معمولات زندگی میں توازن مسائل کا حل ہے
ایک خبر ہے کہ انڈیا نے گزشتہ پانچ سالوں میں ستائیس ڈیم تعمیر کیے ہیں مگر ہم ایک بھی تعمیر نہ کر سکے۔ غالباً خبر دہندہ کی نگاہ اس بات پر نہیں پڑی کہ ہم نے اس سے زیادہ بند باندھے ہیں کہ آٹا بند، چینی بند، گیس بند، بجلی بند، دال بند، سڑک بند، مسجد بند، مدرسہ بند، انصاف بند، انصاف دینے والے بند، ڈاکٹر قدیر بند... اگر ہم ڈھونڈنا چاہیں تو گِن نہ سکیں گے ۔ بات کہاں سے کہاں چلی گئی؟
مجھے تو ٹائم کی تبدیلی پر بات کرناتھی۔ میں تو ٹائم کی تبدیلی پر حیران و پریشان ہوں سوچتا ہوں کہ سر کو پیٹوں یا جگر کو روؤں؟
ہمارے ہاں عرصہ دراز سے کرائسز مینجمنٹ رواج پا چکی ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ مسئلہ حل کرنے کے بجائے ایک اور مسئلہ کھڑا کر کے قوم کی توجہ اس جانب مبذول کروا دوتا کہ قوم پہلا مسئلہ بھول جائے۔ شوکت عزیزی پالیسیوں کے طفیل ہم دس دس گھنٹے لوڈ شیڈنگ پر مجبور ہیں۔ یہ لوڈ شیڈنگ ایک منٹ میں ختم ہوسکتی ہے، پاکستانی ملت اس عذاب الیم سے نجات پا سکتی ہے، لیکن اس کے لیے اللہ رب العالمین کی بات ماننا ہوگی۔ کہ : لم تقولون مالا تفعلون(وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔الصف) قوم بجلی کی بچت کرے مگر میں رات کو گھر جاتے ہوئے جب گالف کلب میں دو چار افراد کے لیے سینکڑوں مرکری لائٹس دیکھتا ہوں تو سمجھ نہیں آتی کہ اس گالف کلب کے ارد گرد سینکڑوں دیہات تاریکی کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہوئے ہیں مگر صرف چار پانچ افراد کے لیے ہر طرف چاندنی کی بہارکیوں بچھی ہوئی ہے۔ اللہ اللہ! یہ کون لوگ ہیں جن کے لیے اتنا اہتمام ہوتا ہے اور وہ کون ہیں جن کے بچوں کی چیخیں بجلی نہ ہونے اور مچھروں کی بہتات کے سبب عرش بریں کو ہلا رہی ہوتی ہیں۔ اسلام آباد کو دیکھیں، پوش علاقہ جات کو ملاحظہ کریں، کسی مقتدر صاحب کی کوٹھی، بنگلہ یا اس کاروڈ دیکھیں وہاں لوڈ شیڈنگ کا گزرنہیں ہوتا۔ آج ایوان صدر کی ، وزیر اعظم ہاؤس کی، پارلیمنٹ لاجز کی بجلی لوڈ شیڈنگ کی زد میں آجائے تو یقین مانیں کہ وہ اس کا حل ضرور نکال لیں گے۔ وہ سالوں کی پلاننگ کو دنوں میں مکمل کر کے جہاں سے بجلی ملے گی لے آئیں گے۔
مگر اقتدار ان لوگوں کے پاس ہے جن کو اگر کہا جائے جناب! آلو نہیں ملتے تو کہتے ہیں کہ سیب کھا لو۔ آٹا مہنگا ہونے پر بحث کرتے کرتے مرسڈیز سستی ہوجاتی ہے اور آٹا مزید مہنگا ہوجاتا ہے۔اس کا ایک ہی علاج ہے کہ اگر عوام کے پیٹ پر ایک پتھر بندھا ہو تو صدر اور وزیر اعظم کے پیٹ پر دو دو پتھر ہوں تب مسائل حل ہوں گے۔ مگر یہ کام مفت کے عمرے کرنے اور محض چھلانگیں لگانے سے نہیں ہوگا۔ اس کے لیے سوچ و بچار، پلاننگ اور منصوبوں پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ گھڑیاں آگے پیچھے کرنے سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے بلکہ بے وقوف بادشاہ کی طرح بے وقوف بننے والی بات ہے۔
ہمیں اس ظالم کا سراغ لگانا ہو گا۔ جو ہر دو تین سال بعد ٹائم تبدیل کرانے کے چکر میں قوم کو ڈال کر اپنے مقاصد حل کر لیتا ہوگا۔
آئیے بجلی بچانے، بجلی پیدا کرنے، ڈیم بنانے، بجلی کی پیداوار بڑھانے کی سعی و جدوجہد کریں نہ کہ گھڑی کی سوئیاں آگے پیچھے کرکے دل کو خوش کرتے رہیں۔
قوم کو سچ کو سچ، حق کو حق کہنے ، جھوٹ کو جھوٹ کہنے کی نصیحت کرنا ہوگی ۔ سات بجے کو آٹھ، دس کو گیارہ بجے کہنے پر مجبور کرنے سے قوم میں اخلاقی جرات ختم ہوجائے گی۔ وہ دن کو رات اور رات کو دن کہنے لگے گی۔ ہمیں ہر حال میں دن کو دن ہی کہناچاہیے۔ البتہ دن کی روشنی سے فائدہ اٹھانے کا ایک بہترین طریقہ حی علی الصلوۃ، الصلوۃ خیر من النوم، رات کو جلدی سونا، نماز فجر کے بعد رزق کی تلاش میں نکلنا ہوہے۔
ایک آرڈر کافی ہے کہ کل سے تمام ادارے صبح سات بجے شروع ہوں گے نہ کہ آٹھ کو نو کہہ کر کہا جائے گا کہ تمام ادارے نو بجے شروع ہوں گے۔ ایک آدمی کہہ رہا تھا کہ اب دو دو گھڑیاں رکھنا ہوں گی ایک پاکستانی ٹائم کی اور دوسری گیلانوی ٹائم کی...؟؟
مسجد میں لکھا تھا کہ نماز مسجد کی گھڑی کے مطابق ہوگی، اب کیا کریں ، میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا... اللہ تعالیٰ ہمیں فہم و ادراک والے حکمران عطا فرمائے۔ آمین
(بشکریہ: ہفت روزہ ، ایشیا، لاہور)