علامہ محمد اقبال ۔ ترجمہ: ’محمد صدیق بخاری
حقیقت منتظر۔ وہ حقیقت جس کا انتظار کیا جائے ، یعنی محبوب حقیقی یعنی ذات خداوندی۔
طرب شنائے خروش۔ شوروغل اور ہنگامے سے خوشی حاصل کر نے والا۔
دم طواف۔ چکر لگاتے وقت۔
کرمک شمع۔ چرا غ کا پتنگا، پروانہ۔
عفو بندہ نواز۔ ایسی معافی جس میں بندے پر لطف و کرم کیا گیا ہو۔
۱۔ اے خدا کبھی مادی لباس میں بھی نظر آ ، میری عاجز پیشانی میں ہزاروں سجدے بے قرار ہو رہے ہیں۔انسان کی اس خواہش کا اظہار ہے جو وہ ہر چیز کو پیکر محسوس میں دیکھنا چاہتا ہے اور مادی شکل اس کو زیادہ تسلی فراہم کرتی ہے۔
۲۔ اے مخاطب تو شور و غل سے خوشی حاصل کرنے والا بن تو آواز ہے کا ن سے دوستی پیدا کر ۔ بھلا وہ بھی کوئی راگ ہے جو ساز کے پردے کی خاموشی میں چھپا ہوا ہو۔یعنی عشق حقیقی نے تجھ میں بے شمار کمالات بھر دیے ہیں تو چھپ کر نہ بیٹھ بلکہ اپنے کمالا ت زمانے پر ظاہر کر تاکہ لوگوں کو نیا ساز ،نئی آواز ملے ۔
۳۔ تو اپنا آئینہ ٹھیس او رچوٹ سے بچا بچا کر نہ رکھ کیونکہ یہ ایسا آئینہ ہے کہ اگر ٹوٹ جائے تو آئینہ بنانے والے کی نظروں میں زیادہ پیارا اورپسندیدہ ہو جاتا ہے۔یعنی عشق حقیقی میں شکستگی او رچوٹ انسان کو اور نمایاں او رممتاز کرتی ہے اور اس کی صلاحیتوں کو نکھار دیتی ہے ۔
۴۔ پروانے نے شمع کے گرد گھومتے وقت اس سے کہا کہ وہ پرانا اثر نہ تو تیری جلن کی کہانی میں ہے اور نہ میری پگھلاہٹ کے قصے میں۔یعنی زمانہ قدیم جیسے نہ تو رہنما اور پیشوا ہیں اور نہ ہی جاں نثار مرید او رعاشق۔
۵۔ میرے تباہ و برباد کرنے والے جرم و گنا ہ کو دنیا میں کہیں پنا ہ نہ ملی اور اگر ملی تو صرف تیری رحمت کے دامن میں جو گنہگار بندے پر کرم کر کے اس کے جرم و خطا کو بخش دیتی ہے یعنی انسا ن کی خطاؤں کو اللہ کریم کا کرم ہی چھپاسکتا ہے اور اس کی معافی اور رحمت ہی اتنی وسیع ہے کہ ہر ایک کو اپنے دامن میں چھپا سکتی ہے
۶۔ اب نہ عشق میں وہ پہلے سا سوز اور حرارت ہے نہ حسن میں وہ شوخی اور نازوادا ہے ۔نہ محمود کا دل ایاز کے عشق میں تڑپتا ہے او رنہ ایاز کی زلف میں وہ پیچ و خم اور دل کشی ہے مطلب کہ نہ رہنماؤں میں وہ خلوص اور نہ عوام میں وہ ایثار اور قربانی ہے۔
۷۔ اگر میں نے کبھی سجدہ کیا تو زمین سے یہ آواز آنے لگی کہ تیرا دل تو بتوں کا شیداہے تجھے نماز سے کیا حاصل ہو گا۔مطلب یہ ہے کہ جب تک دل کو غیر اللہ سے خالی نہ کیا جائے تو نماز سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
٭٭٭
سچی کہانی
کسی درخت پہ اک اْلو بیٹھا کرتا تھا ایک دن وہ درخت کاٹ دیا گیا درخت بہت خوش ہوا کہ شکر اب ہم پر کوئی اْلو نہیں بیٹھے گا لیکن درخت کی خوشی اس وقت خاک میں مل گئی جب : اس کو کاٹ کر آپ کے روم کی اسٹڈی چیئر بنا دیا گیا اور آج بھی اس پر اْلو بیٹھا ہے۔
٭٭٭