قسط ۔۵
اسیر شدہ دشمن کو آزاد کر کے موسی اپنی دونوں مہ جبین اور دل رباؤں کے ساتھ قلعہ میں آیا اور اس کو اس کی مطلق خبر نہ تھی کہ قتلق خانم ارسلان کے ساتھ بھاگ جانے پر تیار تھی اور اس کے دل میں بے وفائی کے جذبات بھرے ہوئے ہیں بلکہ اسے قتلق پر شہزادی نوشین سے زیادہ بھروسہ تھا۔ اس لیے کہ اس کا پہلا سابقہ اسی سے تھا اور وہ بہ نسبت نوشین کے زیادہ اچھی عربی بولنے لگی تھی۔ تاہم اس موقع پر چونکہ نوشین ہی نے اس کو ارسلان سے ملایا اور ساری سرگزشت بیان کی تھی اس لے وہ اس کا نہایت ہی شکر گزار تھا چنانچہ قلعہ میں پہنچ کے اطمینان سے بیٹھتے ہی اس نے کہا: ‘‘ تمہارا شکریہ ادا کرنا میرے امکان سے باہر ہے اور آج مجھے یقین آیا کہ تم دل سے میری ہمدرد محبوبہ اور میری وفادار مہ جبین معشوقہ ہو۔ تمہارے امکان میں تھا کہ ارسلان کے ساتھ چلی جاتیں اگر تم ایسا ارادہ کرتیں تو کوئی تمہیں روک نہ سکتا تھا مگر تم دل سے میری محبت کی قدر دان تھیں اس لیے اسکے چکر میں نہیں آئیں۔’’
نوشین:‘‘ میں نے تو ارسلان سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ اب تمہارا مجھ پر کوئی حق نہیں رہا ۔ میں جس کے لیے تھی اسی کی ہو گئی اور اس نے جائز طریقے سے مجھے حاصل کیا مگر افسوس انہوں نے کسی طرح نہ مانا بلکہ یہ کہا کہ موسیٰ فقط اپنے گھوڑے کی تیزی کی وجہ سے جیت لے گئے ورنہ سپہ گری وشجاعت میں وہ میرا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ان کے اس زعم باطل کے مٹانے کے لیے مجھے ضرورت محسوس ہوئی کہ دوبارہ مقابلہ کراکے تمہارے حق کو ثابت اور انہیں قائل کر دوں۔’’ موسی :‘‘ تم نے بہت اچھا کیا اور اس کا میں تمہاری وفاداری سے زیادہ شکر گزار ہوں۔’’
موسیٰ ابھی باتیں کر ہی رہا تھا کہ اس کی رومیہ کنیز جلاجل دوڑتی ہوئی آئی اور ادب سے عرض کیا کہ آپ کے تینوں بھائی نوح، سلیمان اور خازم اور آپ کے بھتیجے نضر بن سلیمان اور آپ کے والد کے جانثار دوست ہلال ضبی بہت سے بہادر ہمراہیوں کے ساتھ آئے ہیں۔’’ موسیٰ:‘‘ (خوش ہو کے) یہ لوگ ابھی آئے ہیں یا میرے آنے سے پہلے آچکے تھے؟’’ جلاجل:‘‘ حضور ابھی ابھی آئے ہیں اور اپنا اسباب اونٹوں سے اتار رہے ہیں۔’’ یہ مژدہ سنتے ہی موسیٰ لپک کے باہر آگیا۔ بڑی گرمجوشی کے ساتھ ان لوگوں سے ملا ۔ چھوٹے بھائیو ں اور بھتیجے کو گلے لگایا۔ ان کی پیشانیاں چومیں مگر سب کو چپ چپ اور پریشان خاطر دیکھ کر پوچھا :‘‘ خیریت تو ہے؟ آپ سب مجھے غمگین نظر آتے ہیں۔’’
نوح:‘‘ بے شک ہم حزین و غمگین ہیں اور نہ ہونے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے اس لیے کہ ہمار ے والد غاصب و ظالم اور بے دین وبدعقیدہ دغابازوں اور خاص اپنے بڑھائے ہوئے نمک حرام دوستوں کے ہاتھ سے شہید ہو گئے۔’’ موسیٰ: ‘‘ (چونک کر ایک آہ کے ساتھ) شہید ہو گئے! انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ اب نہ ایسا بہادر ہو گا اور نہ ایسا صادق العقیدہ سردار!’’
