قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اسلام بطور نصب العین کے کوئی حکومت قائم کرنا نہیں چاہتا ۔ اسلام کا مقصد ایک ایسا صالح معاشرہ قائم کرنا ہے جس میں حکومت و سیاست کا دباؤ کم سے کم ہو بلکہ حکومت کا وجود معاشرے میں اس طرح تحلیل ہوجائے کہ ہر فرد صرف اپنے اخلاقی تقاضے سے اپنی رضاکارانہ خوشدلی کے ساتھ فرائض معاشرہ ادا کرتا رہے اور اطاعتِ الٰہی میں اس کے اور خدا کے درمیان کوئی واسطہ نہ سیاسی ہو نہ روحانی یعنی نہ ملوکیت ہو نہ پیشوائیت۔
قرآن پاک میں کوئی ایسی آیت نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہو کہ اسلام کوئی خاص طرز حکومت قائم کرناچاہتا ہے۔ کسی پیغمبر کی زبان سے کوئی ایسا جملہ نہیں گزرا کہ ‘‘میں ایک عمدہ نظامِ حکومت قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ یا مجھے خدا نے اِسی مقصد کے لیے بھیجا ہے۔’’مکے کے تیرہ سال کی نبوی زندگی کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے ہے لیکن ایک موقع بھی ایسا نظر نہیں آتا جہاں حضورِ اکرمﷺ نے یہ فرمایا ہو کہ میرا مقصد کوئی اعلیٰ اورصالح حکومت قائم کرنا ہے۔حضور کا جو اقتدار مکی زندگی میں نیز مدنی زندگی میں بلکہ وفات کے بعد بھی آج تک قائم ہے اس کے لیے حکومت کا لفظ اتنا ہی گھٹیا اور ذلیل ہے جتنا قرآن مجید کے لیے کتابِ آئین کا لفظ۔
پیغمبرﷺ اور اقتدار کے فرق کا موازنہ
حکومت کا اقتدار بے انتہا تنگ ہوتا ہے۔ اس کا دائرہ اثر ظاہر اور جسم کے خول پر ہوتا ہے اور صرف اسی جگہ ہوتا ہے جو اس کے علم میں آجائے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک سیاسی دباؤ سے انسان کی زبان چپ رہتی ہے لیکن اس کا دل گالیاں اور بددعائیں دیتا رہتا ہے۔ اس کے دل میں صاحبِ حکومت کی طرف سے شدید نفرت ہوتی ہے۔ اور دل میں یہ آرزو موجزن ہوتی ہے کہ موقع ملے تو اس کا تختہ الٹ دیا جائے اور شدید قسم کا انتقام لیا جائے۔ لیکن پیغمبر کا اقتدار اہل ایمان کے جسم پر ، روح پر، دل پر ، دماغ پر، جلوت میں، خلوت میں، سوتے میں ، جاگتے میں، حرکت میں، سکون میں، افکار پرگفتار پر، کردار پر غرض ساری زندگی اور زندگی کے تمام گوشوں پر ہوتا ہے۔
حکومت سے اگر پولیس اور فوج وغیرہ کو ایک سیکنڈ کے لیے ہٹایا جائے تو حکومت محض ایک لفظ رہ جاتا ہے جو شرمندۂ معنی نہیں ہوتا ۔ لیکن پیغمبری اقتدار ان تمام چیزوں سے بے نیاز اور بالاتر ہوتا ہے۔ یہاں یہ ہوتا ہے کہ مجرم اپنا جرم چھپاتا اور بھاگتا پھرتا ہے اور وہاں کسی سی آئی ڈی اور پولیس کے بغیر مجرم خود آکر سزا و تطہیر پر اصرار کرتا ہے۔
وہاں اقتدار کا مظاہرہ دولت و امارت، شان و شوکت وغیرہ سے ہوتا ہے اور یہاں درویشی و فقر، سادگی و قناعت کا لافانی اقتدار ہوتا ہے۔ فتح مکہ کے دن ابو سفیان نے دیکھا کہ حضورﷺ وضو فرماتے ہیں تو لوگ غسالۂ وضو اپنے چہروں پر ملنے کو ٹوٹے پڑتے ہیں، یہ محبوبیت و شوکت دیکھ کر ابو سفیان نے حضرت عباس ؓ سے کہا:یا ابا الفضل لقد اصبح ملک بن اخیک عظیما: اے عباسؓ تمہارے برادر زادے کا بادشاہانہ اقتدار تو بڑا زبردست ہے۔عباسؓ نے جواب دیا:لیس علیک ولکھنا النبوۃ: (ارے بیوقوف) یہ بادشاہت نہیں۔ نبوت ہے(رواہ الطبرانی عن میمونہ)
