اسبال ازار(تہبند ، شلوار ،پاجامہ یاپینٹ کو ٹخنوں سے نیچے رکھنا) کے مسئلے کو ہمارے مذہبی حلقوں میں نہ صرف یہ کہ ایک دینی حکم کے طو ر پر پیش کیاجاتا ہے بلکہ کسی مسلمان کے دین دار ہونے کی علامت کے طو ر پر بھی مانا جاتا ہے ۔ چونکہ اس مسئلے کودین ، دین داری بلکہ حرام و ناجائز کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اسے اس کے بنیادی ماخذ کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے اوروہ بنیادی ماخذ چونکہ احادیث ہی ہیں اس لی ہم اس مسئلے کو احادیث ہی سے حل کر نے کی سعی کرتے ہیں۔
اسبال ازار کے بارے میں بنیادی اور موضوع سے براہ راست احادیث پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مضمون اور اسلوب بیان کے لحاظ سے ان میں کسی قد ر تنوع پایا جاتا ہے ،اس بنا پر ہم انہیں حسب ذیل حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
۱۔ حکم کا اجمالاً بیان
۲۔ حکم کا صراحت سے بیان
۳۔ حکم کی علت کا بیان
۴۔ اشتراک علت کا بیان
۵۔ استثنا کا بیان
حکم کا اجمالاً بیان
اس ضمن میں دو احادیث نقل کی جاتی ہیں۔
۱۔ ‘‘حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تہبند کاجو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو گا وہ (حصہ) جہنم میں ہو گا’’۔(بخاری رقم ۵۳۴۱)
۲۔ ‘‘حضرت ابو ذر ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ تین قسم کے لوگ ہیں جن سے اللہ روز قیامت نہ تو بات کرے گا ، نہ ان کی طرف دیکھے گا ، نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذا ب ہو گا۔ نبی کریم ﷺ نے یہ بات تین بار ارشاد فرمائی۔ حضرت ابوذرؓ ؓ نے کہا وہ تو ناکام و نامراد ہو گئے ۔ یہ کون ہیں اے اللہ کے رسول؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ، ازار کو لٹکانے والا ، احسان جتلانے والا، اورجھوٹی قسم کھا کر مال بیچنے والا۔ ( مسلم رقم ۱۵۴)
ان احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ:
٭ ازار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا جہنم میں ہو گا۔
٭ ایسے آدمی سے اللہ نہ روز قیامت بات کرے گا ، نہ نظر رحمت سے دیکھے گا اور نہ اسے پاک کرے گا۔
٭ دوسری حدیث میں آپ نے تاکید اور مسئلہ کی اہمیت واضح کرنے کے لیے یہ بات تین بار ارشاد فرمائی۔
٭ ازار لٹکانے والا، احسان جتلانے والا، اورجھوٹی قسم کھا کر مال بیچنے والا ، ان تینوں کو آپ ﷺ نے ایک ہی زمرے میں رکھا ہے ۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ ان تینوں جرائم میں مخفی علت ایک ہی ہے اس لیے غالباً آپ نے ان تینوں کو یکجاکر دیا ہے ۔
۲۔ حکم کا صراحت سے بیان
بعض احادیث وہ ہیں جن میں اسبال ازار کے ضمن میں کچھ دیگر تفصیلات بھی پائی جاتی ہیں۔
۱۔ حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں ‘‘ میرا گزر نبی کریمﷺ کے پاس سے ہوا اور میری حالت یہ تھی کہ میر ا تہبند (ٹخنوں سے) نیچے لٹک رہا تھا۔تو آپ ﷺ نے فرمایا اے عبداللہ اپنا تہبند اوپر کر۔میں نے اوپر کر لیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا اورزیادہ کر ۔ میں نے اور زیادہ کر لیا۔اس کے بعد سے میں ہمیشہ ا س کا خیال رکھتا ہوں۔ لوگوں نے پوچھا ، تہبند کہاں تک ہونا چاہیے ؟ تو آپؓ نے فرمایا ، نصف پنڈلی تک۔’’( مسلم رقم ۳۸۹۲)
۲۔ ‘‘حضرت حذیفہؓ روایت کرتے ہیں کہ‘‘ نبی کریمﷺ نے میری پنڈلی کے پٹھے سے یا اپنی پنڈلی کے پٹھے سے پکڑ ا ،اور فرمایا ، یہ تہبند کی جگہ ہے ۔ اگر تو مزید چاہے تو تھوڑا اور نیچے کر لے ، اگر مزید چاہے تو ٹخنوں سے نیچے ہر گز نہیں۔’’ ( ترمذی رقم ۱۷۰۵)
۳۔ ‘‘ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کو فرماتے ہو ئے سنا کہ‘‘ جس نے نماز میں تکبر کی وجہ سے تہبند نیچے لٹکایا اس کا اسلام سے کیاتعلق؟’’ (ابو داؤد رقم ۵۴۲)
۴۔ ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے نماز میں کپڑا لٹکانے سے منع فرمایا ہے (ترمذی رقم ۳۴۵)
۵۔ ‘‘حضرت ابوہریر ہؓ کہتے ہیں کہ ایک آدمی ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکائے نماز پڑھ رہا تھا ۔ رسول کریم ﷺ نے اسے فرمایا جاؤوضوکرو۔وہ گیااس نے وضو کیا ۔ پھر (ٹخنوں سے نیچے تہبند لٹکاتا ہوا) آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا جاؤ وضو کرو۔ وہ دوبارہ گیا ،وضو کیا ۔ پھر ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ کیا وجہ ہے کہ آ پﷺ نے ایک باوضو انسان کو دوبارہ وضو کرنے کا حکم دیا تو آپﷺ نے فرمایا وہ تہبند لٹکائے نماز پڑھ رہا تھا۔ بے شک اللہ تہبند لٹکانے والے کی نماز قبول نہیں کرتا۔’’(ابو داؤد رقم ۵۴۳)
