اگرہم مختلف چیزوں کے ناموں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ ان چیزوں کے خواص ان کے ناموں میں جھلکتے ہیں۔ پھول بہت ہی نرم ہوتے ہیں۔ ان کے ناموں میں بھی نرمی پائی جاتی ہے ۔ بیلا ، چمبیلی، موتیا ، گلاب ، چمپا، گیندا وغیرہ کوئی ثقیل یعنی ٹ ، ڈ ، ث، ژ وغیر ہ کی قسم کا لفظ نہیں۔
پتے کونپل ، کلی ، پھول ، پتی کی آواز میں بھی نرمی ہے مگر ڈنڈی جس میں پھول ہوتاہے ، یا ٹہنی جس میں پتے ہوتے ہیں سخت ہوتی ہے اس کے الفاظ بھی سخت ہیں۔ روئی نرم ہوتی ہے اس کانام روئی سے زیادہ نرم ہے مگر ڈوڈا جس میں سے روئی نکلتی ہے پتھر کی طرح سخت ہوتا ہے۔
اشیا کے ناموں اور ان کی آوازوں میں بھی تعلق ہوتا ہے۔نقارہ ، ڈنکا، ڈگڈگی ، ڈھول ، ڈھب ، جھانج، طبلہ ، سارنگی ، بانسری ، وغیرہ الفاظ میں میں بھی ان باجوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
خنجر ، چھرا، برچھا، کٹار، کلھاڑی کی آوازوں میں ان ہتھیاروں کی فعلیت موجود ہے اور قطع ، کاٹ ، قتل وغیرہ الفاظ میں ان کا فعل کارفرما محسوس ہوتا ہے۔
بہت سی جڑی بوٹیوں کے نام ان کی شکل و صورت اور خواص پر ہیں۔ جیسے چھوئی موئی، لاجونتی ، سورج مکھی،مور پنکھی، ہر ن کھری، عشق پیچاں، گاؤزبان،وغیر ہ ۔ناگ پھن کا پتہ بھی ناگ پھن کے مشابہ ہوتاہے ۔ اور اس کے کانٹوں میں ایک قسم کا زہر ہوتا ہے ۔ پچناگ بھی ایک قسم کا پودا ہے جس کی جڑ زہریلی ہوتی ہے۔
بعض پرندوں کے نام ان کے رنگ روپ اور شکل پر رکھے گئے ہیں۔ شتر مرغ، سرخاب ، گلدم، تلیر، نیل کنٹھ، بھنگراج، ہریل ، شامایاکل چڑی، بھجنگ وغیرہ اسی قسم کے نام ہیں۔مٹیالے رنگ کی ایک چڑیاہوتی ہے جس کو دلی میں ڈومنی کہتے ہیں یہ اکیلی نہیں رہتی بلکہ کئی سے مل کر رہتی ہے اور ہر وقت غل مچاتی رہتی ہے ۔ لکھنؤ میں اسے غوغائی اور برج میں بھٹیاری کہتے ہیں۔
کسی شاعر کا قول ہے کہ کسی لفظ کے معنی بخوبی سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ماخذ کے موضوع کی تصویر آنکھوں میں پھر جائے ہماری زبان میں ایسے الفاظ کی کمی نہیں۔ رنگ میں دلکشی ہوتی ہے چنانچہ مختلف رنگوں کو جونام دیے گئے ہیں وہ خوب صورت پھلوں ، غنچوں ، پھولوں، میووں اورجمادات سے لیے گئے ہیں۔
گلابی ، چمپئی ، گلناری، گیندی ، مالتی ، زعفرانی ، انگوری، کاسنی ، نارنجی ، فالسی، پیازی، بینگنی ، کشمشی، بادامی ، عنابی ، مونگیا، گندمی، صندلی، کاہی ، کافوری، شنگرفی ، سیندوری، موتیا، فیروزی، لاجوردی، آتشی، آبی ، آسمانی ، خاکی وغیرہ اسی قبیل کے نام ہیں۔
ملک پارچہ بافی کی ترقی ہوئی تو کپڑوں کے نام ان کی ساخت ، بناوٹ کے لحاظ سے رکھے گئے ۔آب رواں ، شبنم ، تن زیب، تن سکھ ، سکھ بدن، دھوپ چھاؤں، گلبدن، جھلمل، ململ، چھینٹ، کم خواب، ڈوریا،گاڑھا، لٹھا وغیر ہ اسی قسم کے نام ہیں۔
