‘‘میرا نام عداسؔ ہے میں اس زمانے میں ربیعہ کے بیٹوں عتبہ اور شیبہ کا غلام تھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں غلاموں کے گھر ہی میں پیدا ہوا اور ہمیشہ سے غلام تھا۔ میرے والدین نینوا کے رہنے والے تھے۔ میں نینوا میں پیدا ہوا۔ ہم اچھے کھاتے پیتے لوگ تھے۔ لیکن دولت دھوپ چھاؤں ہے۔ اس کے آنے اور گزر جانے کا وقت معین نہیں کیا جاسکتا۔ میں نہ بتاؤں گا کہ ہم اچھے کھاتے پیتے لوگ کس طرح بگڑے اور نہ یہ بتاؤں گا کہ میں ...نینوا کے ایک معزز آدمی کا جگرگوشہ، ان جاہلوں کی غلامی میں کیوں کر آگیا۔ میرے والدین عیسائی تھے انہوں نے مجھے بچپن ہی میں مسیحیت کی تعلیم دی تھی اور کتاب مقدس میں مجھے اچھی شد بد حاصل ہوگئی تھی۔ لیکن خیر اس کے دہرانے سے بھی کیا حاصل؟ میراعیسائی ہونا اور کتاب مقدس سے واقفیت رکھنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ میں ایک سچے پیغمبر کا ماننے والا ہونے کے باوجود کفر و شرک کی لعنت میں گرفتار تھا ۔ ابن مریم کو ابن اللہ مدتوں سمجھتا رہا میں……! کنواری ماں کی پرستش ایک دفعہ نہیں ہزار دفعہ کی میں نے ۔ لیکن خیر جو کچھ ہوا سہواً ہوا۔ خدا معاف کرے ۔’’
‘‘ربیعہ کے بیٹے برے آدمی نہ تھے ۔ انہوں نے جو سلوک بھی میرے ساتھ کیا برُانہ تھا لیکن قیامت یہ تھی کہ اس سر سبز ملک اور سرد پہاڑ پر رہنے کی وجہ سے وہ خودکو دوسرے عربوں کی نسبت خدائی رحمتوں سے زیادہ قریب سمجھتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کی انگور کی پیچ بل کھاتی ہوئی بیلیں ایسی تھیں جن کی نظیر عرب میں تو کیا دوسرے ممالک میں بھی کم ملتی تھی۔ ان سب باتوں نے مل ملا کر انہیں بے حد مغرور بنا دیا تھا اور وہ کسی دوسرے کو اپنے سا بڑا سمجھنا نہیں چاہتے تھے۔ ان کی سب سے بڑی کمزوری یہی تھی اور اسی کمزوری نے انہیں ہلاک کر دیا۔
کئی دنوں سے عتبہ اور شیبہ کسی جادوگر کا ذکر کر کے آپس میں ہنسا کرتے تھے اوراکثر بازاروں میں بھی ذکر ہوا کرتاتھا۔ لوگ کہا کرتے بنو ہاشم میں ایک جادوگر پیدا ہوا ہے جس کا جادو اتنا زبردست اور ایسا سریع ہے کہ اس سے کوئی نہیں بچ سکتا ۔ ان باتوں سے میرے دل میں ایک خواہش ضرور پیدا ہو جاتی اور میں سوچنے لگتا کہ اگر میں انہیں ایک دفعہ دیکھ لیتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ لیکن گھر کی مصروفیات کچھ اس قسم کی تھیں کہ کوشش کے باوجود مجھے طائف سے باہر جانے کا موقع نہ ملا۔
ایک دن میں نے سنا کہ بنو ہاشم کے وہی ‘‘جادوگر’’ آسمان مکہ سے اتر کر طائف کی سرزمین میں آگئے ہیں۔ ‘‘ابن عبداللہ پہلے ان سرداران طائف ہی کے پاس تشریف لے گئے تھے لیکن ان میں ایک نے کہا ۔ میں کعبہ کے سامنے داڑھی منڈوا دوں اگر ا للہ نے تجھے رسول بنایا ہو ۔دوسرے نے کہا اور دیکھو کیسی معقول بات کی ہے ۔ واہ واہ، کیا خدا کو تیرے سوا اور کوئی بھی رسول بنانے کو نہ ملا تھا۔ تجھے تو سواری بھی میسر نہیں ۔ اگر رسول بنانا ہی تھا تو کسی حاکم یا سردار کو بنایا ہوتا ۔ اور تیسرے نے کہا میں تجھ سے بات ہی نہیں کرنے کا کیونکہ اگر تو جیسا کہتا ہے واقعی خدا کا رسول ہی ہے تب تو یہ بڑی خطرناک بات ہے کہ میں تیرے کلام کو رد کردوں اور اگر تو خدا پر جھوٹ بولتا ہے تو یہ میری شان کے خلاف ہے کہ تجھ سے کلام بھی کیا جائے ’’۔
