہوئے تھے۔اس نے آوازوں سے اندازہ لگایا کہ وہ دو سے زیادہ ہیں۔ وہ دو اسٹریچر لائے تھے اور بلال اور رینو کوکیبن سے باہر لے گئے ۔بل دبے قدموں باہر آیا۔ ارد گرد سے ہنوز آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ احتیاطاً دوبارہ باتھ روم میں گھس گیا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد اسے ہرطرف مکمل خامو شی محسوس ہوئی تو وہ باہر نکل کر جلدی سے اپنے کیبن کی طرف لپکا۔ وہاں سے ا س نے ایک خود کار رائفل’گولیوں کے کئی میگزین اور ہنگامی حالات کے لیے تیار ایک بریف کیس اٹھایا اور فیری سے باہر نکل آیا۔ باہر کی ہوا سے اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ کسی قدرتی ساحل پر ہے۔ کچھ فاصلے پر روشنیاں نظر آرہی تھیں۔ وہ انجانی سرزمین پر نپے تلے قدم اٹھاتا چلنے لگا۔

 صبح ہونے سے قبل وہ چندگھروں پر مشتمل ایک بستی میں پہنچا۔ اس وقت تک وہ پوری طرح تھک چکا تھا لیکن اس کے حواس قائم تھے۔ اس نے ایسے گھرکا انتخاب کیا جس میں داخل ہونا آسان تھا۔ اس کی بیرونی دیوار زیادہ اونچی نہیں تھی۔ وہ آسانی سے اسے پھلانگ کر اندر داخل ہوگیا۔ ایک کمرے کے سوا باقی گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ اسی طرف بڑھا۔ کمرے کا دروازہ اسے کھلا ملا۔ اندر پرانے وقتوں کا ایک لیمپ جل رہا تھا۔ پلنگ پر ایک بوڑھا شخص میٹھی نیند سو رہا تھا۔ کمرے کا جائزہ لیا تو وہ اٹھارویں صدی عیسوی کے دور کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔بل نے آٹو میٹک رائفل کی نال بوڑھے کی گردن سے لگائی اور قدرے زور سے ٹہوکا دیا۔ بوڑھے نے کروٹ لینے کی کوشش کی مگر بل نے اسے جگا کر ہی دم لیا۔ بل کو دیکھ کر بوڑھا بری طرح چونکا اور حیرت زدہ لہجے میں بولا:‘‘کون ہو تم...؟ کہاں سے آئے ہو؟’’ اس نے انگریزی میں سوال کیا تھا۔ بل اس کا سوال نظر انداز کر تے ہوئے بولا:‘‘زندگی چاہتے ہوتو چپکے سے میرے سوالوں کا جواب دیتے جاؤ۔یہ بتاؤ کہ اس جگہ کا نام کیا ہے؟’’ بوڑھا اس وقت تک مکمل حواس میں آچکا تھا۔ اس نے رائفل کی نال ایک طرف کرتے ہوئے بے پروائی سے کہا:‘‘بیٹھ جاؤ یہاں تمہیں کوئی خطرہ نہیں جو پوچھو گے بتاؤں گا ۔ تم اس وقت فرشتوں کی وادی میں ہو۔

٭٭٭

 فلپ کو ہوش آیا تو اس نے اپنے آپ کو ایک آرام دہ بستر پر پایا۔ دوسری طرف نگاہ دوڑائی تو ساتھ والے بسترپر اس نے ایک دوسرے شخص کو لیٹا ہوا پایا۔ اسے اپنا سر بوجھل محسوس ہو رہا تھا۔ وہ اٹھ بیٹھا۔ جوں ہی اٹھا’ گھنٹی بجنے کی آواز آئی۔ اسے بائیں بازو پر ایک رسی بندھی نظر آئی۔ اسی وقت ایک شخص بھاگتا ہوا اندر آیا۔ وہ اس کے ہوش میں آنے پر خاصا خوش نظر آرہا تھا۔ اسے دیکھ کر بولا:‘‘ خوش آمدید...فرشتوں کی وادی میں خوشگوار اور غموں سے بے نیاز زندگی مبارک ہو۔’’ فلپ اسے خالی خالی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ چند لمحے بعد ادھر ادھر دیکھنے کے بعد وہ بولا:‘‘مجھے کیا ہوا تھا؟میں یہاں کیوں ہوں؟’’ ‘‘سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔ ابھی آپ کو بھوک لگی ہوگی۔ آپ کیا کھانا پسند کریں گے؟’’ سوال کرنے کے بعد وہ آگے بڑھا اور بستر کے ساتھ رکھی میز پر پھلوں سے بھری ٹرے اس کے آگے کر دی۔