۶۔ ‘‘حضرت ابو سعید خدری ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ‘‘مسلمان کی تہبند نصف پنڈلی تک ہوتی ہے اور اگر پنڈلی سے لے کر ٹخنوں تک ہو تب بھی کوئی حرج نہیں مگرجو ٹخنوں سے بھی نیچے لٹکائے گا تو وہ آگ میں ہو گا۔ جس نے اپنے تہبند کو تکبر کی وجہ سے گھسیٹا اللہ اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں۔’’ (ابو داؤدرقم ۳۵۷۰)
۷۔ ‘‘حضرت عمروؓ بن زرارہ انصاری کہتے ہیں کہ وہ چل رہے تھے اور تہبند ٹخنوں سے نیچے تھا۔ جب نبی کریمﷺ سے ملے توآپﷺ اپنی پیشانی مبارک پکڑ کر فرما رہے تھے ‘ اے اللہ میں تیرا بند ہ ہوں تیرے بندے اور باندی کا بیٹا ہوں۔ آپ ﷺنے فرمایا اے عمرو میں نے کہا ، اے اللہ کے رسولﷺ میں پتلی پنڈلیوں والا آدمی ہوں ۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا اے عمرو بے شک اللہ نے ہر چیز کی تخلیق خوب صورت انداز میں کی ہے ۔ آپﷺ نے اپنی داہنی ہتھیلی کی چار انگلیاں حضرت عمرؓ کے گھٹنے کے نیچے رکھ کر فرمایا اے عمرو یہ تہبند رکھنے کی جگہ ہے ۔ پھر آپؐ نے وہاں سے ہتھیلی مبارک اٹھائی اوران کے دوسرے گھٹنے کے نیچے رکھی اور فرمایا کہ اے عمرو یہ تہبند رکھنے کی جگہ ہے ۔’’(مسند احمد رقم ۱۷۱۱۴)
۸۔ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ امہات المومنین نے آپؐ سے قمیض کے دامن کے بارے میں پوچھا ۔ آپؐ نے فرمایا اسے ( مردوں کی نسبت سے ) ایک بالشت زیادہ کر لو۔ انہوں نے کہا کہ ایک بالشت زیادہ کرنے سے تو پوری ٹانگیں چھپتی نہیں تو آپؐ نے فرمایا کہ ایک ذراع کر لو۔ تو جب بھی ان میں سے کوئی اپنی قمیض بنانا چاہتی تو اسے ایک ذراع لٹکا لیتیں اور اسے دامن بنا لیتیں۔’’( مسند احمد رقم ۵۳۷۹)
۹۔ ‘‘حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے حضر ت فاطمہ یا حضرت ام سلمیٰ کو حکم دیا کہ وہ اپنا دامن ایک ذراع بنائیں ’’( مسنداحمد رقم ۹۰۱۵)
احادیث کے اس حصے سے درج ذیل امور واضح ہوتے ہیں۔
٭ تہبند اصلا ً نصف پنڈلی تک ہونا چاہیے۔
٭ ٹخنوں تک رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
٭ نماز میں کپڑا لٹکانے سے منع فرمایا گیا ہے ( اس حدیث کے ضمن میں بعض علما نے کہا ہے کہ یہ اس لیے منع ہے کہ یہ یہود کی عادت تھی)
٭ نماز میں تکبر کی وجہ سے کپڑا لٹکانے والے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔(یہود کی مشابہت پرغو رکریں تو یہ اسلوب واضح ہوجاتا ہے )
٭ اللہ تہبند لٹکانے والے کی نماز قبول نہیں کرتا بلکہ اسے وضو بھی دوبارہ کرنا چاہیے۔(تکبر کی علت اور یہود کی مشابہت ذہن میں رکھیں تو شناعت واضح ہوجاتی ہے)
٭ جس نے تہبند کو تکبر کی وجہ سے گھسیٹا تو اللہ اس کی طرف رحمت کی نظر نہ کرے گا۔
٭ مسلمان کی تہبند تو نصف پنڈلی تک ہوتی ہے ۔(حضرت ابو سعید خدری کی روایت میں مسلمان کا لفظ قابل غور ہے اسے یہود کی بالمقابل رکھ کر دیکھیں تو بات سمجھ میں آجاتی ہے ۔)
٭ آپ نے باقاعدہ ہاتھ سے واضح فرمایا کہ یہ تہبند کی جگہ ہے ۔
٭ عورتوں کی قمیض کا دامن مردوں کی نسبت سے ایک ذراع لمبا ہونا چاہیے تا کہ پوری ٹانگیں چھپ جائیں۔
۳۔ حکم کی علت کا بیان
علت بیان کرنے والی احادیث درج ذیل ہیں۔
۱۔ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ اس کی طرف (نظر رحمت سے ) دیکھے گا بھی نہیں جس نے تکبر کی وجہ سے کپڑا گھسیٹا۔(یعنی اتنا لٹکایا کہ گھسٹتا چلا گیا) (مسلم رقم ۳۸۸۷)
۲۔ ابن عمر ؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ جو اپنا تہبند نیچے گھسیٹتا ہوا چلاجا رہا تھا ۔ آپؓ نے فرمایاکہ میں نے اپنے ان دونوں کانوں سے نبی کریمﷺ کوکہتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے اپنا تہبند نیچے لٹکایا اور اس لٹکانے سے اس کا ارادہ محض تکبر ہی ہو تو اللہ اس کی طرف روز قیامت دیکھے گا بھی نہیں۔(مسلم رقم ۳۸۹۰)
۳۔ ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا تم سے پہلے لوگوں میں ایک آدمی تھا جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند گھسیٹ کر چلتا تھا وہ اس کی وجہ سے زمین میں دھنسا دیا گیا ، تاقیامت زمین میں دھنستا ہی چلاجائے گا۔ ( مسلم رقم ۳۸۹۵)