یہ سب سن کر مجھے یوحنا نبی کی وہ مقدس پیشگوئی یاد آگئی جس میں انہوں نے فرمایا ہے ‘‘اور یوحنا کی یہ گواہی ہے کہ جب یہودیوں نے یروشلم سے کاہن لیموی یہ پوچھنے کے لیے بھیجے کہ تو کون ہے تو اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا بلکہ اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں ۔ انہوں نے اس سے پوچھا ‘پھر کون ہے ’ کیا تو ایلیاہ ہے؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں ۔ کیا تو ‘‘وہ نبی ہے؟’’ جواب دیا کہ نہیں…… یہ پیشین گوئی یاد آتے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔ الیاس آچکے تھے ۔ یسوع ظہور فرما چکے تھے ۔ اب تیسرا ‘‘وہ نبی’’ آنے کو تھا …… ‘‘وہ نبی’’…… کیا بنو ہاشم کی یہ شخصیت‘‘وہ نبی’’ تو نہیں ۔میں نے ایک شخص سے پوچھا کہ کیا وہ اکیلے ہی تشریف لائے ہیں؟’’ اس نے کہا اکیلے نہیں، ان کے ساتھ ایک اور شخص بھی ہے ’’۔
میرا دل بیتاب سا ہو گیا اور میرا ضمیر پکار پکار کر مجھے کہنے لگا ۔ عداس! جس غلامی کو تو لعنت سمجھتا تھا ۔ وہ لعنت نہیں تھی۔ قضا و قدر نے تجھے سیدھے اور سچے راستہ پر ڈالنا تھا ، تو خوش نصیب ہے عداس! کہ تو اس زمانے میں پیدا ہوا جب نبی آخرالزماں کو مبعوث ہونا تھا ۔ اور تیری قسمت میں لکھا تھا کہ تواس ہستی کو اپنی آنکھوں سے دیکھے جس کا دیدار کرنے کے لیے تیرے آباؤ اجداد بے چین رہے ۔ کیا اب بھی تو اسے نہ دیکھے گا؟
میں نے ‘‘وہ نبی’’ کے دیدار سے اپنے دل کی پیاس بجھانے کا عزم بالجزم کر لیا۔ میں بازار سے سیدھا گھر گیا۔ اور جلدی جلدی کام ختم کرنے لگا۔
یکایک باہر سے بے شمار آوازیں سنائی دینے لگیں۔ اتنا شور، اتنا غوغا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ میں محض تجسس کے زیر اثر اٹھ کر دروازے تک گیا ۔ اور میں نے دیکھاکہ طائف کے بچے ہاتھوں میں پتھر لیے ایک شخص کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔ ان وحشی بچوں کو اکسانے والے عبد یالیل ، مسعود اور حبیب تینوں بھائی ان کے ساتھ تھے اور چلا چلا کر کہہ رہے تھے۔ ‘‘شاباش!……مارو پتھر!…… بازار کے اوباش لڑکے کھڑے ہنس رہے تھے ۔ گالیاں بک رہے تھے ۔ تالیاں پیٹ رہے تھے ۔ شور مچا رہے تھے۔ اور وہ ان وحشیوں کے گروہ میں گھرے ہوئے تھے۔ ان پر چاروں طرف سے پتھر برس رہے تھے ۔ ان پتھروں کو روکتے روکتے ان کے ہاتھ زخمی ہو گئے تھے ۔ اس مبارک پیشانی سے جس کی ہر سلوٹ میں دنیوی اور روحانی جلال کے خزینے پوشیدہ تھے خون کے فوارے ابل رہے تھے۔ وہ مبارک قدم جو عرش کی زینت تھے ، لہولہان ہو رہے تھے ۔ وہ کالی کملی جس میں عالم انسان کے لیے ایک خلق مجسم ، ایک رحمت مکمل ، ایک ہدایت جمیل لپٹی ہوئی تھی تار تار ہو گئی تھی۔
میں کھڑا دیکھتا رہااوروہ پتھر برساتے رہے گالیاں بکتے رہے، تالیاں پیٹتے رہے۔ اتنا شور مچایا ان تاریک جنگلیوں نے کہ خدا کے سچے نبی مجبور ہو کر دیوار کے سہارے لڑکھڑاتے ہوئے ہمارے دروازے کی طرف بڑھے۔