جناب عباس نے ایک ایسی سچی حقیقت بتائی ہے جو ہماری تمام گفتگو کا عطر اور ہمارے سارے دعوے کی جان ہے۔ اس کے بعد کسی تشریح کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ واقعہ یہ ہے کہ محض حکومت خواہ کسی قسم کی ہو اس کی سرحدیں بادشاہت سے زیادہ دور نہیں ہوتیں۔ حکومت خواہ کسی تنہا انسان کی، ملوکیت یا آمریت کی شکل میں ہو یا عوام کے نمائندوں کی، جمہوریہ کی شکل و صورت رکھتی ہو، وہ بہرحال ایک فرد یا چند افراد ہی کی حکومت کا دوسرا نام ہے۔ یعنی ایک طبقہ حاکم اور دوسرا محکوم ہوتا ہے۔ لیکن نبوت کا پیغام اس سے سراسر مختلف ہے۔ نبوت ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتی ہے جس میں نہ کوئی کسی کا محکوم ہو نہ حاکم۔اقبال کا کہنا یہ ہے کہ ہر نظام حکومت میں معاشی نظام یہ ہوتا ہے کہ ایک طبقہ دینے والا اور دوسرا لینے والا، ایک غنی اور دوسرا محتاج ہوتا ہے۔ لیکن الٰہی نظام معاشرہ میں کوئی کسی کا محتاج نہیں ہوتا۔
دنیا کی کوئی حکومت ایسی نہیں جو سیم وزر کی خداوندی پر قائم نہ ہو۔ یہ صرف اسلامی نظام معاشرہ ہے جو سب سے پہلے اسی بت کو پاش پاش کرتا ہے۔ اس کے ٹکڑے اڑانے کے بعد پھر اور کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہ سکتی جو اپنی خداوندی قائم کر کے اولادِ آدم کو حاکم و محکوم کے دو طبقوں میں بانٹ سکے۔
حکومت اور اسلامی نظام معاشرہ میں ایک بڑا فرق یہ بھی ہے کہ وہاں غالب عنصر ہیبت اور دباؤ کا ہوتا ہے اور یہاں محبت ، عقیدت، عظمت، خوش دلانہ طاعت اور رضاکارانہ اتباع کا حسین امتزاج ہوتا ہے جو معاشرے کو ایک سدابہار گلدستہ بنا دیتا ہے۔
وہاں قانون و سیاست کی خشکی کو اولیت حاصل ہوتی ہے اور یہاں ساری بنیاد اخلاقی اقدار پر رکھی جاتی ہے۔
وہاں مذہب کو اقتدار کا بہانہ لیاجاتا ہے اور یہاں اقتدار صرف تقویت ِ دین کے لیے وقف ہوتا ہے۔
وہاں اہل حکومت انسانوں کے آقا ہوتے ہیں اور یہاں امیر کی حیثیت بھی ایک خدمت گزار بھائی سے زیادہ نہیں ہوتی۔
وہاں انسان کا اقتدار ہوتا ہے اور یہاں انسانی اقدار کا اقتدار ہوتا ہے۔
غرض اسلامی نظام معاشرہ اور انسانی حکومت میں آسمان و زمین کا فرق ہے حکومت جیسی کم تر چیز کبھی اسلام کا مقصود نہیں بن سکتی۔ اسی لیے نہ قرآن نے اسے اپنا مقصدبنایا نہ کسی رسول ؑنے۔ کسی پیغمبر نے کوئی اعلیٰ نظامِ حکومت قائم کرنے کی دعوت نہیں دی۔ پیغمبر صرف انفرادی اجتماعی اصلاح حال کی دعوت دیتا ہے۔
حکومت کے معنی ہیں انسانوں کو دو طبقوں‘حاکم و محکوم’ میں منقسم کر دینا اور اس تقسیم کو قائم رکھنے کے لیے اخلاق سے کہیں زیادہ قاہرانہ و جابرانہ دباؤ، سیاسی عیاریوں، ظالمانہ چالبازیوں، ابلیسی سازشوں اور شیطانی فریب کاریوں کو کام میں لانا۔ اس کے نزدیک عدل و انصاف ، انسانیت، اخلاقی اقدار بے معنی الفاظ ہوتے ہیں۔ ان اوصافِ حمیدہ کو اگر حکومت باقی رکھتی ہے تو ان اوصاف کی خاطر نہیں بلکہ صرف اس لیے اور اسی حد تک کہ حکومت کا استحکام قائم رہے۔
