قسط ۔۴
ارسلان کئی بار ترمذ میں بھیس بدل کے آیااورکوششیں کیں کہ مکرو و فریب سے اپنی دلہن شہزادی نوشین کو بھگا لے جائے مگر کامیابی تودرکنار اس کو قلعہ کے اندر داخل ہونے کا بھی موقع نہ ملا۔ فقط ایک بار اس کو شہزادی سے ملنے کا موقع مل گیا تھا مگر اس میں اس قدر ذلیل ہوا کہ جان بچاکے نکل تو آیا مگر اس قابل نہ رہا کہ زندگی بھر کسی سے آنکھیں چار کر سکے۔
ہوا یہ کہ وہ ترمذ میں بودھ مذہب کے ایک فقیر کا بھیس کر کے آیا اور باہر ایک غار میں بیٹھ کے بظاہر عبادت کرنے لگا مگر دل میں یہی دھیان تھا کہ کہیں اورکسی تدبیر سے نوشین کو پاؤں تو لے کے بھاگ جاؤ ں اسی اثنا میں ایک دن موسیٰ گھوڑے پر سوار شکار کے لیے باہر آیا اور شہزادی نوشین اور قتلق خانم دونوں اپنے گھوڑوں پر سوار شکار کے لیے اس کے ساتھ تھیں۔ اس لیے کہ ان دونوں ترک خاتونوں کو شکار کا بے حد شوق تھا اور تیر اندازی وصیدافگنی میں اچھی مشق رکھتی تھیں چونکہ گرد و پیش کسی دشمن کا اندیشہ نہ تھا اور یہ شکار فقط دوچار گھڑی کی سیر و تفریح سے زیادہ اہمیت نہ رکھتا تھا۔ اس لیے موسیٰ نے خاتونان حرم کے ہم رکاب ہونے کے خیال سے کسی لشکری یا غلام کو بھی اپنے ساتھ نہیں لیا تھا۔ عین اسی مقام پر جہاں غار کے دروازے پر ارسلان بھگت بنا بیٹھا تھا شہزادی نوشین نے کمان کھینچ کے اپنے تیر سے ہرن کو زخمی کیا جو تیر کھا کے بھاگا اور موسیٰ نے اپنے گھوڑا جوالہ اس مقام پر ڈالاکہ جہاں گرے وہاں سے اٹھا لائے۔ ہرن دیر تک چوکڑیاں بھرتا رہا اور موسیٰ اس کا پیچھا کرتا رہا۔ نازنین وناز آفرین خاتونیں اپنی جگہ پر ٹھہر ی رہیں۔
انہیں تنہا دیکھ کے ارسلان غارسے نکل کے ان کے قریب آیا اور نوشین کے قریب جا کے کہا:‘‘میری نازنین دلہن! اب موقع ہے کہ تم اور تمہاری رفیق قتلق خانم میرے ساتھ بھاگ چلیں۔’’ یہ الفاظ سن کر دونوں مہ وشیں گھبرا سی گئیں مگر جب غور سے دیکھا تو پہچانا کہ کہنے والا فقیر نہیں فقیر کے بھیس میں شہزادہ ارسلان ہے۔ قتلق خانم اپنے شہزادہ کو اس وضع وحالت میں دیکھ کر آبدیدہ ہو گئی اور کہنے لگی:‘‘ مجھے امید نہ تھی کہ آپ کو اس وضع وحالت میں دیکھوں گی۔’’ ارسلان:‘‘ اپنی شہزادی کے عشق میں مجھے ہر قسم کی ذلت گوارا ہے ۔ ایک مہینے سے زیادہ زمانہ ہوا کہ میں اس غار میں اسی حال میں پڑا ہوں۔’’
قتلق خانم:‘‘آپ اس وضع سے یہاں تک پہنچ تو گئے مگر ہمیں کیونکر لے جائیں گے نہ ہمارے ساتھ کوئی سپاہی ہے کہ ہماری حفاظت کرے نہ کوئی پناہ کی جگہ ہے جہاں چھپ کے اطمینان سے بیٹھ سکیں۔’’