٭٭٭

 جس کمرے میں فلپ لیٹا ہوا تھا اس سے ملحقہ کمرے میں بلال اکیلا پڑا تھا۔ وہ بھی چند لمحے پہلے ہوش میں آیا تھا۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو ایک انتہائی خوبصورت دوشیزہ کو اپنا منتظر پایا۔ اس کے بے پناہ حسن کی سحر انگیزی نے اسے اگلے ہی لمحے عالم بے خودی میں دھکیل دیا۔ دوشیزہ اسے یوں دیکھ کر کچھ اس انداز سے مسکرائی کہ بلال کو اپنے دل کی دھڑکن تیز ہوتی محسوس ہوئی۔ وہ مشرق و مغرب کے حسن کا مرقع معلوم ہوتی تھی۔ وہ ایک ایسے نسوانی حسن کا دیدار کر رہا تھا جس کے متعلق اس نے افسانوں میں پڑھا یا شاعروں کی زبانی سنا تھا۔ دوشیزہ نے لب کشائی کی تو بلال محویت کے عالم سے نکل آیا... وہ انگریزی میں بولی:‘‘ مبارک ہو مسٹر بلال’ آپ فرشتوں کی وادی کے مہمان خصوصی ہیں۔’’بلال کو اب سب کچھ یاد آنے لگا کہ وہ اپنے کیبن پر بری طرح لڑھک رہا تھا جب فیری کسی حادثے کا شکار ہو گئی تھی۔ اس نے حیرانی سے پوچھا:‘‘خاتون! کیا تمام مسافربہ خیریت ہیں؟’’

 ‘‘ہاں...بالکل...سب خیریت سے ہیں...آیئے میں آپ کو ان ساتھیوں سے ملواتی ہوں جن کے ساتھ آپ کیبن میں تھے۔’’ اس نے اپنایت سے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے فلپ کے کمرے میں لے گئی۔بلال نے فلپ کے علاوہ رینو کو بستر پر پڑے دیکھا۔ فلپ کو دیکھ کر وہ بے صبری سے اس کی طرف لپکا۔ ‘‘مسٹر فلپ آپ بہ خیریت ہیں نا...؟’’فلپ نے خالی نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور بولا:‘‘ معاف کیجیے گا مسٹر... میں نے آپ کو پہچانا نہیں...’’

 فلپ کے اظہار لاتعلقی اور اس کے سپاٹ چہرے نے بلال کو الجھن میں مبتلاکر دیا۔ بے یقینی کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ دوبارہ مخاطب ہوا:‘‘مسٹر فلپ! آپ کو یاد نہیں کہ ہم اولینا فیری میں ایک ساتھ سفر کر رہے تھے اور فیری کو اغوا کر لیا گیاتھا۔ ہم غنڈوں کے سردار پر قابو پا چکے تھے کہ فیری حادثے کا شکار ہو گئی۔’’ فلپ نے بے بسی سے اپنے میزبان کی طرف دیکھا اور شکایت آمیز لہجے میں کہا:‘‘ میں ان صاحب کو نہیں جانتا۔ ان کی باتوں سے مجھے خوف محسوس ہو رہا ہے۔’’ میزبان نے جواباً مسکرانے پر اکتفا کیا۔ بلال سوچ رہا تھا کہ فلپ کہیں اداکاری تو نہیں کر رہا۔ اتنی دیر میں رینو بھی ہو ش میں آگیا۔ اس کے حلق سے عجیب سی آوازیں آرہی تھیں۔ دراصل وہ اپنی گدی کی چوٹ سہلا رہا تھا۔ سب لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ رینو خالی خالی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا:‘‘آپ کون لوگ ہیں؟ میں کہاں ہوں؟’’ بلال کو صورت حال کا کچھ اندازہ ہونے لگا تھا۔ وہ اپنی میزبان حسینہ کی طرف مڑا اور بولا:‘‘ کیا آپ مجھے کسی ایسے شخص سے ملوا سکتی ہیں جو مجھے پہچانتا ہو؟’’ جواب دینے کے بجائے اس کے چہرے پر ایک دلفریب مسکراہٹ آئی۔ چند لمحوں بعد بولی:‘‘ میں آپ کو جانتی ہوں!آپ کا نام ڈاکٹربلال ہے۔’’ وہ بدستور مسکرا رہی تھی۔بلال کو اس کی یہ ادا کچھ اچھی نہ لگی۔ وہ سپاٹ لہجے میں بولا:‘‘ میں اولینا فیری کے کسی مسافر سے ملنا چاہتا ہوں جو مجھے پہچانتا ہو!’’