یہاں ایک زبردست شبہ یہ پیدا ہوگا کہ عملی اسلام کے بہترین دور: عہد نبوت اور عہد خلفائے راشدین ، میں بہرحال ایک ‘‘اندازِ حکومت’’ موجود تھا۔ پس جب خیر القرون میں حکومت سے مفر نہ ہوسکا تو بعد کے کسی دور کے متعلق یہ توقع کب کی جاسکتی ہے کہ وہ حکومت کی ضرورت سے بے نیاز ہوسکے گا؟
یہ سوال بلا شبہ دل میں کھٹک پیدا کر سکتا ہے لیکن اس سے ہمارے اصل دعوے میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ خیرالقرون میں کسی بات کا پایاجانا اور چیز ہے اور اس بات کا مقصود ہونا اور شے ہے۔ خیر القرون میں کئی ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جو بذاتِ خود مقصود نہیں۔ اس وقت ان باتوں کا پایا جانا یقینا ناگزیر تھا۔ وہ خیرالقرون اس لیے ہے کہ ان حالات میں اس سے بہتر معاشرہ نہ کبھی قائم ہوا اور نہ ہوسکتا ہے۔ اس کے باوجود وہاں کئی چیزیں ایسی موجود تھیں جن کا موجود ہونا ناگزیر تھا لیکن وہ مقصود نہ تھیں۔ ان چیزوں کو اس نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے کہ وہ چیز موجود تھی، ان کو اس نقطہ نظر سے دیکھیے کہ ان کا رخ کس مقصد کی طرف مڑا ہوا تھا۔ آیا وہ چیزیں اس لیے اختیار کی گئی تھیں کہ وہ بذاتِ خود مقصود تھیں یا اس لیے کہ عبوری طور پر انہیں اختیار کرنا ناگزیر تھا اور مقصود کچھ اور تھا؟ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے چند مثالوں پر غور کیجیے ۔
۱۔ قرآن نے کئی جگہ لونڈی غلام کے متعلق احکام دیے ہیں۔ لیکن ان کا مقصد غلامی کی توثیق نہیں بلکہ ایسا نظام معاشرہ تعمیر کرنا ہے جس میں غلامی کی رسم ہی ختم ہوجائے اور تمام انسان یکساں آزادی کی سانس لیں۔
۲۔ قرآن نے محتاجوں اور سائلوں کی اعانت پر بار بار ابھارا ہے لیکن اس کی غرض یہ نہیں کہ دنیا میں ہمیشہ بھیک مانگنے والوں ایک طبقہ موجود رہے تاکہ ان کی امداد کا ثواب لوٹاجایا کرے۔ بلکہ اس سے غرض ایسا معاشی نظام بنانا ہے جس سے محتاجی دور ہوجائے اور کوئی کسی کا دست ِ نگر نہ رہے۔
۳۔ قرآن نے متعدد جرائم کے لیے سزائیں بتائی ہیں لیکن ان کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ دنیا میں ہمیشہ وہ جرم ہوتے رہیں تاکہ سزائیں دے دے کر قرآنی حکم پورا ہوتا رہے بلکہ اسکا اصلی مقصود یہ ہے کہ معاشرے سے جرائم کا خاتمہ ہوجائے اور تعزیر و حدود کا قانون معطل ہوجائے۔
۴۔ قرآن بار بار قتال و جنگ پر ابھارتا ہے لیکن اس کا اصلی مقصد اس کے بالکل برعکس ہے یعنی آخر کار وہ ایسا نظامِ امن قائم کرنا چاہتا ہے کہ جنگ کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے:
۵۔ قرآن نے طلاق کے متعلق بھی احکام دیے ہیں لیکن اس سے مقصود طلاقوں کو رواج دینا نہیں بلکہ اسے ختم کرنا ہے۔
۶۔ قرآن نے وراثت کے بھی احکام دیے ہیں لیکن اس سے مقصد جاگیرداری کی توثیق یا بقا نہیں بلکہ اسے دوسری تیسری پشت میں تدریجاً اس طرح ختم کردینا ہے کہ آخر میں ضرورت بھر رہ جائے۔
