جنرل منٹگمری کو جنگ عظیم دوم میں شاندار خدمات پر حکومت برطانیہ کی طرف سے اعلیٰ سول اور فوجی تمغات دیے گئے تھے دوران جنگ اس جری جرنیل کے گھر کی دیوار بمباری سے مسما ر ہوگئی تھی ۔جنرل منٹگمری نے گھر کی دیوار کی تعمیر کے لیے ایک درخواست برائے قرضہ حکومت کو دی تھی جس میں اس نے اپنی شاندار خد مات کا ذکر کیا تھا ۔حکومت نے بڑے وا شگاف الفاظ میں اس بہادر جرنیل کو جواب دیا کہ جو خدمات آپ نے تاج بر طانیہ کو دی تھیں ،اس کا معاوضہ آپ تنخواہ کی صورت میں لے چکے ہیں ۔رہا دیوار کی تعمیر کے لیے قرضہ ،تو ابھی جنگ کی وجہ سے بہت سے گھر مسمار ہوگئے ہیں ۔اگر حکومت عوام کی فلا ح کے لیے کو ئی قانون سازی کرتی ہے ،تو آپ کو بھی یاد رکھا جائے گا ۔
تاریخ گواہ ہے کہ قیام پاکستان کے شروع کے چند سال چھوڑ کر شہدائے پاکستان کے خون پر حکمران آج تک داد عیش دے رہے ہیں ۔ان میں سے کچھ نے تو اسلامی ڈھانچے کی تبدیلی کے لیے قائد اعظم کی وفات کے بعد ہی سے ملک خداد اد کی سا خت بدلنے کے لیے کو شش شروع کر دی تھی ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب بھی اسلامی تشخص کی پامالی کا عمل جاری و ساری ہے ۔ہر آنے والا حکمران عوام کی ترقی ،خوشحا لی ،بے روز گاری کے خاتمے اور غربت کو ختم کرنے کے لیے قوم کو یقین دہانی کروانے پر مصر ہے مگر صرف زبانی زبانی ۔خدا اور اس کے رسول ﷺ کے دیے ہوئے نظام کو چھوڑکر ہم نے ہر قسم کا طرز حکومت دیکھ لیا ہے ۔ہم ابھی تک راندہ درگاہ ہیں ۔قیام پاکستان کا سب سے زیادہ فائدہ اقتدار سے وابستہ رہنے والوں کو ہوا ہے جنہوں نے قومی بنکوں کو گھر کی لونڈی سمجھ کر اربوں روپے کے قرض لیے اور پھر ان کی معافی کروالی یہ استحصالی طبقہ اگر حکمرانی کے سنگھاسن پر بیٹھتا ہے ،تو مزید قرضوں کے حصول کے لیے تگ و دود میں مصروف ہو جاتا ہے ۔اگر ان کی سیا سی جماعت ہار جاتی ہے ،تو بنک ان کی دلجوئی کے لیے ایک طویل بحث و تمحیص شروع کر دیتا ہے ۔ابھی یہ لا حا صل ‘تفتیش’ جاری رہتی ہے کہ حکمرانی کا پہیہ پھر ان کے حق میں گھو م جاتا ہے ۔پھر پچھلے قرضے معاف اور نئے قرضوں کی فہر ست اپنے پسندیدہ بنک کے حوالے ہو جاتی ہے ۔بنک بھی پچھلے پانچ سال سے زائد مدت کے دئیے ہوئے قرضوں کومعاف کر کے سٹیٹ بنک سے سر خرو ہو جاتا ہے اور اپنی بیلنس شیٹ کو بہتر شکل میں لے آتا ہے ۔
