لفظوں کی کہانی

مصنف : محمد عبداللہ بخاری

سلسلہ : لسانیات

شمارہ : جنوری 2008

            الفاظ اینٹ اور پتھر کی طرح بے جان نہیں ہوتے یہ جانداروں کی طرح پیداہوتے ، بڑھتے اورمرجاتے ہیں۔ ان میں شریف بھی ہوتے ہیں اور رذیل بھی۔سخت بھی ہوتے ہیں اورنرم بھی۔ کسی میں شہد کی سی مٹھاس ہوتی ہے اور کوئی کڑوا ہوتا ہے ۔ کسی میں ترنم ہوتا ہے اور کوئی چٹان کا روڑا ہوتا ہے ۔ ان میں سادگی بھی ہے اور پرکاری بھی ،انکسار بھی ہے اور شان و شکوہ بھی۔

             یہ سفر بھی کرتے ہیں اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں اس طرح پہنچ جاتے ہیں جیسے کوئی اپنی جاگیر میں پہنچ جائے ۔لیکن سفر کی تکان اور زمانے کی گرد سے ان کا رنگ و روپ بدل جاتا ہے اور پردیسی الفاظ میں اس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ ان کا پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے اوربعض وقت تو ان کے مزاج میں بھی فرق آجاتا ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ خواہ کسی حالت میں ہوں سننے والے کو اپنی بپتا ضرور سناتے ہیں۔

چند لفظوں کی بپتا

شاہ:

            ہزاروں برس پرانا لفظ ہے ۔ یہ اس وقت کی یاد دلاتا ہے جب ایران میں لوگ جنگلی جانوروں کو مار کر ان کے سینگ سروں پر لگاتے تھے اور یہ سینگ بہادری اور سرداری کا نشان سمجھے جاتے تھے ۔ جب لوگ کسی کے سر پر سینگ یا ‘شاخ ’ دیکھتے تو اس کو سردار سمجھتے ۔ اور ‘‘شاخ ’’ کہتے تھے ۔ یہی ‘ شاخ’ کا لفظ رفتہ رفتہ ‘‘شاہ ’’بن گیا۔

استاد:

            زرتشت کی مرقومات کا مجموعہ ‘‘اوستا’’ کہلاتا ہے ۔ مذہبی کتابوں کے سمجھنے اور سمجھانے کے لیے خاصی قابلیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر ‘اوستا’ تو نہایت قدیم ایرانی زبان میں تھی۔ جس کے سمجھانے والے بہت کم تھے۔چنانچہ جو حضرات‘ اوستا ’کے ماہر ہوتے ان کو استاد کہا جانے لگا۔ استاد بڑی عزت اور وقار کا لفظ تھا۔ مگر بعد میں ہر فن کے ماہر کے لیے استاد کا لفظ عام ہو گیا۔ حتی کہ سارنگیے کانام بھی استاد جی ہو گیا اور اب تو یہ حال ہے کہ یہ لفظ چالاک اور چلتے پرزے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

خلیفہ:

            یہ ان الفاظ میں سے ہے جو ابتدا میں بہت اچھے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں مگر پردیس میں جاکر اپنی عزت کھو بیٹھتے ہیں۔ خلیفہ حضور ﷺ کے جانشین کا لقب تھا۔ پردیس میں آیاتو اولیائے کرام کے جانشین کو بھی خلیفہ کہا جانے لگا ۔ ہوتے ہوتے درس دینے والی ملانی جی کے بچوں کو بھی خلیفہ کہاجانے لگا۔یہاں تک تو مضائقہ نہ تھا مگر اس کا کیا علاج کہ اب حجام کو بھی خلیفہ کہتے ہیں اور ہر نکمے کو بھی۔

بدھو:

