وطن عزیز میں ہونے والے حالیہ انتخابات اوران کے بعد وقوع پذیر ہونے والی سیاسی چالوں کے پس منظر میں لکھی گئی ایک تحریر۔ ہو سکتا ہے کہ اس تحریر کی اشاعت تک نئی حکومت بن چکی ہو لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس تحریر میں مضمر طنز اور پیغام اپنے مخصوص پس منظر کے ساتھ بھی اور اس کے بغیر بھی یعنی بہر حال ایک افادیت کا حامل ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ ایران میں ایک مخصوص قسم کے بھیڑیے رہتے ہیں جو گوشت کے سوا کچھ نہیں کھاتے اور کسی قسم کا کوئی ذخیرہ بھی اپنے ساتھ رکھتے نہیں۔ سخت سردیوں میں جب انھیں کھانے کے لیے کچھ نہیں ملتا تو وہ بھوک سے نڈھال ہو کر دس دس ،بیس بیس کی ٹولیوں میں جمع ہو جاتے ہیں اور باہم اتفاق سے ایک دائرے کی شکل میں محبت اور دوستی کی علامت بن کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن کوئی کسی کا اعتبار نہیں کرتا بلکہ ہر بھیڑیا اس طرح بیٹھتا ہے کہ اس کی نظر سب پر پڑے۔ اس طرح وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیر تک بیٹھے رہتے ہیں اورجونہی کسی کی آنکھ لگتی ہے تو باقی سب اسے چیر پھاڑ کرکھا جاتے ہیں۔ سرِدست اس کہانی کی تشریح و توضیح کا معاملہ کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔حسرت موہانی نے کہا تھا کہ سیاست کوئلوں کی دلالی ہے جس میں سب کے ہاتھ کالے جب کہ اکثر کے تومنہ بھی کالے ہوجاتے ہیں۔ان کے اس بیان میں کمی یا بیشی کرنا بدعت کرنے کے مترادف ہو گا تاہم حالیہ انتخابات کے انعقاد کے بعد وطن ِ عزیز میں سیاسی صورتِ حال کا منظر نامہ کسی حد تک بڑا شائستہ اورمہذب دکھائی دے رہا ہے۔خلاف ِ توقع بلکہ خلاف ِ دستور ہمارے سیاستدان اپنے سیاسی حریفوں کے گھروں میں جا رہے ہیں۔عشائیے اور ظہرانے روز کا معمول بن چکے ہیں۔ملا قاتوں ،اچھی اچھی باتوں اور مسکراہٹوں کے جام گردش میں ہیں۔نئے نئے عہدو پیماں باندھے جا رہے ہیں۔سبھی روٹھے ہوؤں کو محبو بانہ انداز میں منایا جا رہا ہے۔کمال وسیع الظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماضی کے ترش رویوں اور غلطیوں کی کھلے عام معافیاں مانگی جا رہی ہیں،اتحا دو اتفاق کے نعرے بلندہو رہے ہیں اورساتھ جینے اور ساتھ مرنے کی قسمیں کھائی جا رہی ہیں۔لیکن کیوں؟ جناب وہ اس لیے کہ
منزل جب ایک ہو تو جدا کیوں ہوں
راستے میں اپنے ساتھ لے کے چلوں گا رقیب کو
قوم کے وسیع تر مفاد کو ترجیح دینے کا ڈھنڈورا صبح و شام اس قدر وافر مقدار میں پیٹا جا رہا ہے کہ ہمارے سیاستدان ہمارے لگ ہی نہیں رہے۔ایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ لوگ کسی دوسرے ملک سے آئے ہیں(ویسے آپس کی بات ہے ان میں سے اکثر باہر سے ہی آ ئے ہیں)۔یقین کیجیے پاکستان کی پوری تاریخ میں سیاستدانوں کی باہمی دوستی اور الفت و محبت کے ایسے مناظر پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے۔
