لُعبت چین

مصنف : مولانا عبدالحلیم شرر

سلسلہ : ناول

شمارہ : اپریل 2008

قسط ۔۲

ناول اورمولانا عبدالحلیم شرر کے تعارف کے لیے مارچ کا شمارہ ملاحظہ فرمائیے۔اس قسط میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ قبائلی تعصبات امت مسلمہ کے لیے کس قدر خطرنا ک اور نقصان دہ ہیں۔

            موسیٰ سمرقند سے چلا تو جنوب کا راستہ اختیار کیا اس لیے کہ شمال میں دریائے زرافشاں سے اُترنا پڑتا جس کا انتظام دشوار تھا۔ دوسرے بالکل ناآشنا تاتاری قومیں آباد تھیں جن تک عربوں کا بالکل اثر نہیں پہنچتا تھا۔ برابر تین دن سفر کر کے چوتھے دن وہ قتیلہ نام کے ایک شہر میں پہنچا اور چاہا کہ وہاں کے حاکم سے دوستی پیدا کرکے ٹھہرے مگر اس نے ٹھہرنے نہ دیا۔ مجبوراً اس شہر کو بھی چھوڑا اور دو اور منزلیں طے کر کے شہر سبز میں پہنچا۔ یہ ایسا سرسبز وشاداب مقام تھا اور اس کے گرد کے مرغزار ایسے زندگی بخش تھے کہ ارادہ کیا کہ یہیں ٹھہر جائے مگر وہاں والوں نے بے مروتی کی۔ اگرچہ جی چاہتاتھا کہ یہاں زبردستی سکونت اختیار کرلے مگر دشمنوں سے بچنے کے لیے نہ کوئی قلعہ تھا اور نہ کوئی پناہ کی جگہ تھی۔ دل میں خیال کیا کہ غریب الوطنوں کو ایسی بے پناہ جگہ قرار نہ لیناچاہیے۔ شہرسبز کے مرغزاروں کو بھی حسرت کے ساتھ چھوڑا اور دو دن اورسفر کر کے شہر کش میں پہنچا جس کے قلعے کی تعریف سنی تھی۔ اس قلعے کو دیکھ کے خوش ہوگیا اور اپنے ہمراہی دوستوں سے کہا: ‘‘یہ البتہ اطمینان سے بیٹھنے کی جگہ تھی مگر افسوس یہ لوگ بھی ہمارے ٹھہرنے کے روادار نہ ہوں گے مگر دیکھوں تو یہاں کا حاکم کیا کہتا ہے’’۔ فوراً مالک بن عوف سلمی کو ایلچی بنا کے حاکم کش کے پاس بھیجا اور عاجزی کے لہجہ میں درخواست کی کہ ‘‘ہم تھوڑے سے غریب الوطنان عرب ہیں آپ کے مہمان ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں اپنے شہر اور اپنے قلعہ میں پناہ دیں’’۔ جواب ملا کہ ‘‘نہیں، ہم تم لوگوں کو یہاں ٹھہرنے کی اجازت نہیں دے سکتے’’۔ اس سخت بے حمیتی کے جواب پر موسیٰ کو غصہ آگیا۔ وہیں کے ایک دہقانی شخص کی معرفت کہلا بھیجا: ‘‘تم اگر خوشی سے اجازت نہیں دیتے تو ہم زبردستی تمہارے شہر پر قبضے کیے لیتے ہیں’’۔ اس آدمی کو بھیجتے ہی موسیٰ کا چھوٹا سا لشکر معرکہ آرائی کے لیے تیار ہوگیا اور شہر کش کی طرف بڑھا۔ حاکم اپنی فوج کے ساتھ مقابلہ کو آیا اور لڑائی شروع ہوگئی مگر جانباز عربوں نے تھوڑی ہی دیر میں ایسی شجاعت ظاہر کی کہ حامیانِ شہر شکست کھا کے بھاگے اور عربوں نے بڑھ کے سارے شہر پر قبضہ کرلیا۔فرمان روائے کش اپنے مفرورسپاہیوں کے ساتھ قلعے میں چھپ کے بیٹھ رہا اور پھاٹک مضبوطی سے بند کرلیے۔ ساتھ ہی ایک آدمی حاکم کش نے شاہ طرخون کے پاس دوڑایا کہ عربوں نے میرے شہر پر قبضہ کرلیا ہے اور آپ نے مدد نہ کی تو مہینہ پورا ہونے سے پہلے قلعے کے بھی مالک ہوجائیں گے’’۔