ارسلان:‘‘ اس کی تدبیر میں نے یہ سوچی ہے کہ تم اور نوشین میرے ساتھ اس غار میں چل کے ٹھہرو جس میں میں رہتا ہوں۔ یہ غار اندر ہی اندر بہت دور تک چلا گیا ہے اور اس کے اندر ادھر ادھر ایسے کھوہ اور کول ہیں کہ کوئی دشمن اندر چلا بھی آئے تو جو کوئی ان میں جاکے چھپ رہے اسے نہیں پا سکتا۔ تین چار روز بعد جب جستجو کی شورش کم ہو گی تو ہم تینوں رات کو نکل چلیں گے اور اس طرح سفر کریں گے کہ راتوں کو کوچ کریں اور دن کو پہاڑوں کے غاروں میں چھپ رہیں۔ دو چار روز بعد جب کسی امن و امان کی جگہ میں پہنچ جائیں تو سواریوں کا بندوبست کر کے اطمینان سے سفر کریں اور شان و شوکت سے سمرقند میں داخل ہوں۔’’ نوشین: ‘‘میں اس ذلیل طریقہ سے آزادی نہیں چاہتی۔ میں ترک ہوں اور چینی دلہن اسی کی ہوسکتی ہے جو شریفانہ انداز سے بہادری دکھا کے مجھے حاصل کرے۔ میں چوروں کی طرح بھاگنے اور چرالے جانے کی چیز نہیں ہوں۔ مجھے چاہتے ہو اور میرے شوق میں بیتاب ہو تو بہادری سے مقابلہ کر کے مجھے لو۔ اس طرح حاصل کرو جس طرح قوم مغل کے شریف زادے دلہن کو حاصل کیا کرتے ہیں۔’’ ارسلان:‘‘ تم میرے پاس آجاؤ گی تو پھر میں پوری بہادری دکھا دوں گا اور کسی کی مجال نہ ہو گی کہ تم کو میرے آغوش شوق سے چھین سکے۔’’ نوشین:‘‘ میں اس کو نہیں مانتی۔ میرے لیے بہادری دکھاؤ۔ مجھے چوروں کی طرح چرا کے بہادری دکھائی تو کیا جس شخص نے ایک دفعہ مقابلہ کر کے مجھے تم سے چھین لیا وہ دوبارہ بھی چھین سکتا ہے۔ دنیا کو صاف نظر آگیا کہ موسیٰ تم سے اور تمہارے تمام ساتھیوں سے زیادہ بہادر او ردنیا کے لوگوں سے بڑھ کے زبردست ہے۔ اس نے مقررہ رسوم کے مطابق مجھے بزور شمشیر تم سے چھین لیا اور میں شرفا کے آئین کے مطابق اس کی ہوچکی۔ اس کے پاس آنے کے بعد مجھے یہ معلوم ہوگیا کہ وہ تم سے زیادہ میرا عاشق شیدا ہے۔ غرض میں اس کی ہو گئی اور وہ میرا ہو گیا اور جو منہ میں اسے دکھا چکی اب اور کوئی نہیں دیکھ سکتا۔’’
نوشین کی زبان سے یہ جواب سن کر قتلق خانم مبہوت رہ گئی اور اس سے زیادہ حیران ارسلان تھا جو چند منٹ کی مضطربانہ حیرت کے بعد بولا: ‘‘ تو تم میرے مقابلہ میں ایک ناجنس غیر مذہب شخص کو پسند کرتی ہو۔’’
نوشین:‘‘ ہاں میں اسی کو پسند کرتی ہوں ۔ اس لیے کہ تمہاری بزدلی نے مجھے اس کے ہاتھ بیچ ڈالا اور میں اسی کی ہو گئی۔’’ شہزادی کاشغر اور پری جمال لعبت چین کے ا ن جوابوں کا قتلق خانم پر عجیب اثر پڑا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ موسیٰ کو چھوڑ کے اپنے گھر جائے اور اپنے ماں باپ سے ملے۔ نوشین کو بھی وہ اپنے ساتھ لے جانا چاہتی تھی۔ بولی :‘‘شہزادی! سمرقند میں چلنے اور شہزادہ ارسلان کی محبوبہ بن کے رہنے سے آپ کی جو عزت ترکستان میں ہو سکتی ہے اس عرب سردار کے پاس رہنے سے نہیں ہو سکتی۔ پھر یہ بھی تو خیال کیجیے کہ وہاں آپ اپنے ماں باپ اور اپنے عزیزوں سے مل سکیں گی۔ اپنے میکے جا سکیں گی مگر یہاں ترمذ میں آپ گھر بار، ماں باپ، بہن بھائیوں اور سارے دوستوں اور عزیزوں سے دور اور جدا رہیں گی۔ یہ آپ کو پسند ہے؟’’ نوشین:‘‘ تم جو کچھ کہتی ہو۔ سچ ہے مگر اس کا کیا جواب ہے کہ اپنے کیش و آئین اور اپنی قوم و طن کے رسم و رواج کے مطابق میں موسیٰ کی بیوی ہو چکی اور اب کسی کا مجھ پر حق نہیں۔ موسیٰ میرے شوہر ہیں اور ان کے سوا اب اور کسی کے پاس رہنا میرے لیے حرام ہے۔’’ ارسلان: ‘‘(برہمی کے لہجے میں) یوں نہ مانو گی تو میں زبردستی تم کو لے جاؤں گا اور قتل و خون ریزی کے ذریعہ سے تم کو لوں گا۔’’ نوشین:‘‘ یوں لے سکتے تو اب تک لے چکے ہوتے۔ اسی کا تو مجھے افسوس ہے تم مجھے نہ لے سکے اور جب نہ لے سکے تو اب کیا لوگے؟’’ ارسلان:‘‘ میں سارے ترکستان کو چڑھا لاؤں گا اور ایسی زبردست قوت سے حملہ کروں گا کہ موسیٰ کو نہ ترمذ کے قلعہ میں بیٹھتے بنے گی او رنہ بھاگنے کا راستہ ملے گا۔’’ نوشین:‘‘ یہی تمہارے امکان میں ہوتا تو تم ایک درویوزہ گر فقیر بن کے یہاں نہ آتے اور تمہارا یہ ارادہ نہ ہوتا کہ چوروں کی طرح مجھے چرا لے جاؤ۔’’ ارسلان:‘‘ یہ صورت میں نے فقط اس اندیشہ سے اختیار کی کہ اعلانیہ مقابلہ کروں گا اور ترمذ کا محاصرہ کر کے موسیٰ کو عاجز کروں گا تو میرے دل کو آزار پہنچانے کے لیے وہ تم کو قتل کر ڈالے گا تاکہ میری آرزو ہمیشہ کے لیے خاک میں مل جائے۔’’ نوشین:‘‘ موسیٰ سے ایسی حرکت نہیں ہو سکتی وہ بہادر اور شریف ہے اور تم سے بڑھ کے مجھے چاہتا ہے۔’’ قتلق خانم:‘‘ شہزادی! تم زبردستی الجھ رہی ہو ۔مانا کہ موسیٰ تمہیں قتل نہ کریں گے مگر ہمارے شہزادے ارسلان جب ایسی قوت سے چڑھائی کریں گے تو تم کو ان کے دست ستم سے چھین لیں گے اس سے یہی بہتر معلوم ہوتا ہے کہ خون ریزی ہونے سے پہلے ہم تم ان کے ساتھ بھاگ چلیں۔’’ نوشین:‘‘ تم بھاگو ۔ میں نہیں بھاگ سکتی۔ بھاگنے کا لفظ میرے لیے ننگ ہے میں اسی کی ہوں جو سپہ گری او ردلیری سے مجھے حاصل کرے۔’’ قتلق خانم: ‘‘ اس کے لیے بھی تو ہمارے شہزادے ارسلان تیار ہیں۔’’ نوشین: ‘‘ جب ایسی تیاری دکھائیں گے تودیکھا جائے گا اس کے بعد چند لمحوں تک خاموشی رہی۔ جسے خود ہماری لعبت چین شہزادی کاشغر نے توڑا اور کہنے لگی : ‘‘قتلق خانم ! دھوکہ میں نہ آؤ۔ خوب یاد رکھو کہ تمہارے شہزادے جب ایک بار ہار چکے ہیں اور اس موقع پر جب انہیں اپنی جان دینے میں بھی دریغ نہ ہونا چاہیے تھا ہارے تو اب موسیٰ سے جیت سکیں گے؟۔’’ قتلق خانم:‘‘ جب زبردست لشکر لے کر آئیں گے اور سارے توران و ترکستان کو چڑھا لائیں گے تو موسیٰ کے بنائے کچھ نہ بنے گی۔’’ نوشین:‘‘ یہی دھوکہ ہے جس میں تم پڑی ہوئی ہو یہ اگر سارے ترکستان کو بھی چڑھا لائیں گے تو میرے شوہر موسیٰ سارے خراسان، ایران اور عرب و شام کو چڑھا لائیں گے تو اس وقت ان سے پوچھو کہ ان کے بنائے کیا بنے گی؟ تم یقین جانو کہ اب تم موسیٰ کے پنجہ سے نہیں چھوٹ سکتی۔ اگر کبھی اتفاقا ارسلان کو موقع مل بھی گیا تو موسیٰ پھر تم کو ان کے پنجہ سے چھین لیں گے اور اس وقت تم ان کی وہ ذلیل لونڈی بنو گی جس پر آقا کو اعتبار نہ ہو۔ ذاتی شجاعت و زور آزمائی میں یہ ان کی ہمسری کر نہیں سکتے جس کا ان کو بھی اقرار کرنا پڑے گا۔ باقی رہا زبردست لشکر کالانا تو اس میں بھی موسیٰ کا اثر بڑھا ہوا ہے۔ یہ کسی بات میں ان کے مدمقابل نہیں ہو سکتے اور جب کبھی مقابلہ کریں گے ذلیل ہوں گے خوب یاد رکھو کہ جس کسی نے اپنی معشوقہ دلہن کو ہار دیا وہ ہمیشہ ہارے گا اور سب کچھ ہار دے گا۔’’ ارسلان: ‘‘(غیظ و غضب کے لہجے میں) یہ نہ سمجھو کہ میں موسیٰ سے کمزور ہوں سامنا ہو جائے تو آج بھی اس سے کشتی لڑنے کو اور شمشیر زنی میں مقابلہ کرنے کو تیار ہوں۔ وہ اپنے قوت بازو یا اپنی تلوار کے زور سے مجھ پر نہیں غالب آیا فقط اس کا گھوڑا میرے گھوڑے سے اچھا تھا بس اسی کمی نے مجھے ہرا دیا۔ جنگ و پیکار میں مقابلہ ہوتا تو میں اس کی ساری چالاکیاں بھلا دیتا۔’’ نوشین:‘‘ میں نے مانا کہ تم سے اس کی لڑائی نہیں ہوئی مگر کیا تم اپنے شہر کے سپہ سالار نوشگیں سے زیادہ بہادر ہو ۔ جسے موسیٰ نے دم بھر میں مار گرادیا اور دعوت نو روز کے ساتھ قتلق خانم کو جیت لیا؟’’ ارسلان:‘‘ یہ اتفاق کی بات تھی میرا سامنا ہوتا تو اسے معلوم ہوتا کہ شجاعت سپہ گری اسے کہتے ہیں۔’’ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ دور سے موسیٰ آتا دکھائی دیا جو ہرن کوذبح کر کے اپنے گھوڑے پر ڈالے لیے آتا تھا اس کو دیکھتے ہی قتلق خانم گھبرا اٹھی اور ارسلان سے کہا: ‘‘ افسوس موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ تم اسی غار میں جا کے اپنی جان بچاؤ اور اب میری تمہاری دونوں کی زندگی شہزادی کے ہاتھ میں ہے ۔ انہوں نے اگر موسیٰ کو بتا دیا کہ تم ارسلان ہو اور میں تمہارے ساتھ جانے پر آمادہ تھی تو وہ دونوں کو قتل کر ڈالیں گے اور دونوں میں سے ایک کی بھی خیریت نہیں۔’’
