انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں ماحول سے متعلق اقوامِ متحدہ کی حالیہ کانفرنس بڑی ہنگامہ خیز رہی۔ یہ محض فضائی آلودگی کو کم کرنے کی کوششوں میں ہی ایک سنگِ میل نہ بنی بلکہ دنیا کے سیاسی ماحول کو بدلنے کا بھی ایک اشارہ بن گئی۔ معاملات دنیا پر امریکی اجارہ داری کو اس میں زوردار جھٹکے لگے اور اس کا تکبر چرمرا گیا۔ ‘‘برائے مہربانی آپ یہاں سے تشریف لے جائیں’’۔ یہ بات امریکی نمائندوں سے افریقہ کی ایک انتہائی معمولی اور چھوٹی سی مملکت پپوانیوگوئنا کے نمائندے نے کہی جس کے تھوڑی ہی دیر بعد امریکیوں نے ‘‘یوٹرن’’ لیا اور معاملات میں اتفاق رائے کے ساتھ شریک ہونے پر آمادہ ہوگئے۔
دراصل امریکا فضا میں زہریلی گیسوں کو کم کرنے کے معاہدے ‘‘کیوٹو پروٹوکول’’ سے ابھی تک خود کو الگ رکھے ہوئے تھا اور اب اس معاہدے کی مدت پوری ہونے کے بعد نئے اہداف متعین کرنے کی کوششوں میں بھی اڑنگیں ڈال رہا تھا جس کی وجہ سے ماحولیات کی بین الاقوامی تنظیم ‘‘گرین پیس’’ نے امریکا پر ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کی بین الاقوامی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کا الزام لگایا اور یورپی یونین نے دھمکی دی کہ اگر بش انتظامیہ نے گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے مجوزہ اہداف سے اتفاق نہیں کیا تو وہ اگلے مہینے اس موضوع پر امریکا کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس کا بائیکاٹ کرے گی۔ امریکا کے اس اڑیل رویے میں تبدیلی کے بعد ہی یہ ممکن ہوسکا کہ بالی میں ہونے والی کانفرنس کسی نتیجے پر پہنچی اور یہ طے ہوا کہ ۲۰۰۸ء کے اختتام تک نئے معاہدے کے خطوط طے کرلیے جائیں گے۔ نیا معاہدہ ۲۰۱۲ء کے بعد لاگو ہوگا کیونکہ اس وقت کیوٹو معاہدے کی مدت پوری ہوجائے گی۔
کیوٹو معاہدہ
جاپان کے کیوٹوشہر میں ۱۱دسمبر ۱۹۹۷ء کو یہ معاہدہ ہوا تھا جسے Kyoto Protocol کہا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ دراصل ماحولیاتی تبدیلی کے سلسلے میں اقوامِ متحدہ کے ایک جامع پروگرام United Nations Framwork Covention on Climate Change (UNFCCC) کا حصہ ہے۔ موسموں میں غیرمعمولی تغیر اور فضا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی حدت (وارمنگ) پر قابو پانے کے لیے یہ باڈی ۱۹۹۲ء میں تشکیل دی گئی تھی۔ اس کے تحت جب اقوامِ متحدہ کے اراکین کی تیسری میٹنگ کیوٹو میں منعقد ہوئی تھی تو اس وقت یہ تجویز پاس ہوئی کہ ممبرممالک ان گیسوں کو جو گلوبل وارمِنگ کا سبب بن رہی ہیں، کم کرنے کے لیے اپنے اپنے دائرے میں کچھ متعین اہداف پورے کریں۔ یعنی صنعتی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ان ‘‘گرین ہاؤس گیسوں’’ کے اخراج پر طے شدہ حد تک کنٹرول کریں۔ اس تجویز پر دستخط کرنے کے لیے ممبر ملکوں کو پورے ایک سال (۱۶ مارچ ۱۹۹۸ء سے ۱۵ مارچ ۱۹۹۹ء تک) کا وقت دیا گیا لیکن کئی بڑے صنعتی ملکوں نے اس پر دستخط نہیں کیے کیونکہ اس کے نتیجے میں انھیں اپنی صنعتی سرگرمیوں میں کمی لانی پڑتی اور ان کے خیال میں ان کی ترقی کی رفتار سست ہوجاتی۔ نومبر ۲۰۰۴ء میں جب روس نے اس پر دستخط کیے تو بالآخر ۱۶ فروری ۲۰۰۵ء کو یہ لاگو ہوگئی لیکن آسٹریلیا، قازقستان اور امریکا پھر بھی اس کے دائرے سے باہر ہی رہے۔
