‘‘برہام پور (انڈیا) کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں مسلمانوں کے بیس پچیس گھر آباد تھے۔ ان کی معاشرت ہندووانہ اثرات میں اس درجہ ڈوبی ہوئی تھی کہ رومیش علی ، صفد ر پانڈے ، محمود مہنتی ، کلثوم دیوی اورپربھاوئی جیسے نام رکھنے کا رواج عام تھا۔گاؤں میں ایک نہایت مختصر سی کچی مسجد تھی جس کے دروازے پر اکثر تالا پڑا رہتا تھا۔ جمعرات کی شام کو دروازے کے باہر ہی ایک مٹی کا دیا جلایاجاتاتھا۔ کچھ لوگ نہا دھو کر آتے تھے اور مسجد کے تالے کو عقیدت سے چوم کر ہفتہ بھر کے لیے اپنے دینی فرض سے سبکدوش ہوجاتے تھے۔ ہر دوسرے تیسرے مہینے ایک مولوی صاحب اس گاؤں میں آکر ایک دو روز کے لیے اس مسجد کو آباد کر جاتے تھے۔ اس دوران میں اگر کوئی شخص وفات پا گیا ہوتا ، تو مولوی صاحب اس کی قبر پر جا کر فاتحہ پڑھتے تھے ۔ نوزائید ہ بچوں کے کان میں اذان دیتے تھے ۔ کوئی شادی طے ہو گئی ہوتی تو نکاح پڑھوا دیتے تھے ۔ بیماروں کو تعویذ لکھ دیتے تھے اور اپنے اگلے دورے تک جانو ر ذبح کرنے کے لیے چند چھریوں پر تکبیر پڑھ دیتے تھے ۔ اس طرح مولوی صاحب کی برکت سے گاؤں والوں کا دین اسلام کے ساتھ ایک کچا سا رشتہ بڑے مضبوط دھاگے کیساتھ بندھا رہتا تھا۔برہام پور گنجم کے اس گاؤں کو دیکھ کر زندگی میں پہلی بار میرے دل میں مسجد کے ملا کی عظمت کا کچھ احساس پیداہوا۔ ایک زمانے میں ملا اور مولوی کے القاب علم و فضل کی علامت ہوا کرتے تھے ۔لیکن سرکار انگلشیہ کی عمل داری میں جیسے جیسے ہماری تعلیم و ثقافت پر مغربی اقدار کا رنگ و روغن چڑھتا گیا ، اسی رفتار سے ملا اور مولوی کا تقدس بھی پامال ہوتا گیا۔رفتہ رفتہ نوبت بایں جا رسید کہ یہ دونوں تعظیمی اورتکریمی الفاظ تضحیک و تحقیر کے ترکش کے تیر بن گئے ۔داڑھیوں والے ٹھوٹھ اور ناخواندہ لوگوں کو مذاق ہی مذاق میں ملا کا لقب ملنے لگا۔کالجوں، یونیورسٹیوں اور دفتروں میں کوٹ پتلون پہنے بغیر دینی رحجان رکھنے والوں کو طنز و تشنیع کے طور پر مولوی کہا جاتا تھا۔ مسجدوں کے پیش اماموں پرجمعراتی ، شبراتی ، عید ی ، بقر عیدی اور فاتحہ درود پڑھ کر روٹیاں توڑنے والے قل اعوذ ئے ملاؤں کی پھبتیاں کسی جانے لگیں۔ لو سے جھلسی ہوئی گر م دوپہروں میں خس کی ٹٹیاں لگا کر پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے کہ محلے کی مسجد میں ظہر کی اذان ہرروز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے ۔کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے ۔دن ہو یا رات، آندھی ہویا طوفان، امن ہو یا فساد ، دور ہویا نزدیک ، ہر زمانے میں شہر شہر ، گلی گلی ، قریہ قریہ ، چھوٹی بڑی ، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملا کے دم سے آباد تھیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا تھااور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سر چھپا کر بیٹھ رہا تھا۔اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم تھی ، نہ کوئی فنڈ تھا، نہ کوئی تحریک تھی۔ اپنوں کی بے اعتنائی ، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی ، اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع، کہیں دین کا شعلہ اورکہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔ برہام پور گنجم کے گاؤں کیطرح جہاں دین کی چنگاری بھی گل ہو چکی تھی ، ملا نے اس کی راکھ ہی کوسمیٹ کر باد مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا۔ یہ ملا ہی کا فیض تھاکہ کہیں کام کے مسلمان،کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم برقر ار ر ہے ، اور جب سیاسی میدان میں ہندووں اورمسلمانوں کے درمیان آبادی کے اعدادوشمارکی جنگ ہوئی تو ان سب کا اندراج مردم شماری کے صحیح کالم میں موجود تھا۔ برصغیر کے مسلمان عموما ً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملا کے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہو سکتے جس نے کسی نہ کسی طرح ،کسی نہ کسی حدتک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہرزمانے میں قائم رکھا۔’’
(قدرت اللہ شہاب، بحوالہ شہاب نامہ ، ص ۲۴۰)