اصلاح و دعوت
اللہ کے بندے بندیاں (عباد الرحمٰن)
حافظ صفوان محمد چوہان
یہ سولہ سترہ برس ادھر کی بات ہے۔دنیا کی ایک معروف ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی کا ایک بڑا افسر عامر جو اْن دنوں پی ٹی سی ایل کے ٹیلی کمیونی کیشن سٹاف کالج ہری پور میں زیرِ تربیت تھا ۔اور ہمارے ساتھ کبھی کبھی تبلیغ میں وقت لگا لیتا تھا،میرے دفتر میں آیا اور کہنے لگا کہ میوزک کنسرٹ کرنے والی فلاں مشہور خاتون میری خالہ زاد ہیں اور آپ سے فون پر بات کرنا چاہتی ہیں۔ میں سٹپٹایا کہ جان نہ پہچان خالہ زاد سے سلام۔عامر نے بتایا کہ میرا گھرکراچی میں ہے اور جب میں خالہ کے ہاں جاتا ہوں تو آپ کا ذکر کسی نہ کسی طرح آ جاتا ہے۔ خالہ زاد بہن نے اس بار لمبی بحث کی اور اب وہ آپ سے براہِ راست بات کرنا چاہتی ہے۔
قصہ کوتاہ، فون پر بات ہوئی۔ محترمہ بتانے لگیں کہ میرا گانوں کا نیا البم بہت بکا ہے۔ اور میں چاہتی ہوں کہ اس آمدنی پر زکوٰۃدوں۔ اور ساتھ یہ بھی خواہش ہے کہ ایک مسجد بنواؤں۔ عامر ایک سال سے آپ کے ساتھ ہے اور آپ کا مداح ہے۔ اگر آپ ہامی بھریں تو آپ کی زیرِ نگرانی ہم لوگ اس علاقے میں مسجد بنوا دیں گے.۔اور بھی کچھ باتیں کیں۔
میرے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل تھی کہ پوری رات کھلے آسمان تلے لڑکوں کے ساتھ ناچ ناچ کر گانے والی وہ مشہور نوجوان مغنیہ جس پر لباس بھی برائے نام ہوتا ہے۔اس وقت کس بینڈ سے بول رہی ہے۔ میں نے تھوڑا احوال لیا تو محترمہ نے بتایا کہ انھیں سورہ فرقان کا آخری رکوع مع ترجمہ حفظ ہے، جو انھوں نے لاہور گرامر سکول (کو ایجوکیشن) سے اے لیول کرنے کے زمانے میں یاد کیا تھا۔ اور وہ ہر وقت عباد الرحمٰن والی صفات اپنانے کی کوشش میں رہتی ہیں۔استفسار پر بتانے لگیں کہ جس رات پروگرام نہ ہو اس رات میں تہجد ضرور پڑھتی ہوں کیونکہ اللہ کے بندوں کی رات اس حالت میں بیتنی چاہیے کہ وہ سجدوں میں ہوں یا قیام میں۔ اور پروگرام کے علاوہ میں کبھی ہیل والے سینڈل نہیں پہنتی کیونکہ اللہ کے بندے زمین پر پاؤں مار کر نہیں چلتے۔وہ اس رکوع کی آیتوں سے متعلق اور بھی بولتی رہیں لیکن بخدا میں سناٹے میں تھا اور کچھ سمجھ نہ آ رہا تھا۔ محترمہ نے یہ بھی ذکر کیا کہ وہ تہجد کی آٹھ رکعتیں پڑھتی ہیں۔