لباس کی تراش خراش میں بھی بڑی جدتیں ہوئیں ۔ کپڑوں کے نام جسم کے ان حصوں سے لیے گئے جن کے لیے وہ مخصوص تھے ۔ مثلا صدری، کمری، سینہ بند، انگرکھا، پاجامہ، گلوبند، تہ بند، جانگیا، رومال، وغیرہ یہی نہیں بلکہ کپڑوں کی کاٹ کے جو ٹکڑے ہوتے تھے ان کو بھی منسوب کرتے تھے جیسے چوبغلا، بالا بر، کنٹھی، پیش وغیرہ محرم ایک شاعرانہ نام ہے کہتے ہیں کہ یہ زیب النسا کا دیا ہوا ہے۔پھول کے لیے ہندی میں ایک لفظ ہے سمن، سواچھا، اوررمن، دل یعنی اچھا دل، گویا پھول پیڑ کا دل ہے۔
الفاظ تصویریں بھی بناتے ہیں۔ اور تصویروں کی زبان ہوتی ہے۔ ہماری موسیقی میں راگ راگنیوں کو موسم اوروقت کے لحاظ سے تقسیم کیا گیا ہے ۔ اور راگ راگنیوں کے گانے سے جو کیفیت یا سماں پیدا ہوتا ہے اس کی تصویریں بنا دی گئی ہیں۔ گویا یہ تصویریں راگ ہیں۔ آج کل جب کوئی بڑا ستاد گانے بیٹھتا ہے تو ایک دم کسی راگنی کو شروع نہیں کرتا پہلے وہ راگنی کا پس منظر تیار کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کے لیے وہ آہستہ آستہ ولمبت لے میں گانا شروع کرتا ہے اور رفتہ رفتہ تصور میں اس راگنی کا نقشہ پیش کرتا ہے ۔ جب سماں بندھ جاتا ہے تو راگنی شروع کرتا ہے ۔ اس گانے کانام خیال ہے ۔ خیال ایسا لفظ ہے جس میں راگنی کا پورا مزاج آجاتا ہے ۔
قبرستان مردوں کے دفن کرنے کی جگہ ہے ۔ اس کے نام ہی سے وحشت ہوتی ہے اور سناٹا نظروں میں پھر جاتا ہے لیکن جب ہم اسے شہر خموشاں کہتے ہیں تو وحشت میں کسی قدر کمی ہو جاتی ہے۔
بعض الفاظ شعریت سے اس قدر لبریز ہوتے ہیں کہ ان کو بجائے خود شعر کہا جاتا ہے ۔ ہم زلف ایک ایسا لفظ ہے جس کا تخیل اسکی نزاکت او رپاکیزگی اسے شعر کا درجہ دلا سکتی ہے خوش دامن میں بھی اسی قسم کی شعریت ہے ۔دولھا کو نوشاہ کہنا بھی بہت دل آویز ہے۔
بہت پرانا عقید ہ ہے کہ نام حقیقت پر دال ہوتے ہیں چنانچہ زیادہ تر نام خدا ، انبیا، اولیا ، دیوی دیوتاؤں اور مقدس مقامات سے منسوب کیے جاتے تھے۔کوشش اس بات کی کی جاتی تھی کہ نام مسعود ہو۔ تا کہ اس کی برکت سے فیض پہنچے ۔ بادشاہ تخت نشینی کے موقع پر بھی نیا نام اختیار کرتے تھے ۔ مغلوں میں جہانگیر، شاہ جہاں ، عالمگیر وغیر ہ اسی قسم کے نام ہیں۔قیصر روم نے شاہ جہاں کو لکھا کہ آپ صرف ہندستان کے بادشاہ ہیں شاہ جہاں لقب اختیار کرنا ٹھیک نہیں۔
مغل شہنشاہوں کو مرنے کے بعد بھی ایسے لقب دیے جاتے تھے کہ جن سے ان کی مغفرت کا خیا ل ہوتا تھا۔ جیسے جنت مکانی ، عرش آشیانی ، فردوس مکانی وغیرہ۔
