دیوارِ چین دنیا کی سب سے بڑی، سب سے چوڑی اور سب سے قدیم دیوار ہے۔ یہ دیوار اس قدر قدیم ہے کہ چین کے باہر کی دنیا اس دیوار کو کبھی کی بھول چکی تھی۔ اس کا ذکر عجائبات عالم کی خشک کتابوں یا انسائیکلوپیڈیا کی ضخیم جلدوں میں رہ گیا تھا، جن کی ورق گردانی کم ہی لوگ کرتے ہیں۔ اچانک 1950 کے آغاز میں اخباروں میں یہ خبر چھپی:‘‘کمیونسٹ چین کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ دنیا کی قدیم ترین دیوار کو گرا دیا جائے تا کہ اس کے پتھروں سے شہر کی مرمت کی جاسکے اور اس کے مصالحہ سے نئی عمارتیں کھڑی کی جاسکیں۔’’اس خبر نے ایک بار پھر فراموش شدہ اس دیوار کی یاد ذہنوں میں تازہ کر دی۔ اور از سر نو لوگوں کے دلوں میں اس کے کوائف معلوم کرنے کی جستجو پیدا ہوگئی۔ حالانکہ درو دیوار روز گرتے ہیں اور کوئی پوچھتا تک نہیں۔ کہ توڑ پھوڑ دنیا کی رِیت ہے اور شکست و ریخت اس جہان کا معمول ہے۔
دیوار، دیوار میں فرق:
دراصل دیوار دیوار میں فرق ہے۔ بعض دیواروں پر انتہائی بد تمیزی سے دنیا بھر کے اشتہارات پٹے پڑے ہوتے ہیں۔ اور طرح طرح کے پوسٹر چسپاں ہوتے ہیں۔ کچھ دیواریں ایسی ہوتی ہیں جن کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ وہ بھی دیواریں ہیں جن پر اوپر سے نیچے تک گوبر کے اپلے لگے ہوتے ہیں۔ اور ہر رہگزر کے سامنے ایک نہایت کریہہ منظر پیش کرتے ہیں۔ اور ایسی بھی دیواریں ہیں جن کی جھاڑ پونچھ اور صفائی کے لیے ہر دم مستقل عملہ مصروفِ کاررہتا ہے۔
دنیا میں ایسی عمارتیں بھی ہیں، جو ٹوٹ پھوٹ کر کھنڈرات میں تبدیل ہوچکی ہیں۔لیکن ان کے تاریخی پس منظرکے سبب ان کی دیکھ بھال کے لیے ‘‘آثارِ قدیمہ’’ کا مستقل محکمہ اور اس کا سٹاف شب و روز مصروف رہتا ہے۔ دیوارِ چین بھی انہی آثارِ قدیمہ میں سے ہے۔
اسے کئی وجوہات سے دنیا کے عجائبات میں شمار کیا جاتا ہے۔ اول تو یہ کہ دیوارِ چین دنیا کے اندر قدیم ترین دیوار ہے۔ پھر اس کا طول سے زیادہ ، اس کی وُسعت بھی تمام دیواروں سے زیادہ ہے۔ مزید برآں دیوارِ چین پائداری اور پختگی میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اس کی تعمیر میں لاکھوں انسانوں نے حصہ لیا اور خون پسینہ ایک کر کے، دن رات لگا کر ، پانچ سال کی طویل مدت میں اسے مکمل کیا۔ اس دیوار نے کئی فتنوں کے سیلاب روکے۔ اور کئی تاریخی فتنوں کو اپنی آغوش میں جنم دیا۔
محلِ وقوع:
دیوارِ چین تاتار اور خُتا کی سرحد پر تعمیر کی گئی تھی۔ لیکن آج دنیا کے نقشے پر نہ خُتا موجود ہے۔ نہ تاتار کے نام سے کوئی خطہ باقی ہے۔ دنیا کی جدید جغرافیائی حد بندیوں کے اعتبار سے موجودہ اشتراکی چین کے شمال میں آٹھ سو فرسخ یعنی تقریباً پندرہ سو میل تک دیوارِ چین کا سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ اس کا ایک سرا مغربی وسطِ ایشیا کے صحراؤں میں تھا، تو دوسراسِرا مشرق میں ساحلِ سمندر تک پہنچا ہوا تھا۔
