کلام: ’علامہ محمد اقبال ۔ ترجمہ: ’محمد صدیق بخاری
لا الہ الا اللہ
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ ، فساں لا الہ الا اللہ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں ، لا الہ الا اللہ
کیا ہے تو نے متاع غرور کا سودا
فریب سود و زیاں ، لا الہ الا اللہ
یہ مال و دولت دنیا ، یہ رشتہ و پیوند
بتان وہم و گماں ، لا الہ الا اللہ
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری
نہ ہے زماں نہ مکاں ، لا الہ الا اللہ
یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لا الہ الا اللہ
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں ، لا الہ الا اللہ
مشکل الفاظ
سرنہاں: چھپا ہوا بھید ۔ فسان: اوزار تیز کرنے والا پتھر ۔ متاع غرور: دھوکے کی ٹٹی ، مراددنیا کی زندگی
۱۔ عزت اور وقار کا بھید توحید میں چھپا ہے ۔ مراد اس ایک اللہ کو اپنا بنانے سے سب اپنے بن جاتے ہیں۔ خودی ایک تلوار ہے تو اس کی سان یعنی تیز کرنے والا آلہ کلمہ لا الہ الا اللہ ہے یعنی توحید ہے ۔
۲۔ یہ دنیا ایک بت کدہ ہے اس میں توحید کی صدا بلند کرنے کے لیے ہر دور کو ابراہیم کی تلاش رہتی ہے اور اسی طرح اس دور میں بھی خالص توحید کی دعوت کی ضرورت ہے ۔
۳۔ دنیا میں دل نہ لگا یہ دھوکے کی جا ہے اس کا نفع و نقصا ن سب دھوکا ہے ۔ آخرت اصل ہے۔
۴۔ دنیا کے سب رشتے اور تعلق عارضی ہیں ان کی حقیقت کچھ بھی نہیں۔ اصل حقیقت صرف توحید ہے۔کوئی رشتہ اللہ کے راستے میں رکاوٹ اور زنجیر نہیں بننا چاہیے ۔
۵۔ زمان و مکان کی بھی کوئی اصل نہیں اصل صرف لا الہ الا ا للہ ہے عقل نے محض زمان و مکان کا زنار پہن رکھا ہے ۔
۶۔ توحید کا نغمہ کسی موسم کا پابند نہیں۔ہر موسم اسی کا موسم ہے ۔ہر موسم میں صدائے توحید بلندر ہنی چاہیے
۷۔ غیر اسلامی معاشرت او رتمدن کے بت قوم کے پاس ہیں مگر میں تو توحید کا پیغام دیتا رہوں گا۔ اذان کہنا میرا کام ہے ۔