۴۔ ھبیب کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کو کہتے ہوئے سنا کہ جس نے اپنے تہبند کو تکبر سے روندا ( گھسیٹا) وہ جہنم میں گھسیٹا جائے گا۔( مسنداحمد ، رقم ۱۷۳۸۳)
درج بالا احادیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اسبال ازار پر جو وعید ہے وہ ا ن لوگوں کے لیے ہے جو تکبر کی وجہ سے کپڑے نیچے لٹکائیں۔
۴۔ اشترا ک علت کا بیان
ازار کے علاوہ بھی کچھ کپڑے ایسے ہیں جو اشتراک علت کی بنا پر اسبال ازار کی وعید کے زمرے میں آتے ہیں۔
۱۔ سالم بن عبداللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اسبال تہبند میں بھی ہے ، قمیص میں بھی اور عمامہ میں بھی ہے۔جس نے ان میں سے کسی کو بھی تکبر سے لٹکایا اللہ روز قیامت اس کی طرف (نظر رحمت سے ) نہ دیکھے گا۔( ابو داؤد ، رقم ۳۵۷۱)
۲۔ ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا جس نے اپنے کپڑے کوتکبر کی بنا پر گھسیٹا (لٹکایا) اللہ اس کی طرف نظر نہ کر ے گا۔ام سلمیٰ نے پوچھا ، اے اللہ کے رسول ، عورتیں اپنی (قمیض کے ) دامن کیسے بنائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ (مردوں کی نسبت سے ) ایک بالشت (زیادہ ) لٹکائیں۔ام سلمیٰ نے پوچھا کہ اگر پھر بھی قدم کھلے رہیں تو آپ ﷺنے فرمایا ایک ذراع کر لیں مگر اس سے زیادہ نہیں۔( نسائی رقم ۵۲۴۱)
۳۔ ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ اسبال تہبند میں بھی ہے قمیض میں بھی اور عمامہ میں بھی۔جس نے ان میں سے کچھ بھی لٹکایا اللہ اس پر روز قیامت (رحمت) کی نظر نہ کرے گا۔ (نسائی رقم ۵۲۳۹)
۴۔ ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے مجھے دیکھا تو مجھ پر ایک نئی اور بڑ ی چمک دار چادر تھی۔ حضور ﷺنے پوچھا یہ کون ہے ؟ میں نے کہا میں عبداللہ ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تو عبداللہ یعنی اللہ کا بند ہ ہے تو اپنی تہبند کو اونچا کر لو۔ ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے اونچا کر لیا ۔ آپؐ نے فرمایااور زیادہ کر لو۔ میں نے پھر اونچا کیا یہاں تک کہ نصف پنڈلی تک پہنچ گیا۔ پھر آپ ﷺ حضرت ابوبکرؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا جس نے اپنا کپڑ ا تکبر کی وجہ سے لٹکایا اللہ اس کی طرف روز قیامت نظر بھی نہ کرے گا۔ ابوبکرؓ نے کہا میرا ازار تو کبھی لٹک جاتا ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا ، تو (یعنی ابوبکر)ان(متکبرین)میں سے نہیں۔ (مسنداحمد ۶۰۵۶)
۵۔ خریمؓ اسدی کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے مجھے کہا کہ اے خریم تو کتنا اچھاآدمی ہے اگر تم میں دو خصلتیں نہ ہوں میں نے پوچھا وہ کون سی اے اللہ کے رسولؐ ؟ آپؐ نے فرمایا تیر ا تہبند کا لٹکانا اور بالوں کو کھلا چھوڑنا۔(مسند احمد رقم ۱۸۱۴۳)
ان احادیث سے درج ذیل نکات معلوم ہوتے ہیں۔
٭ اسبال صرف تہبند کے ساتھ مخصوص نہیں دیگر کپڑوں مثلاً عمامہ ، قمیض وغیر ہ میں بھی ہو سکتا ہے۔ اور اگر وہاں بھی تکبر پیش نظر ہو تو یہی وعید ان کپڑوں کے لیے بھی ہے اسی طرح بالوں کا کھلا چھوڑنا بھی ناپسندیدہ کہا گیا ہے ۔
٭ خواتین کو اپنے دامن لمبے رکھنے چاہییں تا کہ ٹانگوں میں سے کچھ حصہ بھی نمایاں نہ ہو۔
٭ اللہ کے بندے تکبر کی وجہ سے کپڑا نہیں لٹکاتے ۔ کوئی چاہے کہ وہ اللہ کا بند ہ نظر آئے (یعنی عاجزی ظاہر ہو) تو وہ متکبرابہ ہیئت اختیار نہ کرے۔
٭ جس کا ازار تکبر کی وجہ سے نہیں بلکہ ویسے ہی لٹک جاتا ہو وہ متکبر لوگوں میں سے نہیں۔
استثنا کا بیان
سالم، عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا جس نے اپنا کپڑا تکبر کی وجہ سے لٹکایا اللہ اس کی طرف روز قیامت دیکھے گا بھی نہیں۔ ابوبکر ؓنے کہا کہ اے اللہ کے رسولؐ میرے تہبند کا ایک جانب تو لٹک ہی جاتا ہے جب تک کہ میں اسے مضبوط باندھ کر نہ رکھوں۔ حضور ﷺ نے فرمایا تو ان میں سے نہیں جو تکبر سے ایسا کرتے ہیں۔ (مسنداحمد رقم ۵۵۵۳)
اسی طرح کی روایت ابن عمرؓ سے بھی ہے اس میں بھی حضور ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو یہی ارشاد فرمایا۔
مطلب یہ ہوا کہ اس مسئلہ میں استثنا یہی ہے کہ جو تکبر کی وجہ سے ایسا نہ کرے وہ اس وعید میں شامل نہ ہو گا۔