پیکنگ شہر کے نام سے آج ہرشخص واقف ہے۔ یہ شہر اشتراکی چین کا دارالخلافہ اور مرکزی شہر ہے۔ دیوارِ چین پیکنگ سے 36میل دور شمال مغرب میں ہے۔ دیوار کا دوسرا سرا دریائے سنگاری Sungari پر ختم ہوتا ہے۔ چین کے میدانی علاقوں میں یہ وہ مشہور جگہ ہے جو اس ملک کے ان دو اہم دریاؤں کے درمیان واقع ہے۔ جنہیں ‘‘پائی ہو’’ اور ‘‘ہنہو’’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
پیکنگ شہر پر برطانوی اور امریکی اتحادی فوجوں نے چودہ اگست ۱۹۰۰ کو قبضہ کیا تھا۔ کمیونسٹ چینی حکومت نے اس شہر پر ۱۹۴۹ میں قبضہ حاصل کیا۔ پیکنگ کو بجا طور پر تاریخی عمارات، شاہی محلات، گرجوں اور بلند و بالا میناروں کا شہر کہا جاسکتا ہے۔
دیوارِ کا چین کا سالِ تعمیر:
سفید رنگ کی اس عظیم الشان دیوار کی تعمیر چین کے شہنشاہ چنشی ہانگ تی Chihshih hungti کے زمانہ میں ہوئی تھی۔ ‘‘ہفت عجائبات عالم’’ کے مصنف مسڑدینا ناتھ نے اس کا سن تعمیر 240 قبل مسیح لکھا ہے۔ ‘‘گریٹ انسائیکلوپیڈیاآف یونیورسل نالج’’ میں اس کا سالِ تعمیر 215قبل مسیح بیان کیا گیا ہے۔‘‘انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا’’ نے دونوں سے اختلاف کرتے ہوئے اس کی تعمیر کا سال 228 اور 214 قبل مسیح لکھا ہے۔ اور ان دونوں میں سالوں میں تطبیق یوں کی ہے کہ دیوارِ چین کا ایک حصہ 228قبل مسیح میں تعمیر ہوا۔ لیکن تکمیل 214قبل مسیح میں ہوئی۔ مختصر یہ کہ اس حقیقت پر سب متفق ہیں کہ دیوارِ چین کی تعمیر حضرت مسیحؑ سے دوسو یااڑھائی سو سال قبل ہوچکی تھی۔ اس لیے کہ شہنشاہِ چین چِن شی ہانگ تی نے حضرت مسیحؑ سے اڑھائی صد سال قبل کا زمانہ پایا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس نے اس علاقہ کے تمام ممالک پر قبضہ کرنے کے بعد ہی دیوار کی تعمیر وتکمیل کا بیڑا اٹھایا ہوگا۔
مقصدِ تعمیر:
عمارتوں میں در و دیوار بنانے کا رواج اتنا ہی پرانا ہے جس قدر انسانی تہذیب و تمدن قدیم ہے۔ شہروں کی فصیلیں اور قلعوں کی چہار دیواریاں بنانے کا سلسلہ بھی مدت دراز سے چلا آرہا ہے۔ خود ملک چین میں حفاظتی دیواریں اس سے قبل موجود تھیں۔ محققین کی تحقیق تو یہ ہے کہ اہل چین کو دیواروں پر کچھ زیادہ ہی اعتقاد تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں قدیم شہروں کے گرد فصیلیں اور قلعوں کے ارد گرد مضبوط دیواریں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔
دیوارِچین کی حیثیت دوسری تمام دیواروں سے مختلف ہے۔ یہ دیوار نہ تو کسی شہر کی حفاظتی دیوار ہے نہ کسی قلعہ کے حصار کے طور پر بنائی گئی ہے۔ بلکہ اس کی تعمیر خُتا اور تاتار کی سرحد پر تاتاری وحشی قبائل کے حملوں کی روک تھام کے لیے کی گئی تھی۔ یہ منگول تاتاری قبیلے شمال سے ملک خُتا پر اکثر حملہ آور ہوتے رہتے تھے۔ اور ان کا وجود پر امن شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کے لیے ایک مستقل خطرہ بنا ہوا تھا۔ ان کے حملوں سے بچاؤ کے لیے یہ دیوار ایک بہترین فصیل ثابت ہوئی۔