 ‘‘آپ کی یہ خواہش پوری کرنا تو خاصا مشکل کام ہے! آپ خواہ ہمارے سب مہمانوں سے مل لیں’ آپ ان کے لیے ایسے ہی اجنبی ہوں گے جیسے ان دونوں کے لیے ہیں۔’’ اس نے فلپ اور رینو کی طرف اشارہ کیا۔ بلال نے خوفزدہ نظروں سے فلپ اور رینو کی طرف دیکھا اور خودکلامی کے انداز میں بڑبڑایا:‘‘یعنی سارے مسافر اپنی یادداشت کھو چکے ہیں...مگر اس حادثے سے مَیں کیوں محروم رہا۔’’ کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ دوبارہ حسینہ کی طرف متوجہ ہوا:‘‘کیا ان لوگوں کی یادداشت واپس لانے میں آپ میری مدد کر سکتی ہیں؟’’

 ‘‘مسٹر بلال’ آپ ہمارے ساتھ کچھ دن رہیں۔ ہو سکتا ہے آپ بھی ہم سے یہ ہی مطالبہ کریں کہ یاد ماضی کے عذاب سے آپ کو چھٹکارا دلا یا جائے۔’’ اس دفعہ اس کے لہجے میں عجیب طنز اور حسرت پوشیدہ تھی’مگر اس کا چہرہ اب بھی مسکرا رہا تھا۔‘‘تو گویا آپ نے مسافروں کی یادداشت خود ختم کی ہے!’’ بلال نے خوف آمیز حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ خاموش رہی اور اس کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ اس کے بجائے ایک دوسرے شخص نے جواب دیا:‘‘ایسا کرنا فرشتوں کی وادی کا اصول ہے ڈاکٹر بلال!’’ بولنے والا خاموشی کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا تھا اور بلال کی حیرت سے لطف اٹھا رہا تھا۔ بلال نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ ادھیڑ عمر آدمی تھا۔ چہرے مہرے سے انگریز لگ رہا تھا۔ خاصا تندرست تھا۔‘‘آپ کون ہیں؟’’ بلال نے حسینہ سے نئے آنے والے کے متعلق پوچھا۔‘‘یہ فرشتوں کی وادی کے سردار ہیں’کیپٹن ایڈم۔ یہ آپ کے تمام سوالوں کے شافی جواب دیں گے!’’

 ‘‘شکریہ مس ماریا!’’آنے والے نے تعارف کے بعد حسینہ کا نام لیا تو بلال اس کی طرف ایک پر اشتیاق نظر ڈالے بغیر نہ رہ سکا۔ پھر وہ کیپٹن ایڈم کی طرف متوجہ ہوا اور سنجیدگی سے بولا:‘‘کیپٹن! ہم لوگ کہاں ہیں؟ اور آپ نے ہمیں کیوں گرفتار کیا ہے؟’’

