مفتی منیب الرحمن

مصنف : سجاد پرویز

سلسلہ : انٹرویو

شمارہ : جولائی2016

انٹرویو
مفتی منیب الرحمن صاحب 
سجاد پرویز

پروفیسر مفتی محمدمنیب الرحمٰن مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ مفتی محمد منیب الرحمٰن 8 فروری 1945ء کو پیدا ہوئے۔ مفتی صاحب نے جامعہ کراچی سے اسلامک اسٹدیز میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ آپ صدر تنظیمْ المدارس اور کراچی میں دارالعلوم نعیمیہ کے بھی صدر ہیں۔ اس کے علاوہ جناح یونیورسٹی برائے خواتین کراچی سے بطور پروفیسر منسلک ہیں۔ آپ فیڈرل گورنمنٹ اْردو یونیورسٹی اور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کراچی کے بورڈ آف اسٹڈیز کے رْکن ہیں۔ مفتی محمد منیب الرحمٰن گذشتہ تین عشروں سے یونیورسٹی اور دیگر اداروں میں گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کی سطح کے طلبہ اور طالبات کو تفسیر، حدیث، فقہ اور عربی ادب کی تعلیم دے رہے ہیں۔ مفتی محمد منیب الرحمٰن گذشتہ دنوں بہاول پور تشریف لائے۔ تو اس موقع پر ریڈیو پاکستان بہاولپور کے نیوزایڈیٹر سجاد پرویز نے ان سے خصوصی مکالمہ کیا۔۔
س۔ مفتی صاحب یہ فرمائیے کہ آپ ملکی تعمیرو ترقی میں ریڈیو پاکستان کے کردار کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
ج۔ ریڈیو پاکستان کی تاریخ اور پاکستان کی تاریخ کا آغاز ایک ساتھ ہوا۔ اور پاکستان کی آزادی کا اعلان ریڈیو پاکستان سے ہوا اور یہ ریڈیو پاکستان کا ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ دوسری بات میں یہ کہنا چاہوں گا کہ جب تک ہمارا پرنٹ میڈیا کے علاوہ ذریعہ ابلاغ ریڈیو پاکستان تھا تو زبان وبیان کا معیار بہت اچھا رہا۔ اقدار کی پاسداری کی جاتی تھی اور اب جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں اور اْس عہد کے میڈیا سے تقابل کرتے ہیں تو لگتا تھا کہ بڑا پاکیزہ دور تھا۔ ایک وقت تھا کہ صدر ایوب کے زمانے میں کہ وہ ماہانہ خطاب کرتے تھے ریڈیو پاکستان سے تو سب لوگ بیٹھ کر توجہ سے سنتے تھے پھر 1965ء کی جنگ کا جو اعلان ہے جب انڈیا نے حملہ کیا تو ریڈیو پاکستان سے اس وقت کے صدرِ پاکستان کا خطاب آیا اور پوری قوم کے جذبات کو ریڈیو پاکستان کی لہروں کے ذریعے گرمایا۔ ان کو متحد کیا اور منظم کیا۔ اگرچہ اب الیکٹرونک میڈیا یا ٹیلی ویڑن چینلز نے ناظرین و سامعین کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے لیکن پھر بھی جہاں تک ریڈیو پاکستان کی Approach ہے تو پرائیویٹ، الیکٹرونک میڈیا کی رسائی ابھی ان تمام خطوں اور حدود تک نہیں ہے اور بہت سے لوگوں کا انحصارریڈیو پاکستان پر ہوتا ہے۔ جب پاکستان ٹیلی ویژن تھا تو انٹرٹینمنٹ کے پروگراموں کے بعض ڈرامے بہت مقبول تھے اور ان کو دیکھنے کے لئے لوگ جمع ہوتے تھے اب ہمارے 
PoliticalTalks