دیوارِ چین حملہ آوروں کو روکتی تھی۔ وہ ہزار سر ٹکراتے تھے۔ مگر اسے عبور نہ کر سکتے تھے۔ اس کے برج پہرہ داروں کی پناہ تھے۔ یہ برج ہر سو فٹ کے بعد دو، دو اور سہ ، سہ منزلہ بنے ہوئے تھے۔ ان پرگولے پھینکنے والی فلاخن نصب تھیں، جو اس زمانہ میں دشمن پر گولہ باری کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ ان کے ذریعہ دشمن پر پتھر پھینکے جاتے تھے اور دیوار کے قریب پہنچنے سے پہلے دور ہی سے پسپا کر دیا جاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے۔ جب ان برجوں کے اندر ایک لاکھ کی تعداد میں فوج رہتی تھی۔ اگرچہ اس بیان میں مبالغہ ضرور معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت سے یکسر خالی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
دیوارِ چین کے بلند و بالا اور وسیع و عریض برجوں کا دوسرا بڑا فائدہ یہ تھا کہ دیوار کے محافظ دستے حملہ آور دشمن کو دور ہی سے دیکھ کر فوراً آگ کے الاؤ روشن کردیتے۔ ملک کے لیے یہ آگ خطرے کے نشان کا کام دیتی تھی۔ لوگ دور و نزدیک سے ملک کی حفاظت کے لیے دوڑے چلے آتے۔ ان حفاظتی مقاصد کے علاوہ برجوں کا ایک بڑا فائدہ دیوار کی مضبوطی کو برقرار رکھنا بھی تھا۔ چونکہ فن تعمیر کے اصولوں کے مطابق ضروری ہے کہ ایک مسلسل دیوار کے درمیان تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر ستون اور برج بنائے جائیں۔
دنیا کے نقشے سے گو ، خُتا اور تاتار جیسے عظیم ملکوں کے نشان مِٹ چکے ہیں لیکن دیوارِ چین کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ جو اہل چین کی دیرینہ عظمت و سطوت کی زندہ یادگار ہے۔ اس ملک کا فن تعمیر اور فن نقاشی قدیم سے ہی مشہور چلا آرہا ہے۔
اہل چین کی صناعی:
فن تعمیرات و نقاشی کے علاوہ اہل چین کی دوسری متعدد مصنوعات بھی بے مثال رہی ہیں۔ مثلاً ان کے بنائے ہوئے مٹی کے برتنوں نے خاص طور پر عالمگیر شہرت حاصل کی۔ ان برتنوں نے ہر جگہ اہل چین کی نفاست طبع، قوت اختراع اور فنی مہارت کی داد حاصل کی۔انہوں نے اس شعبہ میں اس قدر کمال حاصل کیا کہ ہم اپنے ہاتھ سے برتن بنا کر بھی انہیں ‘‘چینی کے برتن’’ کہتے ہیں۔ اور تو اور مٹی کے برتن پر روغن ہوجائے تو وہ چینی کا برتن ہوجاتا ہے۔
دیوار کی اینٹوں کے ردوں کے دوسرا مترادف لفظ ‘‘ چنیہ’’ ہے (ملاحظہ ہو: فارسی کی مشہور لغات برہان اور غیاث اللغات) اسی طرح فارسی زبان میں چونے کے پتھر کے مصالحہ والے مضبوط پلاستر کو ‘‘ایزارِ چینی’’ کہتے ہیں۔ہمارے ادب میں حُسن و جمال کے مجسمے کو بھی ‘‘چینی کی گڑیا’’ کہہ کر خراج تحسین ادا کیا جاتا ہے۔ ابھرے ہوئے نقوش، کھلے سفید رنگ والے بچہ کو دیکھ کر اب بھی بڑی بوڑھی عورتیں اسے پیارے سے ‘‘چینی کی گڑیا’ ’ کہہ کر پکارتی ہیں۔