ان چند مثالوں سے یہ حقیقت واضح ہوگئی ہوگی کہ قرآن کے بہت سے احکام ایسے ہیں جو اپنے اصلی مقصد کے ہم شکل نہیں بلکہ گویا نقیض ہیں اور علاج بالضد کی طرح ناگزیر علتیں ہیں جو اگرچہ اختیار کرنی پڑتی ہیں لیکن خود مقصود نہیں ہوتیں۔
اس کے بعد یہ بات بھی آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ قرآن نے اگرچہ امیرو مامور کے متعلق بھی احکام دیے ہیں اور خیرالقرون میں بھی نظام امارت موجود تھا لیکن منتہائے مقصود کسی سیاسی و قانونی استبداد کا نظامِ حکومت قائم کرنا نہیں بلکہ وہ اس راہ سے ایک ایسا صالح معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے جس میں نہ کوئی حاکم ہو نہ محکوم ۔ بلکہ ہر شخص اتنی بلندی پر پہنچ جائے کہ کسی روحانی و سیاسی( پیشوائی وحکومتی) واسطے کے بغیر براہ راست طاعت الٰہی کرتا رہے۔
یہ تجر بہ ہرروز ہمارے گھروں میں بھی ہوتا رہتا ہے۔ ہم بچوں پر اپنی حکومت ہی قائم کرتے ہیں۔ بہت سے ایسے کام جن کے فلسفے کو بچہ نہیں سمجھ سکتا ، اسے ڈانٹ کر، دھمکیاں دے کر، دباؤ ڈال کر، کرا لیتے ہیں۔ لیکن یہ جبر واکراہ محض عارضی ، وقتی اور عبوری ہوتا ہے، ہمیشہ قائم رہنے کے لیے نہیں ۔ اسے اس راہ سے ایک ایسے مقام پر لے جانا مقصود ہوتا ہے۔ جہاں اس میں سمجھ آجائے اور وہ اپنے فرائض کسی دباؤ کے بغیر ہی ادا کرنے لگے۔ بالکل یہی شکل معاشرے کی ہوتی ہے۔ معاشرے سے جو کام بھی حکومتی دباؤ ڈال کر لیا جاتا ہے وہ ایک عبوری اور ناگزیر ذریعہ ہوتا ہے۔ اس حکومتی دباؤ کو کوئی دائمی مقصد سمجھ لینا صحیح نہیں۔ اس ناگزیر دباؤ کے ذریعے کاروانِ انسانیت کو ایک ایسی منزل پر لے جانا مقصود ہے جہاں یہ دباؤ ختم ہوجائے۔ بلاشبہ یہ منزل دور ہے۔ بہت دور۔ مگر مقصد اور نصب العین یہی ہونا چاہیے۔پس ایسا مثالی معاشرہ جس میں حکومت کا کوئی وجود نہ رہے وہ بے شک ممکن الحصول نہ ہو لیکن نصب العین وہی رہے گا۔آئیڈیل وہی معاشرہ ہے جو پوری طرح حاصل نہ ہو سکے لیکن نگاہ اسی پر جمی رہے اور ارتقا اسی کی طرف ہوتا رہے۔ اگر ایسا معاشرہ حاصل ہوجائے تو ارتقا وہیں ختم ہوجائے گا اور جو چیز ارتقا کو ختم کر دے وہ نصب العین نہیں بن سکتی۔ زندگی کا بڑا مقصد جنت کا حصول ہے۔ لیکن ایسا قرار وہاں بھی نہیں جو ارتقا کو ختم کرسکے۔ وہاں کی زندگی کے متعلق بھی قرآنی ارشاد یہی ہے کہ :‘‘لھم درجات عند ربھم’’ درجات کا لا متناہی ارتقا وہاں بھی ہے۔ غرض نصب العین قیامِ حکومت نہیں اختتام حکومت ہے۔
یہ صحیح ہے کہ آج تک ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں حکومت کا وجود رہا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ اس کے بغیر کام نہیں چلتا۔ اس کے باوجود ہمارا دعویٰ اپنی جگہ قائم ہے ۔ شر کا وجود بھی ہمیشہ رہا ہے اور انسان کبھی اس سے بے تعلق نہیں رہ سکا بلکہ اس کا وجود اتنا ضروری ہے کہ اگر وہ نہ ہو تو خیر کا عرفان بلکہ وجود بھی ناممکن ہے۔ لیکن بہر حال نصب العین خیر ہی رہے گا۔ وجودِ شر ضروری ہونے کے باوجود کبھی مقصدنہیں بن سکتا۔ دنیا میں کفر بھی ہمیشہ سے قائم ہے اور ہمیشہ رہے گا اور اس کے بغیر اسلام کی شناخت ناممکن ہے۔ اس کے باوجود مقصد اسلام ہی ہوگا۔ اسی طرح حکومت کا وجود بھی ایک شر ہے۔ ناگزیر شر۔ اور ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ لیکن اس کے باوجود یہ مقصد نہیں یہ تو صرف ایک ایسا شر ہے جو کسی بڑے شر کو دور کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔یہ بھی ٹھیک ہے کہ اس کے بغیر کوئی کام نہیں چلتا۔ کام تو روپے کے بغیر بھی نہیں چل سکتا لیکن کون دعویٰ کرسکتا ہے کہ روپیہ کوئی نصب العین یا مقصد ہے۔ روپے سے زکوٰۃ دی جاتی ہے، حج کیا جاتا ہے، مساجد تعمیر کی جاتی ہیں، جہاد کیا جاتا ہے۔ کون سی نیکی ہے جو روپے سے نہیں ہوتی؟ اس کے باوجود روپیہ کوئی مقصد نہیں۔ اور اگر یہی مقصد بن جائے تو اس سے بڑا دنیا میں کوئی شر نہیں۔ قرآن اس کی مذمت سے بھرا پڑا ہے۔
نصب العین متعین ہونے سے انسان کا زاویہ نظر ہی بدل جاتا ہے اور اس سے پوری زندگی اور پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ زندگی اور معاشرے کا سارا نظام زاویہ نگاہ ہی کے بل بوتے پر چلتا ہے۔ اگر انسان جنگ کو مقصد بنا لے تو ہر حیلے بہانے سے جنگ چھیڑا کرے گا اور اگر مقصد جنگ کو ختم کر کے ایسا نظام امن قائم کرنا ہوجس میں جنگ کا نام و نشان ہی مٹ جائے تو اس زاویہ نظر کا لازمی اثر یہ ہوگا کہ :انسان جنگ کو جہاں تک ٹال سکتا ہے ٹالے گا۔صرف وہیں جنگ کرے گا جہاں یہ ہر لحاظ سے ناگزیر ہو۔اتنی ہی جنگ کرے گا جتنی ضروری ہو۔
اس دعوے کی دلیل مشکل ہے کہ حضور اکرمﷺ نے کوئی حکومت قائم فرمائی تھی یا صحابہ کرام نے قیام حکومت کو اسلام کا مقصد سمجھا تھا۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا مقصد ایک اعلیٰ اور صالح معاشرہ قائم کرنا تھا۔ حکومت کا تھوڑا سا عبوری انداز اختیار کیا گیا تھا جو ناگزیر تھا اور چونکہ قیامِ حکومت مقصد نہ تھا اس لیے ان سب کارخ اسی طرف تھا کہ حکومت کو تدریجاً ختم کر دیا جائے اور معاشرے کو ایسے مقام پر لاکھڑا کیا جائے جہاں حکومت بے معنی اور بے ضرورت ہوکر رہ جائے۔
ان کے نظام امارات کو دیکھ کر یہ سمجھنا کہ یہ کوئی حکومت تھی یا یہی ان کا مقصود تھا ایس ہی ہے جیسے ان کی کنیزوں اور غلاموں کو دیکھ کر یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ وہ اس ادارۂ غلامی کو مقصود سمجھ کر باقی رکھنا چاہتے تھے۔ یا ان کی تعزیرات کو دیکھ کر یہ سمجھ لیا جائے کہ وہ جرائم کو جاری رکھنا چاہتے تھے تا کہ قرآنی تعزیرات و حدود کی تکمیل ہوتی رہے۔ خلفائے راشدین کی یہ ساری باتیں عبوری تھیں۔ مجبورانہ وقتی ضرورت کی تکمیل تھی۔ مقصود ان میں سے کوئی بات نہ تھی۔ پس حکومت بھی ایک ایسی ہی چیز ہے جو نہ اسلام کا مقصود ہے نہ ان کا مقصودتھا اسلام درحقیقت ایک نرا صالح نظام معاشرہ چاہتا ہے اور حکومت کو محض ایک عبوری اور وقتی ضرورت کی تکمیل کے لیے کم سے کم استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ بلاشبہ یہ منزل ابھی بہت دور ہے۔ لیکن نصب العینی حقیقت یہی ہے۔ اس منزل کی دوری کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ اہل اسلام نے حصول حکومت کو ایک مقصد بنالیا ہے۔ وہ جب تک اسے مقصد بنائے رہیں گے منزلِ مقصود سے دور تر ہوتے جائیں گے ۔اور جیسا کہ ہم ساری دنیا میں عموماً اور مسلمانوں کے ممالک میں خصوصاً دیکھ رہے ہیں، اقتدار و حکومت کی جنگ اور کرسیوں کی لڑائی ہر روز شدید سے شدید تر اور پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی چلی جائے گی۔ ان کی ساری قوتیں اِسی میں ضائع ہوتی رہیں گے اور معاشرے میں کوئی اصلاح نہ ہوگی۔ حکومتوں کے دباؤں سے کبھی کوئی بہتر معاشرہ نہیں بنا ہے، کبھی اخلاقی قدریں قائم نہیں ہوئی ہیں۔ کبھی روحانی تزکیہ نہیں ہوا ہے۔یہ تمام کام ان لوگوں نے کیے ہیں جو حکومت کو لعنت سمجھتے رہے ہیں۔ حکومت کا اقتدار اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتاکہ چند بدمعاشوں کو وقتی طور علانیہ ظاہر ہونے سے روک دے لیکن اصلاح و تزکیہ کا کام حکومتوں سے کبھی نہیں ہوا۔ مکی زندگی میں جو افراد اسلام کو ملے ویسے افراد سیاسی اقتدار حاصل ہونے کے بعد کہاں میسر ہوئے۔
یہ عجیب بات ہے کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم محض قوم کی خدمت و اصلاح کے لیے حکومت یا وزارت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ بات بڑی معصومانہ ہے لیکن یہ سب درحقیقت ہوسِ اقتدار کا شیطانی جذبہ ہے جو معصومیت کا غلاف اوڑھ کر زبان پر آتا ہے گویا وزارت و حکومت کے بغیر قوم کی کوئی خدمت ہی نہیں ہوسکتی۔ آپ خود سوچیے کہ جس شخص نے اپنے بے اقتداری کے دور میں کبھی کسی پیاسے کو اٹھ کر ایک گلاس پانی نہ پلایا ہو، کبھی کسی غریب کو بازار سے سودا لا کر نہ دیا ہو، کبھی کسی ضعیف کا بوجھ اپنے کاندھوں پر نہ اٹھایا ہواس سے یہ توقع کب ہوسکتی ہے کہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہی ابو بکرؓ اور عمرؓ کی طرح خدمت گذارِ قوم بن جائے گا۔ اگر دنیا کی تاریخ میں اس کی ایک آدھ استثنائی مثال مل سکتی ہے تو ہزار استقرائی نظیریں اس کی ملیں گی کہ بے اقتداری کے اولیا حصول اقتدار کے بعد شیطان بن گئے۔
اولیا اور انبیا میں سب ہی حکومت سے بھاگتے رہے ہیں بلکہ ملتی ہوئی حکومت کو ٹھکراتے رہے ہیں۔ سیدنا موسیٰ ؑ لا ولد فرعون کے واحد متبنیٰ تھے۔ ذرا انتظار فرما لیتے تو فرعون کے بعد تختِ حکومت کے تنہا وارث ہوتے۔ لیکن حکومت ملنے کا انتظار نہ فرمایا بلکہ بنی اسرائیل کو لے کر جنگل جنگل مارے پھرے اور حکومت کے ذریعے ان کی تربیت کرنے کے بجائے غربت میں انہیں تربیت دیتے رہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ یوسف اور سلیمان علیہم السلام کی نظیریں ہمیں ملتی ہیں جن کے ہاتھ خدا نے حکومت کی باگ ڈور دے دی۔ لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حصولِ حکومت ان کا کوئی مقصود بھی تھا۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے مسیحؑ اور یحییٰ علیہ السلام نے بے زوج زندگی بسرکی لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ نبوی طریقہ زندگی میں بے زوج زندگی بسر کرنا بھی داخل ہے۔ نبوت کی آئیڈیل زندگی جس طرح ازدواجی زندگی گزارنا ہے اسی طرح نظامِ حکومت سے دور رہنا بھی ہے۔
