کوکب اکبر ،نیر اعظم ﷺ
بدر سراپا نور مجسم ﷺ
خاک بسر ہر مملکت آرا قیصر و کسری زیر کف پا
فخر سلاطیں شاہ دوعالم ﷺ
پرتو عارض گلشن گلشن وادی وادی سایہ دامن
پربت پربت آپ کا پرچم ﷺ
لوح ازل کا نقطہ تاباں خامہ حق کا شوشہ رخشاں
یعنی جمال طالع آدم ﷺ
آدم سے تا حضرت عیسیٰ کس کو ملا محبوب کا د رجہ
کون ہوا اللہ کا محرم ﷺ
قبلہ دین و کعبہ ایماں نقش کف پائے شہ ذیشاں
آج بھی ہے کونین کا سرخمﷺ
ملتی ہے اس سے لذت خاطر پڑھتے رہیں گے تادم آخرﷺ
کیوں نہ لگائے بستر اپنا آپ کے در پر آ کر طرفہ
آپ ہیں آقا رحمت عالم ﷺ
طرفہ قریشی مرحوم
انتخاب ، پروفیسر خضر حیات ناگپوری
طرفہ قریشی۳ مارچ ۱۹۱۳ کو بھارت کے علاقہ ودربھ (سی پی) کے ضلع بھنڈارہ میں پیدا ہوئے ۔ عبدالوحید نام تھا۔ والد کا نام عبدالعزیز قریشی تھا۔ ابتدائی تعلیم ۱۹۲۰ میں وطن میں شروع ہوئی۔ والد نے محنت مزدوری کر کے طرفہ اور ان کے بھائیوں کی تعلیم کے لیے کوشش کی۔ لیکن عمر نے وفا نہ کی اورکم عمری میں ہی طرفہ پر معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ آ پڑاجس کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ اپنے ذاتی ذوق و شوق سے فارسی ، عربی اورہندی سے کما حقہ واقفیت حاصل کی۔ جامعہ اردو علی گڑھ کے اعلیٰ امتحانات میں کامیابی حاصل کرکے اردو زبان و ادب میں خصوصی استطاعت پیدا کی۔ ۱۹۲۷ سے شعر گوئی کا آغاز کیا اور پھر یہ سلسلہ تا عمر جاری رہا۔ ابتدا میں انوارالشعرا ،انور کامٹوی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔ بعدازاں حضرت سیماب اکبر آبادی کی باقاعد ہ شاگردی اختیار کی۔طرفہ قریشی نے ۱۹۴۲ میں بھنڈارہ سے ہجرت کر کے ناگپور میں مستقل طور پرسکونت اختیار کی اوریہیں ان کے شاعرانہ جوہر میں آب و تاب پید اہوئی ۔ بقیہ ساری زندگی ناگپور میں درس و تدریس کے پیشے میں گزاری ۔ ستر کی دہائی میں اس جہان فانی سے رحلت کی۔‘سی پی اینڈ برار’ کا علاقہ جو اب ودربھ کے نام سے معروف ہے ، بقول بابائے اردو مولوی عبدالحق کے اردو زبان و ادب کے لیے ‘بنجر سر زمین’ کی حیثیت رکھتا تھالیکن طرفہ قریشی جیسے محبان اردو نے اپنے خون جگر سے اردو کے پودے کی آبیاری اس طرح کی کہ آج اردو علاقے میں شجر ثمر دار کی طرح پھل پھول رہی ہے ۔ طرفہ نے اپنا پہلا دیوان ‘ پہلی کرن’ ( اشاعت ۱۹۵۲)شائع کرنے کے لیے اپنا مکان فروخت کر دیا تھا۔ ان کے اس طرفہ اقدام نے دنیائے ادب میں زبرد ست ہلچل پیدا کر دی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد کی مسموم فضا میں اردو کے تن خستہ میں ایسے ہی دیوانوں نے نئی روح پھونکی تھی۔طرفہ نے غزل کو اپنی شعر گوئی کا محور قرار دیا لیکن تقریباً ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ۔ ان کے کلام میں جدت آفرینی، فکر عمیق اور گرمی جذبات پائی جاتی ہے۔ حکیم یوسف حسن مدیر ماہنامہ نیرنگ خیال لاہور نے ان کے کلام پر رائے دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ طرفہ کے کلام میں تاثر اورجاذبیت پائی جاتی ہے ، وہ سی پی کا موتی ہے ایساموتی جس کی آب وتاب دائمی ہے ’ طرفہ کے دودیوان پہلی کرن اور نصف النہار کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ ‘ فانوس حرم’ کے نام سے نعتوں کا مجموعہ منظر عام پر آچکاہے ۔ علاوہ ازیں مکتوبات و مقالات پرمشتمل دیگر کتب اشاعت پذیر ہو چکی ہیں۔
(انتخاب نعت و تعارف از پروفیسر خضر حیات ناگپوری)