میں بمشکل سنبھلا۔ ان کا اصرار تھا کہ میں انھیں گانوں کے البم اور دیگر کنسرٹ سے ہونے والی آمدنی پر زکوٰۃ کا حساب لگاکر دوں تاکہ وہ یہ پیسے عامر کے ہاتھ مجھے بھجوا سکیں۔ مجھے تبلیغ کا بنیادی اصول یاد تھا کہ جو بندہ کسی کے پیسے پکڑے اسے تبلیغ کی ہوا بھی نہیں لگی۔ ادھر ان کا اصرار بڑھتا جا رہا تھا۔اللہ نے دستگیری کی اور ایک ترتیب ذہن میں آئی. عرض کیا کہ زکوٰۃ کا حساب پانچ سات دن میں کرلوں گا اور عرض کر دوں گا۔ آپ سے پہلے ذرا نماز کی بات ہو جائے کیونکہ زکوٰۃ کا ذکر نماز کے ساتھ ہی آیا ہے۔آپ کی نمازوں کی کیا کیفیت ہے؟ کہنے لگیں کہ دن بھر وقت نہیں ملتا اسی لیے تہجد پڑھتی ہوں۔ عرض کیا کہ یوں سمجھیں جیسے نماز کے لیے وضو ضروری ہے ویسے زکوٰۃکے قبول ہونے کے لیے پہلے فرض نماز کی پابندی ضروری ہے۔ مجھے ان کی صاف گوئی پسند آئی کہ وہ نماز کے لیے دن میں وقت نہ ملنے کا صاف صاف کہتی رہیں کہ کون میک اپ اتارے اور وضو کرے اور اتنی لمبی لمبی رکعتیں پڑھے۔ عرض کیا کہ دن میں ایک نماز سے شروع کرلیں۔ یہ طے ہوگیا کہ ٹی وی سٹیشن جانے کے لیے تیار ہوتے وقت وہ میک اپ کرنے سے پہلے فجر کی چار رکعتیں پڑھ لیا کریں گی خواہ بارہ بجے سہی۔ چلتے چلتے انھیں یہ بتا دیا کہ وقت نہ ہو تو ظہر اور عصر کی چار چار اور مغرب کی صرف تین رکعتیں ہوتی ہیں۔
پانچویں روز ان کا فون آیا۔ بہت خوشی سے بتانے لگیں کہ میں واش روم سے نکل کر پہلے نماز پڑھتی ہوں پھر ٹی وی سٹیشن جانے کی تیاری کرتی ہوں۔ انھیں اگلا ٹپ دیا کہ رات کو تہجد سے پہلے دن بھر کی نمازیں پڑھ لیا کریں۔ صاف انکار ہوگیا۔ آسانی بتائی کہ تہجد کی آٹھ کے بجائے چار رکعتیں پڑھ لیا کریں اور اس سے پہلے ظہر کی چار رکعتیں پڑھ لیا کریں۔ خدا کی اس بندی نے ہاں کر دی. اور پھر چند دن میں بتایا کہ میں شام کو کنسرٹ کے لیے نکلنے سے پہلے ظہر عصر اور مغرب اکٹھی پڑھ لیتی ہوں لیکن پڑھتی چار چار اور تین رکعتیں ہوں، اور عشاء کی سات رکعتیں تہجد سے پہلے پڑھتی ہوں۔دو ہفتے کے اندر اس عورت نے پانچ نمازیں مع تہجد شروع کرلیں۔
عامر اگلی بار کراچی گیا تو میں نے محترمہ کے لیے موبائل فون سے بھی چھوٹا ایک مصلیٰ دیا اور پیغام دیا کہ اگر وضو ہو تو ظہر کی چار رکعتیں ٹی وی سٹیشن میں ہی کہیں کونے میں پڑھ لیا کریں۔ انھوں نے یہ بھی کر لیا۔ ایک روز پوچھا کہ ایک شیعہ اداکارہ دوست کہتی ہے کہ ظہرین پڑھ لیا کریں کیونکہ وہ بھی پڑھتی ہے۔ میں نے کہا کہ کوئی حرج نہیں۔ لیکن ظہرین کے لیے اچھا ہے کہ لنچ کے بعد پڑھ لیا کریں۔ خدا کا کرنا یہ نیک عورت جو ایک ماہ پہلے تہجد پڑھتی تھی، اب دن میں چار وقت میں پانچ بلکہ چھے نمازیں پڑھنے لگی۔
