نا مہ نگار برائے امو ر مذہبی امور ، بی بی سی نیوز
٭ہم قارئین کی دلچسپی کے لیے بی بی سی کی ایک خبر نقل کر رہے ہیں۔ اس نقل سے ہمارا مقصد حکومت ترکی کے اس اقدام کی تائید یا تردید نہیں بلکہ اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا ہے کہ اس قسم کا کام برصغیر میں عرصہ ہوئے شروع ہو چکا ہے ۔بہر حال یہ دلچسپ خبر پڑھیے اورمولانا حمیدالدین فراہی ؒ اور ان کے تلامذہ کی فراست کی داد دیجیے کہ جنہوں نے یہ بات بہت پہلے بھانپ لی تھی اور اس رخ پر قرآن کی روشنی میں کام بھی شروع کر دیا تھا۔ ہمارے خیال میں جب تک ترکی کو فراہی صاحب یا ان کے تلامذہ جیسے رجال میسر نہ آئیں یہ کام شروع نہ کرنا چاہیے کیونکہ ‘‘خام ہاتھ’’ امت کو غلط رخ پہ بھی ڈال سکتے ہے۔احتیاط بہرحال ضروری ہے۔اس لیے ہم حاملین فکر فراہی سے عرض کریں گے کہ وہ کسی طورحکومت ترکی سے رابطے کی کوشش فرمائیں اور اپنے کام کو متعارف کروائیں کیونکہ احادیث کی از سر نو تشریح کی ضرورت نہیں بلکہ اس امر کی ضرورت ہے کہ انہیں قرآن کی روشنی میں حل کیا جائے۔٭ (ادارہ)
بہت سی متنازعہ احادیث سے اسلام کی اصل اقدار بھی دھندلا گئی ہیں۔ ترک حکومت ترکی میں ایک دستاویز کی اشاعت کی تیاری کر رہی ہے جس میں اسلام کی از سر نو تشریح اور مذہب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اس دستاویز کو انقلابی قرار دیا جا رہا ہے ۔ترکی کی بااختیار وزارتِ مذہبی امور نے انقرہ یونورسٹی میں مذہبی علماکی ایک ٹیم کی خدمات حاصل کی ہیں جسے احادیث کا از سر نو جائزہ لینے کا کام سونپا گیا ہے۔ اسلام میں قران کے بعد پیغمبر اسلام کے ارشادات اور احکامات کو جنہیں حدیث کہا جاتا ہے بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ احادیث جو پیغمبر اسلام کے ارشادات اور احکامات پر مشتمل ہیں مسلمانوں کے لیے قران کی تشریح کا ایک ذریعہ ہیں اور بہت سے اسلامی قوانین کی اساس بھی۔ترکی کی حکومت کے خیال میں بہت سی احادیث متنازعہ ہیں اور ان سے ‘معاشرے میں منفی اثر پڑ رہا ہے’ اور ان کی از سر نو تشریح کرانے کی ضرورت ہے۔ ان کے خیال میں ان احادیث سے اسلام کی اصل اقدار کا مفہوم بھی دھندلا گیا ہے۔ ترکی کے حکام اس دستاویز کی حساس نوعیت اور اس سے روایتی مسلمانوں میں پیدا ہونے والے ممکنہ تنازعہ کی وجہ سے اس بارے میں پوری رازداری سے کام لے رہے تھے۔ لیکن انہوں نے بی بی سی سے اس کے متعلق بات کی اور اس کے مقاصد بیان کیے۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ بہت سی ایسی احادیث موجود ہیں جو غلط طور پر پیغمبرِ اسلام سے منسوب کر دی گئی ہیں اور بہت سی ایسی ہیں جن کی از سرِ نو تشریح کی ضرورت ہے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اسلام کے عقائد کی از سر نو تشریح کی جا رہی ہے تاکہ مذہب کی تجدید کی جا سکے۔احادیث پر از سرِ نو نظر ڈالنے کی ضرورت کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اسلام میں دلیل اور منطق جو چودہ سو سال پہلے اس کی بنیاد میں شامل تھی اسی روح کو تلاش کیا جا رہا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ترکی میں مذہب میں اصلاحات کا آغاز ہے۔ انقرہ یونیورسٹی کے مذہب کے شعبے میں احادیث کا باریکی سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے مشیر فیلکس کورنر کا کہنا تھا کہ بہت سی ایسی احادیث بھی ہیں جن کے بارے میں یہ دکھایا جا سکتا ہے کہ وہ پیغمبر کی وفات کے سینکڑوں سال بعد وجود میں آئیں۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے آپ چند حدیثوں کی مدد سے خواتین کے ختنے کو جائز قرار دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا ‘گو آپ کو ایسے پیغامات بھی ملیں گے کہ پیغمبر اسلام نے ایسا کرنے کا حکم دیا تھا جب کہ تاریخی طور پر یہ بھی ثابت کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح جب دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں کا اثر اسلام پر پڑنے لگا تو یہ رسم مسلمانوں میں رائج ہوگئی’۔ احادیث کا نئے سرے سے جائزہ لینے والوں کا کہنا ہے کہ مختلف نسلوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے احادیث میں تبدیلیاں کیں اور انہیں پیغمبر اسلام سے منسوب کر دیا۔بعض احادیث کے بارے میں اکثر مسلمانوں کا خیال ہے کہ انہیں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ترکی کا ارادہ ہے کہ صدیوں کی ان ثقافتی تحریفوں سے جان چھڑائی جائے اور اسلام کی اصل اساس کی طرف لوٹا جا ئے۔پروفیسر محمد گورمیز ترکی کے محکمہ مذہبی امور کے ایک سینئر اہلکارہیں اور احادیث کے عالم بھی ہیں۔ انہوں نے اس بارے میں بہت واضح مثال پیش کی۔ انہوں نے کہا ایسے احکامات موجود ہیں کہ شوہر کے بغیر عورت کے تین دن سے زیادہ طویل سفر پر روانہ ہونے کی اسلام میں ممانعت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پابندی کسی طور پر بھی مذہب یا اسلام کی طرف سے عائد نہیں کی گئی تھی بلکہ اس کی سیدھی سی یہ وجہ تھی کہ پیغمبر اسلام کے دور میں خواتین کا سفر پر اکیلے جانا کسی طرح بھی محفوظ نہیں تھا۔ لیکن ‘وقت کے ساتھ ساتھ بعض لوگوں نے اس عارضی اور وقتی پابندی کو مذہب کا حصہ بنا لیا’۔انہوں نے کہا کہ اصلاحِ حدیث منصوبے کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ چودہ سو سال پرانی احادیث کا از سر نو جائزہ لینا درست ہے اور ایسا جامع تحقیق اور مطالعے کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔
پروفیسر گورمیز نے کہا کہ پیغمبر نے ایک خطبے میں فرمایا کہ انہیں اس دن کا شدت سے انتظار ہے جب خواتین تنہا لمبے سفر پر جا سکیں گی۔انہوں نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبرِ اسلام کا مقصد کیا تھا۔ انہوں نے کہا اس طرح کی پابندی ابھی تک کتابوں میں موجود ہے اور یہ عورتوں کے آزادانہ سفر پر قدغن لگاتی ہے۔
لندن میں قائم چیتھم ہاؤس کے ترک امور کے ماہر فیدی ہاکورا کے مطابق ترکی اسلام کو از سر نو دریافت کر رہا ہے۔ اسے ایک ایسے مذہب کی بجائے جس کے تمام احکامات کی ہرحال میں تائید کرنا لازم ہے، ایسے مذہب کے طور پر دکھایا جا رہا ہے جو کہ جدید سیکولر جمہوریت میں لوگوں کی ضروریات کے مطابق ہو۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے کے لیے ترکی کی ریاست ویسے ہی کر رہی ہے جیسا کہ کلیسیا میں اصلاحات کی گئیں ہیں۔