گڑ ، شکر ، قند اور مصری کے علاوہ ہمارے ہاں سب سے مرغوب اور محبوب میٹھی شے ‘‘چینی’’ ہی ہے۔ معلوم نہیں اس کا ملک چین سے کوئی رشتہ ہے یانہیں۔ بہرحال اس کا نام ہر شخص کی زبان پر ہے اور اس کا مزہ ہر شخص کے منہ میں۔ کیا کہنے ‘‘چینی’’ کے۔ہم اپنی زبان میں تعمیر کو ‘‘چننا’’ اور چیزیں سلیقے سے اور ترتیب کے ساتھ رکھنے کو بھی ‘‘چُننا’’ کہتے ہیں۔ ہو نہ ہو یہ مصدر بھی چین سے نکلے ہوں گے۔
دیوارِ چین کا اندازِ تعمیر:
دیوارِ چین کی تعمیر میں اندر مٹی کا مصالحہ اور پتھر استعمال کیا گیا ہے اور بیرونی حصہ میں سفید رنگ کی مضبوط اور صاف ستھری اینٹیں لگائی گئی ہیں۔ اس کا مصالحہ معلوم نہیں کس قسم کے چونے اور پتھر سے تیار کیا گیا تھا کہ 21؍ 22صدیاں گزرنے کے باوجود اس کی مضبوطی میں فرق نہیں آیا۔ دو ہزار سال پرانی سفید رنگ کی یہ دیوار 1937-38 میں بھی جاپان کے شدید جارحانہ حملوں کے مقابل ایک زبردست رکاوٹ بنی۔ اور ایک بہترین فصیل کا کام دیتی رہی۔ اس نے دورِ حاضر کے جدید ترین مشینی آلات اور کوہ شکن توپوں کا بھی مردانہ وار مقابلہ کیا۔
دیوارِ چین کی لمبائی پندرہ سو میل ہے۔ چوڑائی سطح زمین پر چھ سے دس میٹر تک ہے۔ یہ چوڑائی انچوں میں234 سے 390 انچ بنتی ہے۔ یعنی ساڑھے انیس فٹ سے ساڑھے بتیس فٹ۔دیوارِ چین کی بلندی بیس سے پچاس فٹ تک ہے اور اوسط بلندی بائیس فٹ قرار دی گئی ہے۔ چونکہ بالعموم بلندی اسی قدر ہے۔ ایک جگہ دیوار کی اونچائی سطح سمندر سے پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر ہے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس قدر لمبی، چوڑی اور بلند و بالا دیوار دریاؤں کی گہرائیوں اور پہاڑوں کی ناہموار بلندیوں پر کیسے تعمیر کی گئی ہوگی، جبکہ اس زمانہ میں تعمیرات کے موجودہ آلات اور مشینی ساز و سامان موجود نہ تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ پندرہ سو میل لمبی دیوار شہر میں نہیں، شہری آبادی سے قریب نہیں بلکہ جنگلوں اور بیابانوں میں ہے۔ پہاڑوں کی بلندیوں ، غاروں کی پستیوں اور دریاؤں کی گہرائیوں میں ہے۔ دنیا کے قدیم و جدید جغرافیوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دیوارِ چین کے میلوں اِ دھر اُدھر کبھی کوئی آبادی نہیں ہوئی۔ اور اس سے قریب ترین شہر پیکنگ 36میل دور ہے۔
دیوار کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہر سو فٹ کے فاصلہ پر برج بنے ہوئے ہیں۔ عام طور پر ہر برج کی بلندی چالیس فٹ تک ہے۔ بعض برج دو، دو اور تین منزلہ ہیں۔ ان برجوں میں پہرہ دار رہتے تھے۔ باہر سے حملہ ہوتا تو برج پر گولہ پھینکنے والی فلاخن (گوپیے)چڑھا دی جاتیں۔ جن سے بیرونی حملہ آوروں پر گولے پھینکے جاتے اور آتشبازی کی جاتی۔