اب سنیے کہ زکوٰۃ کا کیا ہوا۔ حساب کیا تو پانچ لاکھ اسی ہزار روپے نکلے۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ یہ پیسے مسجد بنانے میں لگیں۔ خیر عرض کیا کہ زکوٰۃ سب سے پہلے رشتہ داروں میں لگے گی ورنہ آپ کو خیرات کا اجر ملے گا زکوٰۃ کا نہیں۔ سخت پریشان ہوئیں۔ کہنے لگیں کہ اگر آپ نہیں لیتے تو میں ایدھی اور شوکت خانم اور مدرسہ کو کیوں نہ دوں۔عرض کیا کہ ان میں سے کسی ادارے کو نہیں لگ سکتی اگر رشتہ دار مستحق ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہمارا خاندان نارووال میں ہے اور ان میں مستحق ہیں۔عرض کیا کہ زکوٰۃکا پیسہ برباد نہ کریں بلکہ ایک مستحق رشتہ دار خاندان کے کسی مناسب نوجوان کو کاروبار کرا دیں تاکہ ایک خاندان اگلے سال تک خود کفیل ہوکر خود زکوٰۃ دینے والا بنے۔ میری سبھی باتیں انھوں نے مان لیں۔
عامر نے یہ رقم ان کے ایک چچیرے بھائی کو کرم کش زرعی ادویات کی ایجنسی لے کر دینے میں لگائی۔ اگلے سال ان کی اور ان کے بہن بھائیوں اور والد والدہ کی زکوٰۃ تقریبًا نو لاکھ روپے سے عامر نے ان کے ایک پھوپی زاد کو ایجنسی لے کر دی۔
ایک بار میں رائے ونڈ گیا تو یہ دونوں کزن اپنی کلٹس میں میری نصرت کو آئے۔خوش حالی ان کے چہروں پر کھیل رہی تھی۔
المختصر، ملکوں ملکوں پھر کر میوزک کنسرٹ کرنے والی ایک لڑکی نے صحابہ علیہم الرضوان والی ترتیب پر چچیرے پھپھیرے بھائیوں کو اور ان کے خاندانوں کو زکوٰۃ کے پیسے کے صحیح استعمال سے مستحکم کیا ہے۔
گزشتہ سترہ سال سے ہر سال دس لاکھ روپے سے زیادہ زکوٰۃدینے والی اس لڑکی کا گانا کسی وقت کان میں پڑ جائے یا کسی سکرین پر یہ ناچتی نظر آ جائے تو واللہ مجھے یہی نظر آتا ہے کہ وہ اللہ کی زمین پر زور سے پاؤں نہیں مار رہی۔پچھلے سال سیلاب آیا تو اس کی زکوٰۃعامر نے بڑی سمجھ داری سے مستحقین میں استعمال کرکے اپنے اور اپنی خالہ زاد بہن کے لیے آخرت کا توشہ بنایا۔
کچھ سال بعد اللہ نے موقع دیا اور ہم میاں بیوی اللہ کے راستے میں چالیس یوم کے لیے نکلے تو ہماری تشکیل کراچی ہوئی۔ یہ محترمہ ہماری جماعت کی نصرت کے لیے آئیں۔ ہمیں کئی روز بعد معلوم ہوا کہ وہ تشریف لائی تھیں۔
میں اپنے مینڈیٹ سے باہر نہیں نکلا۔ میں نے محترمہ کو کبھی برقع یا پردہ کرنے یا میوزک انڈسٹری چھوڑنے کو نہیں کہا۔یہ میرے رب کی بانٹ ہے کہ وہ جسے چاہے اور جہاں چاہے اپنی مخلوق کے بھلے کے لیے استعمال کرلے۔ میں اپنے رب کی تقسیم پر راضی ہوں۔
مخلوط محفلوں میں رات رات بھر رقصاں رہنے والی یہ لڑکی ان رجال میں سے ہے۔ جن کا حال مجھ پر منکشف ہوا تو میں ظاہر پر حکم لگانے سے اور کسی کے سینے میں جھانکنے کا دعویٰ کرنے سے رک گیا ہوں۔
کون کیا ہے اور کس سے اس کے مالک نے کیا کام لیا ہے۔اس کا فیصلہ اور اس کا نظارہ اولین و آخرین کے مجمع میں ہوگا۔ انتظار کیجیے کہ اس دن آپ کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