احادیث کے ان تمام حصوں پر بحثیت مجموعی نظر ڈالی جائے تودرج ذیل نکات سامنے آتے ہیں۔
٭ بعض جگہ نبی کریم ﷺ کی بات اجمالی طور پر روایت ہوئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً جو بھی اسبال ازار کرے گا وہ جہنم میں جائے گا۔
٭ یہی بات بعض احادیث میں تفصیل سے آئی ہے تو اس سے کچھ اور چیزیں بھی سامنے آتی ہیں مثلاً یہ کہ نماز میں یہ ہیئت منع ہے ۔ اس ممانعت کی وجہ یہود سے مشابہت اور تکبر کی علت ہے ۔
٭ پھر بعض احادیث میں واضح طور پر اس حکم کی علت بیان ہوئی ہے کہ چونکہ یہ متکبرانہ ہیئت ہے اس لیے منع ہے اور جو تکبر و غرور کی بنا پر ایسا کرے گا اس کے لیے جہنم کی وعید ہے علت بیان کرنے والی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اجمالی حکم کے اند ر جو عموم محسوس ہوتا ہے وہ ان احادیث کے ساتھ خاص ہوجاتا ہے ۔
امام نووی بھی یہی بات فرماتے ہیں
‘‘ ان احادیث کے عموم کو ان احادیث کے ساتھ خاص کر دیا جائے گا جن میں خیلا(تکبر) کا ذکر ہے ۔ یعنی یہ وعید اس شخص کے لیے ہو گی جو از روئے تکبر کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہو۔(شرح نووی)
پھر بعض دیگر کپڑوں مثلاً عمامہ ، قمیض ، چادر وغیرہ میں بھی اگر متکبرانہ ہیئت اختیار کی جائے توانہیں بھی اسبال ازار کی وعید میں شامل کر دیا گیا ہے۔یہ شمول بھی احادیث کے عموم کو علت سے خاص کر نے پر دلالت کرتا ہے۔
اسی طرح حضر ت ابوبکرؓ کا استثنا بھی اس علت کو اور موکد کرتا ہے۔
مسندا حمد ، نسائی ، ابن ماجہ میں بیان کردہ حدیث بھی نفس مسئلہ کو اور علت کو بالکل عیاں کر دیتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اجازت ہے کہ خوب کھاؤ اور پیو دوسروں پر صدقہ کرو اور لباس پہنو، ( جیسا چاہو) بشرطیکہ اسراف اور نیت میں فخر و استکبار نہ ہو۔(مسنداحمد ، سنن نسائی ، ابن ماجہ بحوالہ معارف الحدیث ، ۲۹۸/۶)
امام بخاری نے عبداللہ بن عباسؓ کا یہ قول بھی صحیح میں نقل کیا ہے۔
‘‘جو بھی چاہے کھاؤ اور جو بھی چاہے پہنو (جائز ہے) جب تک دو باتیں نہ ہوں۔ ایک اسراف ،اور دوسرے استکبار و تفاخر’’ (معارف الحدیث ۲۹۸/۶)
قرآن مجید میں اس حکم کی بنیادیں
لباس کے بارے میں عمومی طور پر اور انسان کے متکبرانہ ہیئت اختیار کرنے کے بارے میں خصوصی طور پر ہمیں قرآن مجید میں درج ذیل نظائر ملتے ہیں۔ یبنی آدم قد انزلنا علیکم لباسا یواری سوآتکم وریشا و لباس التقوی ذلک خیر ( الاعراف ۷، ۲۶)
‘‘اے فرزندان آدم ہم نے تم کو پہننے کے لیے کپڑے عطا کیے جس سے تمہاری ستر پوشی ہو او ر تجمل و آرایش کا سامان۔ اور تقوی والا لباس تو سراسر خیراور بھلائی ہے۔’’
اس آیت میں لباس کے نزول کے دو مقصد بیان ہوئے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی زمانے میں اسبال ازار تجمل و آرایش کا باعث ہو نہ کہ متکبرانہ ہیئت کا تو کیا پھر بھی اختیار نہ کیا جائے گا؟ کیونکہ اس صورت میں اسبال ازار نہ کرنے سے قرآن کریم کی اس آیت میں بیان کر دہ لباس کا دوسرا مقصد مجروح ہوتا ہے اور یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ تقوی بہر حال افضل چیز ہے۔دل میں تقوی موجود ہو تو تجمل و آرایش بہر حال موجب نقصان نہیں۔
سورہ اعراف میں ہے۔ یبنی آدم خذوا زینتکم عند کل مسجد و کلوا واشربوا ولا تسرفوا انہ لا یحب المسرفین۔ قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ والطیبت من الرزق (۷، ۳۱۔۳۲)
‘‘ اے اولاد آدم تم مسجد کی ہر حاضر ی کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو۔ بے شک اللہ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔آپ فرمائیے کہ اللہ کے پیدا کیے ہوئے کپڑوں کو جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے ؟’’
اس آیت سے یہ امور واضح ہوتے ہیں۔
۱۔ اللہ کی حلال کردہ اشیا کو کوئی حرام نہیں کر سکتا۔ حلا ل و حرام کا اختیار اسی کو حاصل ہے۔
۲۔ اسراف کی اجازت نہیں ہے۔
لباس کی کسی ہیئت کو ناجائز و حرام قرار دینے کا اختیار اللہ ہی کے پاس ہے ۔اگر کسی زمانے میں کوئی لباس ستر پوشی کے تقاضے پورے کرتا ہے اور اسراف سے بچ کر زیب و زینت کے معیار پر بھی پورا اترتا ہے تو پھر اسے حرام قرار دینا اللہ کی شریعت میں اضافہ ہے۔
