قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔(ترجمہ)‘‘ تم (مرد) ان (عورتوں ) کے لیے لباس ہو اور وہ تمھارے لیے لباس ہیں۔’’ بعینہ سرور ِ کائنات ﷺ نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا۔(ترجمہ)‘‘عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔ تمھارا عورتوں پر حق ہے اور عورتوں کا تم پر حق ہے۔’’
یہ افتخار مذہب ِ اسلام ہی کو حاصل ہے کہ اس نے کارزار ِ ہستی کے تمام پہلوؤں سے متعلق ہر نکتہ کمال صراحت کے ساتھ اس انداز میں بیان فرما دیا ہے کہ تشنگی کا احساس بھی اب تشنہ نہیں رہا۔بالخصوص قرآن و حدیث میں حقوق ِ نسواں کے ضمن میں اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ حقوق ِ نسواں کے علمبردار اور آج کے نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے اس کے سامنے ہیچ دکھائی دیتے ہیں۔
قرنوں سے عورتوں کی تعلیم و تربیت ، ان کے جائز مقام و مرتبے اور آزادی کے حوالے سے بنیادی طور پر شرق و غرب برسر ِ پیکار دکھائی دیتے ہیں ۔جہاں تک اہلِ مغرب کا تعلق ہے تو ان کے ہاں عورت مادر پدر آزاد ہونے کی وجہ سے ایک بازاری اور کمرشل قسم کی پروڈکٹ کے طور پر ہمارے سامنے آتی ہے۔ مختصر یہ کہ مغرب کی عورت تمام زمانوں میں خاتون ِ خانہ کی بجائے سبھا کی پری اور شمع ِ انجمن رہی ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں عورت ماں ،بہن،بیٹی اور بہو غرض ہر رنگ میں پاکیزگی اور عفت و حیا کا احساس لیے ہوئے نہ صرف قلب ذہن کو معطر کرتی ہے بلکہ ایک خوشگوار زندگی کا مربوط نظام بھی چلاتی ہے۔ عورت کے اسی خوبصورت احساس کو علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری میں اس منفرد انداز میں نظم کیاہے کہ عورت کا مقام و مرتبہ اور قد اور بھی بڑھ گیا ہے۔
وجود ِ زن سے ہے تصویر ِ کائنات میں رنگ
اُسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز ِ دروں
چند مغرب نواز اور آزادی پسند ناقدین نے علامہ اقبالؒ پر زبردستی یہ الزام تھوپنے کی کوشش کی کہ وہ آزادی ٔ نسواں کے سرے سے قائل ہی نہیں بلکہ وہ تو عورت کو آج کے جدید معاشرے میں وہ مقام دینا ہی نہیں چاہتے جو اصلاً عورتوں کو ملنا چاہیے۔عرض یہ ہے کہ ان متعصب اور تنگ نظر ناقدین کے الزامات کے الگ سے جوابات دینا کلی طور پر ایک لا حاصل اور بے سود عمل ہوگا کیونکہ کلام ِ اقبال میں بذات ِ خود ان ناقدین کے خود ساختہ الزامات کے منہ توڑ جواباب موجود ہیں جن کا وجود عنقا کی طرح ناپید ہے۔مندرجہ بالا گفتگو کو نتیجہ خیز ثابت کرنے کے لیے بطور ِ دلیل اقبالؒ کے مندرجہ ذیل یہ دو اشعار ہی کافی ہوں گے۔
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو ارباب ِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ ٔ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت
در حقیقت علامہ اقبالؒ اس قسم کی آزادی کے قائل ہی نہیں جو عورتوں کو بکاؤ مال اور اشتہا انگیز چیز بنا دے۔وہ تو اس بات کے داعی ہیں کہ عورتوں کو وہ تمام حقوق بغیر کسی کم و کاست کے دیے جائیں جن کا ذکر قرآن حدیث کی روشنی سے ثابت ہے گویاعلامہ اقبالؒ کا تصور ِ آزادئ نسواں، اسلا م کے تصور ِ آزادی ٔ نسواں کے عین مطابق ہے۔اسی لیے وہ مسلمان عورت کی تعلیم و تربیت اس انداز میں چاہتے ہیں کہ جسے حاصل کرنے کے بعد وہ ایک اچھی ماں،بہن اوربیٹی بن سکے۔ان کا تقاضا ایک ایسی عورت کا ہے جس کا پیکر شرم و حیا کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہو۔اسی لیے وہ قرون ِ اولیٰ کی مسلمان عورتوں کی صفات سے متصف خواتین کو مشرقی معاشرے کا حسن اور زیور قرار دیتے ہیں۔انھیں دفتروں میں بطور ِ کلرک،ٹائپسٹ اور سیکرٹری جیسے ادنیٰ عہدوں پر کام کرنے والی عورتوں سے اس لیے احتراز ہے کیونکہ خوشامدی نوعیت کے حامل یہ حقیر عہدے عورتوں کو تہذیب و شائستگی سے عاری اور مردوں کی نفسانی خواہشات کا لقمہ بنا دیتے ہیں۔ عورتوں کے اسی استحصال کی وجہ سے معاشرے میں عدم توازن اور بے چینی کو فروغ ملتا ہے جو کسی بھی معاشرے کے لیے زہر ِ قاتل کا حکم رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبالؒ زیور ِ تعلیم کو عورت کے ظاہری و باطنی حسن کے لیے انتہائی ناگزیر خیال کرتے ہیں اسی لیے انھوں نے ایک ایسے نصاب ِ تعلیم پر زور دیا ہے جو عورتوں کو ان کے مقام و مرتبے اور حقوق و فرائض سے آگاہ کر سکے۔
تاہم یاد رہے کہ مندرجہ بالا گفتگو سے یہ مطلب ہر گز نہ لیا جائے کہ اقبالؒ عورتوں کو گھر کی چار دیواری میں دفن کر دینا چاہتے ہیں اور ان کے کسی بھی نوعیت کے جائز کام یا ملازمت کرنے کو شجر ِ ممنوعہ قرار دیتے ہیں بلکہ عرض یہ ہے کہ وہ تو دائرہ اسلام کے اندررہتے ہوئے اور اپنے مذہبی احکامات کو ٹھیس پہنچائے بغیر عورتوں کے ہر طرح کے کام کو تحسین کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں ۔اس کی مثال ان کی نظم‘‘فاطمہ بنت ِ عبداللہ’’ ہے جس میں انھوں نے طرابلس کی جنگ میں زخمیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہادت کا بلند مقام حاصل کرنے والی فاطمہ کو خراج ِ تحسین پیش کیا ہے۔
فاطمہ ! تو آبروئے ملت ِ مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشت ِ خاک کا معصوم ہے
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر
ہے جسارت آفریں شوق ِ شہادت کس قدر
بات کو سمیٹتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ علامہ اقبال ؒکے نزدیک عورت دنیاوی طور پر اس کار زار ِ ہستی میں اگر کوئی بڑا کارنامہ سر انجام نہ بھی دے سکے تو یہ اس کے مقام و مرتبے کو کم تر کرنے کا باعث نہیں بنتا کیونکہ اس کی آ غوش میں فلسفیوں،شہیدوں،ولیوں اور نبیوں کے وجود پلتے ہیں۔یہ کارنامہ دنیا کے سب کارناموں سے اعلیٰ ا ور افضل ترین ہے کہ اس روئے زمین پر عورت ہی تعلیم و تربیت کا سب سے پہلا مدرسہ ہے اور علامہ اقبالؒ کے نزدیک ایسی ہی عورت کے طفیل وجود ِ کائنات میں رنگ ہے۔
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت ِ خاک اس کی
کہ شرف ہے اسی دراج کا دُر مکنون!
مکالمات ِ فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اُسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں
٭٭٭