            طرخون کو خبر پہنچی تو فوراً کمک بھیجنے پر آمادہ ہوگیا اور اپنے بیٹے ارسلان کو بلاکے کہا: ‘‘تم کو تلاش تھی کہ موسیٰ تمہاری معشوقہ کو لے کے کہاں گیا۔مجھے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہی یہاں سے بھاگ کے شہر کش میں پہنچاہے۔ حاکم شہر نے مزاحمت کی تو مقابلہ کر کے شہر چھین لیا۔ اب کش کا سردار اپنے قلعہ میں بند پڑا ہے اور عرب اس کے شہر پرقابض اور قلعہ کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں اگر لعبت چین نوشین کا سچا عشق ہے تو فوج لے کے جاؤ۔ موسیٰ کو قتل کرو اور اپنی محبوبہ کو اس کے پنجہ سے چھڑا کے اپنے محل میں لے آؤ۔ اس سے بہتر کوئی موقعہ نہیں ہوسکتا اور سورج دیوتا کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہارے لیے کامیابی کا ایسا اچھا موقع پیدا کردیا’’۔ارسلان: ‘‘میں اسی وقت روانہ ہوجاؤں گا اور ان سب نوجوانوں کو بھی لیتا جاؤں گا جو سپہ گرانہ مقابلہ شادی میں میرے رقیب تھے۔ وہ سب اس سے خار کھائے ہوئے ہیں’’۔

طرخون: ‘‘انہی پر موقوف نہیں، سمرقند کا ہر متنفس اس کے خون کا پیاسا ہے۔ اگر تم نے دنیا کو اس کے شر سے نجات دلا دی تو فقط اپنی آرزو نہ پوری کروگے بلکہ کش اور حاکمِ کش کو تباہی و بربادی سے بچاؤ گے۔ سارے ترکستان کو عربوں کی دستبرد سے آزاد کردو گے اور اپنے وطن کے تمام لوگوں کے دل ٹھنڈے کروگے۔ بس اب زیادہ کہنے سننے اور دیر لگانے کی ضرورت نہیں۔ موسیٰ کے ہمراہی میرے اندازے میں پانچ سو کے اندر ہی ہوں گے تم دو ہزار بہادر تورانیوں کو اپنے جھنڈے کے نیچے جمع کرو اور مسلح ہو کے روانہ ہوجاؤ’’۔