نامناسب نہ ہوگا اگر ہم یہاں چند احادیث نبوی بھی نقل کر دیں۔ ان سے اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ حکومت کوئی مقصد نہیں۔ یہ ایک ناگزیر علت ہے جہاں تک ممکن ہو اس سے بچنا ہی مناسب ہے اور اس کی تمنا یا اسے مقصد بنانا غارت گر انسانیت ہے، ملاحظہ ہو:
یا عبدالرحمان لا تسال الامارۃ فانک ان اوتیتھا عن مسالۃ وکلت الیھا وان اعطیتھا من غیر مسالۃ اعنت علیھا
اے عبد الرحمان! کبھی امارت کی طلب نہ کرو کیونکہ اگر تمہیں مانگ کر امارت میں ملی تو نفس کے پھندوں میں آجاؤ گے اور اگر بے طلب مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری امداد ہوگی۔(رواہ الستتہ الامالکاعن عبدالرحمان بن سمرہ)
اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اور اس کے عہدے سے جہاں تک ممکن ہو گریز ہی کرنا چاہیے اور کبھی دل میں اس کی تمنا یا طلب نہ کرنی چاہیے۔ انا واللہ لا نولی ھذا لعمل احدا سالہ اواحدا حرص علیہ۔
ہم کسی ایسے شخص کو اس عہدے پر مامور نہ کریں گے جو اس کی طلب یا تمنا رکھتا ہو۔(رواہ الشیاں و ابو داؤد وانسا ائی)
ظاہر ہے کہ حکومت مطلوب و مقصود بننے کی چیز ہوتی تو اس کی تمنا یا طلب کو مذموم نہ قرار دیا جاتا۔ انکم متحرمون علی الامارۃ وستکون ندامۃ یوم القیمۃ فنعمت المرضعۃ وبئست امغاطمۃ(رواہ البخاری والنسائی عن ابی ھریرہ)
تم لوگوں میں عنقریب امارت کی حرص پیدا ہونے لگے گی۔ لیکن بروزِ حشر سبب ندامت بنے گی یہ دودھ پلاتے وقت تو بڑی اچھی ہوتی ہے لیکن دودھ چھڑاتے وقت بڑی بری ہوتی ہے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ جس چیز کی تمنا حشر میں باعث ندامت و شرمندگی ہو وہ مقصود نہیں ہوسکتی۔ ان النبی ﷺ ضرب علی منکبیہ (یعنی المقدام بن معد یکرب) ثم قال افلحت یا قدیم ان مت ولم تکم امیر اولا کاتبا ولا عریفا۔
آنحضرتﷺ نے مقدام بن معدیکرب کے کاندھوں پر ہاتھ مارتے ہوئے فرمایا کہ اے مقدام!اگر کہیں کے امیر یا منشی یا چودھری بنے بغیر ہی مرجاؤ تو سمجھ لو کہ تم نے فلاح حاصل کر لی۔
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ چھوٹی سی چھوٹی حکومت بھی مقصود نہیں ورنہ اس کے عدم حصول ہونے پر فلاح کی بشارت نہ دی جاتی۔ من سال القضا وکل الیٰ نفسہ ومن جبر علیہ ینزل علیہ ملک یسددہ(رواہ ابو داؤد والترمذی عن انس)
جوشخص عہدہ قضا کو مانگ کر حاصل کرے گا وہ اپنے نفس کے داؤ میں آئے گا اور جسے مجبور کر کے یہ عہدہ سپرد کیا جائے گا اس پر ایک فرشتہ نازل کیا جائے گا جو اسے ٹھیک راہ پر لگاتا رہے گا۔
اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی حکومت یا اس کا عہدہ مقصود بننے کے قابل نہیں ورنہ اس کی طلب و تمنا پر تہدید کیوں ہوتی؟
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ احادیث یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ حکومت چھوٹی ہو یا بڑی مطلوب و مقصود نہیں ہوسکتی۔ یہ صرف ایک مجبورانہ طریقِ کار ہے لہٰذا جہاں تک ممکن ہو اس سے گریز ہی کرنا چاہیے۔ اور اگر یہ چیز خود بخود مجبورانہ حالت میں حاصل ہوجائے تو اس کا اندازہ یہ ہونا چاہیے کہ ناگزیر حالات میں اصلاحِ معاشرہ کا کام لینے کے لیے کوئی خلا پر کر دیا جائے اور پھر بھی زاویہ نظر یہ ہو کہ معاشرے کی اخلاقی قوت کو بلند سے بلند تر کر دیا جائے۔ اور اسی نسبت سے حکومت کا وجود کمزور کیا جاتا رہے تا آنکہ ایک دن حکومت کا وجود ہی ختم کر دیا جائے۔
جاہ و مال کی آرزو ایک شیطانی جذبہ ہے جس کے متعلق حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ : ماذئبان ضاریان فی حضیرۃ یاکلون ویفسل ان یا ضرفیھا من حب الشرف و حب المال فی دین المرء المسم رواہ البزار عن بن عمر۔
دو خونخوار بھیڑیوں کا کسی زخم کوچاٹ چاٹ کر خراب کرنا زخم کے لیے اتنا مضر نہیں جتا مضر ایک مسلمان کے دین کے لیے حب جاہ و مال ہے۔
پس اسلامی نقطہ نظر سے حکومت اور اس کے جاہ و اقتدار کو مقصد بنانا درست نہیں ہوسکتا۔ ہاں ! اگر نا گزیر طور پر اسے اختیار کرنا ہی پڑے تو طبیعت میں اندر سے وہی جذبہ نفرت و حسرت ہونا چاہیے جو اضطرار میں حرام اشیا کے استعمال سے ہونا ضروری ہے اور پھر اس کا استعمال اتنا کم ہونا چاہیے جس سے وہ اضطرار رفع ہوجائے۔
یہ صحیح ہے کہ اقتدار حکومت کے بغیر کام نہیں چلتا۔ لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسے روپے کے بغیر کام نہیں چلتا۔ اپنی اور دوسروں کی ضروریات رفع کرنے کے لیے جتنا روپیہ(جائز طریقے سے) حاصل کیا جائے درست ہے لیکن اگر روپیہ ہی مقصود بن جائے تو اس سے جتنا بڑا دینی نقصان پیدا ہوگا اس کے ذکر سے اسلام کا سارا لٹریچر بھرا پڑا ہے۔ حکومت کولوگ اپنا مقصد قرار دیں تو ایک بات بھی ہے لیکن حکومت کو اسلام کا مقصد قرار دینا تو کسی طرح صحیح نہیں۔
مسلمانوں نے جب اسلام، قرآن ، دین ، اللہ ، رسولؐ وغیرہ کو رسمی واسطہ بنا کر حکومت کو مقصد قرار دے دیا تو رفتہ رفتہ تمام فرعونیت اندر گھس گئی۔ پھر یہ ہوا کہ اسلام تو نکل گیا اور صرف حکومت رہ گئی۔ اس کے بعد دین و مذہب کے نام پر حصول اقتدار کے لیے جو خانہ جنگیاں ہوئیں وہ مسلمانوں کی تاریخ کا بہت ہی افسوس ناک باب ہے۔
حقیقت صرف اتنی ہے کہ دین سے قوت حاصل ہوتی ہے لیکن سمجھا یہ گیا ہے، کہ قوت سے دین حاصل ہوتا ہے۔ جس دین کا مقصد قوت و اقتدار ہو اس کا حشر یہی ہوتا ہے کہ دین کی راہ سے آنے والی قوت اسی دین کو فنا کردیتی ہے۔ لیکن اگر مقصود صرف دین ہو جو اصلاح معاشرہ کا دوسرا نام ہے تو حکومت ثانوی اور ناگزیر علت کی حیثیت سے آجائے جب بھی اور نہ آئے جب بھی دین اپنا کام کرتا رہتا ہے۔ (بشکریہ: سہ ماہی التفسیر، کراچی)