ماں

مصنف : قدرت اللہ شہاب

سلسلہ : ادب

شمارہ : جولائی2016

ادب
ماں جی 
قدرت اللہ شہاب
دوسری قسط

ماں جی پر ان مکالموں کا کچھ اثر نہ ہوتا تھا لیکن ایک بارماں جی رشک وحسد کی اس آگ میں جل بھن کر کباب ہو گئیں جو ہر عورت کا ازلی ورثہ ہے۔
گلگت میں ہر قسم کے احکامات گورنری کے نام پر جاری ہوتے تھے جب یہ چرچا ماں جی تک پہنچا تو انہوں نے عبداللہ صاحب سے گلہ کیا۔بھلا حکومت تو آپ کرتے ہیں لیکن گورنری گورنری کہہ کر مجھ غریب کا نام بیچ میں کیوں لایا جاتا ہے خوامخواہ۔
عبداللہ صاحب علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے رگِ ظرافت پھڑک اْٹھی اور بے اعتنائی سے فرمایا ،بھاگوان،یہ تمہارا نام تھوڑی ہے گورنری تو دراصل تمھاری سوکن ہے جو رات دن میرا پیچھا کرتی ہے۔مذاق کی چوٹ تھی۔ عبداللہ صاحب نے سمجھا بات آئی گئی ہو گئی ۔لیکن ماں جی کے دل میں غم بیٹھ گیا۔ اس غم میں وہ اندر ہی اندر کڑھنے لگیں۔ کچھ عرصہ بعد کشمیر کا مہاراجہ پرتاپ سنگھ اپنی مہارانی کے ساتھ گلگت کے دورے پر آیا۔ماں جی نے مہارانی کو اپنے دل کا حال سنایا مہارانی بھی سادہ عورت تھی، جلال میں آ گئی۔ہائے ہائے ہمارے راج میں ایسا ظلم ،میں آج ہی مہاراج سے کہوں گی کہ وہ عبداللہ صاحب کی خبر لیں۔جب یہ مقدمہ مہاراج پرتاپ سنگھ تک پہنچا تو اْنھوں نے عبداللہ صاحب کو بلا کر پوچھ گچھ کی۔عبداللہ صاحب بھی حیران تھے کہ بیٹھے بٹھائے یہ کیا افتاد آن پڑی لیکن جب معاملے کی تہہ تک پہنچے تو دونوں خوب ہنسے۔آدمی دونوں ہی وضعدار تھے ۔چناچہ مہاراجہ نے حکم نکالا کہ آئندہ سے گلگت کی گورنری کو وزارت اور گورنر کو وزیر وزارت کے نام سے پکارا جائے۔جنگ آزادی تک گلگت میں یہی سرکاری اصطلاحات رائج تھیں۔
یہ حکم نامہ سن کر مہارانی نے ماں جی کو بلا کر خوشخبری سنائی کہ مہاراج نے گورنری کو دیس نکالا دے دیا ہے۔اب تم دودھوں نہاؤ پوتوں پھلو۔کبھی ہمارے لئے بھی دعا کرنا۔
مہاراجہ اور مہارانی کے کوئی اولاد نہ تھی اس لئے وہ اکثر ماں جی سے دعا کی فرمائش کرتے تھے۔اولاد کے معاملے میں ماں جی کیا واقعی خوش نصیب تھیں ؟ یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب آسانی سے نہیں سوجھتا۔
ماں جی خود ہی تو کہا کرتیں تھیں کہ اْن جیسی خوش نصیب ماں دنیا میں کم ہی ہوتی ہے۔ لیکن اگر صبر و شکر تسلیم ورضا کی عینک اْتار کر دیکھا جائے تو اس خوش نصیبی کے پردے میں کتنے دکھ کتنے غم کتنے صدمے نظر آتے ہیں۔اللہ میاں نے ماں جی کو تین بیٹے اور تین بیٹیاں عطا کیں ۔دو بیٹیاں شادی کے کچھ عرصے بعد یکے بعد دیگرے فوت ہو گئیں۔ سب سے بڑا بیٹا عین عالمِ شباب میں انگلستان جا کر گزر گیا۔کہنے کو تو ماں جی نے کہہ دیا کہ اللہ کا مال تھا اللہ نے لے لیا۔ لیکن کیا وہ اکیلے میں چھپ چھپ کے خون کے آنسو نہ رویا کرتی ہوں گی۔