متکبرانہ چال اور متکبرانہ ہیئت کے حوالے سے جو شناعت ہمیں احادیث میں ملتی ہے وہی قرآن میں بھی موجود ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ ولا تصعر خدک للناس ولا تمش فی الارض مرحا ان اللہ لایحب کل مختال فخور واقصد فی مشیک ( لقمن ۳۱، ۱۸۔۱۹)
‘‘ اور لوگوں سے اپنا رخ مت پھیرو اورزمین پر اتراکر مت چل بے شک اللہ تعالی کسی تکبر کرنے والے کو فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتے اور اپنی رفتار میں اعتدال اختیار کر۔’’
۲۔ ولا تمش فی الارض مرحاانک لن تخرق الارض ولن تبلغ الجبال طولا(الاسرا ،۱۷۔۳۷
‘‘ اورزمین پر اتراتا ہوا مت چل کیونکہ تو نہ زمین کو پچھاڑ سکتا ہے اور نہ (بدن تان کر ) پہاڑوں کی لمبائی کو پہنچ سکتا ہے۔’’
۳۔ ولا تکونوا کالذین خرجوا من دیارھم بطرا و ریاء الناس (الانفال ۸۔۴۷)
‘‘ اور ان لوگوں کے مشابہ مت ہونا کہ جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کو (اپنی شان) دکھلاتے ہوئے نکلے ۔’’
ان آیات میں تکبر اور متکبرانہ چال اور ہیئت کی واضح طو ر پر شناعت بیان ہوئی ہے اوراللہ کریم نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے ۔تکبر و غرور اور متکبرانہ چال و ہیئت کے بارے میں یہی رویہ احادیث میں موجودہے۔محسوس ہوتا ہے کہ ان احادیث میں انہی آیات کی شرح و وضاحت ہے۔مزید برآں عرب معاشر ے میں ان کے عملی اطلاق کا بیان ہے۔
تکبر کے برعکس عاجزانہ اور عبودیت کے اظہار والی چال کو مثبت انداز سے یوں بیان فرمایا گیا ہے۔ وعبا د الرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا (الفرقان ۲۵۔۶۳)
‘‘ اور اللہ کے (خاص) بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں۔’’
احادیث میں تکبر کی وجہ سے اسبال ازار کرنے والوں کے بارے میں یہ وعید باربار دہرائی گئی ہے کہ اللہ ان کی طرف نظر بھی نہیں کرے گا ، نہ ان سے کلام کر ے گا، نہ انہیں پاک کرے گا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ سزا قرآن میں کن لوگوں کے بارے میں وارد ہوئی ہے۔
ان الذین یشرون بعھداللہ و ایمانھم ثمنا قلیلا اولئک لاخلاق لھم فی الاخرۃ ولا یکلمھم اللہ ولا ینظر الیھم یوم القیمۃ ولا یزکیھم ولھم عذاب الیم۔ (آل عمران ۳،۷۷)
‘‘ یقینا جو لوگ معاوضہ حقیرلے لیتے ہیں بمقابلہ اس عہد کے جو اللہ سے (انہوں نے ) کیا ہے اور (بمقابلہ) اپنی قسم کے ۔ان لوگوں کو کچھ حصہ آخرت میں (وہاں کی نعمت کا ) نہ ملے گا اور نہ خدا ان سے (لطف کا) کلام کرے گااور نہ ان کی طرف (نظر محبت) سے دیکھے گا قیامت کے روز، اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔’’
اس آیت کریمہ پر غور فرمائیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ عین یہی سزا احادیث میں متکبرانہ اسبال ازاروالوں کے لیے بیان ہوئی ہے ۔ آیت کے سیاق و سباق اور خود آیت کے مشمولات پر غورکریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت سے یہود مراد ہیں اور یہود کے یہ جرائم ان کے تکبر ہی کی وجہ سے تھے۔وہ سمجھتے تھے کہ ہم سب سے افضل اور اللہ کی منتخب کر دہ پیاری قوم ہیں۔اس تکبر نے انہیں آیات اللہ اوراپنے ایمان کوثمن قلیل کے عوض بیچنے پر مائل کر دیا۔نبی کریم ﷺ کے زمانے میں یہود کے ظاہری تکبر کی علامات میں سے ایک اہم علامت اسبال ازار بھی تھی۔جیسا کہ علمانے لکھا ہے کہ نماز میں اسبال ازار کی ممانعت یہود سے مشابہت کی بنا پر ہے۔اس سارے پس منظر میں دیکھیں تو اس آیت میں بھی اور احادیث میں بھی مشتر ک علت تکبر ہی ہے ۔ اور پھر آیت کا یہود سے تعلق اس علت کو اور موکد کر دیتا ہے ۔ چنانچہ واضح ہوا کہ احادیث میں بیان کر دہ سزا اسی آیت کی شرح و وضاحت ہے اور معاشرے میں ایک عملی معاملے پر اس کا اطلاق ہے۔
قرآن و حدیث کے مجموعی نظائر پر غور کرنے سے درج ذیل حقائق مستنبط ہوتے ہیں۔
۱۔ تکبر ، متکبرانہ چال، متکبرانہ لباس اورمتکبرانہ ؒہیئت جہاں اورجس شکل میں بھی ہو ممنوع ہے۔اور اس کی سزا یہی ہے کہ قیامت میں اللہ ان سے بات بھی نہ کرے گا۔
۲۔ اسبال ازار تکبر کی علت کی وجہ سے منع فرمایا گیا ہے۔
۳۔ جہاں یہ علت موجود نہ ہو ، وہاں تہبند وغیر ہ کو ٹخنوں سے نیچے رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ اگر اس میں اسراف موجود ہو تو وہ اللہ کے ہاں ناپسند ہے۔
۴۔ ازار کو ٹخنوں سے نیچے رکھنااگر کسی معاشرے میں زیب و زینت کا ذریعہ ہونہ کہ تکبر کا تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