تقسیم ہند سے قبل جس طرح ہندوستانی راجے ،مہاراجے اپنی اپنی ریا ستوں کے مختار کل ہوتے تھے اور کوئی پوچھ پڑتال ،جواب دہی ،نظم و ضبط اور ضابطہ نہ تھا ،جو منہ میں آگیا وہ ہو گیا ،جو کہہ دیا وہ قانون بن گیا ،جس کے لطیفے پر ہنسی آگئی اس کو خلعت پہنادی جس نے قصیدہ کہہ دیا اسکی موجیں لگ گئیں جس نے گرہ کھول دی اسکو دو چار گاؤں عنایت کر دیے ۔ہمارے مالیاتی اداروں کے ارباب اختیار بھی ان مہاراجوں سے کم نہیں ۔اب وہ ان ناہنجاروں کو گاؤں بخشنے سے تو رہے ،اب تو نقد و نقد ہی ادا کیا جانے لگا ہے جس کی وجہ سے مراعات یافتہ طبقہ امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے خدا ہمارے ان مالیاتی اداروں کو قائم رکھے ۔یہ آپ کے مرتبے ،منصب اورحکومت میں عمل دخل پر منحصر ہے کہ آپ بنکوں سے قرض لینے اور پھر اس کو معاف کر انے پر کتنے ماہر ہیں بنکوں کے عائد کردہ ‘‘ریکوری رولز ’’صرف چھوٹے چھوٹے قرض خواہوں کے لیے بنائے گئے ہیں جبکہ کسی چھوٹے دکاندار یا چھوٹے سرمایہ کار کو تھوڑے سے قرضے کے عوض کڑی شرائط اور اپنی جائیدا د گروی رکھوانی پڑتی ہے۔ خدا نخواستہ یہ دکاندار بوجہ کاروباری اتار چڑھاؤ یہ قرضہ ادا نہیں کر پاتا تو اس غریب قرض خواہ پر شدید دباؤ شروع ہو جاتا ہے ۔ہو سکتا ہے کہ بنک کا منیجر یا اس کا نمائندہ قرضے کی وصولی کے لیے آپ کے گھر پہنچ کر کہہ دے کہ اگر آپ قرض واپس نہیں کریں گے تو آپ کو قید کیا جا سکتا ہے اور آپ کی جائداد بھی نیلام کی جاسکتی ہے ،لہذا یہ دکاندار یہ قرضہ مطلوبہ تاریخ سے پہلے ہی ادا کر دے گا اور آئندہ بنک سے قرضے کے حصول سے ضرور دستبردار ہو جائے گا ،مگر اقتدار پہ برا جمان ،سیاست دان ،وڈیرے جو کبھی ایوان میں ہوتے اور کبھی ایوا ن سے باہر ،جنہیں بنکوں سے قرضہ لینے کا ڈھنگ آتا ہے وہ قرضوں کے حصول کے لیے ہی کبھی اس سیاسی جماعت میں تو کبھی اس سیاسی جماعت میں جانے کے لیے ہمہ وقت تیار دکھائی دیتے ہیں ۔یہ لوگ بنکوں اور مالیاتی اداروں کے قواعد و ضوابط سے ہمیشہ مستشنیٰ ہوتے ہیں ۔
نیب کی دی ہوئی تفصیل کے مطابق بنک آف پنجاب کے سابق صدر ہمیش خاں اور دیگر اعلیٰ افسر ان نے ۱۳ ؍ارب روپے کے قرضہ جات جعلی کاغذات اور ضمانت کے عوض جاری کیے ،نیب نے اس حوالے سے مذکورہ اشخاص کو بد عنوانی ثابت ہونے پر گرفتار کر لیا ۔
ان قرض خواہوں کو قرضوں کے اجراء کے وقت یقینا بنک نے ان کی مالی ساکھ اور رہن کی بابت مکمل چھان بین کی ہوگی ۔پھر CIB کے ذریعے بھی پتہ لگایا ہو گا کہ متعلقہ شخص ،ڈائریکٹر یا پھر اس فرم کا حصے دار، کسی مالیاتی ادارے کا مقروض تو نہیں ۔تب ہی قرضوں کا اجرا کسی بنک کے لیے اصولی طور پر ممکن ہوتا ہے ۔مزید بر اں ضمانت کے طور پر فراہم کی جانے والی جائداد کی عمومی قیمت کا تعین بھی کیا جاتا ہے ۔ رہن رکھی گئی جائداد کے عوض عمومی طور پر بنک ۶۰؍ فیصد سے زائد قرضہ جاری نہیں کرتا ،پھر کیا وجہ ہے کہ تمام تر پیش بندی کے باوجود تمام متعلقہ بنک اپنے واجبات وصول کرنے سے قاصر ہیں ۔اس میں کچھ تو حکومتی عمل دخل اور کچھ مالیاتی اداروں کی طرف سے مقرر کیے گئے قرضوں کی وصولی پر مامور عدالتوں کا سست رو طریقہ کا ر ہے ۔