 ‘‘گرفتار؟’’ وہ کسی قدر ترشی سے بولا۔ ‘‘ہم نے تو آپ کو یہاں نہیں بلایا۔ آپ کوتقدیر یہاں لائی ہے۔ اور آپ یہاں رہنے کے قطعی پابند نہیں’ جب چاہیں اور جہاں چاہیں جا سکتے ہیں!’’ اس ایک فقرے نے بلال کو حیرتوں کے بھنور میں بالکل ہی بے بس کر دیا’ مگر اس نے ہار نہیں مانی بلکہ تابڑتوڑ سوال داغ دیے:‘‘ اگر ایسا ہی ہے تو پھر بتائیں کہ فیری کو حادثے سے دوچار کس نے کیا؟مسافروں کی یادداشت کس نے چھینی؟ ہمیں بے ہوشی کی حالت میں کون یہاں لایا؟ یہ کون سا ملک ہے؟ آپ ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ اور... آپ کو میرا نام کیسے معلوم ہوا؟’’ بلال کے سوال کی فہرست کو مزید طول پکڑتے دیکھ کر کیپٹن ایڈم کو مداخلت کرنا پڑی:‘‘مسٹر بلال! فی الحال میں آپ کے ان سوالوں کے جواب دے لوں’ باقی پھر پوچھیے گا۔آپ کے جہاز یا آپ کے ساتھ پیش آنے والے اس حادثے کے ہم قطعی ذمہ دار نہیں۔ اور نہ ہمیں اس کی وجہ معلوم ہے۔ یادداشت چلی جانے کے سوال کو ذرا موخر کرتے ہوئے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ تمام لوگ اپنے جہاز میں بے ہوش پڑے تھے۔ آپ لوگوں کی جان بچانا اپنا فرض سمجھتے ہوئے ہم آپ کو یہاں لے آئے۔ اس ملک کا نام فرشتوں کی وادی ہے اور یہ اس طرح زمین کا حصہ نہیں جس طرح دنیا کے باقی ممالک اس کا حصہ ہیں۔ یعنی آپ اس وقت ایشیا میں ہیں نہ افریقہ میں ’ یورپ میں نہ دوسرے کسی بر اعظم میں۔ یہ زمین کا وہ حصہ ہے جو ابھی دریافت نہیں ہوا۔ آپ اور آپ کے تمام ساتھیوں کے نام ہمیں ریکارڈ روم سے معلوم ہوئے ۔ اب رہا یہ سوال کہ آپ کے سوا باقی تمام لوگوں کی یادداشت کیوں چلی گئی اور آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح ہر علاقے اور ملک کا ایک دستور ہوتا ہے’اسی طرح اس علاقے کا پہلا اصول یہ ہے کہ یہاں آنے والے ‘‘بن بلائے مہمانوں’’ کی یادداشت ایک خاص قسم کے عمل کے ذریعے ختم کر دی جاتی ہے’البتہ اگر کسی شخص کے متعلق یہ گمان ہو کہ وہ کسی جبر یا قید کا شکار ہوکر یہاں آیا ہے تو اس سے حقیقت معلوم کرنے کے لیے اس کی یادداشت رہنے دی جاتی ہے...’’بلال نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا: ‘‘یہ آپ کو کس نے بتایا کہ میں کسی جبر یا ظلم کا شکار ہوا ہوں؟’’

 ‘‘آپ جس کیبن میں پائے گئے وہاں مسٹر فلپ کے ہاتھ میں ریوالور تھا۔ کمرے میں جس طرح سے آپ لوگ بے ہوش پڑے تھے اس سے واضح ہو گیا کہ یہ لوگ آپ کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ آپ کا نسلی طور پر ان سے بلکہ سارے مسافروں سے مختلف ہونا بھی ہمارے لیے اس فیصلے کا باعث بنا کہ ہم آپ کی یادداشت ختم نہ کریں۔’’

 ‘‘جس کیبن میں ہم لوگ تھے’ وہاں ایک چوتھا شخص ایڈگربل بھی تھا’ وہ کہاں ہے؟’’ بلال نے بے چینی سے پوچھا۔‘‘ہاں آپ درست کہتے ہیں۔ اس نام کے ایک شخص کا ریکارڈ میں ذکر تو موجود ہے لیکن جہاز کے عملے کی طرح اس کابھی کوئی سراغ نہیں ملا۔ مسٹر ایڈگربل اور عملے کے افراد کا گم ہونا بھی ہمارے لیے ایک معمہ تھا’ اس معاملے میں بھی ہم نے آپ سے معلومات حاصل کرنا ہیں۔ براہ کرم آپ بتائیں کہ یہ لوگ کہاں ہیں؟’’ بلال نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور قریبی کرسی پر بیٹھتے ہوئے پانی طلب کیا۔