پندرہ سو میل کی مسافت میں متعدد دریا راستہ میں پڑے ہیں ان دریاؤں پر پُل باندھ کر دیوار کو کھڑا کیا گیا۔ یہ پُل بجائے خود عجائبات عالم میں شمار کیے جاتے ہیں۔ بعض مقامات پر دریاؤں کے اندر پتھروں کے بھرے ہوئے جہاز غرق کیے گئے۔ اور اس طرح دریاؤں کی گہرائیوں کو پُر کر کے دیوار تعمیر کی گئی۔
دیوار کا رنگ سفید ہے ، پتھر اس طرح جوڑے گئے ہیں کہ دور سے دیوار بالکل ایک قدرتی سلسلۂ کوہ معلوم ہوتی ہے۔ دورسے دیکھنے والوں کو اکثر مقامات پر یہ شبہ پڑتا ہے کہ بس یہاں دیوار ختم ہوگئی ہے۔ لیکن جب وہ آگے بڑھ کر اس پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو شرمندگی منہ چڑاتی ہے۔ یہ اہل چین کی مہارت اور چابک دستی کا شاہکار ہے کہ انہوں نے اس قدر وسیع و عریض اور طول ، طویل دیوار میں بھی اپنی نفاست کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ دیوار کو ایسا رنگ دیا ، اور پتھروں کو یوں جوڑا کہ دیکھنے والے کو ایک قدرتی پہاڑ معلوم ہو۔
دیوارِ چین کا استحکام:
حضرت مسیحؑ سے سو یا دوسو سال قبل دیوارِ چین تعمیر ہوئی تھی۔ اس طرح اکیس بائیس صدیاں اس پر گزر گئی ہیں لیکن انقلاباتِ زمانہ اسے صفحہ ہستی سے معدوم نہیں کر سکے ۔ یہ صورتِ حال اس کی مضبوطی اور استحکام کی کھلی دلیل ہے۔اس پر بارہا حملے ہوئے، کتنی ہی بار گولہ باری ہوئی ۔ حملہ آوروں نے اس سے سر ٹکرائے۔ سیلابوں کے تھپیڑے آئے، زلزلوں کے جھٹکے آئے۔ کہتے ہیں کہ سمندر میں ہرسال پندرہ بیس طوفان سر اٹھاتے ہیں۔ ان طوفانوں میں ہر سال درجنوں جہاز غرقاب ہوجاتے ہیں۔ لیکن سمندرکے یہ خوفناک طوفان بھی صدیوں سے اس دیوار کو جنبش نہ دے سکے۔غالباً انہی وجوہات کے پیش نظر توہم پرست لوگوں کا یہ عقیدہ بن گیا کہ دیوارِ چین انسانی کوششوں کا نتیجہ نہیں بلکہ دیوتاؤں کی تعمیر کردہ ہے۔ دوسری طرف آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے اس دیوار کو ‘‘ہفت عجائبات عالم’’ Seven Wonders of the Worldمیں شمار کیا ہے۔ بعض سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ‘‘انسان کی بنائی ہوئی ارضی اشیا میں سے صرف دیوارِ چین ہے جسے چاند سے دیکھا جاسکتا ہے۔’’
حق تو یہ ہے کہ جب تک کوئی قوم اس قدر بلند ہمت ، مستقل مزاج اور عزم صمیم کی مالک نہ ہو، نہ وہ کوئی کارنامہ سر انجام دے سکتی ہے نہ کشمکشِ حیات میں اسے زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔
19مارچ 1983ء کو یہ خبر اخبارات کی زینت بنی:‘‘حکومت چین نے دیوارِ چین کے ساتھ ساتھ سات ہزار کلومیٹر طویل درختوں کی دیوار بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ‘‘دیوارِ سبز’’ صحرائے گوبی کی وسعت کو روکنے کے لیے بنائے جائے گی۔ درختوں کی یہ طویل دیوارِ سبز ملک چین کے بارہ صوبوں سے گزرے گی۔ یہ چین میں شجر کاری اور چمن بندی کے پروگرام کا ایک حصہ ہے۔چین کے چھوٹے بڑے سب درخت لگانے کے پروگرام میں مصروف ہیں۔’’