جن سے قرضوں کے حصول کے ماہر منصوبہ ساز عدالتی کارروائیوں کے ذریعے تاخیری حربے اپنا کر یاتو بنک کو قرضہ معاف کردینے پر مجبور کردیتے ہیں یا پھر ایک نیا قرضہ لے کر پہلے قرض کی ادائیگی سے گلو خاصی کرا دی جاتی ہے یہ سوچ کر بڑی پریشانی ہوتی ہے کہ آخر عوام کے پیسوں سے ان اشرفیہ کو کب تک نوازا جائے گا ۔مملکت خداداد کے ہنر مند ،پڑھے لکھے نوجوان ،سائنسدانوں کو ان مالیاتی اداروں سے کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا جبکہ افسر شاہی ،سیا ستدان ،ایوان سے چمٹے رہنے کا ہنر جاننے والوں کو ہر سال کروڑوں روپے مالی رعایت کے نام پر معاف کر دیے جاتے ہیں جن کے پاس پہلے سے اتنے وسائل ہیں جو شاید کسی مغل شہزادے کو کبھی میسر نہیں تھے ۔
بہت پہلے ایک بنک نے سائیکل کے قرضہ کے لیے سکیم شروع کی تھی جس میں ایک سو روپے سائیکل خریدنے والے کو بنک میں جمع کروانا ہوتا تھا جبکہ بقیہ سا ت سو روپے بنک اپنی طرف سے دے کر ۸۰۰ ؍روپے کی سائیکل خرید کر سائیکل کے خریدار کو دے دیتا تھا شو مئی قسمت ایک سفید پوش نے بھی قرضہ برائے سائیکل سکیم سے استفادہ کرنے کی جرات کی ۔آخری چند قسطیں جو کہ ۱۵ ؍روپے ماہوار تھیں مالی مجبوری کی وجہ سے ادا نہ کر سکا اس کے عوض اس سفید پوش کو بنک عملہ نے پورا دن بنک میں بٹھا ئے رکھا ۔ایک رحم دل شخص نے بقیہ رقم ادا کر کے اس شریف آدمی کی بنک سے جان چھڑائی ۔مختصراً یہ کہ ہمارے ہاں احتساب صرف غریب آدمی کا ہوتا ہے جبکہ مراعات یافتہ طبقہ اربوں روپے بنکوں سے لے کر موج میلہ کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔جب بنک اربوں روپے ان اشرفیہ کو معاف کر دیں تو ان کے لیے کیسے ممکن رہے گا کہ وہ عوامی فلاح کے منصوبے بنا سکیں ۔ہمارے ہاں بہت پہلے بچتوں کی سکیم پر منافع کی شرح ۹؍ فیصد تک ہو تی تھی جو اب ۲؍ فیصد سے زیادہ نہیں ۔زکوۃ او رود ہولڈ نگ ٹیکس بھی اب ہم بنک کو ادا کرنے پر مجبورہیں حکومتی انتظامیہ لاکھ کہے کہ ہماری محفوظ رقم ۱۴؍ارب روپے سے زیادہ ہوگئی ہیں ۔جب تک عام آدمی ان مالیاتی اداروں سے فیض یاب نہیں ہوتا اقتصادی ترقی ممکن ہو ہی نہیں سکتی ۔اگر قرض دینا ہی ہے تو ملک کے ہنر مند وں ،پڑے لکھے نوجوانوں کو دیں ۔یقینا وہ دیے گئے قرضوں کی واپسی کو چاہے جتنا بھی کاروباری نقصان ہوجائے ،ادا کرنے کی کوشش ضرور کریں گے ۔