٭٭٭

 بندوق تانے ہوئے بل کے دھمکی آمیز رویے کے باوجود بوڑھا جس بے نیازی سے پیش آیاتھا’ وہ اس کے لیے بڑا ہی حیران کن تھا۔ اپنا لہجہ قدرے بہتر بناتے ہوئے اس نے سوال داغا:‘‘فرشتوں کی وادی سے کیا مطلب ہے تمہارا؟’’

 ‘‘غالباً آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس نام کا علاقہ تو کرہ ارض پر آپ نے پہلے کبھی نہیں سنا!’’بوڑھے کے لہجے میں کمال کا سکون تھا۔ ‘‘اگر میری بات کا مطلب سمجھ گئے ہو تو پھر بکتے کیوں نہیں؟’’ بل کا لہجہ اس دفعہ بڑا جارحانہ تھا۔ ‘‘برخوردار! جس مقام حیرت سے تم اس وقت گزر رہے ہو’ ہم اس میں رہ چکے ہیں’ لیکن جو جھنجھلاہٹ تم پر طاری ہے’ وہ سمجھ سے باہرہے۔’’ بوڑھے کا لہجہ بالکل اس مشفق پروفیسر کا ساتھا جو اپنے کسی شاگرد کی نادانی پر بڑی اپنایت سے خفا ہورہا ہو۔ اس اسلوب نے بل کی جھنجھلاہٹ کو غضبناکی میں تبدیل کر دیا اور اس نے لپک کر بوڑھے کے گریبان پر ہاتھ ڈالا اور اسے جھنجھوڑتے ہوئے بولا:‘‘سیدھی طرح کیوں نہیں بکتے کہ یہ جگہ کون سی ہے۔ میں یہاں تم سے بھاشن سننے نہیں آیا!’’بل نے اس کی آنکھوں میں اپنی نگاہوں کا قہر انڈیلتے ہوئے جب اس کا گریبان چھوڑا تو بوڑھے کی باہر ابلی ہوئی آنکھوں کو سکون ملا۔ وہ اپنا گلا سہلاتا ہوا اسی سکون اور وقار سے بولا:‘‘ برخوردار!لگتا ہے تمہارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ لو سنو! یہ جگہ’ جس پر تم پہنچ چکے ہو’ ہے تو اس سیارہ زمین کاحصہ’ لیکن تم دنیا والے اس سے قطعی ناآشنا ہو۔ تم کولمبس کی طرح ایک نئی دنیا میں پہنچ گئے ہو اور اس نئی دنیا کا نام ‘‘فرشتوں کی وادی’’ ہے ۔ کہو اب تم مطمئن ہونا!!’’بل کے ذہن میں برمودا مثلث کی پر اسراریت کی ساری داستان پھر سے تازہ ہوگئی۔ اس کا ذہن تلخ حقیقت قبول کرنے سے ابھی تک گریزاں تھا۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنے اضطراب پر قابو پایا مگر اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اگلا سوال کیا کرے۔ کچھ سوچ و بچار کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ بوڑھے سے دوستانہ تعلقات اس کی سب سے بڑی ضرورت ہیں۔ بد لے ہوئے حالات سے نبرد آزما ہونے کے فیصلے نے اس کے چہرے کے خدو خال میں وحشت اور بے اعتمادی کے آثار میں نمایا ں کمی کر دی تھی۔ اس نے کسی قدر شرمسار نظروں سے بوڑھے کو دیکھا جو اس کی بدلتی کیفیت سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ بل نے سپاٹ لہجے میں پوچھا:‘‘ کیا یہ ایک جزیرہ ہے؟’’