۵۔ ازار، تہبند وغیرہ کو ٹخنوں سے نیچے لٹکاناعرب متکبرین کا امتیاز ی نشان تھا، خاص طور پر یہود کا۔اس لیے اس سے سختی سے منع فرمایا گیا۔
۶۔ اسبال ازار صرف ازار کے ساتھ ہی مخصوص نہیں اگر کسی او رکپڑے مثلاًچادر ، قمیض ، عمامہ رومال وغیر ہ کے اسبال میں تکبر کی علت موجود ہو یااس معاشرے میں وہ خاص قسم تکبر کی علامت سمجھی جاتی ہو تو وہ بھی اس وعید میں داخل ہے ۔
۷۔ اگر کسی معاشرے میں یا زمانے میں لباس میں تکبر کا ذریعہ اسبال کے علاوہ کوئی اور رواج پا جائے اورمتکبرین ایک خاص قسم کالباس اختیار کر لیں اور سوسائٹی میں وہ ہیئت تکبر کے طور پر جانی جانے لگے تو اس زمانے میں وہ لباس بھی اسبال ازار کی وعید کے زمرے میں آئے گا۔
مستنبط نتائج پر اعتراضات
قرآن و حدیث سے ہم نے جو نتائج مستخرج کیے ہیں ان پر چند اعتراض وارد ہوتے ہیں۔
یہ اعتراضات اور ان پر ہمارا تبصرہ درج ذیل ہے ۔
ایک اعتراض یہ ہے کہ صحابہ کرام توتکبر کی وجہ سے کپڑا نیچے نہ لٹکاتے تھے ۔ اس سے ثابت ہوا کہ اصل علت کپڑا لٹکانا ہی ہے نہ کہ تکبر۔
اس اعتراض کے پس منظر میں دو دلائل ہیں۔
۱۔ تمام صحابہ تکبر کے مرض سے پاک تھے۔
۲۔ جب تکبر سے پاک تھے توانہیں پھر بھی حضورحکم دے رہے ہیں تو اس کی وجہ پھر صرف کپڑ ا لٹکانا ہی ہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ تمام صحابہ تکبر جیسے مرض سے پاک تھے اور وہ تکبر کی وجہ سے ایسا نہ کرتے تھے ۔ اسی لیے نبی کریمﷺ شدت سے انہیں روک رہے ہیں کہ کہیں متکبر لوگوں سے ان کی مشابہت نہ ہوجائے ۔ ہمارے اس گمان کی تائید حافط ابن حجر کے اس قول سے بھی ہو جاتی ہے ۔ حافظ ابن حجر حضرت عمر و بن زرارہ انصاری کی حدیث کے ضمن میں تبصر ہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔‘‘اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے حضرت عمر و نے تکبر کے ارادے سے شلوار نہیں لٹکائی تھی پھربھی آپ نے ان کو اس سے روک دیا۔ اس لیے کہ ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے سے تکبر کے وجود کا گمان پایا جاتا ہے ’’ (فتح الباری)
یہ نبی کریمﷺ کی اپنے صحابہ سے محبت کی دلیل ہے کہ انہیں تکبر کی تہمت اور گما ن سے بھی بچانا چاہتے تھے ۔ چونکہ اس معاشرے کے متکبرین خاص طور پر یہود کی یہ خاص علامت اور عادت تھی اورنبی کریمﷺکو مشرکین اور یہود سے اپنے صحابہ کی مشابہت گوارا نہ تھی اس لیے اس کا اہتمام فرماتے تھے نہ کہ اس لیے کہ صحابہ کے اند ر(معاذاللہ) تکبر پایا جاتا تھا۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ یہ حکم عام ہے اس کو تکبر سے منسلک کرنا درست نہیں۔
اس اعتراض کی بنیاد ان دلائل پر ہے۔
۱۔ احادیث کے الفاظ عام ہیں اور سب پر لاگو ہوتے ہیں۔
۲۔ تکبر اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے نہ کہ اصل وجہ
اس اعتراض کی وجہ یہ ہے کہ حکم یا نہی کے الفاظ کو مطلقا ً امر یا نہی کے معنی میں سمجھ لیا گیا ہے ۔ جبکہ امر یا نہی موقع و محل کی نسبت سے مختلف معانی میں استعمال ہوتے ہیں مثلاً اظہار محبت و اپنا ئیت کے لیے ، اظہا رنفرت کے لیے ، تنبیہ کے لیے ، دعا کے لیے، اظہار تمنا کے لیے ،ترجی ، تہدید ، درخواست گزار ی اور ترغیب کے لیے۔
یہاں حالات ، ماحول ، سیاق و سباق سے طے کرنا پڑے گا کہ اس موقع پر امر یا نہی کس مقصد کے لیے آئے ہیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہاں امر ترغیب کے لیے اورنہی مشرکین اور یہود کے متکبرانہ اعمال سے نفرت کے لیے ہے۔ احادیث کے الفاظ کو اگر عام تصور کر لیا جائے تو وہ احادیث جن سے اس عموم کا خصوص ثابت ہوتا ہے یاعلت بیان ہوتی ہے وہ احادیث سوال بن کر رہ جاتی ہیں۔اگر علت والی احادیث کو عمومی احادیث کا خصوص مان لیا جائے تومسئلہ حل ہوجاتا ہے۔اس لیے ہمارے نزدیک عام حکم علت والی احادیث سے خاص ہوجاتا ہے ۔ا ور علت ہی اصل ضابطہ ہے جس پر ان احادیث اور حکم کوپرکھا جائے گا۔
تیسرا اعتراض یہ ہے کہ اسبال ازار نہ کرنے کا مسئلہ تواتر سے ثابت ہے تمام امت اس پر ہمیشہ سے عمل کرتی آئی ہے ۔ اسبال ازار کی اجازت گویا تواتر کے خلاف عمل کرنا ہے۔