بہت پہلے مالیاتی اداروں کے سر براہان کی تعیناتی ان کی قابلیت اور بنک میں شاندار خدمات کے مرہون منت تھی جبکہ اب یہ عہدے سیاسی پس منظر کے حامل افراد کو ملتے ہیں جنھیں بنک کے امور اور معاملات سے کچھ زیادہ واقفیت نہیں ہوتی ۔ہمارے دور میں ۲۵۰۰۰ ؍کے قرضوں کی معافی کروانے والے سے ایک طویل بحث ہوتی تھی تب جاکر گلو خلاصی ہوتی تھی ،مگر اب تو اربوں روپے کی معافی ایک روایت بن گئی ہے ۔کسی بھی بنک کی بیلنس شیٹ اٹھا کر دیکھ لیں ،قرضے معاف کر وانے والوں کے اسم گرامی دیکھ کر پریشانی لاحق ہونے لگتی ہے ۔ان ناہنجاروں نے ایسی کون سی تجارت کی تھی جس سے عوام کے پیسے کے ساتھ ساتھ بنکوں کی رقوم بھی ادا نہ کر سکے اور بالآخر قرض معاف کروانے کی ضرورت پیش آگئی ۔دراصل ابتدا ہی سے یہ لوگ اس خیال سے قرض لینے کے خواہاں ہوتے ہیں کہ ان کے پیش روؤں نے اربوں روپے ہضم کر لیے تو وہ بہتی گنگا میں ہاتھ کیوں نہ دھوئیں ۔حقیقت تو یہ ہے کہ خیانت کے اس کار بد میں بیشتر سیاستدانو ں اور بد عنوان سرمایہ داروں کے ہاتھ رنگے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
جنرل منٹگمری کو جنگ عظیم دوم میں شاندا ر خدمات پر حکومت برطانیہ کی طرف سے اعلیٰ سول اور فوجی تمغات دیے گئے تھے دوران جنگ اس جری جرنیل کے گھر کی دیوار بمباری سے مسما ر ہوگئی تھی ۔جنرل منٹگمری نے گھر کی دیوار کی تعمیر کے لیے ایک درخواست برائے قرضہ حکومت کو دی تھی جس میں اس نے اپنی شاندار خد مات کا ذکر کیا تھا ۔حکومت نے بڑے وا شگاف الفاظ میں اس بہادر جرنیل کو جواب دیا کہ جو خدمات آپ نے تاج بر طانیہ کو دی تھیں ،اس کا معاوضہ آپ تنخواہ کی صورت میں لے چکے ہیں ۔رہا دیوار کی تعمیر کے لیے قرضہ ،تو ابھی جنگ کی وجہ سے بہت سے گھر مسمار ہوگئے ہیں ۔اگر حکومت عوام کی فلا ح کے لیے کو ئی قانون سازی کرتی ہے ،تو آپ کو بھی یاد رکھا جائے گا ۔
قرضوں کی معافی کو اگر بہ نظر غور دیکھا جائے تو یہ بنکوں کے گاہکوں اور کھاتے داروں کی گرہ سے ہی ہوتی ہے کیونکہ بنک پورے سال میں تمام اخراجات اور دیگر خسارے کو مدنظر رکھ کر منافع کا اعلان کرتا ہے یاد رکھیں ،اگر معاف کیے گئے متنا زعہ قرضے نہ ہوں تو بنک کی منافع کی شرح کہیں زیادہ ہو جس سے عام گاہک کو منافع کی شکل میں یقینا فائدہ پہنچتا ۔بچتوں پر شرح منافع کی مسلسل کمی نے بنکوں کے گاہکوں کو بڑایژ مردہ کر دیا ہے اسے اپنی بچتوں کو جمع کروانے کے جرم میں کئی کٹوتیوں سے واسطہ پڑتا ہے جبکہ قرض لینے والوں کے لیے چاندی ہی چاندی ہے ۔
اب تک قرضو ں کی مد میں تقریباً ۱۰۰ ؍ارب روپے کی معافی ہو چکی ہے ۔یہ رقم کوئی معمولی رقم نہیں ہے ۔عوام تو اس انتظار میں ہیں کہ جس احتساب کا واویلا حکومت نے اوائل دنوں میں مچایا تھا اس کا کیا بنا ۔قومی وسائل کے زیاں کی ناکہ بندی پر پائی پائی کا حساب رکھنے والے کہا ں ہیں ؟ اس ملک میں ‘مال غنیمت ’کی تقسیم کو پو چھنے کے لیے کوئی ادارہ یاضابطہ ضرور ہوناچاہیے جو استحصا لی طبقہ سے پورا پورا حساب لے سکے ؟