اور پھر دفعتاً میری حیران آنکھوں نے دیکھا کہ ہمارے دروازے پر اس آفتاب رسالت نے طلوع کیا۔ وہ لڑکھڑاتے ہوئے اندر آئے اور نقاہت کی شدت سے زمین پر بیٹھ گئے میں لپک کر انگور کی ٹہنیوں کے پیچھے چھپ گیا اوردیکھنے لگا۔ سرورِ دو عالمؐ کے خون میں لتھڑے ہوئے ہاتھ اٹھے زخمی ہونٹ کھلے ،ہلکے ہلکے اور ایک نحیف سی لرزتی ہوئی آواز سنائی دی۔ ‘‘الٰہی! اپنی کمزوری! بے سرو سامانی اور لوگوں کی تحقیر کی بابت تیرے سامنے فریاد کرتا ہوں۔ تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ عاجزوں کا مالک تو ہی ہے۔ مجھے کس کے سپرد کیا جاتا ہے؟کیا بیگانہ تر شرو کے یا اس دشمن کے جوم اس کام پر قابور کھتا ہے لیکن جب مجھ پر تیرا غضب نہیں تو مجھے اس کی کچھ پروا نہیں۔ کیونکہ تیری عافیت میرے لیے زیادہ وسیع ہے۔ میں تیری ذات کے نو ر سے پناہ چاہتا ہوں۔ جس سے سب تاریکیاں روشن ہوجاتی ہیں۔ اور دنیا و دین کے کام اس سے ٹھیک ہوجاتے ہیں کہ تیرا غضب مجھ پر اترے یا تیری رضامندی مجھ پر وارد ہوجائے۔ مجھے تیری ہی رضا مندی اور خوشی درکار ہے۔ اور نیکی کرنے یا بدی سے بچنے کی طاقت مجھے تیری ہی طرف سے ملتی ہے۔’’
یہ الفاظ نہ تھے۔ ان کی ساری زندگی تھی جن کو انہوں نے دہرایا۔ پہلے بھی بہت سے پیغمبر آئے نبی اترے ان کی قوم نے ان پر شداید کے پہاڑ الٹ دیے۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنی قوم کو بد دعادینے سے احتراز نہ کر سکا۔ لیکن خدا کا برگزیدہ محمدؐ تھا جس کے جسم سے خون نکل رہا تھا، جس کی نقاہت اس کا اپنا جسم اٹھانے کے قابل نہ تھی اور بہ ایں ہمہ اس کی زبان سے دعا نکلتی ہے۔ بد دعا نہیں!
میں نے یہ سنا اور کانپ اٹھا۔ کیا اب بھی کوئی وحشی یہ کہنے کی جرات کرسکتا تھا کہ محمدؐ سچے نہیں؟ اگر وہ سچے نہیں تو انہیں کیا ضرورت تھی اتنی تکلیفیں اٹھانے کی؟ اگر فی الواقعہ خدائے برتر و اعلیٰ ان سے کلام نہیں فرماتا تھا تو پھر کیا وجہ تھی کہ خواہ مخواہ ایک وحشی قوم کی طوفانی مخالفت کو اپنے سر لیں۔ کوئی وجہ نہ تھی! میرے دل نے پکار کر کہا۔ وہ سچے ہیں ان ایسا سچا کوئی پیدا نہیں ہوا۔
اب میں بالکل تیار تھا۔ دیر صرف اتنی تھی کہ میں انگور کی آڑ سے نکلوں اور قدموں پر گر پڑوں کہ دفعتاً میں نے دیکھا ۔ میرے دونوں آقا دور کھڑے دیکھ رہے تھے ۔ عتبہ بھی تھا اور شیبہ بھی۔ ان کے سامنے میں کچھ نہ کر سکا۔ میرے ارادے، میری قوتیں شل ہو کے رہ گئیں اور میں نے کیا بھی تو یہ کہ چپکے چپکے دبا دبا کر قدم رکھتا ہوا دوسری طرف سے نکل گیا۔ غلامانہ ذہنیت ضمیر کو کچل دینے کی کتنی طاقت رکھتی ہے۔ یہ میں نے اسی دن جانا تھا۔
عتبہ نے مجھے دیکھ لیا اور پکار کر بولا۔‘‘عداس! ادھر آؤ۔’’ اور مجھے ایسامعلوم ہوا کہ میرے سر پر بجلی گر پڑی ہے۔ میں نے سوچا کہ انہوں نے کسی غیر فطری طریقے سے میرا مافی الضمیر سمجھ لیا ہے اور اب میری خیر نہیں۔ اس لیے میں ڈرتا کانپتا ان کی طرف چلا۔ اور سامنے جا کر سر جھکائے کھڑا ہوگیا۔ ‘‘ایک طشت میں کچھ تازہ انگور لے جا کر اس مسافر کو دے آؤ۔ اس نے ہماری پناہ لی ہے۔’’میرا دل خوشی سے ناچنے لگا۔‘‘یہ موقع! یہ موقع!’’