قرآن مجید میں جو خدا کے صفاتی نام آئے ہیں وہ بھی لوگ بہت اختیار کرتے ہیں۔ناموں کی خیرو برکت کا اثر عقیدے کی صورت اختیار کر گیاہے۔یہ خیال بھی پایاجاتا ہے کہ اگر ضرر پہنچانے والی چیز کا نام نیک رکھا جائے تو اس سے اس کے اثرات زائل ہوجاتے ہیں۔چیچک کا ٹیکہ ایجاد ہونے سے پہلے یہ بیماری بہت مہیب تھی ۔ چنانچہ اس کا نام ‘ماتا’ رکھاگیا ماتا دیوی کی پوجا بھی ہوتی ہے ۔چیچک کو ماتا اس لیے کہا گیا کہ ماں بچے پر ضرور رحم کرے گی۔ ام الصبیان کی بھی یہی کیفیت ہے ۔
جانوروں کی عادتوں اور خصلتوں سے اسمائے صفات بنائے گئے ہیں۔ مثلاً شیر دل ، شتر کینہ ، گیدڑ بھبکی، بھیڑیاچال ، خر دماغ، بز دل، توتا چشم، بگلا بھگت، وغیرہ بعض الفاظ لوگوں کے طبائع اور کردار کے آئینہ ہیں۔ مثلا زن مرید، کام چور، بلانوش، میٹھی چھری، مکھی چوس، پیر نابالغ وغیرہ۔
پیشہ ور لوگ سماج کی جان ہوتے ہیں۔ قوم و ملک کی ترقی کے ساتھ ان کے نام بھی عروج پا جاتے ہیں۔ شہنشاہ اکبر نے بھنگی کا نام حلال خور رکھا۔ چنانچہ دلی میں ان کو حلال خور ہی کہا جاتا ہے۔ ان کو مہتر ، جمعداراورصفائی کرم چاری بھی کہا جاتا ہے۔بڑے گھروں میں جوغیریب عورتیں کام کرتی ہیں ان کی دل جوئی کے لیے ان کا نام مغلانی رکھا گیا۔(یہ نام اس حشرکی بھی یاد دلاتا ہے جو۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے بعد کی مغل بادشاہوں کی اولا د کا ہوا)
پانی بھرنے اور پلانے والے کو سقہ کہتے ہیں مگر بہشتی کے لفظ نے اس کی عزت بڑھا دی۔ اس طرح حجام کی جگہ اصلاح ساز یا خلیفہ مستعمل ہوا۔لفظ جولاہا، سے پارچہ باف پھر نور باف ، پھر مومن اور اب انصاری ہوا۔آدمی کیسا ہی برا ہو مرنے کے بعد اسے مرحوم ہی کہا جاتا ہے چتا میں جلائی ہوئی ہڈیاں جو تیسرے دن دریا میں بہائی جاتی ہیں احترام کے طور پر پھول کہلاتی ہیں۔
کانٹا کسی کو چبھے یا نہ چبھے سب کو ناپسندہے۔ ہند ی میں اس کو ‘کسم اگرج’ کہتے ہیں ۔ سنسکرت میں کسم پھول کو کہتے ہیں اور گرج بڑا بھائی ہے یعنی پھول کا بڑا بھائی ۔ کانٹا پھول سے پہلے پیدا ہوتا ہے اس لیے بڑا بھائی ہوا۔ کسی محفل میں گھناؤنی یا کراہت کی چیزوں کا ذکر آداب مجلس کے خلاف ہے ۔ ایسی چیزوں کو رمز و کنایہ میں بیا ن کیا جاتا ہے ۔ قارورہ کے معنی شیشہ یا شیشی کے ہیں مگر حکیم صاحب کے سامنے قارورہ کا مطلب پیشاب ہے۔اجابت بھی اسی قسم کا لفظ ہے ۔ سہل کے کے معنی نرم زمین کے ہیں اس سے اسہال اور مسہل ہے۔اس لفظ کی شایستگی کا اندازہ اس سے ہو سکتاہے کہ یہ ہماری شاعر ی میں بھی آگیا ہے ۔ غالب نے بھی اسے استعمال کیا ہے ۔
کسی قوم کی تہذیب کا اندازہ لگانے کے لیے اس کے معاشرتی الفاظ بہت کچھ کام بناتے ہیں ۔ دکان ،لباس ، کھانا پینا، رہنا سہنا ، رسم و رواج، آداب مجلس کے الفاظ تمدن کی جان ہوتے ہیں۔ اس موقع پر چند عمارتوں کے نام پیش کیے جاتے ہیں۔جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ تہذیب کہاں تک پہنچ گئی تھی۔ محل ، بارہ دری، آئینہ محل،رنگ محل، ایوان ، ساون ، بھادوں، بھول بھلیاں، شیش محل ، محل سراوغیرہ۔ ان عمارتوں کے اندرونی حصوں کے نام بھی اسی شان کے ہیں۔ مثلا جلو خانہ ، شہ نشین، دیوان خانہ ، آفتابی ، غلام گردش ،خلوت خانہ، نوبت خانہ وغیرہ۔