            باپ کا کہنا توتھا ہی ، ارسلان نے ذاتی جوش سے ایک ہی دن میں لشکر مرتب کرلیا۔ ترکی برقیں اڑاتا ہوا کش کی طرف چلااور روانہ ہونے سے چھٹے دن شہر کش کے سواد میں تھا۔ موسیٰ کے پاس پانچ سو کے علاوہ کچھ اور مسلمانوں کے آجانے سے پورے سات سو کی جمعیت تھی۔ دشمن کی قوت اگرچہ بہت زیادہ تھی اور ان کے برتے پر حاکم کش بھی لڑنے کو تیار ہوگیاتھا۔ موسیٰ بھاگنا اور ہمت ہار دینا خلافِ مردانگی تصور کر کے لڑنے کو تیار ہوگیا۔ اپنے بہادروں کی صفیں مرتب کیں، فوراً لڑائی شروع ہوگئی اور سخت خونریز معرکہ ہوا۔ تورانی اپنی قوت کے بھروسہ پر ہمت نہ ہارتے تھے اور عرب نام میں دھبہ لگنے کی دھن میں قدم نہ ہٹاتے تھے۔ پہر دن چڑھے لڑائی شروع ہوئی تھی۔ شام تک برابر کشت و خون ہوتا رہا۔ بہت سے مسلمان شہید ہوئے اور ان سے زیادہ نقصان دشمنوں کو پہنچا۔ غروبِ آفتاب کے بعدجب اندھیرا ہوا تو دونوں لشکر جدا ہوکے اپنے اپنے پڑاؤ میں آئے اور میدان خالی ہوگیا۔ اب موسیٰ نے دیکھا تو جتنے بہادر زندہ تھے ان میں بھی آدھے سے زیادہ زخموں سے چور تھے۔ دل میں خیال کیا کہ ان کو لڑاکے کامیاب ہونا غیرممکن ہے۔ ارسلان فقط اہلِ کش کو بچانے نہیں آیا ہے بلکہ اپنا انتقام لینے اور شہزادی نوشین کو چھیننے آیا ہے۔ وہ بغیر شہزادی کو واپس لیے مانے گا نہیں اور میں اسے دے نہیں سکتا۔ آخر اس نے تجویز کی کہ انہیں زخمی بہادروں کو آمادہ کر کے رات کو دشمنوں پر شب خون مارنا چاہیے اور اسی شب خون میں ہم دشمنوں کو مارتے کاٹتے محاصرہ سے نکل جائیں اور کسی اور شہر میں جاکے قسمت آزمائی کریں۔ یہ تجویز عرب سرداروں کے سامنے پیش کی گئی تو سب نے اسے پسند کیا اوراسی وقت کوچ کے عنوان سے شب خون کی تیاریاں ہونے لگیں۔ خیمے ڈیرے خچروں پر لادے گئے۔ عورتیں محملوں میں بٹھائی گئیں اور تین پہر رات گئے سب چل کھڑے ہوئے۔ دشمنوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ دن بھر کے تھکے ماندے اورخستہ و زخمی عرب شب خون کی جرأت کرسکیں گے۔ اکثر غافل پڑے سو رہے تھے کہ عربی لشکر ایک طوفان بلا کی شان سے ان کے سروں پر نازل ہوگیا اور تلواریں بھی بجلی کا کام کرنے لگیں۔ تورانی گھبرا گھبرا کر اُٹھے اور دشمنوں کے بجائے آپس میں دست و گریباں ہونے لگی۔اس شب خون کی غرض دشمنوں کو ہلاک کرنا نہ تھی بلکہ اصلی مقصود اپنی جان بچانا اور دشمنوں کے نرغے سے نکل جانا تھا۔ اس میں موسیٰ کوپوری کامیابی ہوگئی وہ مع اپنی فوج اور اپنے سامان کے دشمنوں کو روندتااور پامال کرتا ہوا نکل گیا اور ترک اس کے جانے کے بعد بھی بہت دیر تک آپس میں لڑتے اور خونریزی کرتے رہے۔

