درس سیرت
اسوۂ حسنہ کا حقیقی امتیاز
ڈاکٹر سید عزیز الرحمن
نبی کریم ﷺکے اسوۂ حسنہ اور حیاتِ طیبہ کا ایک ایک جز اپنے اپنے مقام پر اس قدر وسعت، معنوی بلندی، گہرائی و گیرائی اور اس قدر کمال رکھتا ہے کہ وہ بذاتِ خود ایک کل کی مانند نظر آتا ہے، اور اپنی خوبیوں اور برکتوں کے اعتبار سے وہ دیگر بہت سی خوبیوں پر اتنی فوقیت رکھتا ہے کہ آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے ایک ایک جز کے چراغ میں نہ جانے کتنے ہی آفتاب و ماہتاب گم ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ مکمل طور پر عمل کی معنویت سے آراستہ ہے، اور اس کا صحیح معنی میں امتیاز یہی ہے کہ اس میں کسی قسم کا بہام و اشکال و ارد نہیں ہوسکتا۔ آپ ا کی تعلیمات کاغذی پھولوں کی طرح نہیں، جن کی خوشبو تخیل و تصور کی محتاج ہو، نہ وہ کتابی فلسفے کی حیثیت رکھتی ہیں، جن کے ثبوت کے لئے دلائل کی تلاش ضروری ہو،بلکہ وہ معروضی حقائق سے براہِ راست متعلق ہیں۔ یہی سبب ہے کہ کسی بھی پہلو سے کوئی بھی بات شرح و تشریح کی محتاج نہیں، وہ تو اپنی شرح خود آپ ہے۔
مثال کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ غصہ نہ کرو، چنانچہ فرمایا :
لیس الشدید بالصرعۃ، انما الشدید الذی یملک نفسہ عند الغضب (۱)
طاقت ور وہ نہیں جو مد مقابل کو پچھاڑ دے، بلکہ طاقت ور وہ ہے جو غصے کی حالت میں اپنے آپ پر قابو رکھے۔
اب ایک عام شخص کے لیے یہ قول اس وقت تک دلیل نہیں بن سکتا، جب تک اس کے سامنے صاحبِ قول کا اپنا اسوہ نہ ہو، ورنہ اچھی باتوں کی تلقین تو کوئی بھی کرسکتا ہے اور ہمارے معاشرے میں تو دوسروں کو نصیحت کرنا سب سے آسان اور سستا کام ہے، مگر جب اس ہدایت کے سننے کے بعد ہمارے سامنے یہ امر آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کا اپنا عمل خود اس کے بالکل مطابق تھا تو عمل کی راہ ہمارے لئے خود بخود سہل اور آسان ہوجاتی ہے۔ غزوہ احد میں جب آپ ﷺ زخمی ہوگئے، آپ کے دندان مبارک بھی شہید ہوئے، اس وقت صحابۂ کرام ثنے عرض کیا کہ کفار کے لیے آپ ﷺ بددعا فرمائیے، مگر آپ ﷺ نے اس وقت یہی فرمایا کہ میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا، بلکہ مجھے تو ہادی و رحمت بنا کر مبعوث کیا گیا ہے، اور پھر بددعا کی بجائے ان کے لئے دعا فرمائی:
اللہم اہد قومی فانہم لا یعلمون (۲)
اے اللہ! میری قوم کو ہدایت نصیب فرما، کیوں کہ یہ مجھے جانتی نہیں
اسی طرح جب آپ ﷺ نے عفو اور معاف کرنے کی تلقین کی، تو ساتھ ساتھ اپنا اسوہ بھی پیش فرما دیا۔ ورنہ آج کے ترقی یافتہ دور میں جب کہ امن کے نام پر پوری کائنات کو تہس نہس کیا جاسکتا ہو، ایسا کون شخص ہوتا، جو انتقام اور انتقامی کاروائیوں کی مخالفت کرتا؟ مگر ہادی برحق رحمت عالم نے پہلے تو ایک جانب عفو و درگزر کی تلقین کی، اور پھر اپنا عمل بھی نمونۂ عمل بنا کر اقوامِ عالم کے سامنے پیش فرما دیا۔
چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺایک جانب تو اپنی جان کے دشمنوں اور اپنے عزیز ترین ساتھیوں اور قریب ترین رشتہ داروں کے قاتلوں تک کو یہ کہہ کر پروانۂ معافی بخش دیا :