اردو اور ہندی زبان کے بہت سے ہم معنی الفاظ ہیں جو دونوں ملا کر بولے جاتے ہیں۔ مثلا شادی بیا، مرد مانس ، دنگا فساد ، دھن دولت، بال بچے ، جھاڑ فانوس ، عطر پھلیل، گلی کوچہ، گالی دشنام، جوتی پیزار ، ہنسی مذاق ، گور گڑھا، کاغذ پتر وغیرہ۔یہ الفاظ اس وقت کی یاد دلاتے ہیں جب مسلمان یہاں نوارد تھے اور مقامی زبان سے زیادہ واقف نہیں تھے۔ وہ اپنی بات سمجھانے کے لیے عربی فارسی الفاظ کے ساتھ ہند ی لفظ بھی بول دیتے تھے ۔ اس طرح اردو میں عربی ، فارسی اورہندی کے بے شمار مترادف الفاظ رائج ہو گئے ۔ مثلاً آب ، پانی ،آتش ، آگ، نان ، روٹی ، گھر ، مکان، دیا ، چراغ، جی ، دل ، رانڈ ، بیوہ ، بھونچال ، زلزلہ وغیرہ۔
ہماری لغت کی کتابیں بہت کچھ بتاتی ہیں مگر سب کچھ نہیں بتاتیں۔ اکثر الفاظ کے معنوں میں دو دو تین تین الفاظ لکھ دیے گئے ہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی زبان کے دو لفظ بالکل ہم معنی نہیں ہوتے ۔ ایک لفظ کی موجودگی میں دوسرے لفظ کا پیدا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ زبان کو اس لفظ کی ضرورت تھی۔ اور اس کے معنی میں ضرور کچھ فرق ہے ۔ دیا مٹی کا ہوتا ہے ۔ جب اس میں تیل جلتا ہے تو دیا کہلاتا ہے لیکن جب اس میں تیل کی جگہ گھی ڈال دیا جائے تو چراغ بن جاتا ہے ۔رانڈ اور بیوہ دونوں ہی بدنصیب ہیں مگر رانڈ کے لفظ میں جو بے کسی ہے وہ بیوہ میں نہیں۔ ایک امیر کبیر کی بیوہ بدقسمت کہی جاسکتی ہے مگر مصیبت زدہ یا بے سہارانہیں۔ زلزلہ یا بھونچال ایک ہی چیز ہے مگر ان کے مفہوم میں کچھ فرق ہے ۔ زلزلہ کا لفظ تباہی اور بربادی کوظاہر کرتا ہے اوربھونچال تباہی سے بچنے کے لیے بھاگڑ، ہلچل، اور گھبراہٹ کو ظاہر کرتا ہے۔
زبا ن سماجی ضرورتوں کے تحت وجود میں آتی ہے اور سماج ہی کے ہاتھوں پروان چڑھتی ہے ۔انسا ن کی طرح زبان بھی سماجی محرکات کی پابند ہوتی ہے ۔اور سماج کے ساتھ اپنا رشتہ توڑ نہیں سکتی ۔ ہر قوم اپنی بھلائی کے لیے دوسری قوموں کے ساتھ میل جول رکھنا چاہتی ہے اسی طرح ہر زند ہ رہنے والی زبان کا دوسری زبانوں سے رابطہ ضروری ہے ۔ دنیاکی بڑی سے بڑی ترقی یافتہ زبان یہ دعوا نہیں کر سکتی کہ اس میں دوسری زبان کے الفاظ شامل نہیں ہیں۔ دوسر ی زبانوں سے الفاظ لینے میں کوئی مضائقہ نہیں مگر ا لفاظ کے انتخاب میں ذوق لطیف کی ضرورت ہے۔ ( جناب غلام ربانی کی کتاب ‘ الفاظ کا مزاج ’ سے ماخوذ )