            موسیٰ اس عذاب سے چھوٹ کے مشرق کی طرف بھاگا۔ راتوں رات بیس کوس نکل گیا اور دریائے جیحون کے چڑھاؤ پر اس کے کنارے کنارے بڑی دُور تک چلا گیا۔ دوسرے دن دوپہر کے قریب ایک ایسے خطہ جنت نظیر میں پہنچا کہ وہاں کی تروتازہ ہوا سے تھکے ماندے بھوکے پیاسے اور خستہ و زخمی عربوں کی جان میں جان آگئی۔ یہ ایک گھاٹی تھی جس میں سے ایک چھوٹی ندی اُوپر سے گرتی اور سرسبز پہاڑوں سے ٹکراتی ہوئی آکے دریائے جیحون میں مل گئی تھی اور انسان کا کہیں پتا نہ ہونے سے یقین تھا کہ یہاں سے قریب کوئی آبادی نہیں ہے۔ سب نے یہیں کمر کھول دی اور پہاڑ کی بھول بھلیوں میں گھسے، خچروں ، گھوڑوں کو غاروں اور کھوہوں میں چھپا دیا اور گھاٹی کے اندر جاکے بڑی بڑی چٹانوں کی آڑ میں ٹھہر گئے تاکہ اگرارسلان تعاقب میں آتا ہو تویہاں پہنچنے پر بھی پتا نہ پاسکے۔سوارانِ عرب نے چقماق سے آگ نکال کے جابجا لکڑیاں جلائیں۔ خرگوشوں اور طیوروں کو نیزوں سے شکار کرکے بھوننا اور کھانا شروع کیا اور جب کھا پی کے فراغت پاچکے تو کوہستان کے کھوہوں، غاروں اورچٹانوں کی آڑوں میں منظرعام سے بچ بچ کر لیٹ رہے اور سونے اور آرام لینے میں مصروف ہوئے۔ ترکی خاتونیں بھی ایک محفوظ مقام اور آڑ کی جگہ میں اُتار دی گئیں کہ آرام لے لیں لیکن موسیٰ اپنے چند نامور شہسواروں اور معزز سرداروں کے ساتھ ایک مسطح چٹان پر ندی کے کنارے بیٹھ کے غور کرنے لگا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کہاں جانا چاہیے ۔ اس کی باتوں اور صورت سے نہایت پریشانی ظاہر ہورہی تھی۔ اتنے میں ثابت بن قحطیہ آگیا جو اسی ہفتہ میں اپنے پچاس عرب رفیقوں کے ساتھ آکے اس کے گروہ میں شامل ہوگیاتھا۔ یہ شخص ایک تاجرانہ قافلہ لے کے بلخ میں آیا تھا کہ یہاں کے خطائی تاجروں سے مشک نافے خرید کے دمشق میں لے جائے۔ جب اس نے موسیٰ کا حال سنا تو وہ بھی اس سے آن ملا اور اس کے لشکر میں شریک ہوگیا۔ اس وقت تک اسے موسیٰ سے بہ اطمینان ملنے کا موقع نہیں ملاتھا اس لیے کہ موسیٰ جب تک کش میں تھا اس کو یا تو انتظامات جنگ میں پایا اور جب کبھی لڑائی سے فرصت ہوئی تو وہ تورانی دلبراؤں نوشین و قتلق کے پاس جا کے بیٹھتا۔ اس وقت اسے فارغ دیکھ کے ثابت اس کے پاس آیا اور السلام علیک یا امیرکہہ کے سامنے بیٹھ گیا۔ موسیٰ نے اس کا مزاج پوچھا اور اس سے بھی یہی سوال کیا کہ آپ تو غالباً اس سرزمین سے زیادہ واقف ہوں گے۔ بتایئے اب ہم کہاں جائیں؟’’ ثابت: ‘‘میں تو بلخ میں بغرض تجارت آیا تھا۔ فرض جہاد ادا کرنے کے شوق میں آپ کے پاس حاضر ہوگیا۔ میرا خیال یہ ہے کہ آپ بلخ میں چلیں وہاں کا امیر عرب سردار عمقمہ ہے۔ آپ کو ہاتھوں ہاتھ لے گا اور آپ کی قدر کرے گا۔ چند روز وہاں قیام کر کے مہ جبینوں کو وہاں امن و امان میں چھوڑ کے پھر جہاد کے لیے یہاں چلے آیئے گا’’۔ قدامہ: ‘‘(تعجب کے لہجہ میں) بلخ تو جیحون کے اس پار ہے اور اس کے ادھر کا ملک خلافت اسلامیہ کے زیرنگیں ہے۔ وہاں ہم کو کیسے اطمینان نصیب ہوسکتا ہے؟’’ثابت: ‘‘میں یہ نہیں سمجھا کہ آپ کو کفار کی سرزمین میں اطمینان اور قلمرو اسلام میں بے اطمینانی کیوں ہے؟’’موسیٰ: ‘‘معلوم ہوتا ہے کہ آپ میرے حالات سے واقف نہیں ہیں۔ ساری سرگزشت بیان کروں تو آپ کی سمجھ میں آئے کہ قلمرو اسلام میں مجھے کیوں اطمینان نہیں ہوسکتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ فقط تاجر ہیں آپ کو دولت اسلام کی تمدنی حالت کی اطلاع نہیں ہے۔ خیر اب آپ نے پوچھا ہے تو سنیئے۔ میرے والد عبداللہ بن خازم والی خراسان ہیں جن کے حلقہ فرمان روائی میں سے ہو کے آپ یہاں آئے ہوں گے اور اگر انہیں دوسال کے اندر آئے ہوں گے تو انہیں بڑے سخت جھگڑوں اور ہنگاموں میں مبتلا اور ہروقت لڑائی و فوج کشی میں مشغول پایا ہوگا’’۔ثابت: ‘‘بیشک! ان دنوں وہ بنی تمیم کے استیصال کی فکر میں تھے’’۔موسیٰ: ‘‘خیر تو اب تمام واقعات مجھ سے سن لیجیے تاکہ میرے معاملات میں آپ مشورہ دے سکیں’’۔

