مرتب ، منظو ر الحسن
(جناب جاوید احمد غامدی کے خطاب سے اقتباس)
خواتین و حضرات ،قرآنِ مجید اور انبیا کے طریقے سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی دعوت انسان کو اس کے داخل کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ دین کی دعوت اپنی حقیقت کے اعتبار سے دنیوی مسائل کے حل کی دعوت نہیں ہوتی بلکہ یہ تو مسئلہء زندگی ہی کو تبدیل کر دینے کی دعوت ہے۔دنیا کے مسائل ہمیشہ سے رہے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ انسان ان مسائل کو حل کرنے کی تدبیریں بھی سوچتا ہے اور نئے نئے طریقے بھی اختیار کرتا ہے،لیکن اللہ کے پیغمبر جب مبعوث ہوتے ہیں تو وہ اصل میں مسئلے ہی کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ وہ انسانوں کے لیے دنیا کو ضمنی توجہ کا مسئلہ بنا دیتے اورآخرت کو اصل توجہ کا مسئلہ بنا دیتے ہیں۔ہمیں اپنے مالک کے حضور میں پیش ہونا ہے۔ یہ منزل موت کے راستے سے گزر کر آئے گی۔اس منزل کو لوگوں کا اصل مسئلہ بنا دیا جائے۔ دنیا کے مسائل توان کی دلچسپیوں کا مرکز بنتے ہی ہیں، ان سے کہیں بڑھ کر، ان سے کہیں آگے آخرت کا مسئلہ انسانوں کی دلچسپی اور توجہ کا مرکز بن جائے۔یہ فکر انسان کی زندگی کا احاطہ کر لے کہ مجھے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ایک نئی دنیا میں قدم رکھنا ہے۔وہاں میں اپنے نامہ اعمال کے ساتھ اپنے پروردگار کے حضور میں حاضر ہوں گا۔میں جب وہاں حاضر ہوں گا تو اپنی کسی کوتاہی، کسی خامی، کسی لغزش کوچھپا نہ سکوں گا۔جو کچھ میں نے اس دنیا میں کیا ہے وہ سب کچھ بالکل ترتیب پا کرنامہ اعمال کی صورت میں میرے سامنے موجود ہو گا۔ مجھے اس نامہ اعمال کا سامنا کرنا ہے۔ جب میں اپنے مالک کے حضور اس کا سامنا کرنے کے لیے اٹھوں گا تو کوئی بات نہ بنا سکوں گا۔ کوئی چیز فدیے میں پیش نہ کر سکوں گا۔ کوئی بہانہ نہ تراش سکوں گا۔کوئی سفارش نہ پیش کر سکوں گا۔ میں ہوں گا اور میرا پروردگار ہو گا۔ میں اس احتساب کے عمل سے گزرنے پر مجبور ہوں گا جو اس موقع کے لیے برپا کر دیا گیا ہو گا اور جس کا وعدہ عالم کے پروردگار نے کیا ہے۔ وہاں جس مرحلے سے مجھے گزرنا ہے اس کانتیجہ ابدی نقمت کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے اور ابدی رحمت کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔ مجھے بہرحال، ابدی رحمت کو پانے کی جدو جہد کرنی ہے۔مجھے یہ جدو جہد اس دنیا میں رہ کر کرنی ہے۔ یہ دنیا دارالعمل ہے۔میں یہ جدوجہد یہاں کر سکاتو وہاں اس کے نتائج دیکھوں گااورمیری موت کے بعد اس جدوجہد کا راستہ بند ہو جائے گا۔
یہ دین کی دعوت کا بنیادی نکتہ ہے اور یہی دین کی دعوت کا اصل موضوع ہے۔ انبیائے کرام کی دعوت میں اس چیز کو ہمیشہ غیر معمولی حیثیت حاصل رہی ہے۔ وہ اس کو غایت، مقصد اور نصب العین بنا کر جدو جہد کرتے ہیں اور لوگوں میں اس کا اتنا ذوق پیدا کر دیتے ہیں کہ لوگ ان سے پوچھتے ہیں کہ اے پیغمبر، اے اللہ کے رسول،آپ ہمیں بتائیے کہ ہم جہنم سے کیسے بچ سکتے اور جنت کو کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ بات کہ میں جہنم سے کیسے بچ سکتا اور جنت کو کیسے حاصل کر سکتا ہوں انسان کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بن جائے۔ اتنا بڑا مسئلہ بن جائے کہ اس کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا اسی کے زیرِ اثر آ جائے۔وہ دنیا میں اپنی معاشرتی ضروریات پوری کرے ، اپنے سیاسی مسائل حل کرے ، سب کچھ کرے لیکن اس کا اصل مسئلہ آخرت کو بننا چاہیے۔انبیا علیھم السلام کی دعوت کا مرکزی نکتہ یہی ہے۔ یعنی مسئلہ تبدیل کردیا جائے۔ دنیوی مسائل کم تر درجے پر آ جائیں۔ ان مسئلوں کی حیثیت ضمنی ہو جائے۔ اصل مسئلہ یہ بن جائے کہ اسے ایک دن اپنے مالک کے حضور میں کھڑے ہونا ہے۔یہ احساسِ جواب دہی پیدا کر دینا، اس کے لیے انسانی ذہن کو بیدار کر دینا، اس کو روح اور دل کے اعماق میں اتار دینا ہی انبیا علیھم السلام کی جدوجہد کا اصل مقصد رہا ہے۔ آپ میرے لیے دعا کریں کہ آخرت میرے لیے اصل مسئلہ بن جائے اور میں آپ کے لیے دعا گو ہوں کہ یہ آپ لوگوں کا اصل مسئلہ بن جائے۔ اس بنیادی مسئلے کی تذکیر ، اس کی نصیحت ، اس کے لیے ذہنوں کو ہموارکرنا، اس کی طرف بنی آدم کو متوجہ کرنا اور بار بار متوجہ کرنا ، یہی درحقیقت وہ چیز ہے جس کو دین کی دعوت کہتے ہیں۔ آخرت اگر بنیادی مسئلہ نہ بن جائے اور انسان کے لیے غایت اور نصب العین کی حیثیت نہ اختیار کر لے تو سچی بات یہ ہے کہ وہ اس آزمایش میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