ایمان کسی بھی مسلمان سے اسلام کا پہلا مطالبہ ہے۔ پھر ایمان کی شاخیں گنوائی جاسکتی ہیں اایمان میں کمی یا زیادتی کی بحث کی جاسکتی ہے۔ ایمان کی ماہیت اور حقیقت کے بارے میں فلسفیانہ، متکلمانہ، صوفیانہ اور فقہی اسلوب میں گفتگو ہوسکتی ہے۔ لیکن ایمان کا اگر مختصر مفہوم بیان کیا جائے تو صرف اسی قدر کافی ہے کہ اﷲ کو اور اس کے احکامات کو دل اور زبان کے ذریعے قبول کرنا۔ پھر ایمان کے جیسے مدارج ہیں،صفات ہیں، شرائط ہیں اور مقتضیات ہیں،جن کا پورا کرنا ہر اس شخص پر لازم ہے جو ایمان لانے کا دعوے دار ہے۔ اسی طرح اس کی کچھ علامات بھی ہیں اور ان علامات میں سے ایک حسنِ خلق ہے۔ جس کا بیان اس سطور میں مطلوب ہے۔
حسن خلق ایک نیکی ہے۔ ایسی نیکی جس کا دوسرا سرا ایمان کی تکمیل سے جڑا ہوا ہے۔ رسولِ خدا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:
البر حسن الخلق۔ والاثم ما حاک فی صدرک۔ وکرہۃ ان یطلع علیہ الناس
نیکی (بھلائی) حسنِ خلق کا نام ہے۔ اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تمیں یہ بات بری محسوس ہوکہ لوگ اس پر مطلع ہو جائیں۔
یعنی حسنِ خلق خواہ وہ کسی بھی نوعیت کا ہو، نیکی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ بداخلاقی اس کے مقابلے میں ایک تسلیم شدہ برائی کی حیثیت رکھتی ہے۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہاں حسنِ خلق کو بھلائی اور نیکی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اسی طرح دوسری روایت میں فرمایا
المومن غرکریم والفاجر خب لئیم
مومن سادہ اور سخی جبکہ فاجر فریب دینے والا اور بخیل ہوتا ہے۔
دونوں مقامات پر درس یہی دیا جارہا ہے کہ ہر طرح کی اخلاقی کمزوری ایمان کے اور اس کے لوازم ومقتضیات کے منافی ہے اور ہر طبعی خوبی وفطری نیکی ایمان کی علامت ہے۔ اس لئے اخلاقی کمزوریوں کا دورکرنا جس طرح ہمارے لئے معاشرتی تقاضوں کو نبھانے کے لئے ضروری ہے۔ وہیں اپنے ایمان کو بچانے، محفوظ کرنے اور اس کی تکمیل وتزئین کی خاطر بھی ضروری ہے۔
درحقیقت ایمان ایک ایسی قوت ہے جو صفاتِ مذمومہ اور اخلاقِ رذیلہ سے انسان کی حفاظت کرتی ۔اس کے اندر پاکیزہ صفات اور اخلاق حسنہ کو پروان چڑھاتی اور ان کی جانب اس کو راغب کرتی ہے۔ اس بنا پر اﷲتعالیٰ نے جب بھی اپنے بندوں کو کسی بھلائی کی طرف بلایا۔ یا انہیں کسی برائی کے خلاف ابھارا اوراس کی شناعت کو ان کے سامنے واضح کیا تو ان کے ایمان کو ضرور اس مقصد کے لئے واسطہ بنایا۔ اﷲ سے ڈرنے، تقویٰ اختیار کرنے اور صداقت شعارت کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:
ےآٰاَیُّہَا الَّذِےْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِےْنَ
اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