            ۶۴ھ میں جب خلیفہ یزید بن معاویہ مر گیا تو انتقام خون حسین علیہ السلام کا جوش جو پہلے تھوڑا بہت دبا ہوا تھا، یک بیک اُبھر پڑا۔ معاویہ بن یزید کو بنی اُمیہ نے شام میں جانشین کیا مگر وہ تین ہی مہینے کے اندر دنیا سے رخصت ہوگیا اور مرنے سے پہلے لوگوں سے کہہ گیا کہ میں اس مظالم سے بھری ہوئی خلافت سے زندگی ہی میں دست بردار ہوکے تم کو وصیت کرتا ہوں کہ حسب سنت خلفائے رشدین میں جس کسی کو مناسب جانو اور اچھا سمجھو خلیفہ منتخب کرلو۔ میں اس کا وبال اپنے سر نہیں لینا چاہتا۔ اس کے مرتے ہی مکہ معظمہ میں عبداللہ بن زبیر اور شام میں مروان بن حکم نے وارث سریر خلافت بن کے اناولاغیری کا دعویٰ کیا۔

            یزید کے آخر عہد میں خراسان کا والی زیاد کا بیٹا سلم تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ بنی اُمیہ کی قوت فنا ہوا چاہتی ہے تو وہ مروان اور ابن زبیر دونوں سے علیحدہ ہوکے اس بات پر لوگوں سے بیعت لینے لگا کہ خلافت کا جس کے حق میں تصفیہ ہوجائے گا اس کی اطاعت کی جائے گی مگر دو ہی مہینہ بعد لوگوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کرکے توڑ دی۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ان دونوں نزری اور یمانی قبائل عرب میں سخت تعصب ہے اور باہم حد سے زیادہ عداوت ہورہی ہے۔ سلم شہر سرخس میں گیا تو بعض نزاری سردارانِ عرب نے اس سے کہا: خلافت تو قریش کا حق ہے تمہیں کوئی نزاری یا کوئی قریش نژاد نہ ملتا تھا جو یمانیوں میں سے آل قیس بن ربیعہ بن بکر کے ایک شخص کو حاکم بنالیا؟ اس کے بعد جب نیشاپور میں آیا تو میرے والد عبداللہ بن خازم نے بھی جو خاص نزاری الاصل ہیں یہی مشورہ دیا۔سلم نے کہا: ‘‘اچھا حکومت خراسان میں آپ ہی کو دیئے دیتا ہوں۔ آپ تمام شہروں میں اپنی مرضی کے حاکم مقرر کردیجیے؟ یہ کہہ کے اس نے والد کے نام حکومت خراسان کی سند لکھ دی۔ انتظام کرنے کے لیے ان کو ایک لاکھ درہم دیئے اور والد یوں حق حکومت خراسان حاصل کر کے مرو کی طرف چلے کہ مہلب کو زیر کریں’’۔مہلب وہیں تھا، یہ خبر پہنچی تو اپنی جان بچانے کے لیے ایک تمیمی الاصل شخص کو اپنا نائب بنا کر مرو میں چھوڑا اور خود عراق میں واپس چلا گیا تاکہ خراسان و توران کے جھگڑوں سے الگ رہے۔ والد مرو پہنچے تو مہلب کے تمیمی نائب نے مقابلہ کیا۔ لڑائی ہوئی تمیمی منجنیق کے ایک پتھر سے چوٹ کھا کے مر گیا اور والد فتحیاب ہوکے مرو میں داخل ہوئے۔

             اس کے بعد والد نے مرو رود میں جاکے سلیمان بن مرثد کو اور جبال طالقان میں گھس کے اس کے بھائی عمرو بن مرثد کو قتل کیا اور ملک کو اپنے قبضہ میں کرلیا مگر چونکہ یہ سب لوگ ازدی الاصل یعنی یمانی تھے۔ سارے یمانی عربوں میں جو خراسان کے شہروں میں پھیلے ہوئے تھے شورش پیدا ہوگئی اور ان میں سے جو جہاں تھا لڑنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔ چنانچہ وہ لوگ سب طرف سے سمٹ کے ہرات میں چلے گئے اور اپنے ایک بہادر شہسوار اوس بن ثعلبہ کو اپنا سردار بنایا۔ اوس لڑائی سے بھاگتا تھا مگر سب نے مجبور کرکے اسے کھڑا کیا اور آمادہ ہوئے کہ پوری قوت کے ساتھ والد سے مقابلہ کریں اور تمام مفری و نژاری یعنی قریشی اور ان کے ہم نسب قبائل کو خراسان سے نکال کے سارا ملک اپنا کرلیں۔