لا تثریب علیکم الیوم، اذہبوا فانتم الطلقاء (۳)
اور پھر فوراً ہی مجمع عام میں یہ اعلان بھی فرما دیا :
الا وان کل دم و مال وما ثرۃ کانت فی الجاہلیۃ تحت قدمی ہذہ الی یوم القیامۃ، وان اول دم یوضع دم ربیعہ بن الحارث بن عبد المطلب(۴)
آگاہ ہو جاؤ کہ بلا شبہ دور جاہلیت کاہر خون اور مال ومنصب سب قیامت تک کے لئے میر ے پاؤں تلے پامال ہے۔ اور پہلا خون جو میں اپنے خونوں میں سے معاف کرتا ہوں، وہ ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کا خون ہے۔اس طرح اب کوئی اس ہدایت کی معروضیت کے بارے میں انگشت نمائی نہیں کرسکتا۔
پھر جب آپ ﷺ نے مالداروں کو یہ ہدایت فرمائی ، فرمایا:
انفقی ولا تحصی، فیحصی اللہ علیک(۵)
مال خرچ کرو اور گن گن کر نہ رکھو، کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر دینے لگے ۔
تو اپنے اس حکم میں معروضیت پیدا کرتے ہوئے اسے اپنے عمل سے آراستہ بھی کر دکھایا، خود کبھی مال سنبھال کر نہیں رکھا۔بلکہ مال کو اللہ کی راہ میں لٹانے کا جذبہ اس قدر وقیع ہوتا تھا کہ کبھی آپ ﷺ نے چند درہم بھی رات بھر اپنے پاس رکھنا گوارانہ کیے، ایک بار صرف دو اشرفیاں پاس بچیں، تو اس کے خیال سے رات بھر نیند نہیں آئی، حضرت عائشہ صدیقہؓ نے عرض کیا کہ یہ تو معمولی بات ہے، صبح خیرات کردیجئے گا، تو فرمایا : کیا خبر صبح تک زندہ بھی رہوں گا یا نہیں۔ (۶)
ایک بار خلافِ معمول آپ ﷺ عصر کی نماز کے بعد فوراً اپنے حجرے میں تشریف لے گئے، اور پھر فوراً ہی واپس تشریف لے آئے، صحابۂ کرام ثکو تعجب ہوا، آپ ﷺنے فرمایا :
ذکرت شیئا من تبرعندنا، فکرہت ان یحبسنی، فامرت بقسمتہ (۷)
مجھے( دوران نماز) خیال آیا کہ گھر میں کچھ سونا پڑا رہ گیا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ رات ہو جائے اور وہ گھر میں پڑا رہ جائے، اس لیے گھر جاکر اسے خیرات کرنے کے لیے کہہ آیا ہوں۔
ایک جانب آپ ﷺ کی سخاوت کا یہ عالم تھا، اور دوسری جانب آپ ﷺ نے ایک اور بات بیان فرمائی، آپ نے فرمایا :
ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جس میں درہم و دینار کے سوا کوئی چیز فائدہ مند نہ ہوگی۔
اس سے صحابہ کرامؓ نے یہ مفہوم اخذ کیا کہ ضرورت کے بقدر مال جمع کرلینا چاہئے، تاکہ ضرورت میں کام آسکے، چنانچہ حضرت مقدام بن معدیکربؓ نے اس سے یہی مفہوم سمجھا(۸)
اس طرح آنحضور ﷺ نے کس خوبی و جامعیت سے معاشرت و معیشت کے یہ مختلف الجہت پہلو جمع فرما دےئے۔سخاوت، اعتدال، مصلحت پسندی و منصوبہ بندی سب ہی کا خلاصہ آپ ﷺنے پیش فرما دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی یہی وہ خوبی ہے، جو اسے ہمہ گیریت عطا کرتی ہے، اور جو علم و عمل میں ہم آہنگ پیدا کرتی ہوئی ذہنوں کو براہِ راست متاثر کرتی ہے، اور قلوب و اذہان میں جاگزیں ہو کر پیغام سیرت پر عمل پیرا ہونے کی تحریک پیدا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیرت طیبہ کی ضیاپاش کرنوں سے استفادہ کرنے کی توفیق ارزائی فرمائے، آمین