پروٹوکول کی شرائط
اقوامِ متحدہ کے ایک پریس ریلیز کے مطابق ‘‘کیوٹو پروٹوکول ایک ایسا معاہدہ ہے جس کے تحت صنعتی ممالک ۱۹۹۰ء میں ریکارڈ کیے گئے گرین ہاؤس گیسوں کے مجموعی اخراج کے مقابلے میں آئندہ اخراج کو پانچ اعشاریہ دو فی صد تک کم کریں گے (یہ ٹارگٹ ۲۰۱۰ء میں متوقع اخراج کے مقابلے ۲۹ فی صد کمی کے برابر ہوگا)۔ چھ گرین ہاؤس گیسوں: کاربن ڈائی آکسائڈ، میتھین، نائٹرس آکسائڈ، سلفر ہیکسا فلورائڈ، ہائی ڈرو فلورو کابن، پرفلورو کابن کی سطح ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۲ء کے درمیان فضا میں کمی کی جائے گی’’۔
۲ء۵ فیصد کے اس مجموعی نشانے کو جب ممالک کے درمیان ان کے اخراج کے تناسب سے تقسیم کیا گیا تو یورپی یونین کے ملکوں پر ۸ فی صد، امریکا پر ۷ فی صد اور جاپان پر ۶ فی صد کمی لانے کی ذمہ داری آئی۔ یہ ان ممالک میں شامل ہیں جنہیں ۵۵ فی صد فضائی آلودگی اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا ذمہ دار مانا گیا ہے۔ ان تمام ملکوں کو ایک خصوصی فہرست (Annex I) میں شمار کیا گیا ہے جس میں شامل ممالک ہی گرین ہاؤس گیسوں میں کمی لانے کے پابند کیے گئے ہیں۔ ترقی پذیر ملکوں پر یہ ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ہے کیونکہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ان کی حصہ داری کم ہے۔ پروٹوکول کے بنیادی اصولوں میں ہی یہ تین اہم باتیں تسلیم کی گئی ہیں کہ:
(۱) عالمی سطح پر گیسوں کا اخراج سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملکوں میں ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔
(۲) ترقی پذیر ملکوں میں فی کس اخراج کا تناسب نسبتاً ابھی کم ہے، اور
(۳) ترقی پذیر ملکوں میں ان کی سماجی اور ترقیاتی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے گیسوں کے اخراج کا موجودہ تناسب مزید بڑھے گا’’۔ چنانچہ ہندوستان اور چین جیسے تیزی سے ترقی کرنے والے ملک بھی اس فہرست سے باہر ہیں جب کہ امریکا کا اصرار یہ ہے کہ یہ ملک آئندہ برسوں میں آلودگی کے زیادہ ذمہ دار ہوں گے۔ اس لیے ان ملکوں پر بھی یہ پابندیاں عائد کی جائیں۔
اس معاہدے کو امریکا اور قازقستان کے علاوہ باقی ملکوں نے دھیرے دھیرے تسلیم کرلیا اور اس میں طے کیے گئے ٹارگٹ ۲۰۱۲ء تک پورے کرلیے جائیں گے۔ جو ملک اپنے اہداف پورے کرنے میں ناکام رہیں گے، انھیں آئندہ کے اہداف میں کچھ مزید اضافہ پنلٹی کے طور پر قبول کرنا ہوگا۔ اس معاہدے میں ترقی پذیر یا پسماندہ ملکوں کے لیے گیسوں کے اخراج کا ایک کوٹہ متعین کیا گیا ہے اور اسے پورا نہ کرسکنے کی صورت میں انھیں اپنے کوٹے میں سے ترقی یافتہ ملکوں کو ‘‘کاربن کریڈٹ’’ بیچنے کا حق دیا گیا ہے۔ اس طرح یہ صنعتی ترقی کے نتیجے میں خارج ہونے والی زہریلی گیسوں کو محدود کرنے کا ایسا انتظام ہے جس کے تحت غیرترقی یافتہ ملکوں کو مزید ترقی کرنے کا موقع دیا گیا ہے اور ترقی یافتہ ملکوں کو اپنی مزید ترقی کے لیے ماحول کو آلودہ نہ کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔
ترقی کے لیے ماحول آلودہ