تواتر سے منتقل ہونے والا مسئلہ وہ ہوتا ہے جو ہر زمانے اور ہر نسل میں اتنا معروف و مشہور ہو کہ اس بارے میں کبھی بھی دو آرا نہ رہی ہوں۔مثلاً نماز فرض ہے یہ مسئلہ امت میں تواترسے ثابت ہے ۔ اسکے بار ے میں کبھی بھی دو آرا نہیں رہیں۔ یا یہ کہ قرآن وہی قرآن ہے جو نبی کریم ﷺ امت کودے کر گئے تھے ۔ اس بارے میں بھی کبھی دو آرا نہیں رہیں۔مگر اسبا ل ازار کا معاملہ یوں نہیں ہے تکبر کی علامت کے طور پر اسبا ل ازار کا ممنوع ہونا تو بلا شبہ تواتر سے چلا آ رہا ہے مگر جہا ں اسبال ازار تکبر کی علامت نہ ہو وہاں امت میں دونوں آرا اور اختلاف موجود رہا ہے۔اور اس صورت حال میں تواتر والی دلیل کا سہارا لے کر اسے امت کے لیے لازم کرنا محض ایک تکلف ہے ۔ مزید برآں یہ کہ جن مسائل کے بارے میں دین و شریعت اور شارع نے خود توسع اختیار کیا ہو ان مسائل کو محدود مقید کردینا دین کی روح کے خلا ف ہے۔
مولانا منظو ر نعمانیؒ لکھتے ہیں‘‘ نبی کریمﷺ اسی طرح کے کپڑے پہنتے تھے جس طرح اور جس وضع کے کپڑوں کا اس زمانے میں آپ کے علاقے اور آپ کی قوم میں رواج تھا ۔ آپ نے اپنے طرز عمل سے امت کو یہی تعلیم دی ہے کہ لباس کے بارے میں وسعت ہے اور یہ کہ ہر علاقے اور ہرزمانے کے لوگوں کو اجازت ہے کہ وہ شرعی احکام وحدود کوملحوظ رکھتے ہوئے اپنا پسندیدہ لباس استعمال کر سکتے ہیں۔ دراصل لباس ایسی چیز ہے کہ تمد ن کے ارتقا کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔اسی طرح علاقوں کی جغرافیائی خصوصیات اور بعض دوسری چیزیں بھی لباس کی وضع قطع اور نوعیت پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ ساری دنیا کے لوگوں کا لباس یکساں ہو یا کسی قوم یا کسی علاقے کا لباس ہمیشہ ایک ہی رہے ۔اس لیے شریعت نے کسی خاص قسم اورخاص وضع قطع کے لباس کاپابند نہیں کیا ہے ہاں ایسے اصولی احکام دیے ہیں جن کی ہر زمانے میں اور ہر جگہ سہولت سے پابندی کی جاسکتی ہے۔’’ (معارف الحدیث ۲۰۴/۶)
اسبال ازار لباس میں تکبر ہے ، یہ ہر دور کا مسئلہ ہو سکتا تھا مگر اب چونکہ اسبال ازار اس حیثیت سے موجود ہ مسلم معاشرے کا مسئلہ نہیں ہے اس لیے اس حکم کو عام کرنا اور اس میں تواتر ثابت کرنا شارع کی منشا کے خلاف محسوس ہوتا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر اسبال ازار منع نہیں ہے تونبی کریمﷺ نے اسبا ل ازار والے شخص کو دوبارہ وضوکرنے اورنماز پڑھنے کاحکم کیوں دیا ہے ؟چونکہ تکبر اور نماز دونوں مختلف عمل ہیں ۔ اسبال ازار اُس معاشرے میں متکبرانہ ہیئت سمجھی جاتی تھی اس لیے نبی کریمﷺ نے ادب سکھانے کے لیے اس شخص کو یہ حکم دیا۔ علامہ طیبی ؒ لکھتے ہیں۔ ‘‘باوضو انسان کو وضو کرنے کا حکم دینے میں شاید حکمت یہ ہو کہ وہ حکم میں غورو فکر کرے یعنی ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکا کر وہ جس (متکبرانہ فعل ) کا مرتکب ہو رہا ہے اس پر متنبہ ہو جائے ۔’’(شرح طیبی)
ابن العربی لکھتے ہیں۔‘‘نماز تواضع و انکساری کی حالت ہے اور کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا یہ (اس معاشرے میں) تکبرکا فعل ہے یہ دونوں متعارض ہیں نبی کریم ﷺ نے اسے وضو لوٹانے کا حکم دے کر ادب سکھایا ہے۔’’ عارضۃالاخوذی)
چوتھا اعترا ض یہ ہے کہ کسی آدمی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنا کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکائے اور یہ کہے کہ میرا اس میں تکبر کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
جس معاشرے میں کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا تکبر کی علامت کے طور پر ایک معروف بات ہو تووہاں اس شخص کے لیے یہ کہنا واقعی جائز نہیں ہے۔ جب تک کہ وہ کسی اور ذریعہ سے اپنے ارادے کو اس کے برعکس ثابت نہ کردے مگر جس معاشرے میں اسبال ازار کے ساتھ تکبر کا کوئی بھی عنصر وابستہ نہ ہواور معاشرے کے عرف میں بھی ایسی کوئی بات نہ ہو تو وہاں اس شخص کی بات معاشرے کے عرف کے مطابق قبول کی جائے گی۔الاّ یہ کہ مدعی اس کے برعکس ثابت کر دے۔نیت کا حال تو اللہ جانتا ہے مگر یہ امر مسلم ہے کہ متکلم اپنے کلام کی اورعامل کواپنے عمل کی وضاحت و تشریح کا اولین حق حاصل ہوتا ہے اور اس کی بات کو ترجیح دی جائے گی۔
پانچواں اعتراض یہ ہے کہ نہی لفظی اعتبار سے بھی شامل ہے اور کپڑا لٹکانے کی علت یعنی تکبر کو بھی شامل ہے۔