یہاں جن عظیم مقاصد کی جانب لوگوں کو توجہ دلانا مقصود ہے۔ ان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے پہلے فرمایا یاایھاالذین اٰمنو۔ اے ایمان والو! گویا ایمان کے بعد تمہارے لئے یہ بھی لازم ہے کہ ان صفات حسنہ کو اختیار کرو۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے متعدد مقامات پر اس کی وضاحت فرمادی ہے کہ اگر ایمان مستحکم اور طاقت ور ہوگا تو اس سے نہایت مضبوط اور پائیدار اخلاق جنم لے گا۔اور اگر اخلاق میں کمزوری ہے وہ روبہ زوال ہے۔ یا اس میں مومنانہ پختگی کا فقدان ہے تو یہ بجائے خود اس امر کی دلیل ہے کہ اس کا ایمان بھی طاقتور نہیں ہے۔ اس میں بھی کمزور اور کمی موجود ہے۔ جو اس کے اخلاقی پہلو کو متاثر کررہی ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے :
حیا اور ایمان دونوں جڑواں بھائی ہیں۔ جس نے ان میں سے کسی ایک کو چھوڑدیا۔ اس نے دوسروں کو بھی کھودیا ۔
گویا کہ ایمان اور اخلاق(جس کی ایک شاخ حیا کا حدیث میں ذکر فرمایا گیا) دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں۔ نہ اخلاق کی تکمیل ایمان کے بغیر ممکن ہے۔ نہ ایمان اخلاق حسنہ کے بغیر مکمل قرار دیا جاسکتا ہے۔
ایسا اخلاق پاکیزہ کردار۔ جو زندگی کے ہر شعبے میں نظر آئے۔ اسلام کی نظر میں اور تعلیماتِ نبوی علی صاحبہاالصلاۃ والسلام کی روسے ایسی دولت ہے۔ جس کا بدل دوسری کوئی نیکی نہیں۔ اور جوکوئی اس سے محروم ہے۔ وہ نیکیوں کے انبار اور دولت کے خزانے رکھنے کے باوجود بھی حد درجہ مفلس ہے۔ ایسا مفلس جس کی مفلسی کو دور کرنے کی کوئی صورت نہیں ۔
ایک بار آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اﷲ عنہم سے استفسار کیا کہ جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہ رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا کہ مفلس وہ ہے جو درہم ودینار نہ رکھتا ہو۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان المفلس من امتی یاتی یوم القیامۃ بصلاۃ وصیام و زکاۃ۔ ویاتی قد شتم ہذا۔ و قذف ہذا۔ واکل مال ہذا۔ و سفک دم ہذا۔ وضرب ہذا۔ فیعطیٰ ہذا من حسناتہ وہذا من حسناتہ۔ فان فنیت حسناتہ قبل ان یقضیٰ ما علیہ۔ اخذ من حطایاہم فطرحت علیہ۔ ثم طرح فی النار
میری امت میں مفلس وہ شخص ہوگا جو روز قیامت اپنے رب کے سامنے حاضرہوگا۔ اس نے نمازیں پڑھی ہوں گی۔ زکوٰۃ دی ہوگی۔ روزے رکھے ہوں گے۔ لیکن ان کے ساتھ ساتھ کسی کو گالی دی ہوگی۔ کسی پر بہتان لگایا ہوگا۔ کسی کا مال ناحق کھایا ہوگا۔ کسی کا ناحق خون بہایا ہوگا۔ کسی کو مارا پیٹا ہوگا۔ تو اس کی تمام نیکیاں ان مظلوموں کو دے دی جائیں گی۔ جن کاحق اس کے ذمے نکلے گا ۔اور اگر اس کے مظالم ختم ہونے سے پہلے ہی اس کی نیکیاں ختم ہونے سے پہلے ہی اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو ان مظلوموں کے گناہ اس کے کھاتے میں منتقل کردیئے جائیں گے۔ اور پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
أعاذنا اﷲ منہ
اس شخص کی مثال بالکل واضح ہے۔ بعینہ اس تاجر کی طرح جو اپنی ملکیت میں ایک لاکھ روپے تو رکھتا ہے مگر ڈیڑھ لاکھ کی رقم دوسروں کی اس کے ذمے واجب الادا بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں اسے مالدار کس طور کہا جاسکتا ہے؟