 ‘‘ہاں’تم اسے جزیرہ کہہ سکتے ہو’ لیکن یہ دنیا کے دوسرے جزیروں سے اس لحاظ سے بالکل مختلف ہے کہ یہاں سے کوئی بھی شخص آج تک باہر نہیں جا سکا۔’’ بوڑھے نے بستر سے اٹھتے ہوئے کہا۔‘‘بوڑھے میاں’ تمہیں یہ تو معلوم ہو ہی گیا ہے کہ میں خاصا غصیلا واقع ہوا ہوں اور مجھے سب سے زیادہ غصہ دوسروں کی ادھوری بات پر آتا ہے’ اس لیے تم میرے صبر کا امتحان نہ لو اور ذرا تفصیل سے مجھے اس جگہ کے بارے میں بتاؤ۔’’ بل نے ضبط سے کام لیتے ہوئے اپنی طرف سے بڑے دھیمے لہجے میں کہا لیکن بوڑھے نے بل کی بات میں واضح دھمکی محسوس کر لی تھی۔ وہ آ بیل مجھے مار کے مسلک کا قائل نہیں تھا’ فوراً بولا: ‘‘برخوردار...’’ مگر بل نے اس کاجملہ گلے سے ہی دبوچ لیا:‘‘ یہ بھی یاد رکھناکہ مجھے ایسے بڈھوں سے شدید نفرت ہے جو خوامخواہ دوسروں کے ابا میاں بن بیٹھتے ہیں۔ میرا نام بل ہے ...ایڈ گربل۔ اور مجھے میرے نام ہی سے پکارو تو بہتر رہے گا اور تم اپنا نام بھی مجھے بتا دو تا کہ مجھے بھی سہولت ہو۔’’ بل پر واضح تھا کہ اس کا بوڑھے سے خاصا رابطہ رہے گا’ اس لیے اس نے بہتر جانا کہ بوڑھا اسے غصہ دلانے والی باتوں سے باز رہے۔ بوڑھا بھی یہ بات سمجھ رہا تھا۔ وہ پہلی دفعہ قدرے سپاٹ مگر پر سکون لہجے میں گویا ہوا:‘‘بہت اچھا مسٹر بل... میرا نام جیکب گرے ہے اور میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ یہ جزیرہ پوری دنیا سے کٹا ہوا ہے۔ اس کا اس دنیا کی کسی جاندار یا بے جان شے سے کوئی تعلق نہیں جہاں سے تم آئے ہو۔ اور جس طرح حادثاتی طور پر تم یہاں آئے ’ اسی طرح قسمت کے چکر نے ہمیں بھی یہاں لاپھینکا تھا۔’’کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد وہ دوبارہ بولا:‘‘اور میں تمہیں اس جزیرے کے متعلق سب کچھ ایک ساتھ اس لیے نہیں بتا سکتا کہ مجھے معلوم ہے کہ تم اس میں موجود حیرتوں کے متحمل نہیں ہو سکتے’ اس لیے بہتر یہ ہی ہے کہ تم جو پوچھو’ میں اس کا جواب دے دوں۔’’ بوڑھے جیکب نے گویا بڑی شائستگی کے ساتھ اسے احساس دلایا کہ وہ اس کا غلام نہیں۔ ‘‘ہوں...کیا یہاں کسی کی حکومت بھی ہے؟’’ بل نے کچھ سوچتے ہوئے سوال کیا۔ ‘‘ہاں کیپٹن ایڈم یہاں کے سربراہ ہیں۔ لیکن یہاں حکومت کا وہ تصور نہیں جو دوسری دنیا میں ہوتا ہے۔ یہاں بادشاہت ہے ’ نہ جمہوری تماشا اور نہ آمریت!’’

 ‘‘ تو پھر یہ کیپٹن حکمران کیسے بنا؟’’بل نے بے اختیار پوچھا۔ ‘‘وہ اس وادی کا ایسا شخص سے جس کی یادداشت بھی نہیں کھوئی اور وہ اپنی دنیا میں واپس بھی نہیں جانا چاہتا۔ اس کی اسی خصوصیت کی وجہ سے پچھلے سردار نے مرنے سے پہلے سرداری کی مالا اس کے گلے میں ڈال دی تھی۔’’ بل کے لیے یاد داشت کامعاملہ حیرت کا ایک نیا دروازہ کھول گیا۔ وہ فی الواقع چکرا گیا۔ اس کے سر میں درد کی ٹیسیں اٹھنے لگیں۔ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ کر وہ کچھ دیر خاموشی سے بیٹھا رہا’ پھر بولا تواس کی پہلی جھنجھلاہٹ واپس آچکی تھی۔ ‘‘یعنی تمھارا مطلب یہ ہے کہ اس بستی کے تمام لوگوں کی یادداشت ختم ہو چکی ہے؟’’