صنعتی ترقی کے لیے ایندھن اور توانائی کے روایتی ذرائع یعنی کوئلہ، تیل اور گیس وغیرہ گرین ہاؤس گیسوں کو پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں اور دوسری طرف یہ کم ترقی یافتہ ملکوں یا ترقی پذیر ملکوں کو مہیا آسان اور سستا ذریعہ بھی ہیں، اس لیے بحث اس بات پر ہے کہ ترقی یافتہ ممالک جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دیں اور آسان قیمتوں پر دیگر ملکوں کو فراہم کریں۔ جب تک یہ نہیں ہوتا تب تک توانائی کے روایتی ذرائع پر زیادہ انحصار ترقی پذیر ملکوں کا رہے گا اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا حق ان کے لیے تسلیم کیا جائے گا۔
ترقی، مقابلے اور اجارہ داری کی دوڑ میں سبقت بنائے رکھنے کے لیے امریکا ایسا کوئی رسک لینے کو تیار نہیں ہے اس لیے اس کا رویہ اس معاملے میں بڑی حد تک عدم تعاون کا رہا ہے اور وہ اپنے لیے کوئی تحدید قبول کرنے کو آمادہ نہیں ہے۔ ہندوستان اور چین کی ترقی سے وہ تشویش میں ہے اس لیے امریکی حکومت اور اس کے ادارے ان دونوں ملکوں کو بطور خاص، ماحول کے لیے خطرہ قرار دینے پر زور دے رہے ہیں۔ جنوری ۲۰۰۶ء میں ایک امریکی تھنک ٹینک ورلڈ واچ انسٹی ٹیوٹ نے رپورٹ دی کہ ‘‘چین اور بھارت کی ترقی کرنے کی خواہش سے خطۂ ارض کے ماحول کو خطرات لاحق ہیں کیونکہ بھارت اور چین کے قدرتی ذرائع ان کی ترقی کی خواہش کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے’’۔ امریکی اداروں کے خیال میں چین اور بھارت پانی اور توانائی کی کمی کی وجہ سے ‘‘ترقی کے یورپی معیار’’ کو نہیں پہنچ سکتے۔
کیوٹو پروٹوکال نافذ ہونے کے بعد، گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والے ملکوں کی ایک سربراہ کانفرنس دسمبر ۲۰۰۵ء میں کینیڈا میں ہوئی جس میں بمشکل تمام امریکا نے صرف مذاکرات میں شریک ہونے پر آمادگی کا اظہار کیا، تاہم اس کے فیصلے ماننے سے انکار کردیا۔ امریکا کے اس لگاتار عدمِ تعاون پر اس وقت اقوامِ متحدہ کے ایک عہدیدار نے برسرِ عام یہ تبصرہ کیا کہ ‘‘اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ باقی دنیا سے کتنے کٹے ہوئے ہیں اور گلوبل وارمنگ کے مسئلے کو حل کرنے میں کتنے غیرسنجیدہ ہیں’’۔ اس سال کے وسط میں جرمنی میں ہونے والی جی ایٹ کانفرنس میں جب میزبان ملک نے کیوٹو پروٹوکال کو کامیاب بنانے پر اصرار کیا تو امریکی صدر نے اعلان کیا کہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنے یہاں گیسوں کے اخراج میں کچھ کمی لائیں گے لیکن امریکا کوئی ہدف قبول نہیں کرے گا۔ اسی کے ساتھ یہ وعدہ بھی کیا گیا۔ کیوٹو پروٹوکال کے بعد نیا نظام لانے کی کوششوں میں امریکا تعاون کرے گا۔
نئے نظام کی کوشش
چنانچہ کیوٹو معاہدے کی مدت پوری ہونے (۲۰۱۲ء) کے بعد زہریلی گیسوں میں کمی کرنے کے نئے اہداف طے کرنے کے لیے دسمبر کے شروع میں جب بالی میں کانفرنس شروع ہوئی تو سب کی نگاہیں امریکا کے رویے پر ٹکی ہوئی تھیں۔ امریکی مندوب آخر وقت تک اس بات پر اڑے رہے کہ ‘‘اہداف نہیں تھوپے جانے چاہییں’’۔ لیکن زہریلی گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج کرنے کا ذمہ دار ہونے کی وجہ سے امریکا کی شرکت کے بغیر کوئی نیا معاہدہ کارگر نہیں سمجھا جا رہا تھا۔ اس بات کو لے کر کانفرنس میں کافی تناؤ کا ماحول بنا رہا۔ کانفرنس اپنی طے شدہ مدت سے بھی زیادہ وقت تک چلی اور راتوں میں بھی کانفرنس کے سیشن چلتے رہے۔