جب عبداللہ صاحب کا انتقال ہوا تو اْن کی عمر باسٹھ سال اور ماں جی کی عمر پچپن سال تھی۔سہہ پہر کا وقت تھا عبداللہ صاحب بان کی کھردری چارپائی پر حسبِ معمول گاؤ تکیہ لگا کر نیم دراز تھے۔ ماں جی پائنیتی پر بیٹھی چاقو سے گنا چھیل چھیل کر ان کو دے رہی تھیں ۔وہ مزے مزے سے گنا چوس رہے تھے اور مذاق کر رہے تھے۔ پھر یکایک وہ سنجیدہ ہو گئے اور کہنے لگے ،بھاگوان شادی سے پہلے میلے میں میں نے تمہیں گیارہ پیسے دئیے تھے ۔کیا اْن کو واپس کرنے کا وقت نہیں آیا ؟ ماں جی نے نئی نویلی دلہنوں کی طرح سر جھکا لیا اور گنا چھیلنے میں مصروف ہو گئیں۔
ان کے دل میں بیک وقت بہت سے خیال اْمڈ آئے ،ابھی وقت کہاں آیا ہے سرتاج شادی کے پہلے گیارہ پیسوں کی تو بڑی بات ہے۔ لیکن شادی کے بعد جس طرح تم نے میرے ساتھ نباہ کیا ہے اس پر میں نے تمہارے پاؤں دھو کر پینے ہیں۔اپنی کھال کی جوتیاں تمہیں پہنانی ہیں۔ابھی وقت کہاں آیا ہے میرے سرتاج۔
لیکن قضا وقدر کے بہی کھاتے میں وقت آچکا تھا۔جب ماں جی نے سر اْٹھایا تو عبداللہ صاحب گنے کی قاش منہ میں لئے گاؤ تکیہ پر سو رہے تھے ۔ماں جی بہتیرا بلایا ہلایا چمکارا لیکن عبداللہ صاحب ایسی نیند سو گئے تھے ۔جس سے بیداری قیامت سے پہلے ممکن ہی نہیں۔
ماں جی نے اپنے باقی ماندہ دونوں بیٹوں اور ایک بیٹی کو سینے سے لگا کر تلقین کی۔بچہ رونا مت ،تمہارے ابا جی جس آرام سے رہے تھے،اْسی آرام سے چلے گئے۔ اب رونا مت اْن کی روح کو تکلیف پہنچے گی۔کہنے کو تو ماں جی نے کہہ دیا کہ اپنے ابا کی یاد میں نہ رونا ،ورنہ ان کو تکلیف پہنچے گی۔لیکن کیا وہ خود چوری چھپے اْس خاوند کی یاد میں نہ روئی ہوں گی۔ جس نے باسٹھ سال کی عمر تک اْنہیں ایک الہڑ دلہن سمجھا اور جس نے ’’ گورنری ‘‘ کے علاوہ اور کوئی سوکن اْن کے سر پر لا کر نہیں بٹھائی۔
جب وہ خود چل دیں تو اپنے بچوں کے لئے ایک سوالیہ نشان چھوڑ گئیں جو قیامت تک اْنہیں عقیدت کے بیاباں میں سرگرداں رکھے گا۔
اگر ماں جی کے نام پر خیرات کی جائے تو گیارہ پیسے سے زیادہ ہمت نہیں ہوتی لیکن مسجد کا ملا پریشان ہے کہ بجلی کا ریٹ بڑھ گیا ہے اور تیل کی قیمت گراں ہو گئی ہے۔
ماں جی کے نام پر فاتحہ دی جائے تو مکئی کی روٹی اور نمک مرچ کی چٹنی سامنے آتی ہے۔ لیکن کھانے والا درویش کہتا ہے کہ فاتحہ درود میں پلاؤ اور زردے کا اہتمام لازم ہے۔
ماں جی کا نام آتا ہے تو بے اختیار رونے کو جی چاہتا ہے۔لیکن اگر رویا جائے تو ڈر لگتا ہے کہ ماں جی کی روح کو تکلیف نہ پہنچے اور اگر ضبط کیا جائے تو خدا کی قسم ضبط نہیں ہوتا۔