            یہ لفظ‘ بدھی’ سے ہے جس کے معنی عقل و دانش کے ہیں۔ اس لیے بدھوکے معنی دانش مند کے ہوئے ۔ گوتم کا لقب بھی بودھ تھایعنی عاقل و فہیم۔ ملک میں جب بدھ مت کو فتح ہوئی تو دوسرے مذہب کے لوگوں کو ان کا عروج ناگوار گزرا۔اور انہوں نے بدھ مت کو پیرووں کو طنز کے ساتھ بدھو کہنا شروع کیا۔کہنے کو تو بدھو کہتے تھے مگر دل میں ان کوبے وقوف سمجھتے تھے ۔ آخر دل کی بات ہو کر رہی اور بدھو جو کسی زمانے میں دانش مند تھا اب بے وقوف اور احمق بن کر رہ گیا۔

دھرت:

             سنسکرت میں پاک صاف کو دھرت کہتے ہیں۔ پراکرت میں یہ لفظ دھت بن گیا۔بدھ مذہب میں اونچے درجے کے سنیاسی کو دھت کہتے تھے ۔ یعنی وہ لوگ جن کا جسم پاک ہو گیا ہو۔ غیر مذاہب والوں نے ا س لفظ کو طنزاً استعمال کرنا شروع کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اصل معنی پیچھے رہ گیا اور اب یہ لفظ نشے میں چور کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

آم:

             آریا جب ہندستا ن پہنچے تو آم سے ناواقف تھے۔ یہ ان لوگو ں کو کھٹا لگا تو اسے‘ آمل’ یعنی کھٹا کہنے لگے ۔قدیم پراکرت میں ‘ل’ ر سے بدل جاتا ہے اس طرح یہ آمل سے‘ آمر’ اور پھر آم بن گیا۔ہند ی میں‘ آمر’ کے معنی آم ہیں۔ اورنگ زیب نے اپنے رقعات میں لکھا ہے کہ آم کا لفظ موزوں نہیں اس کو ‘ رسال’یعنی رس والا کہنا چاہیے ۔ سنسکرت میں آم کو رسال ہی کہتے ہیں۔

سہاگ:

            سو بھاگ سے بنا ہے ۔ یعنی اچھا نصیب، عورت کا اچھا نصیب اس کا شوہرہے ۔ چنانچہ سہاگ کے معنی خاوند کے ہو گئے۔

دھن:

            دولت کو کہتے ہیں۔ پہلے زمانے میں مویشی اورزمین کے علاوہ عورت بھی دھن شمار ہوتی تھی۔ چنانچہ ہندی میں شوہر کو دھنی کہتے ہیں۔ سدھن کے معنی اچھی دولت ہے ۔ دکن میں عورت کو سدھن کہتے ہیں گویا عورت اچھی دولت ہے ۔

برباد:

             بر کے معنی پر اور باد کے معنی ہوا کے ہیں۔ چونکہ تیز ہوا یعنی آندھی اور طوفان تباہی کا باعث بنتے ہیں اس لیے اس سے اخذ کر دہ لفظ تباہی کے معنی میں استعمال ہونے لگا

دہلی:

            دلی نے جس طرح حکومت کے بہت سے انقلاب دیکھے اسی طرح اس کے نام نے بھی بہت روپ دیکھے ۔ اندر پرست، دہلی، سیری ، کیلوک ہری، دہلی نو ، تغلق آباد، شاہ جہاں آباد اور اب نئی دلی۔ یہ سب نام بغیر کسی وجہ کے نہیں رکھے گئے ۔ ان میں سے صرف ایک نام کی وجہ تسمیہ بیان کی جاتی ہے ۔ سلطان کیقباد نے جب شہر کی بنیاد رکھی تو حضرت امیر خسرو سے کہا کہ اس دارالسلطنت کا نام ایسا ہونا چاہییے کہ جس میں ہمارا نام ہو ، رعایا کا نام ہو، اور خدا کا نام ہو۔حضرت نے ‘لوک ہر ی’ نام تجویز کیا ۔ اس میں‘ کے’ کیقباد کا ہے ‘لوک ’رعایا کے لے اور‘ہری’ خدا کا نام ہے ۔‘ کیلو کہری’ بگڑ کے‘ کلوکڑی’ ہو گیا یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جواب نئی دلی کے مضافات میں آگیا ہے۔

(غلام ربانی کی کتاب ‘الفاظ کا مزاج’ سے ماخوذ)