یہی صورت آج ہماری بھی ہے ہم میں سے جو دیندار ہیں۔ وہ اگر نماز روزے کی پابندی کرتے ہیں۔مالی امور میں بھی نیکی کے راستوں میں دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ مگر دنیاوی اعتبار سے اپنے سے کم تر افرد سے ان کا رویہ ہمدردانہ یاخیرخواہانہ نہیں، بلکہ تحقیر اور تذلیل کاہے۔ ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا تو کجا ان سے عام انسانی برتاؤ میں بھی اخلاقی اصولوں اور اسلامی تعلیمات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ تو وہ کیسے متقی قرار دیئے جاسکتے ہیں؟
اسی طرح اگر معمول کی عبادات بجالانے والے یا ان کی بجاآوری میں زیادہ تندہی اور سرگرمی کا مظاہرہ کرنے والے اگر معاملات میں کجی دکھاجائیں،امانت ودیانت، ایفائے عہد،وعدے کی پابندی کرنے اور ہر طرح کی بدعنوانی سے بچنے کی بجائے ان میں بری طرح ملوث ہوجائیں۔ نماز کی پابندی کے ساتھ ساتھ رشوت کا بازار بھی گرم رہے۔ روزے تو رمضان کے علاوہ بھی جاری رہیں۔ مگر اجناس میں ملاوٹ بھی عروج پر ہو،زکوٰۃ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ دیگر فلاحی ورفاہی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور سود خوری کا سلسلہ بھی جاری رہے،ہر سال عمرے اور حج کی ادائیگی کا التزام بھی ہو اور ملکی، دفتری اور کاروباری قوانین کو پامال کرکے دولت بھی دونوں ہاتھوں سے سمیٹی جارہی ہو۔ تو یہ اخلاقی کمزوری اور معاملات کی کجی ان عبادات کو بھی کھاجائے گی اور آخرت میں حساب کے روزحدیث کے مطابق ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔ غیر فائدہ مند پشیمانی اور دائمی رسوائی کے سوا۔
اﷲتعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے اور عاقبت بخیر کرے۔ آمین۔
ویسے بھی سوچنے کی بات ہے کہ اﷲتعالیٰ کے ہاں اس ایمان کی کیا قیمت ہوسکتی ہے۔ جس کے ساتھ حسنِ اخلاق کی نعمت و دولت نہ ہو؟ انسان اﷲتعالیٰ سے انتساب بھی رکھے اور کردار کا کچا اور عادات کا کج رو بھی ہو۔ ایسے شخص کو مومن کامل کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟ کجا کہ وہ متقی بھی سمجھا جائے۔ جو اس کے بعد کا مرحلہ ہے۔اس لئے ایک حدیث میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :
اربع من کن فیہ کان منافقاً خالصا۔ً ومن کانت فیہ خصلۃ منہن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعھا۔ اذا اؤتمن خان۔ واذا حدث کذب۔ واذا عاہد غدر۔ واذا خاصم فجر
چار خصلتیں ایسی ہیں جو اگر کسی کے اندر پائی جائیں گی تو وہ مکمل منافق ہوگا۔ اور جس کے اندر ان میں سے کوئی ایک پائی جائے تو وہ منافقت کی ایک خصلت رکھنے والا ہوگا۔ جب تک وہ اسے ترک نہ کردے۔ (وہ چار خصلتیں یہ ہیں) جب اسے کوئی امانت سونپی جائے تو خیانت کرے۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ جب وعدہ کرے تو ایفا نہ کرے اور جب لڑائی جھگڑا کرے تو گالم گلوچ پر اتر آئے۔
یہ حدیث ہمارے لئے بہترین کسوٹی ہے۔ جس پر ہم اپنا احتساب کرسکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ ہم ایمان کے کس مرحلے میں ہیں۔ اور عام اخلاقیات کے اعتبار سے ہم کس مقام پر کھڑے ہیں؟
درس سیرت