درس سیرت
حسنِ خلق
سید عزیزالرحمن
حسن خلق بھی ایمان کے ان شعبوں میں سے ہے، جن کا تعلق دوسرے لوگوں سے ہے، اگرچہ اس کے اثرات، ثمرات و برکات سے خود صاحب اخلاق ہی سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے ۔رسول اﷲﷺ توحسن اخلاق کے اس عظیم مرتبے پر فائز تھے کہ قرآن نے یہ گواہی دی:
وَ اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ O (۱)
اور آپ تو بلاشبہ خلق عظیم پر فائز ہیں۔
رسول اﷲ ﷺکا فرمان مبارک ہے:
بعثت لاتمم حسن الاخلاق(۲)
میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔
آپ ﷺنے حسن خلق اور اخلاق حسنہ پر اس قدر زور دیا ہے کہ اسے اپنی بعثت کاایک اہم مقصد قرار دیا ہے، یہی بات دوسری روایات میں ان الفاظ کے ساتھ بیان ہوئی ہے:
انما بعثت لاتمم صلاح الا خلاق (۳)
مجھے تو خاص نیک اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہے۔
آپ انے ان قولی احادیث کے ذریعے اخلاق حسنہ کی طرف توجہ دلانے کے ساتھ یہ دعا بھی فرمائی:
اللھم احسنت خلقی، فحسّن خلقی (۴)
اے اﷲ جیسے تونے میری صورت اچھی بنائی ہے، اسی طرح میرے اخلاق بھی بہترین بنادے۔
یقیناًآپ ﷺنے اپنے اس عمل کے ذریعے ہمیں یہ تلقین فرمائی کہ صرف ظاہر کا انسان ہی سب کچھ نہیں ہے، باطنی خوبیاں بھی برابر کی اہمیت رکھتی ہیں، اور انسانیت کی صحیح معنی میں تکمیل اسی وقت ہوگی، جب صورت اور سیرت دونوں انسانیت کے معیار پر پورا اتریں، اوردونوں خوبیاں کمال کو پہنچی ہوئی ہوں۔
رسول اﷲ ﷺکے اسوۂ حسنہ کا مطالعہ کیجئے تو حسن خلق آپ کی ہر اہم صفت کے ساتھ ساتھ نظر آئے گا، مثال کے طور پر سخاوت کے ذیل میں آپ ﷺکے کئی ایک واقعات کتب حدیث میں ملتے ہیں، ان میں کئی واقعات ایسے ہیں جب سائل نے سوال کرتے ہوئے درشتی کا مظاہرہ کیا مگر آپ ﷺنے اس کی سختی کے جواب میں کسی قسم کی سختی نہیں دکھائی، بلکہ ایسے انداز میں اسے مطمئن کیا کہ وہ آپ ﷺکے اخلاق کریمانہ کا گرویدہ ہوگیا۔
آپ ﷺنے کردار وگفتار سے جو پیغام ہم تک پہنچایا، وہ یہی تھا کہ حسن خلق بندۂ مؤمن کے لئے ایک لازمی صفت ہے، جس کا کوئی بدل نہیں اور دوسری کوئی صفت اس کی جگہ نہیں لے سکتی، نہ اس کی نیابت کرسکتی ہے، اس لئے اسے ہر صورت میں حاصل کرنا ہوگا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺسے حاضری کی اجازت چاہی، آپ ﷺنے فرمایا کہ یہ شخص اپنے قبیلے کا بہت برا آدمی ہے، پھر آپ ﷺنے اسے حاضری کی اجازت دے دی اور اس کے اندر آنے پر اس کے ساتھ نہایت نرمی سے باتیں کیں، جب وہ شخص چلا گیا تو میں نے نبی کریم ﷺے دریافت کیا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلے تو اس کے بارے میں یہ کچھ ارشاد فرمایا تھا، مگر پھر آپ نے اس سے اس قدر نرمی کے ساتھ بات چیت کی، یہ کیا بات ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا :
یا عائشہ ان من شر الناس من ترکہ الناس او ودعہ الناس اتقاء فحشہ (۵)
اے عائشہ! لوگوں میں سے بدترشخص وہ ہے، جسے لوگ اُس کی بدکلامی کی وجہ سے چھوڑ دیں۔
اس واقعے سے ہمیں کئی سبق ملتے ہیں، مثلاً ایک تو یہی کہ بدکلامی ایسی نا پسندیدہ اور مکروہ صفت ہے، جسے خصوصاً ایک بندۂ مؤمن کو کسی صورت میں بھی اختیار کرنے کی اجازت نہیں۔ دوسرے یہ کہ انسان کو ایسے لوگوں کے ساتھ بھی نرم گفتاری کا مظاہرہ کرنا چاہئے جن کو وہ بہ وجوہ پسند نہیں کرتا، یا جن سے اسے شکایت ہے۔
انسانی زندگی میں بہت سے مواقع ایسے آتے ہیں، جب انسان کو ایسے لوگوں سے ملنا پڑتا ہے، جن کو وہ پسند نہیں کرتا، یا جن سے وہ ملنا نہیں چاہتا، ایسے مواقع پر مختلف افراد مختلف طرح کے رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ بعض تو یکسر کتراتے ہوئے نکل جاتے ہیں، یا کوشش کرتے ہیں کہ ملاقات نہ ہو۔ بعض ایسے موقع پر اپنے دلی جذبات کا بھرپور طریقے سے اظہار کرتے ہیں اور سامنے والے شخص کے احساسات اور جذبات کا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ جبکہ ایسے کسی موقع پر غالباً صحیح طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ فریق ثانی کے بارے میں اپنے خیالات پر قائم رہتے ہوئے، اس کے بھی احساسات اور جذبات کا احترام رکھا جائے، ورنہ کم از کم اس قدر خیال ضرور رکھا جائے کہ وہ آپ کے بارے میں کوئی بُرا تاثر لے کر نہ اٹھے، خصوصاً بدکلامی کی بالکل گنجائش نہیں ملتی، اگر اپنی بات کہنا ناگزیر بھی ہو، تب بھی ایسے جملوں کا انتخاب کیا جائے، جو بات تو پوری طرح پہنچادیں، مگر اس کے منفی اثرات کم سے کم ہوں۔
یہ اسی صورت میں ممکن ہے، جب ہمیں اپنے جذبات پر پوری طرح اختیار حاصل ہو اور ہمیں معلوم ہو کہ کس مرحلے پر ہمارا رد عمل کیا ہونا چاہئے؟
اس بات کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ بسا اوقات کسی کی غلط بات پر تنبیہ مقصود ہوتی ہے۔ اس کے لئے اسے کچھ کہنا ضروری ہوتا ہے مگر اس کے لئے بھی شرط یہ ہے کہ ایسا پیرایہ بیان اختیار کیا جائے جو اسے اپنی اصلاح پر آمادہ کرے، نہ کہ الٹا وہ آپ کے رویّے سے شاکی ہو جائے۔
حسن خلق اور خندہ پیشانی ایک مؤمن کی صفت اور ایمان کی علامت ہے، اس کے برخلاف، تصنّع، تکلف بھرا انداز، مصنوعی لب و لہجہ اور چہرے پر خاص قسم کی خشونت اس کی ضد ہے، یہ سب کچھ متانت کا حصہ نہیں ہے، وقار ومتانت بھی ضروری ہے، مگر یہ سرد مہری اور ترشی کے بغیر بھی حاصل ہوسکتی ہے۔بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ خندہ پیشانی اور حسن خلق کا متانت و وقار سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، لیکن خشونت اور تصنّع بھرا انداز حسن خلق کے منافی ضرور ہے اور اسے چہرے اور انداز کی بد کلامی بھی کہا جاسکتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ عمل کی توفیق ارزانی فرمائیں، آمین۔
ٖٓزززز