            والد کو خبر پہنچی تو زبردست لشکر کے ساتھ اس فتنہ کے فرو کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔ شہر ہرات کے قریب دریائے سبزوار کے کنارے لڑائی ہوئی۔ پہلے تو ان لوگوں نے ارادہ کیا تھا کہ شہر ہرات کے اندر قلعہ بند ہوکے مقابلہ کریں مگر بعد اس کے دریا کے کنارے پڑاؤ ڈالا اور گرد خندق کھودی۔ اس معرکہ میں دونوں طرف کے لوگ ایسے ثبات و استقلال سے جم کر لڑے کہ مدت تک لڑائیاں ہوتی رہیں اور کوئی فیصلہ نہ دے سکا۔والد کے ہمراہیوں میں ہلال ضبی ایک صلح کل سردار تھے۔ انہوں نے جو دیکھا کہ ایک ہی مذہب ایک ہی زبان، ایک ہی قوم اور ایک ہی ملک کے لوگ آپس میں لڑتے مرتے ہیں تو دل بھر آیا اور والد سے کہا: ‘‘اگر ہم آپ کامیاب بھی ہوئے تو اپنے ہم مذہب بہادران اسلام کے قتل و قمع کے بعد کیا خاک لطف اٹھائیں گے؟ اور جینے کا کیا مزہ ہوگا؟ ان لوگوں کی جو درخواست ہو ، قبول کرلیجیے اور جھگڑا چکایئے؟’’ والد، حریفوں کے مذاق و خیال سے صلاحیت کی امید رکھنا بے کار ہے بخدا یہ لوگ اس پر راضی نہ ہوں گے کہ ہم سارا خراسان چھوڑ کے چلے جائیں اور آپ کو صلح کی امید ہے تو میں آپ ہی پر فیصلہ چھوڑے دیتا ہوں۔ جایئے اور ان لوگوں سے مناسب فیصلہ کرلیجیے۔ مجھے آپ پر پورا اعتماد ہے۔ وہ گئے، دشمنوں کے سردار ادس سے ملے۔ بنی نزار و بنی قحطان کی قرابت ہم مذہبی و ہم زبانی اور ہم مذاقی یاد دلائی اور صلح کے خواستگار ہوئے۔ اوس نے کہا: اس بارے میں آپ بنی صہیب سے مل کے گفتگو کریں۔ یہ یمانیوں کا ایک غلام قبیلہ تھا اس لیے کہ اس کی نسل ان کے ایک غلام سے چلی تھی۔ ہلال کو اول تو اسی پر تعجب ہوا کہ ان لوگوں میں سب سے زیادہ پیش بنی صہیب ہیں مگر انہیں تو جس طرح بنے صلح منظور تھی ان لوگوں میں گئے۔ انہوں نے صورت دیکھتے ہی برافروختہ ہو کے کہا: ‘‘تم قاصد نہ ہوتے تو یہاں سے زندہ نہ واپس جاتے’’۔ کہا خیر آپ لوگوں کی مہربانی مگر فرمایئے صلح کی بھی کوئی صورت ہے؟ جواب ملا: دو میں سے ایک بات یا تو سارے مضری و نزاری خراسان چھوڑ کے چلے جائیں یا ان کے اور ملک بھر کے کل اسلحہ جنگ، ساری زراعت، تمام سونا چاندی اور جو کچھ دولت ہو سب ہماری، تمہارا اس میں ایک حبہ بھی نہیں۔ یہ جواب سن کر ہلال ضبی خاموش واپس چلے آئے اور والد سے سرگزشت بیان کی۔ انہوں نے کہا: میں تو آپ سے پہلے ہی کہہ دیا تھا مگر آپ کو یقین نہ آیا۔ یہ یمانی لوگ خدا سے بھی ناراض ہیں کہ اس نے اپنے پیغمبر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضریوں میں کیوں پیدا کیا؟یہ سب ہوا مگر لڑائی کا کسی طرح فیصلہ ہونے کو نہ آتا تھا۔ ایک دن والد نے ان سے پکار کر کہا کہ مرد ہو تو خندق کے باہر نکل کے مقابلہ کرو۔ کیا خراسان کا بس اتنا ہی قطعہ زمین جو خندق کے اندر ہے تمہیں پسند آیا ہے۔ اس عار دلانے پر وہ سب نکلنے پر آمادہ ہوگئے۔ ان کے سردار اوس نے ہزار روکا، نہ مانا اور نکل پڑے۔ ادھر والد نے اپنے بہادروں کو للکار دیا کہ بس آج ہی کا دن ہے، پھر ایسا موقعہ ہاتھ نہ آئے گا۔ تھوڑی دیر بڑی سخت لڑائی رہی اور سب کو عرصہ حشر یاد آگیا۔ آخر یمانیوں نے شکست کھائی۔ پہلے اپنی خندق تک ہٹتے چلے گئے اور جب آگے سے دباؤ پڑا اور پیچھے سے خندق نے راستہ روکا، بدحواس ہوکے اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ بہت سے خندق میں گر کے مر گئے یا زخمی ہوئے۔ باقی جس طرح بنا بھاگے اور اسی بدحواسی میں والد کے سپاہیوں نے ہزاروں کو قتل کرڈالا۔ چنانچہ اس معرکہ میں آٹھ ہزار یمانی مارے گئے۔ ان کا سردار سیتان کی طرف بھاگا اور وہاں پہنچ کے مر گیا۔اس خونریزی کے بعد والد ہرات پر قابض ہوئے اور میرے بڑے بھائی محمد کو وہاں کا حاکم مقرر کر کے مرو میں واپس گئے اور بھائی کی ماتحتی میں شماس بن وتار عطاری کو ان کا مشیر و وزیر اور بکیر بن وشاح تقفی کو کوتوال مقرر کر کے وہاں چھوڑ دیا۔