ہیں یہ سب سے بڑی انٹرٹینمنٹ آ گئی ہے اوراس لئے قوم کو اس سے کوئیEducation نہیں مل رہی، کوئی آگہی نہیں مل رہی قوم کو یعنی اگر اس سے یہ ہوتا کہ کسی Discussionکے بعد سب کسی نتیجے پر پہنچتے تو قوم کو رہنمائی ملتی تو پھر تو ہم اس کی تحسین کرتے تعریف کرتے لیکن اب سامعین کو اور ناظرین کو اپنے حصار میں قائم رکھنے کے لئے ایک جنگ کا ماحول برپا کرنا ضروری سمجھا گیا ہے تو اس فضا میں، میں سمجھتا ہوں کہ ریڈیو پاکستان اب بھی غنیمت ہے اور بشرطیکہ یہ اپنے ابتدائی عشروں کے زبان و بیان کے معیار کو، اقدار کے معیار کو یہ قائم رکھے۔ بہاولپور ریڈیو سے گفتگو کرنے کا یہ میرا پہلا موقع ہے اور میں ان تمام سامعینِ کرام کو جو اس گفتگو میں ہمارے شریک ہیں ان کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہوں، اور ان کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تبارک وتعالٰی انہیں ہمیشہ شاد و آباد رکھے۔ اور ریڈیو پاکستان کو وہ Expertise وہ وسائل میسر ہوں کہ یہ لوگوں کو دوبارہ اپنی طرف کھینچ سکے اپنے ساتھ مربوط کر سکے اور اپنے ساتھ جوڑے رکھے۔
س۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس کس شہر میں ہونا ہے اس کا فیصلہ کون کرتا ہے؟
ج۔ ہر جگہ نہیں ہوتے اناؤنسمنٹ وہاں سے ہوتا ہے جہاں چیئرمین ہوتا ہے۔ زونل کمیٹیوں کے اجلاس پورے ملک میں ہوتے ہیں اور کیونکہ میں کراچی میں ہوں تو کراچی سے ہوتا ہے اور رویتِ ہلال کے اعلان سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہ آج تک مجھ سے کسی صدرِ مملکت نے اعلان سے پہلے یا اعلان کے بعد رابطہ کیا۔ اور نہ کسی وزیر نے رابطہ کیا۔ یہ ادارہ Independent ہے اور ہم شریعت کے اْصولوں اور احکام کے پابند ہیں اور یہ ادارہ آزادانہ طور پر کام کر رہا ہے اور Consensus اور اجماعِ کلی کے ساتھ فیصلے ہوتے ہیں اور اس طرح کا نظام دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے
س۔ آپ ایک قومی اخبار میں کالم بھی لکھتے ہیں تو کالم نگاری کا خیال کس طرح آیا؟
ج۔ دیکھیں ایک خیال تو یہ تھا کہ الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد پرنٹ میڈیا کی اہمیت کم ہو جائے گی اور یہ پس منظر میں چلا جائے گا۔ لیکن یہ عجیب اتفاق دیکھا کہ پرنٹ میڈیا کی اہمیت اب بھی موجود ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ اللہ تعالٰی کی سنت جلیلہ ہے کہ اس نے اپنی وحی ربانی کو مکتوب صورت مقدر فرمائی۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ لکھے ہوئے لفظ کی تاثیر اب بھی بولے ہوئے لفظ سے زیادہ ہے اور زیادہ پائیدار ہے۔ اور پہلے جب کوئی اخبار اٹھاتا تھا تو وہ سب سے پہلے سرخیاں خبریں دیکھتا تھا لیکن اب تو خبروں کے ٹکر تو ہر منٹ چل رہے ہوتے ہیں لہٰذا اب جو لوگ اخبار لیتے ہیں تو سب سے پہلے ایڈیٹوریل پیج کو دیکھتے ہیں اور کالم پڑھتے ہیں۔ جب سے میں نے کالم لکھنا شروع کیا تو میری ترجیح پاکستان اور اسلام ہے۔ نہ میری ترجیح کوئی سیاسی پارٹی ہے خواہ وہ حزبِ اقتدار کی ہو یا حزبِ اختلاف کی ہو۔ ہاں میں جو لکھتا ہوں اور موضوعات کا انتخاب کرتا ہوں تو پاکستان کے مفاد میں اور اسلام کے مفاد میں کرتا ہوں اور موضوعات کا انتخاب بھی اس طرح کرتا ہوں کہ وہ 24 گھنٹے کے بعد پرانا نہ ہو جائے کہ لوگ اسے بھول جائیں بلکہ وہ ملک کی تاریخ بن جائے اورجب بھی اسے کوئی پڑھے تو لگے کہ میں آج کے دن میں بیٹھا ہوں۔ میرے کالموں کا پہلا مجموعہ چھپا اور وہ تھوڑے سے دنوں میں ختم ہو گیا۔ اب پہلے کا دوسرا ایڈیشن اور دوسرے کا پہلا ایڈیشن آئندہ ہفتے عشرے میں چھپ کر آ رہا ہے۔ اور پھر تیسرا آ رہا ہے اور اخبارات آج کل جو اپنے کالموں کی ریٹنگ اور گریڈنگ کرتے ہیں وہ ویب سائٹ پر جو لوگ Visit کرتے ہیں اسی حساب سے کرتے ہیں۔ میرے کالموں کو پڑھنے والوں کی تعداد بہت اچھی ہے اور بہت زیادہ ہے ملک کے اندر اور ملک سے باہر۔ اور جس دن میرا کالم چھپتا ہے تو میں جب اپنے دفتر میں آتا ہوں۔ مجھے ملک کے باہر سے Responseپہلے آتا ہے۔ ملک کے اندر سے بعد میں آتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جو پاکستان کے اندر رہتے ہیں انہیں پاکستان سے اتنی محبت اور اتنی چاہت نہیں ہے جتنی ملک سے باہر رہنے والے پاکستانیوں کے دلوں میں ہے کیونکہ جب کوئی نعمت میسر ہوتی ہے تو اس کی قدر نہیں ہوتی لیکن جب یہ نعمت میسر نہیں ہوتی تو تب پتہ چلتا ہے کہ اپنا وطن اور اپنا ملک اللہ تعالٰی کی کتنی عظیم نعمت ہے۔ آپ مجھے بتائیں کہ سعودی عرب میں امارات میں لوگ ارب پتی ہیں لیکن ان کو یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ اگر اچانک ان کو خروج لگا کر جہاز میں بٹھا کر روانہ کردیا جائے تو ان کی پاس کیا رہ جاتا ہے لیکن اپنے ملک پر میں اس لئے کہتا ہوں کہ پاکستان پر افتخار ہونا چاہیے۔ پاکستان اللہ تعالٰی کی بہت بری نعمت ہے اچھا اس کا اگر آپ جاننا چاہیں تو ان مسلمانوں سے پوچھیں جو انڈیا میں رہتے ہیں کہ اپنا وطن، آزاد وطن اللہ تعالٰی کی کتنی بڑی نعمت ہے۔
س۔ آپ کا شمار ملک کے معروف کالم نگاروں میں ہوتا ہے۔ آپ کے پسندیدہ کالم نگار کون ہیں؟
ج۔ میں اس سوال کا جواب نہیں سے سکوں گا کچھ دوستوں کا نام لے لوں اور کچھ کو ناراض کر دوں اور یہ بھی میں آپ سے عرض کروں کہ ہر بڑے سے بڑے لکھاری کا ہر کالم ماسٹر پیس نہیں ہو سکتا جس نے روزانہ صبح بیٹھ کر لکھنا ہوتا ہے۔ بعض کالم ہوتے ہیں جو ماسٹر پیس ہوتے ہیں اسی طرح سے میں ان کالموں کوتوجہ سے دیکھتا ہوں جہاں زبان و بیان کا معیار اچھا ہو اور اس کے بعد ان کالمز کو ترجیح دیتا ہوں کہ جو کسی ایک فریق کے ساتھ مورچہ زن نہ ہو کر بیٹھا ہو یا کسی دوسرے فریق کے ساتھ مورچہ زن ہو کر نہ بیٹھا ہو اپنیCredibility کو قائم رکھے اپنے اعتبار کو قائم رکھے اور پھر بات کرے یعنی حکومت وقت کی غلط کو غلط کہنا تو بہت آسان ہے کیونکہ بندہ ہیرو بن جاتا ہے لیکن اگر کوئی بندہ اپوزیشن میں ہو اور غلط کر رہا ہے تو اس کے غلط کو بھی غلط کہنا چاہیے۔ ہمیں پاکستان کے مفاد کو دیکھنا ہے۔ ہمیں اسلام کے مفاد کو دیکھنا ہے اور ہماری سب سے بڑی جو وفا کا رشتہ ہے وہ پاکستان اور اسلام کے ساتھ ہے اور ہاں جو وقت کا مقتدر اور حاکم ہے وہ سب سے زیادہ مسؤل ہے جواب دہ ہے Accountable اور اسکی گرفت زیادہ ہونی چاہیے لیکن اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ جو اپوزیشن میں ہے اس کو فری ہینڈ دے دیا جائے غلط کو غلط کہو کوئی بھی کرے۔
س۔ آپریشن ضربِ عضب کے بعد ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں واضح کمی واقع ہوئی ہے لیکن ابھی بھی خود کش حملہ آور دہشت گردی کے واقعات کا باعث بنتے ہیں۔ ہمارے مذہب میں خود کش حملہ آور کے اس مذموم اور مکروہ عمل کی کیا حیثیت ہے؟
ج۔ میں نے تو تمام مکاتبِ فکر کے 60 علماء کی تائید کے ساتھ اس وقت فتویٰ جاری کیا کہ جب یہ حکم حق کہنا ذرا مشکل تھا اب یہ مشکل نہیں ہے۔ نیشنل ایکشن پلان اور 21ویں آئینی ترمیم کے بعد اب یہ قوم کا اجماعی اور کلی ایک رائے آ چکی ہے پارلیمنٹ کے توسط سے کہ اب جو ہماری سرحدوں کے اندر آمادہ فساد ہیں وہ پاکستان کے دشمن ہیں انسانیت کے دشمن ہیں اسلام کے دشمن ہیں اور کسی رعایت کے مستحق وہ نہیں ہیں۔ لہٰذا اسی لئے قوم جو ہے وہ ضربِ عضب کے حوالے سے مسلح افواج کی پشت پر کھڑی ہو گئی۔ اور جو ہماری سیاسی قیادت ہے اس نے بھی اب اس کوOwn کیا ہے۔ تو اب میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔ کیونکہ جب تک ملک میں امن نہیں ہوگا تو سرمایہ کاری کے لئے معیشت کے فروغ اور ترقی کے لئے فضا سازگار نہیں ہو سکتی۔ ہمیں زبانی طور پر تو باہر کے انویسٹرز کو یا باہر جو پاکستانی بیٹھے ہیں انہیں دعوتیں دی جاتی ہیں۔ لیکن سرمایہ کار سب سے حساس پرندہ ہوتا ہے اور ذرا سا کنکر کوئی مارے تو وہ اْڑ کر نکل جاتا ہے اس لئے اس کو دو چیزیں چاہیں کہ جب اس ملک میں آئے تو جان کی سلامتی۔ مال کی سلامتی آبرو کی سلامتی اور سرمایہ کا تحفظ تو یہ میں سمجھتا ہوں کہ امن ترقی کا پہلا زینہ ہے اولین ضرورت ہے اور اس پر اب قوم کا اتفاقِ رائے ہو چکا ہے اور اس اتفاقِ رائے کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔
س۔ بچوں کو پولیو کے مرض سے محفوظ رکھنے کے لئے ویکسی نیشن کی جاتی ہے۔ لیکن کچھ حلقے اس کے خلاف ہیں۔ اسلامی نقطہ نگا ہ سے اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ج۔ تمام مکاتبِ فکر کے علماء اب پولیو کے جواز کا فتویٰ دے چکے ہیں اب اس کے پیچھے کوئی مذہبی استدلال یا مذہبی قوت باقی نہیں۔ یہ وہی فسادی لوگ ہیں جو ملک کے امن کو تہہ و بالا کرنے کے مختلف بہانے اور حیلے ڈھونڈتے ہیں اور ان کا تعاقب کر کے ان کی کمین گاہوں تک پہنچنا ضروری ہے اور تاکہ معاشرے کو امن ملے۔ چین ملے۔ سکون ملے۔ عافیت ملے