نوشین:‘‘ میں موسیٰ سے بے وفائی نہ کروں گی ۔ یہ غیر ممکن ہے کہ ان باتوں کو ان سے نہ کہوں مگر وعدہ کرتی ہوں کہ تم دونوں کو بچا لوں گی۔ موسیٰ بہادر ہیں اور بہادر آدمی ظالم نہیں ہوتا لیکن ہاں ارسلان تم کو دعوی ہے کہ سپہ گری میں ان سے مقابلہ کر لوگے اس کے لیے اس سے بہتر موقع نہیں ہو سکتا۔ موسیٰ تنہا ہیں تم دیکھ رہے ہو کہ ان کے آگے پیچھے کوئی نہیں ۔ خود اور زرہ بھی نہیں پہنے ہوئے ہیں۔ شہر فاصلہ پر ہے کوئی مدد کو نہیں پہنچ سکتا اور ہم دونوں وعدہ کرتی ہیں کہ الگ کھڑی رہیں گی اگر دعوی ہے اور مجھے لینا چاہتے ہو تو سامنا کرو۔ دیکھوں کس طرح ان پر غالب آتے ہو؟’’ارسلان:‘‘ اس فقیری بھیس میں جب کہ میرے پاس تلوار کے سوا کوئی ہتھیار نہیں اور وہ تلوار بھی غار کے اندر چھپا کے رکھ آیا ہوں کیسے مقابلہ کر سکتاہوں۔’’ نوشین:‘‘ مضائقہ نہیں۔ اپنی تلوار جا کے لے آؤ اور موسیٰ سے میں کہہ دوں گی کہ سوا تلوار کے اور سب ہتھیار کھول کے الگ رکھ دیں۔ رہا فقیری لباس تو وہ بھی اس وقت معمولی سادہ کپڑے پہنے ہوئے ہیں جن سے کسی قسم کی حفاظت نہیں ہو سکتی۔’’ اس کے جواب میں ارسلان خاموش اور خائف تھا کہ نوشین نے کہا : ‘‘خاموشی کی سند نہیں یا تو اس وقت مقابلہ کرو اور یا وعدہ کرو کہ پھر کبھی بہادری کا دعوی اور میرے لینے کی ہوس نہ کرو گے۔’’ ارسلان: ‘‘(گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ) تم جو حکم دو میں اسی کے لیے حاضر ہوں۔’’ اب موسیٰ قریب آپہنچا اور دور ہی سے خوشی کے لہجہ میں پکارا : ‘‘لو پیاری لعبت چین نوشین! میں تمہارے شکار کو لے آیا مگر اس نے بہت دوڑایا اور بہت دور جا کے گرا۔ ’’ یہ کہتے کہتے وہ بالکل قریب آگیا اور نوشین نے ٹوٹے پھوٹے عربی الفاظ میں جو ترکی لب ولہجہ میں ادا ہوتے تھے اظہار و مسرت کے ساتھ کہا: ‘‘مگر میں نے تمہارے لیے یہاں بھی ایک شکار تیار کر رکھا ہے۔’’ موسیٰ :‘‘ (حیرت سے چاروں طرف دیکھ کے) میں نہیں سمجھا وہ شکار کون سا ہے۔’’ نوشین: ‘‘ ابھی تھکے چلے آئے ہو ذرا دم لے لو تو بتاؤں۔’’
موسیٰ : ‘‘نہیں جلدی بتاؤ۔ یہ الفاظ سننے کے بعد مجھ میں دم لینے کی تاب نہیں ہے۔’’ اس وقت ارسلان اور قتلق خانم کی حالت یہ تھی کہ چہرہ کی رنگت اڑی ہوئی تھی اندر ہی اندر تھر تھر کانپ رہے تھے اور دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔’’ نوشین:‘‘ بتاتی ہوں مگر پہلے اقرار کرو کہ سنتے ہی آپے سے باہر نہ ہوجاؤ گے اور میں جس انسانیت سے کام لینا چاہوں گی کام کرو گے۔’’ موسیٰ : ‘‘قسم کھا کے کہتا ہوں کہ تم جو کہو گی وہی کروں گا۔’’ نوشین: ‘‘ اچھا تو سنو! یہ بزرگ جو سامنے کھڑے ہیں ان کو پہچانو کہ کون ہیں؟’’ موسیٰ:‘‘ میں کیا جانوں کبھی دیکھا ہو تو پہچانوں۔’’ نوشین:‘‘ یہ تمہارے رقیب ارسلان ہیں جو فقیری بھیس کر کے آئے ہیں کہ مجھے اور قتلق خانم کو اپنے ساتھ بھگا لے جائیں۔’’ یہ کلمات سنتے ہی موسیٰ نے تلوار کھینچ لی۔ غیظ و غضب کے تیوروں سے ارسلان کو دیکھا اور اس پر جھپٹ پڑنے کو ہی تھا کہ نوشین نے کہا اپنااقرار نہ بھولو۔ وعدہ کر چکے ہو کہ انسانیت سے باہر نہ ہوگے۔’’ موسیٰ: ‘‘ہاں میں تمہاری مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کروں گا مگر جلدی بتاؤ کہ کیا حکم ہے۔’’ اب نوشین نے ساری سرگزشت اور گفتگو جو ارسلان سے ہوئی تھی بیان کردی۔ ایک قتلق خانم کی بے وفائی کو تو نہیں ظاہر کیا باقی تمام باتیں بلا کم وکاست کہہ سنائی اور کہا: ‘‘ ان سے ایک دفعہ اور مقابلہ کر لو تاکہ ان کے دل میں کوئی ہوس نہ باقی رہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ یہ چاہے تمہیں زخمی کرنے کی کوشش کریں مگر تم ان پر ایسا وار نہ کرنا کہ یہ زخمی ہوں۔’’ موسیٰ: ‘‘ تمہاری خوشی کے لیے مجھے یہ بھی منظور ہے۔’’ ارسلان:‘‘ اچھا تو میں اپنی تلوار لے آؤں۔’’ موسیٰ:‘‘ جائیے لے آئیے۔ جب تک میں تلوار کے سوا اپنا تمام اسلحہ کھول کے الگ رکھے دیتا ہوں۔’’
ارسلان: ‘‘مگر آپ گھوڑے پر ہیں اور میں پاپیادہ ہوں۔’’ موسیٰ : ‘‘میں بھی گھوڑے سے اتر کے پیدل مقابلہ کروں گا بلکہ میں تو یہاں تک تیار ہوں کہ آپ جس اسلحہ یا چیز کو طلب کریں لا کے حاضر کر دوں۔’’ ارسلان:‘‘ مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔’’ یہ کہہ کے وہ غار میں سے اپنی تلوار نکال لایا ۔ موسیٰ نے اپنے ہتھیار کھول کے الگ رکھ دیے اوردونوں سامنے کھڑے ہو کے پینترے بدلنے لگے ۔ پینتر ے بدلتے بدلتے تلوار چلنے لگی۔ ارسلان نے نہایت ہی طیش و جوش کے ساتھ جان پر کھیل کے موسی پر صدہا وار کر ڈالے جن کو موسی برابر بچاتا یا اپنی ڈھال پر لیتا رہا۔ اپنی طرف سے اس نے کوئی وار نہیں کیا۔ تقریبا ایک گھنٹہ بھر اسی طرح سے لڑائی ہوتی رہی آخر ارسلان کو شمشیر زنی کی مسلسل محنت سے پسینہ آگیا اور اس کے ہاتھ کے وار تھکن کی کمزوری دکھائے دینے لگی مگر موسیٰ پر بوجہ اس کے کہ وہ فقط حربوں کو روکتا رہا تھا خستگی کا مطلق اثر نہ تھا۔ حریف کو پسینے پسینے دیکھ کر اس نے کہا: ‘‘ اب اگر آپ تھک گئے ہوں تو دم بھر سستا لیں اپنی لعبت چین کی خوشی پوری کرنے کے لیے میں اس کا موقع بھی دینے کو تیار ہوں۔’’ اس فقرہ سے ارسلان کو نہایت طیش آیا اور اس نے جھکائی دے کے ایک نہایت ہی زبردست ہاتھ موسیٰ کی کمر پر مارا۔ موسیٰ نے پھرتی سے اس کو ڈھال پر روک کے اپنی تلوار کھینچ کے ایسے پیچ کے انداز سے درمیان میں ڈالی کہ ارسلان کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ کے الگ جا پڑی اور دہشت زدگی کے ساتھ جھپٹا کہ تلوار اٹھا لائے مگر موسیٰ نے تلوار پھینک کے بڑھ کے اس کی کمر پکڑ لی اور کہا:‘‘ اب ہتھیاروں سے لڑنے کی ضرورت نہیں تھوڑا زور بھی ہو جائے ارسلان پلٹ کے اس سے لپٹ گیا اور کشتی ہونے لگی۔ کشتی میں بھی موسیٰ بڑی دیر تک اسے تھکاتا رہا یہاں تک کہ وہ سر سے پاؤں تک پسینہ میں شرابور ہو گیا۔ اب اسے نہایت ہی خستہ دیکھ کے موسیٰ نے کہا: ‘‘ آپ پھر بہت تھک گئے ہیں مگر اب کے میں سستانے کا موقع نہ دوں گا۔’’ ارسلان موسیٰ کے اس فقرہ کا جواب سوچ رہا تھا کہ اس نے ایک دفعہ الا اللہ کہہ کر اسے زمین سے اٹھا یا اور پٹک کے سینہ پر چڑھ بیٹھا اور کہا: ‘‘ اب تو آپ کو اپنی ہار تسلیم ہے یا اب بھی نہیں۔’’ ارسلان: ‘‘ ہاں تسلیم ہے مگر اپنے پیغمبر کا واسطہ مجھے زندہ نہ چھوڑو۔ میں خاموش لیٹا ہوں تلوار اٹھا لاؤ اور میرا سینہ چا ک کر کے اس حرمان نصیبی کی زندگی کا خاتمہ کر دو۔’’ موسی:‘‘ یہ نہیں ہو سکتا۔ ہوتا یہی مگر افسوس پیاری نوشین کی مرضی نہیں لیکن یہ نہ سمجھنا کہ اب میں چھوڑ دوں گا۔’’ یہ کہتے ہی اپنا عمامہ کھول کے اس کی مشکیں کسیں اور خوب مضبوطی سے باندھ کے سینہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر اسے نوشین کے قریب لا کے کھڑا کر دیا اور کہا: ‘‘ ان قدموں کے آگے زمین بوس ہو اور اس پری جمال کے قدم چوم جس کا شوہر ہونے کے بجائے تو ایک ادنی اور ذلیل غلام ہے۔’’ اس کے بعد اس نے نوشین کی طرف توجہ کی اور کہا:‘‘ پیاری لعبت چین! لو دیکھ لو اس کے جسم میں کہیں زخم نہیں آیا اور میں نے بغیر زخمی کیے اور بغیر اس کے کہ اسے ذرا بھی چوٹ آئی ہو آپ کی خدمت میں باندھ کے حاضر کر دیا۔’’ نوشین اور قتلق خانم اس لڑائی کو اول سے آخر تک حیرت اور دلچسپی سے دیکھتی رہی تھیں اور نوشین نے موسیٰ سے کہا: ‘‘ میں شکر گزار ہوں کہ میرے کہنے سے تم نے ایسی شریفانہ بہادری دکھا دی اور مجھے اس پر فخر اور ناز ہے کہ جس بہادر نے مجھے جیتا وہ دنیا بھر میں اپنا مقابل نہیں رکھتا لیکن اب میرا جی یہ چاہتا ہے کہ ارسلان کو چھوڑ دو اور آزادی دو کہ اپنے گھر میں جا کے خاموش بیٹھیں اور جب تک زندہ ہیں دل میں قائل رہیں کہ تمہارے آزاد شدہ غلام ہیں۔’’ ارسلان:‘‘ نہیں مجھے چھوڑو نہیں بلکہ اسی وقت قتل کر ڈالو۔ یہ غلامی مجھ سے نہیں برداشت ہو سکتی۔ میں دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا اور سچ کہتا ہوں کہ اگر زندہ چھوڑ دیا تو تم کو آزار پہنچاؤں گا۔ قوت سے کام نہ نکلا تو مکاری و فریب سے کام لوں گا اور تمہارا کام تمام کر دوں گا۔’’ موسیٰ:‘‘ تم جو جی چاہے کرو۔ ہو گا وہی جو ماہ و ش نوشین کی مرضی ہے تم شوق سے دشمنی کرو میں اس کی پروا نہیں کرتا اور جس طرح آج زیر کیا ہے اسی طرح ہمیشہ زیر کروں گا۔’’ یہ کہہ کر موسیٰ نے ارسلان کے ہاتھ کھول دیے اور کہا: ‘‘ جا نکل اور خبردار پھر یہاں نہ آنا۔’’ (جاری ہے)