            ترکستان کی سرحد پر قلمرو خراسان کا ایک قلعہ تھا۔ قصر اسفاء اور بنی ارو کے یمانی لوگ اس کے حافظ و حاکم تھے جو وہیں رہتے تھے۔ والد کو ان جھگڑوں میں پھنسا ہوا دیکھ کے تورانیوں نے اس قلعہ پر حملہ کیا۔ وہ ازدی مسلمان قلعہ بند ہوکے بیٹھ رہے اور والی کے پاس آدمی بھیج کے کمک مانگی۔ انہوں نے زبیر بن خیان کو جوانانِ بنی تمیم کے ایک لشکر پر سردار مقرر کر کے ادھر روانہ کردیا۔ زبیر نے اس قلعہ میں پہنچتے ہی ترکوں پر ایسا سخت حملہ کیا کہ وہ محاصرہ چھوڑ کے بھاگ کھڑے ہوئے اور زبیر کو ایسا جوش آیا کہ گو سخت جاڑوں کا موسم تھا اور برفباری ہورہی تھی مگر وہ رات بھر ترکوں کے تعاقب میں گھوڑے کو بڑھائے چلا گیا اور صبح کو واپس آیا تو ہاتھ سردی سے اکڑ کے نیزے میں ایسا جم گیا کہ کسی طرح چھڑائے نہ چھوٹتا تھا۔ آخر آگ جلائی گئی۔ چربی پگھلا پگھلا کر ہاتھ پر بہائی اور ملی گئی تو پنجہ ڈھیلا پڑا اور نیزے سے علیحدہ ہوا۔