اس کے بعد حسرت و اندوہ کے ساتھ اس نے بھائیوں اور دوستوں کو دیوان خانہ میں لا کے بٹھایا۔ ان کے بیچ میں خود بیٹھا اور کہا:‘‘ اب تفصیل سے بیان کیجیے کہ کیا واقعات پیش آئے کہ والد سامحترم اور دین دار بہادر دنیا سے اٹھ گیا؟’’ ہلال ضبی:‘‘ اس مصیبت کا حال مجھ سے سنیے۔ اس لیے کہ سب واقعات میرے سامنے گزرے ہیں۔ جن سے آپ کے بھائیوں کو بھی میں نے ہی مطلع کیا ہے۔
ہوا یہ کہ مروان کے بعد جب اس کا بیٹا عبدالملک دمشق میں مدعی خلافت ہوا تو سارے بنی امیہ کی سرگرمی و مستعدی سے اس کی قوت روز بروز بڑھنے لگی اور عبداللہ بن زبیرؓ کا زور ٹوٹنا شروع ہو گیا۔ زبیر مکہ معظمہ میں بیٹھے فقط دعوی کرتے رہے۔ انہوں نے نہ کوئی مستقل فوج مقرر کی نہ مختلف بلادوامصار کے والیوں کو انعام و اکرام کے وعدے کر کے اپنا طرفدار بنایا ۔بس خیال کیا کہ میں حق پر ہوں اور حق ضرور غالب آئے گا۔ برخلاف اس کے عبدالملک نے تمام ملکوں کے والیوں سے سازشیں شروع کر دیں انہیں بڑے بڑے لالچ دلائے اور چپکے ہی چپکے ہر ملک میں اپنے طرفدار پیدا کر لیے۔ یہ دیکھ کے عبداللہ بن زبیرؓ نے فقط اتنا کیا کہ اپنے بھائی مصعب کو عراق کا والی مقرر کر کے بھیجا۔ وہ عراق کا انتظام کر رہے تھے کہ عبدالملک بن مروان ایک زبردست لشکر کے ساتھ ان پر چڑھ آیا۔ مصعب بھی اپنے بہادروں کو جمع کر کے بڑھے۔ راستہ میں ا یک منزل پر سخت لڑائی ہوئی جس میں مصعب شہید ہوئے اور سارے عراق پر عبدالملک نے قبضہ کر لیا۔ یہ 71 ہجری کا واقعہ ہے اور غالباً آپ سن چکے ہوں گے۔’’موسی:‘‘ ہاں میں نے سنا تھا اور اسی وقت خیال کر لیا تھا کہ عبداللہ بن زبیرؓ کی قوت کا خاتمہ ہو گیا اور خراسان اس قابل نہیں ہے کہ والد اسے چھوڑ کے جائیں اور ان کی مدد کریں۔’’ ھلال:‘‘ اور وہی ہوا۔ جو آپ کا خیال تھا۔ عراق پر قبضہ ہوتے ہی فارس و خراسان اور تمام مشرقی ممالک کا راستہ عبدالملک کے لیے کھل گیا اور اس نے یہاں کے والیوں کو انعام واکرام اور ترقی و سرفرازی کے وعدے کر کے لانا شروع کیا چنانچہ سوادہ ابن اشنم نمیری کو اپنی ایک لمبی چوڑی تحریر دے کر آپ کے والد کے پاس بھیجا۔ اس تحریر میں وعد ہ تھا کہ اگر تم میری بیعت قبول کر کے میری طرفداری اختیار کرو گے تو مسلسل سات سال تک تمہی خراسان کے والی رکھے جاؤ گے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ انعام واکرام سے میں سرفراز کروں گا۔ آپ کے والد مرحوم کو بنی امیہ سے جو دشمنی تھی آپ جانتے ہی ہیں۔ انہیں وہ تحریر پڑھ کے بڑا غصہ آیا اور سوادہ کی صورت سے اس لیے نفرت ہو گئی کہ اس نے بدمعاش اور نااہل غاصب خلافت کی طرفداری کیوں اختیار کی۔ اس سے کہا:‘‘ اگر مجھے بنی سلیم اور بنی عامرہ میں بدنام ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا توتم میرے ہاتھ سے جیتے جی بچ کے نہ جاتے لیکن اتنی سزا ضرور دوں گا کہ یہ تحریر جو تم لائے ہو اس کو میرے سامنے بیٹھ کے نگلو۔ چمڑے پر وہ تحریر نگلنا آسان نہ تھا مگر سوادہ نے جان کے خوف سے انگلیوں سے ٹھیل ٹھیل کے نگلی اور یہ پیام لے کے واپس گیا کہ خراسان ایک غاصب باغی کے آگے سر نہیں جھکا سکتا۔ ’’
اس کے بعد دوسری تحریر عبدالملک نے بکیر بن وشاح کے نام بھیجی۔ جس کو آپ ہی کے والد نے اپنی طرف سے مرو کا حاکم مقرر کیا تھا۔ اس سے بھی ولایت خراسان کا وعدہ کیا گیا۔ بکیر دل میں سمجھ گیا کہ اب عبدالملک ہی غالب آنے والا ہے۔ اس لیے فوراً دغابازی اختیار کر کے عبدالملک کا دوست بن گیا اس کی بیعت قبول کر لی۔ عبداللہ بن زبیرؓ کی بیعت اور آپ کے والد کی اطاعت چھوڑ دی اور عام اہل مرو سے عبدالملک کی بیعت لینے لگا۔ مرو والوں کو اس سے کیا سروکار کہ کون خلافت کا مستحق ہے اور کون نہیں۔ فوراً اس کے موافق ہو کر عبدالملک کا دم بھرنے لگے۔ یہ حال عبداللہ بن خازم کو معلوم ہوا تو ڈرے کہ ایسا نہ ہو کہ بکیر اہل مرو کا ایک عظیم لشکر لیکر نیشا پور میں آپہنچے اور نیشا پور کے تمیمی حاکم بخیر بن ورقا کو بھی ملا لے۔ جس کے مقابلہ میں آپ کے والد پڑے ہوئے تھے اور اس سے لڑائی ٹھنی ہوئی تھی۔ اس اندیشہ سے انہوں نے بخیر کو اس کے حال پر چھوڑا اور مرو کی طرف چلے کہ بکیر کو دغابازی کی سزا دیں۔ بخیر نے ان کی روانگی سنی تو اپنا لشکر لے کے وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے چل کھڑا ہوا تاکہ ان کو راستہ ہی میں روک کے مقابلہ کرے۔ مرو پہنچنے کو آٹھ فرسخ باقی تھے کہ بخیر نے انہیں آلیا اور فوراً لڑائی چھڑ گئی ۔ دونوں لشکر ایک دوسرے پر جا پڑے اور ہنگامہ حشر نمودار ہو گیا۔ آپ کے والد کو اس لڑائی میں بڑا طیش تھا اور ابتدا ہی سے وہ جان دینے والوں کی سی لڑائی لڑ رہے تھے ۔ جدھر دشمنوں کو پامردی سے جم کے لڑتے دیکھتے ان پر اکیلے جا پڑتے اور پریشان کر دیتے انہیں اس طرح جان پر کھیل کے حملہ کرتے دیکھ کے ایک موقع پر جبکہ وہ بے شمار اعداد کے نرغہ میں گھرے ہوئے تھے اور دو طرفہ لوگوں کو مار مار کے گرا رہے تھے۔ بحرین ورقا اس کے قوت بازو عمار بن عبدالعزیز اور اس کے غلام وکیع بن عمرو افریقی نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا اور برچھوں سے حربے کرنے لگے۔ پہلے بہت دیر تک وہ اپنے آپ کو بچاتے اور سنبھالتے رہے مگر کب تک؟ کئی نیزے کاری پڑ گئے اور جب اتنا خون نکل گیا کہ طاقت نے جواب دے دیا تو تیورا کے گھوڑے کی پیٹھ سے گرے ساتھ ہی وکیع گھوڑے سے ا چک کے ان کے سینہ پر چڑھ بیٹھا۔ اپنے سینہ پر ایک حبشی غلام کو دیکھ کے انہیں مرتے وقت بھی بڑا طیش آیا منہ میں کف آگیا اور باوجود کمزوری کے سر اٹھا کے اس کے منہ پر تھوک دیا اور کہا:‘‘ کم بخت! خدا تجھ پر لعنت کرے اپنے بھائی کے انتقام میں آل مضر کے زبردست مینڈھے کو ذبح کر رہا ہے۔’’ اب وکیع نے ان کا سینہ چاک کر ڈالا۔ خنجر کو دل میں تیرا دیا اور ان کی روح جسم خاکی کو چھوڑ کے عالم بالا کو سدھاری۔
یہ واقعات سن کر موسیٰ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ دیر تک روتا رہا اور آخر کلیجے پر صبر کی سل رکھ کے بولا:‘‘ خدا رحمت کرے۔ وہ حق پر تھے اور حق ہی پر ان کی شہادت ہوئی۔ وہ بہت اچھے گئے اور پرفتن زمانے کو نہ دیکھیں گے ۔
ھلال:‘‘ جی ہاں! یہ ایسا ہی زمانہ ہے کہ خدا ہم سب کو اٹھا لے تو اچھا ہے ۔ میرے آقا عبداللہ بن خازم کی شہادت سے چھ ہی مہینے پہلے خود عبداللہ بن زبیرؓ مکہ معظمہ کے اندر محصور کر کے اور خاص خانہ کعبہ پر منجنیقوں سے سنگباری کر کے شہید کر دیے گئے۔’’ موسیٰ: ‘‘ (بے تحاشا نقرہ واسقاہ بلند کر کے) آہ! وہ بھی شہید ہو گئے اور خانہ کعبہ کی ایسی بے حرمتی ہوئی اس کا حال میں نے بالکل نہیں سنا۔’’
نوح: (موسی کا بھائی)‘‘ انہوں نے تو ایسی بہادری، بے جگری اور سچائی کے ساتھ جان دی کہ ان کی شہادت اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت اسما ؓ ذات النطاقین کا صبر و استقلال قیامت تک یادگار رہے گا۔ سنتا ہوں کہ جس وقت عبداللہ بن زبیرؓ میدان شہادت میں آنے کے لیے خود زرہ پہن کے اور اسلحہ سے آراستہ ہو کے اپنی والدہ کے سامنے گئے ہیں تو انہوں نے عجیب و غریب ضبط و تحمل سے انہیں رخصت کیا۔ فاسق دشمنوں کی اطاعت سے روکا اور یہ کہہ کے خود زرہ بھی اتروا ڈالی کہ لڑائی میں خدا پر بھروسہ کرو۔ یہ چیزیں موت سے بچاتی نہیں بلکہ موت کی تکلیف کو بڑھاتی ہیں۔ پھر ان کی شہادت کے بعد جب عبدالملک کے سپہ سالار حجاج بن یوسف نے جناب اسماؓ کی خدمت میں جا کے پوچھا کہ میں نے تمہارے بیٹے کے ساتھ کیسا سلوک کیا تو انہوں نے نہایت دلیرانہ پامردی سے جواب دیا۔ تو نے ایسا سلوک کیا کہ اس کی دنیا خراب کی اور اپنی عقبی خراب کی۔’’ موسیٰ:‘‘ اللہ اکبر! یہ ہے سچی بہادری و مردانگی۔’’ ھلال ضبی:‘‘ لیکن یہ بھی تو سن لیجیے کہ اس معاملہ میں آپ کے والد نے کیا کیا۔ عبدالملک نے ان کو تکلیف دینے اور ستانے کے لیے عبداللہ بن زبیرؓ کا سر کٹوا کے ان کے پاس بھیجا تھا کہ لو اپنے امام اور خلیفہ کی زیارت کر لو۔ ایک زبردست مجتہد صحابی اور عامل احادیث نبوی کا سر دیکھ کے وہ بیتاب ہو گئے۔ زار و قطار روئے اور اشک بار آنکھوں کو پونچھ کے مجھ سے کہا:‘‘ اب دنیا رہنے کے قابل نہیں ہے۔’’ بس اسی گھڑی سے ان کا دل پست ہو گیا تھا اور دنیا کی کسی چیز میں مزہ نہ آتا تھا۔ قسم کھائی کہ چاہے کچھ ہو میں ظالم عبدالملک کی بیعت نہ کروں گا۔ پھر ابن زبیرؓ کے سر مبارک کو گلاب میں دھویا۔ خوب صاف کیا۔ خوشبو لگا کے معطر و معنبر کیا اور مدینہ طیبہ میں ا بن زبیرؓ کے اعزہ کے پاس بھیج دیا کہ اسے تعظیم سے جوار رسول اللہﷺ میں دفن کر دیں۔’’ موسیٰ:‘‘ اب والد کے بعد خراسان کی ولات ان کے قاتل بحیر بن ورقا کو ملی ہوگی۔’’ ھلال:‘‘ نہیں یہ بھی نہیں ہوا بحیر کو اس بدعہدی وفسق کا معاوضہ دنیا میں کچھ نہیں ملا۔ مرنے کے بعد فقط جہنم میں ملے گا۔ دنیا میں وہ عجیب طریقے سے محروم القسمت رہ گیا۔ اس نے آپ کے والد کو شہید کرتے ہی مژدہ فتح عبدالملک کو لکھا۔ اس کے قاصد کے روانہ ہونے کے دوسرے دن بکیر بن وشاح کو مرو میں اس واقعہ کی خبر ملی تو فوراً اپنی فوج کے ساتھ میدان قتل گاہ میں آ پہنچا۔ عبداللہ بن خازم کی لاش پر قبضہ کر کے ان کا سر کاٹا اور اسے اپنے ایلچی کے ساتھ عبدالملک کے پاس بھیجنے لگا۔ بحیر نے مزاحمت کی اور کہا یہ میری کار گزاری ہے۔ آپ کو دخل دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ اس پر برافروختہ ہو کے بکیر نے سند ولایت خراسان تمام لوگوں کے سامنے پیش کر دی اور والی خراسان کی حیثیت سے حکم دیا کہ بحیر کو گرفتار کر لیا جائے۔ لوگوں نے فوراً اس کو باندھ کے سامنے کھڑا کر دیا۔ اسے مرو کے قید خانہ میں روانہ کر کے بکیر نے فوراً ابن خازم کا سرنامہ مبارکباد اور اظہار کارگزاری کے ساتھ عبدالملک کے پاس بھیجا۔ دمشق میں جس دن بحیر کا ایلچی پہنچا اس کے دوسرے دن بکیر کا ایلچی عرضداشت اور ابن خازم کا سرلیے ہوئے پہنچا۔ یہ آخری تحریر پا کے عبدالملک سخت متعجب ہوا اور بحیر کے قاصد کو بلا کے کیفیت دریافت کی۔ اس نے ادب سے عرض کیا کہ میں جس وقت چلاہوں اس وقت تو بکیر کا پتہ نہ تھا اور یہ بھی عرض کر سکتا ہوں کہ عبداللہ بن خازم میرے سامنے ہی مارا گیا۔ پھر اس کے بعد میں نہیں جانتا کہ کیا ہوا اور کیا واقعات پیش آئے۔ بہرحال انجام یہ ہوا کہ بحیر کو کچھ نہ ملا اور بکیر خراسان کا والی و حاکم قرار پاگیا۔’’ موسیٰ:‘‘ افسوس میری ساری امیدیں خاک میں مل گئیں۔ میرے دل میں تھی کہ والد کو جب عرب حریفوں سے فراغت ہو گی اس وقت ان کی مدد سے سارے ترکستان اور منگولستان کو فتح کر کے ارض چین تک پہنچ جاؤں گا لیکن قسمت نے معاملہ پلٹ دیا اور اب شاید یہاں بھی مجھے اطمینان سے بیٹھنا دشوار ہوجائے گا۔’’ ھلال:‘‘ اس کی ضرور کوشش کی جائے گی کہ آپ عبدالملک کی بیعت قبول کر لیں اور اگر آپ نے یہ منظور کیا تو پھر خلافت دمشق اور ولایت خراسان سے آپ کوایسی ہی مدد مل سکے گی جیسی کہ آپ اپنے والد مرحوم سے چاہتے تھے۔’’ موسیٰ:‘‘ یہ قیامت تک نہ ہوگا جس شخص نے عبداللہ بن زبیرؓ ایسے جلیل القدر صحابی کو شہید کیا جس کے مکرو فریب سے والد مرحوم نے دنیا چھوڑ دی اس کی اطاعت میں کروں نہ ممکن ہے۔’’ نوح:‘‘ تو پھر سمجھ لیجیے کہ آپ کو کبھی اطمینان نہ نصب ہوگا۔’’ ھلال:‘‘ لیکن مجھے یقین ہے کہ بکیر ولایت خراسان پر پورا قبضہ پانے اور تمام شہروں کے مطیع بنانے میں اتنی فرصت نہ پائے گا کہ آپ کی طرف توجہ کرے اور آپ کے لیے کافی موقع ہے کہ اپنی قوت بڑھالیں۔ اپنے قلعہ کو مضبوط کریں اور بہت سے بہادر اور آزمودہ کارسپہ گران عرب کو اپنے پاس جمع کر لیں اور جب آپ کی قوت بڑھ جائے گی تو پھر آپ کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔’’ موسیٰ:‘‘ میں یہی کروں گا اور انشاء اللہ بہت جلد اس قابل ہو جاؤں گا کہ اپنے والد کے قاتلوں سے ان کے خون کا انتقام لوں ۔ لیکن ایک بڑی دشوار ی ہے۔ بلاد ترک کے بہت سے سردار اور حاکم میرے دشمن ہو رہے ہیں۔ خصوصاً میری محبوبہ نازنین لعبت چین اور میری دوسری معشوقہ قتلق خانم کی وجہ سے ارسلان اور طرخون میرے خون کے پیاسے ہیں ۔ ابھی تک انہیں خوف تھا کہ خلافت اسلامیہ اور ولایت خراسان میری مدد کے لیے تیار ہے اور انہوں نے ذرا بھی مخالفت کی تو عساکر اسلام خراسان سے روانہ ہو کے انہیں پیس ڈالیں گے لیکن اب ان کو جیسے ہی خبر ہو گی کہ والد شہید ہوئے اور مسلمان سلطنت میری دشمن اور میرے درپے آزار ہے تو ان سب کے حوصلے بڑھ جائیں گے۔ خیر دیکھا جائے گا میں کسی سے دبنے والا نہیں ہوں اور ایسے آزاد مقام میں بیٹھا ہوں کہ عبدالملک اور بکیر مجھ سے کسی قسم کا تعرض نہیں کرسکتے۔ میں نے ان کے ملک کا کوئی حصہ نہیں دبایا نہ ان سے بغاوت و سرکشی کی ہے بلکہ اپنے لیے ان کی قلمرو کے باہر نئی جگہ نکال لی ہے جس پر ان کا کوئی حق نہیں ہو سکتا۔ ’’
اب شام ہو گئی تھی ان سب نئے مہمانوں اور عزیز بھائیوں کے رہنے کا بندوبست کر کے وہ اپنے قصر میں جا سویا۔ (جاری ہے)