 ‘‘نہیں کیپٹن ایڈم کے علاوہ میں دوسرا شخص ہوں جو اپنا ماضی بالکل نہیں بھولا’مگر میں بضد رہا کہ اپنی دنیا میں واپس ضرور جاؤں گا’ تاہم پچاس برس گزرنے کے بعد کامیابی کی طرف ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکا اور تم سے مل کر تو میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس جنت نظیر وادی سے ہر گز واپس نہیں جانا چاہیے۔’’

 ‘‘اس وادی میں ایسی کیا شے ہے جس کی وجہ سے تم اسے جنت کہتے ہو؟’’ ‘‘یہاں پولیس ہے نہ جرائم’ فوج ہے نہ جنگ’ کرنسی ہے نہ بازار’ مال جائداد ہے نہ آل اولاد۔ ایسی کوئی بھی تو چیز نہیں جس کی وجہ سے انسان ہمیشہ باہم دست و گریبان رہتے ہیں۔ اسی لیے اس کانام ‘‘فرشتوں کی وادی’’ ہے۔’’

 بل کے ماتھے پر حیرت کے باعث پڑی شکنوں میں اور اضافے کی گنجائش نہیں رہی تھی۔ وہ کچھ اس انداز سے خاموش ہوا تھا کہ صاف محسوس ہوتا تھا کہ جلدی بولے گا نہیں۔ تب بوڑھے نے موقع جانا اور پوچھا:‘‘ لگتا ہے اب آپ تھک گئے ہیں۔ بھوک لگی ہے تو کچھ کھانے کو لا دوں؟ پھر میں آپ سے پوچھوں گا کہ آپ کے ساتھی کہاں ہیں اور یہ کیسے ممکن ہوا کہ آپ اس جزیرے پر پہنچے ہوں اور کوئی آپ کی میزبانی کے لیے نہ آیا ہو!’’

 شکست سے ناآشنا بل کے لیے بوڑھے جیکب کا یہ جملہ تازیانہ ثابت ہوا۔ وہ فوراً سنبھلا۔ اسے احساس ہوا کہ اب گیند اس کی کورٹ میں ہے ۔ بڑے میاں کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی بھی معقول کہانی گھڑنے کے لیے اسے کچھ مہلت درکار تھی۔ اس نے جیکب سے پینے کے لیے کچھ مانگا۔ اس کی توقع کے برعکس شراب کے جام کے بجائے اس نے پرانی وضع کے ایک گلاس میں پانی لاکر اس کے آگے رکھا۔ بل نے اسے ایک تھپڑ مارنے اور لات گلاس پر دے مارنے کی خواہش پر بڑی مشکل سے قابو پایا اوراپنے ذہن میں آنے والی کہانی کو الفاظ کا روپ دیتے ہوئے بولا:‘‘میں اولینا نامی فیری کا کپتان ہوں۔ فیری پر سیاح سفر کر رہے تھے۔ ہماری منزل برمودا جزائر تھے لیکن کوئی سو کلومیٹر پرے ہی فیری ایک عجیب حادثے کا شکار ہو گئی۔ معلوم نہیں کتنے عرصے بعد جب مجھے ہوش آیا تو فیری کے سب مسافر غائب تھے۔ اس کے بعد میں آبادی تلاش کرتا تمھارے پاس آگیا۔’’