            بنی تمیم سے اگرچہ اس موقع پر والد کو مدد ملی مگر اصل میں وہ لوگ بھی دل میں ان سے صاف نہ تھے۔ اس لیے کہ جس تمیمی سردار کو مہلب بن ابی صفرہ اپنا نائب بنا کے چھوڑ گیا تھا وہ والد کے مقابلہ میں مارا گیا۔ چنانچہ بعض موقعوں پر ان کے بعض لوگوں سے تمرد ظاہر ہوا اور اس کی انہیں سخت سزا دی گئی۔اتفاق یہ کہ بھائی محمد کی والدہ بھی بنی تمیم میں سے تھیں اور تمیمی لوگ ان کو بھانجا بتاتے تھے۔ اس موقع پر والد نے ان کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیا تو ان سب نے مل کے ہرات کی راہ لی کہ جا کے بھائی محمد سے فریاد کریں۔ والد کو ان کا ارادہ معلوم ہوگیا تھا۔ بھائی کو نیز بکیرو شماس کو لکھ بھیجا کہ یہ لوگ ہرات میں آتے ہیں۔ خبردار! انھیں شہر کے اندر داخل ہونے نہ دینا۔ تمیمی لوگ جب ہرات کے قریب پہہنچے تو بھائی محمد شکار کے لیے باہر گئے تھے۔ انہیں خبر نہ ہوئی۔ شماس تمیموں سے مل گیا اور ان کو اندر بلا کے ٹھہرا لیا۔ بکیر کو اس سے اختلاف تھا لیکن جب وہ لوگ شہر کے اندر داخل ہوگئے تو اب کیا زور چل سکتا تھا، تاہم شماس کے پاس کہلا بھیجا کہ تم نے یہ اچھا نہیں کیا جو اِن لوگوں کو پناہ دے دی لیکن خیر اب یہ ہو ہی چکا ہے تو ایک کام کرو۔ میرے ۳۲ہزار درہم تمہارے پاس جمع ہیں ان میں سے ایک ایک ہزار تمیمی شخص کو دے کے رخصت کرو ورنہ امیرمحمد شکار سے واپس آکے بہت ناراض ہوں گے۔یہ تمیمی تیس آدمیوں سے زیادہ نہ تھے مگر شماس کے مل جانے سے ان کو تقویت ہوگئی اور جب ان کو معلوم ہوا کہ امیرمحمد سے ہمدردی کی امید نہیں تو مع شماس کے شہر سے نکل کے چلے گئے کہ محمد کو شکارگاہ ہی میں گھیر لیں اور جو تمیمی والد کے ہاتھ سے مارے گئے تھے ان کا انتقام ان کے فرزند سے لیں۔ چنانچہ سب نے جنگل میں جاکے بھائی محمد کو پکڑ لیا۔ ان کو رسیوں میں باندھ کر ایک طرف ڈال دیا اور اس کامیابی کی خوشی میں بیٹھ کے شراب پینے لگے۔ اس کے ساتھ یہ شرارت کی کہ جب کسی کو پیشاب لگتا تو آتش انتقام بجھانے کے لیے بھائی کے اُوپر پیشاب کرتا۔ شماس اگرچہ ان لوگوں کے ساتھ مل کے نمک حرام ہوگیا تھا مگر پھر بھی والد کا ساختہ و پرداختہ اور کل تک بھائی کا ماتحت تھا۔ ان لوگوں سے کہنے لگا: اس بیہودگی سے کیا حاصل؟ تمہارے دشمن کا بیٹا تمہارے ہاتھ آگیا اور اس پر اپنا بُغض نکالنا چاہتے ہو تو قتل کر ڈالو ، یوں ذلیل کرنے سے تم کو کیا مل جائے گا۔ اس مشورہ کے مطابق سب اٹھے اور آمادہ ہوگئے کہ بھائی کو قتل کریں۔ اس وقت حیان بن مشیحہ ضبی کو جو اِن لوگوں کے ساتھ تھا، ترس آیا اور ان کو اس ظلم سے روکا اور درمیان میں آگیا مگر کم بختوں نے اسے دھکیل کے الگ کیا اور بھائی محمد کا سر کاٹ لیا۔

            اباجان کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو دنیا ان کی نظر میں تیرہ و تاریک ہوگئی۔ فوراً ان لوگوں کو گھیر کر پکڑ لیا اور ایک ایک کو چن چن کے مارا۔ فقط حیان کو چھوڑ دیا جس نے انہیں قتل سے روکا تھا۔ باقی ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑا۔ جن دو شخصوں نے بھائی محمد کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا تھا ان میں سے ایک کا نام ‘‘عجلہ’’ تھا۔ اسے دیکھ کے ان کی زبان سے نکلا۔ عجل عجلتہ لقومہ شراً، یعنی اپنی قوم میں شر پیدا کرنے میں عجلہ نے عجلت کی۔ دوسرے کا نام ‘‘کسیب’’ تھا اسے دیکھ کے بولے: بئیس ما اکتسب کسیب لقومتہ ، یعنی کسیب نے اپنی قوم کے لیے بری چیز حاصل کی۔۱ ؂

 ۱ ؂ ان دونوں جملوں کا خاص لطف یہ ہے کہ پہلے کا نام عجلہ تھا جس لفظ کے معنی جلدی کے ہیں اور دوسرے کا نام کسیب تھا جس کے معنی کھانے یا حاصل کرنے والا ہیں انہی ناموں کا لحاظ کرکے عبداللہ بن خازم نے یہ جملے کہے۔

 ٭٭٭