حکمرانوں کے ان بدلے ہوئے رویوں پر عوام کا ایک گروہ(جن میں ،میں بھی شامل ہوں)بہت خوش ہے۔اس گروہ کی دعا ہے کہ اللہ کرے یہ جو کچھ ہم دیکھ اور سن رہے ہیں وہ سچ ہو جب کہ لوگو ں کا دوسرا گروہ اس صورتحال کو شک کی عینک سے دیکھ اور جانچ رہا ہے۔اس گروہ کو تشویش ہے کہ کہیں یہ سیاستدان دوستی کی آڑ میں ہمارے ساتھ کوئی گھناؤنا مذاق تو نہیں کر رہے چونکہ یہ گروہ گذشتہ چھ دہا ئیو ں سے اپنے حکمرانوں کے کڑوے کسیلے رویوں،ناقابل ِ برداشت عادات و خصائل اور غیر اخلاقی معمولات کے طمانچے کھانے کا وسیع تجربہ رکھتا ہے اس لیے ان کا استفسار ہے کہ بھلا چوہے اور بلی میں بھی کبھی دوستی ہو سکتی ہے؟کیا شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پانی پی سکتے ہیں؟کیا آگ اور پانی کا ملاپ ممکن ہے؟مختصر یہ کہ گھوڑا اگر گھاس سے دوستی کرے گا تو بھلا کھائے گا کیا؟
ذرا سوچیے کہ خدشات اور اندیشوں کی فصل ہمارے قلب و ذہن میں نہ چاہتے ہوئے بھی کیوں اگ آ تی ہے؟اس کا دو حرفی جواب تو یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان آج وہ کر رہے ہیں جو وطن ِ عزیزمیں پہلے کبھی نہیں ہوا،لیکن یاد رہے کہ دوستی ،پیار، محبت،امن اور ملکی مفاد کی خوش نوا صداؤں کے در پردہ کچھ اور تو نہیں چھپا ہوا؟ان دوستیوں کا حال نواز واجپائی دوستی کی طرح کا تو نہیں ہو جائے گا؟یہ دوستیاں ‘‘گرگٹ ’’یا ‘‘بازی گر کھلا’’ کے مصداق تو ثابت نہیں ہوں گی؟یا بقول احمد فراز تکلفات کو خلوص نہ سمجھا جائے کیونکہ
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
حقیقت یہ ہے کہ دوستی بڑی انمول اور پاکیزہ متاع ہے۔دوستی کا شجرمفادات کے پانی سے پروان نہیں چڑھتا بلکہ اسے سچ کی دھوپ ، خلوص و محبت کی ہوااور اعتماد کی زمین درکار ہوتی ہے تب کہیں جا کر یہ شجر ثمر بار ہوتا ہے لیکن موجودہ حکمرانوں کی ان دوستیوں کو کیا نام دیا جائے۔ کہیں یہ بغل میں چھری منہ پہ رام رام والا معاملہ تو نہیں۔خیر جو بھی ہومگر ان سیاستدانوں کو یہ مشورہ تو ضرور دیا جا سکتا ہے کہ
دوستی جب کسی سے کی جائے
دشمنوں سے بھی رائے لی جائے
اب سوال یہ ہے کہ ہمارے آقاؤں کو ‘دوستی دوستی’ کا کھیل کھیلنے پر کس نے مجبور کیا؟سچی بات تو یہ ہے کہ اس ساری شرارت کے پس ِ پردہ عوام کا ہاتھ ہے جنھوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ووٹ کا استعمال بڑی دانشمندی سے کیا اور کسی ایک پارٹی کو واضح عددی اکثریت نہ دے کر ایک دوسرے کی گلیوں کی خاک چھاننے پر مجبور کر دیا ۔
بات کو سمیٹتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ اسمبلیوں کی تشکیل کے بعد کارو بار ِ حکومت کا بازار کھل جائے گا تاہم آنے والی حکومت کے سامنے ماضی کے بر عکس مسائل کا انبار کچھ زیادہ ہی ہے اس لیے ان سے نمٹنے کے لیے بڑی جانفشانی،قوت ِ برداشت، تحمل،بردباری اور جذبہ حب الوطنی کی انتہائی ضرورت ہو گی اور یوں بھی کالا باغ ڈیم کی تعمیر،آئینی ترامیم ،دہشت گردی کا خاتمہ،پریس کی آزادی،فوج کو سیاست سے طلاق،ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی خود مختاری جیسے مسائل کا حل صرف ضمیر کی سیاست میں ہی مضمر ہے۔
اگر ان مسائل کو آنے والی حکومت نے قابل ِاعتنا نہ سمجھا تو یاد رکھیے کہ یہ رفاقتیں شراکتوں میں،اور یہ شراکتیں بغاوتوں میں،اوریہ بغاوتیں عداوتوں میں،اور یہ عداوتیں قباحتوں میں،اور یہ قباحتیں حماقتوں میں،اور یہ حماقتیں کہاوتوں میں بدل جائیں گی۔