میں نے جلدی جلدی خوب پکے پکے انگور لیے۔ انہیں دھو کر صاف کیا اور ایک طشت میں رکھ کر شاہ کون ومکان کی خدمت میں نذر کرنے کے لیے بڑھا۔ اس وقت میر اکیا حال تھا۔ میں نہیں جانتا۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ میں تاروں کی بستی میں جارہا ہوں۔ نہیں ’ اس سے بھی ماوریٰ۔
میں بلندی کی طرف جانے والے اس راستے پر چلتا گیا... چلتا گیا... میرے قدم تیز ہوتے گئے... اور تیز...یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ وہ لیٹے تھے۔ شاہ عرب و عجم ایک پھٹی ہوئی کملی میں لپٹے پڑے تھے۔ ان کی پیشانی سے خون بہ کر باغ کی زمین میں جذب ہورہا تھا۔ میرے ہاتھ میں انگوروں سے بھری ہوئی طشتری تھی۔ میرا دل نور سے معمور ہورہا تھا۔ اور میں دو زانو ہو کر اس ذات ستودہ صفات کے قریب بیٹھ گیا میں بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن میرے ہونٹ ہلنے کا نام نہ لیتے تھے۔ میں نے چپکے سے انگوروں کا طشت سامنے رکھ دیا۔
سرورِدوعالمؐ نے میری طرف دیکھا... آہ وہ نظریں! کتنا جلال تھا ان آنکھوں میں! نور کا کتنا عظیم سیلاب تھا ان خون میں گھری ہوئی آنکھوں میں۔
ان زخمی ہونٹوں پر ایک خفیف سی مسکراہٹ تھرائی۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئے اور خون میں تر بتر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے انگوروں کو چھوا اور ان ہونٹوں نے آہستہ سے کہا‘‘بسم اللہ!’’ میں اس نور مجسم کی طرف تکتا رہا...تکتا رہا... گم سم... مجھے اپنا ہوش نہ تھا۔
چند لمحوں کے بعد میں نے محض بات چھیڑنے کی غرض سے کہا۔‘‘یہ کلام ایساہے جو یہاں کے باشندے نہیں بولا کرتے۔’’
ہادی عالم نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور پوچھا‘‘تم کہاں کے رہنے والے ہو اور تمہارا مذہب کون سا ہے؟’’
میں نے بصد ادب عرض کی۔‘‘میں عیسیٰ روح اللہ کا پیرو اور نینوا کا باشندہ ہوں۔’’نبی نے ارشاد کیا‘‘اچھا تو تم مرد صالح یونس بن متی کے شہر کے باشندے ہو؟’’ اس سے بڑھ کر سرورِ دو عالمؐ کی سچائی کا اور کیا ثبوت ہوسکتا تھا۔ ہر وہ راز جن کو ایک نبی کے سوا اور کوئی نہیں جان سکتا آپ پر روشن تھے۔ لیکن میں نے محض تجسس کی بنا پر پوچھا‘‘آپؐ کو کیا خبر ہے یونس بن متی کون تھا اور کیسا تھا؟’’
اور معلوم ہے ابرِ کرم نے کیا جواب دیا ہے۔ انہوں نے فرمایا:‘‘وہ میرا بھائی ہے... وہ بھی نبی تھا، میں بھی نبی ہوں۔’’
اب مجھ میں صبر کی تاب نہ رہی، کسی غیر مرئی ہاتھ نے میرا سر پکڑ کر جھکا دیااور میں بارگاہ نبوت میں جھک پڑا۔
٭٭٭
پروفیسر گورمیز نے کہا کہ پیغمبر نے ایک خطبے میں فرمایا کہ انہیں اس دن کا شدت سے انتظار ہے جب خواتین تنہا لمبے سفر پر جا سکیں گی۔انہوں نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبرِ اسلام کا مقصد کیا تھا۔ انہوں نے کہا اس طرح کی پابندی ابھی تک کتابوں میں موجود ہے اور یہ عورتوں کے آزادانہ سفر پر قدغن لگاتی ہے۔
لندن میں قائم چیتھم ہاؤس کے ترک امور کے ماہر فیدی ہاکورا کے مطابق ترکی اسلام کو از سر نو دریافت کر رہا ہے۔ اسے ایک ایسے مذہب کی بجائے جس کے تمام احکامات کی ہرحال میں تائید کرنا لازم ہے، ایسے مذہب کے طور پر دکھایا جا رہا ہے جو کہ جدید سیکولر جمہوریت میں لوگوں کی ضروریات کے مطابق ہو۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے کے لیے ترکی کی ریاست ویسے ہی کر رہی ہے جیسا کہ کلیسیا میں اصلاحات کی گئیں ہیں۔