یہ کانفرنس امریکی رویے کی وجہ سے ناکام ہونے کے قریب پہنچ گئی تھی لیکن افریقی ملکوں کے شدید ردعمل سے گھبرا کر امریکیوں نے آخر وقت میں اپنا موقف تبدیل کیا اور اس معاہدے کے نکات طے کرنے کے لیے ایک درمیانی مدت طے کرنے کی بات کہی جس کے نتیجے میں یہ طے پایا کہ دو سال کے اندر یعنی ۲۰۰۹ء تک نئے معاہدے کے خطوط متعین کرلیے جائیں گے۔ یہ معاملہ اتنا نازک اور حساس ہوگیا تھا کہ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون جوکہ کانفرنس کو خطاب کرکے اپنے آگے کے سفر پر روانہ ہوچکے تھے، انھیں اپنا پروگرام تبدیل کر کے اچانک بالی واپس آنا پڑا اور التجائی لہجے میں انھوں نے اپیل کی کہ ‘‘ہر فریق خود کو سمجھوتہ کرنے کا اہل بنائے’’۔
آخری لمحوں میں ایک اور کشیدگی یورپی ملکوں کے رویے کی وجہ سے بھی پیدا ہوگئی تھی۔ یورپی ممالک امریکا کے اصرار پر نئے معاہدہ کا خاکہ طے کرنے کے موقف سے پیچھے ہٹ گئے تھے اور ہندوستان، چین اور دیگر ترقی پذیر ملکوں پر دباؤ بنانے لگے تھے۔ ڈپلومیٹک دھوکا دہی کی کوششیں بھی اس آخری لمحے میں ہوئیں۔ ترقی پذیر ملکوں کی ایک قرارداد جس پر اتفاق رائے ہوچکا تھا، یہ تھی کہ ترقی یافتہ ممالک ‘‘خلین ٹیکنالوجی’’ ترقی پذیر ملکوں کو فراہم کرنے کا میکانزم وضع کریں لیکن امریکی اور یورپی مندوب ووٹنگ کے وقت اس کی جگہ ایک دوسری قرارداد ٹیبل پر لے آئے جس میں ترقی پذیر ملکوں سے گیسوں کے اخراج میں کمی کرنے کو کہا گیا تھا۔ اس معاملے نے بھارت کے مندوب، وزیرسائنس اور ٹکنالوجی کپل سبل کو مشتعل کردیا اور انھوں نے اس طرح کے فورموں میں عام طور سے استعمال نہ کیے جانے والے لب و لہجے میں یورپی ملکوں پر تنقید کی جس کا اثر یہ ہوا کہ یورپی یونین کے ملک امریکی طرف داری سے پلٹ گئے اور ترقی پذیر ملکوں کی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔
اس کانفرنس میں ۲۰۲۰ء کے لیے گیسوں کے اخراج میں کمی کا ہدف طے کرنا تھا اور یہ ہدف ۱۹۹۰ء کی سطح میں تیس سے چالیس فیصد تک کمی کا ہے۔ ہندوستان، چین اور دیگر ترقی پذیر ممالک نئے معاہدے کو بھی کیوٹوپروٹوکال کی طرز پر ہی آگے بڑھانا چاہتے ہیں جس میں انھیں گیسوں کو کم کرنے کا کوئی ہدف نہ دیا جائے اور ترقی یافتہ ملکوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ ترقی پذیر ملکوں کو ‘‘کلین ٹیکنالوجی’’ مہیا کریں۔ کانفرنس میں ایجنڈے کے تحت معاہدہ تو نہ ہوسکا لیکن ترقی پذیر ملکوں کے نمائندوں کا خیال ہے کہ اصولی طور پر کچھ باتیں تسلیم کرلی گئی ہیں۔
اصولی بات
اس کانفرنس سے یہ بات ایک بار پھر واضح ہوگئی ہے کہ گلوبل وارمِنگ پر کنٹرول کرنے کی یہ عالمی کوشش قومی مفادات اور مصلحتوں کے ٹکراؤ کی وجہ سے قوتِ ارادی سے خالی ہے۔ فضائی آلودگی اور موسموں میں غیرمعمولی تغیر کا مطالعہ کرنے والے ادارے اور اسکالرز دنیا کو آلودگی کے بھیانک خطرات سے خبردار کر رہے ہیں اور یہ خطرے اقوامِ عالم کو اس سلسلے میں اجتماعی کوششوں کی فکر دے رہے ہیں لیکن ان کوششوں کو بھی سیاست کی بساط پر ایک دوسرے کو مات دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