الفاظ و علت دونوں پر عمل بیک وقت اس صورت میں ہو گا جب کہ علت واضح طور پر سامنے نہ ہو اور الفاظ اور علت میں معاملہ بین بین ہو مگر جب متکلم خود ہی علت کو واضح کر دے اور دیگر آثار و قرائن اور اس حکم سے استثنا بھی اس علت کو موکد کر دے تو پھر قاعد ہ کلیہ یہی ہے کہ الفاظ کے عموم کو اس علت سے خاص کر کے علت کے مطابق عمل کیا جائے گا۔شریعت کا منشا چونکہ انسانوں کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے نہ کہ تنگی اس لیے الفاظ و علت کوبیک وقت لازم کر کے انسانوں کو اس مشکل میں ڈالنا شریعت کے منشا کے خلاف ہے البتہ وہاں بہتر یہی ہے کہ الفاظ و علت پر بیک وقت عمل کی کوشش کی جائے جہاں معاملہ واضح نہ ہو یا علت میں واضح اختلاف موجود ہو۔
چھٹا اعترا ض یہ ہے کہ جان بوجھ کر کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا بھی تکبر اور عجب کی علامت ہے
یہاں بات پھر وہی ہے کہ ایک مخصوص ماحول و معاشرت کی اس علامت کو موجود ہ ماحول و معاشرت پر چسپاں کر نے کی کوشش کی جار ہی ہے ۔ حالانکہ موجودہ ماحول و معاشرت میں یہ عجب و افتخار کی علامت نہیں ہے۔ اس معاشرت میں لباس کے ساتھ عجب اورافتخار کے کے کچھ اور پہلو وابستہ ہیں۔ ان کی بنا پر اس معاشرے کے عرف سے واقف کوئی بھی انسان کہہ سکتاہے کہ لباس کے اندر یہ معاملہ اس شخص کے تکبر و افتخار کی علامت ہے نہ کہ اسبال ازار کی ۔ کیونکہ فی زمانہ اسبال ازار کوکوئی بھی تکبر و افتخار کی علامت نہ سمجھتا ہے نہ جانتا ہے۔ کسی ایک ماحول اورمعاشرے کے عرف کو کسی دوسرے معاشرے پر منطبق کر کے نتائج اخد کرنامسلمہ علمی اصولوں کے خلاف ہے۔
ضروری تنبیہ
قرآن و حدیث پر غو رو تدبر کے نتیجے میں ہماری سمجھ کے مطابق جو نتائج مستنبط ہوئے وہ بیان کیے جا چکے ۔ مگر اس کے ساتھ ہی ایک اور پہلو کی طرف توجہ کرنا اشد ضروری ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کی محبت شرط ایمان ہے۔ اس لیے آپ کی محبت بڑھانے والے عوامل بھی اسی نسبت سے دین کی نظر میں مستحسن ٹھیریں گے۔اگرکوئی مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ اسبال سے بچنے میں (اس کی رائے میں ) نبی کریم ﷺ کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے یا آپ کی اتباع میں اسے یک سوئی محسوس ہوتی ہے اور اس کی رائے میں اتباع کا یہ بھی تقاضا ہے کہ نبی کریمﷺ کی عادات و حالات کی ہو بہو نقل کرنے کی سعی کی جائے تو ایسے شخص کے لیے ٹخنوں سے کپڑ انیچے کرنے سے گریز ہی بہتر ہے۔اور ہماری رائے میں بھی جہاں نبی کریمﷺ کے حکم کے الفاظ اور مقصد پر بیک وقت عمل کرنا ممکن ہو تو دونوں کو اکٹھا کرنا ہی دین کی روح اورمزاج کے زیادہ قریب ہے بشرطیکہ ایسا کرنے سے دین کی کوئی اور شرط یا مزاجی کیفیت مجروح نہ ہوتی ہو۔ویسے بھی دین اسلام کامجموعی مزاج و منشا یہ ہے کہ وہ ایک مسلمان کی نبی کریمﷺ کی ذات اقدس سے زیادہ سے زیادہ وابستگی چاہتا ہے چنانچہ اس وابستگی کے لیے اگر کسی کو ایسے آداب و رعایات بھی ممد و معاون محسوس ہوتی ہوں تو اس کے لیے ان کواختیار کرنا ہی بہتر رویہ ہے مگر یاد رہے کہ یہ انفرادی مزاج اور کیفیت کی بات ہے اسے فرد کی سطح تک محدود رہنا چاہیے اس کی ترویج و اشاعت سے چونکہ دین کے مجموعی مزاج میں بگاڑ پیدا ہونے کا خدشہ ہے اس لیے اس کی اجازت نہ دی جائے گی۔مزید برآں یہ کہ جن لوگوں (مثلاً علما) کے ایسے آداب پر عمل کرنے سے عوام میں کسی دینی حکم یا دین کے منشا کے بارے میں غلط فہمی پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے ایسے لوگوں کے لیے ایسے آداب پرعمل نہ کرنااور عوام پر اصل صورت حال واضح کرتے رہناہی بہتر رویہ ہے۔
کسی بھی دینی حکم کے مقا صد اور روح کومتعین کرنے میں انسانی فہم کی حد تک غلطی کاامکان بہر حال موجود رہتا ہے اس لیے اپنے پیش کردہ حل کو حتمی سمجھتے ہوئے اسی پر اصرار کرنا اور ظاہری الفاظ پر عمل کرنے والوں کو استہزا اور مذاق کا نشانہ بنانا اور حقیر جاننا بھی دین کی نظر میں ناپسندیدہ عمل اور ناگوار رویہ ہے۔اللہ کریم کی بارگاہ میں اصل وزن اخلاص کا ہے ۔ یہ عین ممکن ہے الفاظ کے ظاہری مفہوم پر خلوص دل سے عمل کرنے والوں کے اعمال کا وزن میزان اعمال میں ان سے کئی گنا بڑھ جائے جو احکام کے مقاصد و علل تلاش کر رہے تھے اور ساتھ ہی ان کی عقل بہت سے خارجی عوامل سے بھی متاثر تھی۔فیصلہ تو بہر حال نیتوں پر ہونا ہے ۔ حق کی تلاش اور اس پر عمل کرنے میں کسی کی سعی اور تگ وتاز میں کتنا خلوص تھا ، اسے ماپنے کا پیمانہ تو بہر حال الحق او ر الخیر ہی کے پاس ہے ۔