 ‘‘آپ یقینا بے ہوش ہوکر کسی ایسی جگہ گر پڑے ہوں گے جہاں آپ نظر نہ آتے ہوں گے۔’’ بوڑھے نے بل کی کہانی پر یقین کرتے ہوئے کہا۔‘‘ہاں۔ تم ٹھیک کہتے ہو۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں پلنگ کے نیچے پڑا ہوا تھا... مگر تمہیں کیسے معلوم ہوا؟’’ ‘‘جیسے ہی کوئی بحری یا فضائی جہاز باہر کی دنیا سے اس جزیرے میں آتا ہے’ ایک بھونچال سا آجاتا ہے اور یہاں کے لوگ دنیا کے غموں کے ستائے ہوئے نو واردوں کو خوش آمدید کہنے فوراً ان کے استقبال کو پہنچتے ہیں۔ آنے والے ہمیشہ بے ہوش ہوتے ہیں۔ آپ یقینا پلنگ کے نیچے ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آسکے ہوں گے۔’’ ‘‘انہوں نے دیگر مسافروں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہوگا؟’’بل نے تحکم آمیز لہجے میں سوال کیا۔‘‘وہی جو یہاں کا دستور ہے۔ بے ہوشی کے دوران انہیں غموں سے نجات دلانے کے لیے ایسا مشروب پلایا جاتا ہے جس سے ان کے ذہنوں سے ماضی کے تمام حالات’تمام واقعات اور ہر قسم کے خیالات و تفکرات محو ہوجاتے ہیں اور ہوش میں آنے کے بعد وہ یوں محسوس کرتے ہیں جیسے ابھی ابھی پیدا ہوئے ہوں۔’’

 ‘‘بیڑا غرق! کیا واقعی؟’’ اس کے لہجے میں بے چارگی’غصہ اور حیرت سبھی کچھ تھا۔ جواب میں بوڑھے نے صرف سر ہلا کر مسکرانے پر اکتفا کیا۔ کچھ دیر گھمبیر خاموشی رہی۔‘‘کیا اس مشروب کے اثر کو زائل کیا جاسکتا ہے؟’’ بل کے اس سوال پر بوڑھا پہلی دفعہ چونکا تھا۔وہ کسی گہری سوچ میں پڑ گیا۔ اس کی خاموشی جس قدر طویل ہوتی گئی’ اسی قدر بل کے چہرے پر مایوسی کے سائے دور ہوتے چلے گئے۔ بوڑھے کے اس رد عمل سے بل کو اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا۔ اس نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا اور اپنی بندوق پر نظریں جماتے ہوئے بولا:‘‘ ذرا دھیان سے جواب دینا ...اسی جواب سے واضح ہوگا کہ تم فرشتے ہو یا ہماری طرح کے انسان!’’بوڑھے نے اب فوراً جواب دیا اور اس دفعہ اس کے لہجے میں ایک حسرت بھی تھی۔‘‘مسٹربل! میں بلاشبہ ایک انسان ہی ہوں۔ اس کے باوجود میں تمھیں بتائے دیتا ہوں کہ ہاں’ ایسا ممکن ہے کہ بھولی ہوئی یادداشت مکمل طور پر واپس آجائے! لیکن یہ ہی یادداشت اس شخص کے لیے ایک عذاب بن جاتی ہے۔ ایسے لوگ یہاں سے جانے کی خواہش میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔ اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ خود کشی کرلیتے ہیں اور ذرا زیادہ عقل مند ہوں تو دوبارہ اسی ‘‘آب حیات’’ کی پناہ لیتے ہیں جس سے وہ بے خبری کی ‘‘بادشاہت’’ سے ہمکنار ہو کر نا ممکن الحصول خواہشات سے نجات پالیتے ہیں۔ میرے گھر کے آس پاس یہ جو چند گھر آپ دیکھ رہے ہیں’ ان میں ایسے ہی لوگ آباد ہیں’ جن پر میں نے تجربے کے طور پر یہ ہی ظلم کیا تھا۔ دو افراد نے چند برسوں بعد خود کشی کر لی اور باقی افراد کے مطالبے پر مجھے ان کو مشروب پلا کر ان کی یادداشت ختم کرنا پڑی۔’’ماحول پر بوجھل سی خاموشی طاری ہو گئی۔ بل کا منصوبہ ساز ذہن جو ناموافق کو موافق بنانے کی بے پنا ہ صلاحیت رکھتا تھا’ اس نئے انکشاف کاتوڑ کرنے میں مصروف ہو گیا۔ جلد ہی الجھی ہوئی ڈور کا سرا اس کے ہاتھ آگیا۔ (جاری ہے)